کیا انڈیا کے پاس 75 سالہ مودی کا کوئی متبادل موجود نہیں؟

بی بی سی اردو  |  Sep 17, 2025

Getty Images

انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی 75 برس کے ہو گئے ہیں مگر گھڑی پر 12 بجنے سے پہلے ہی ان کی طرف سے یہ پیغام جاری کیا گیا کہ انھیں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سالگرہ کی مبارک باد دی ہے۔

مودی نے ایکس پر لکھا کہ یوکرین تنازع کے حل کے لیے ٹرمپ کی کوششوں کو سراہا اور ساتھ یہ بھی کہا کہ وہ ان کی طرح انڈیا اور امریکہ کے درمیان تعلقات کو نئی بلندیوں تک لے جانے کے لیے پُرعزم ہیں۔

سیاست میں ویسے تو عموماً عمر کی پابندی نہیں ہوتی لیکن جب 2014 میں مودی پہلی بار وزیراعظم بنے تھے تو اس وقت انھوں نے اپنی جماعت کے رہنماؤں کے لیے یہ ضابطہ وضع کیا تھا کہ جو رہنما 75 برس کے ہو گئے ہیں وہ فعال سیاست سے الگ ہو جائیں۔

اس وقت سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی علالت کے سبب سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر چکے تھے لیکن ان کے نائب اور مودی کے سیاسی گرو لال کرشن اڈوانی بی جے پی کے سب سے قد آور اور متحرک رہنما تھے۔

مرلی منوہر جوشی بھی بی جے پی کے قد آور رہنماؤں میں شامل تھے۔ مودی نے ایک غیر رسمی ’مارگ درشک منڈل‘ یعنی رہنما کمیٹی بنائی تھی جس میں اڈوانی اور جوشی جیسے سینیئر رہنماؤں کو شامل کر کے انھیں متحرک سیاست سے عملی طور پر بے دخل کر دیا گیا۔

کچھ مہینوں سے یہ قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں کہ آیا مودی بھی 75 برس کے ہونے پر سیاست سے سبکدوش ہو جائیں گے لیکن حال ہی میں آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کے ایک بیان کے بعد یہ ساری قیاس آرائیاں دم توڑ گئیں۔

اب تو مودی کبھی کبھار 2029 کے عام انتخابات کی بھی باتیں کرتے ہیں۔

مودی کا انڈین سیاست میں گہرا اثر و رسوخ

مبصرین کا خیال ہے کہ انڈیا کی سیاست سے مودی کو الگ کرنا اب مشکل ہو گا۔

سیاسی تجزیہ کار آرتی جے رتھ کہتی ہیں کہ ںہ بی جے پی کے دستور میں 75 برس کی عمر کی کوئی قید ہے اور نہ ہی ملک کے آئین میں ایسا کوئی ضابطہ ہے۔

وہ یاد کرتی ہیں کہ ’مودی نے کہا تھا کہ 75 برس کی عمر کے سیاسی رہنماؤں کو سیاست سے کنارہ کش ہو جانا چاہیے۔ انھوں نے جو مارگ درشک منڈل بنایا تھا وہ دراصل اپنے سینیئر رہنماؤں اڈوانی اور جوشی کو سیاست سے ہٹانے کا ایک حربہ تھا۔‘

’مودی اس بات کو فراموش نہیں کر سکے تھے کہ اڈوانی اور کئی دیگر رہنماؤں نے ان کی وزارات عظمی کی امیدواری کی شدت سے مخالفت کی تھی۔‘

Getty Imagesلال کرشن اڈوانی بی جے پی کے قدآور اور متحرک رہنما تھے جو مودی کے 75 سال کے اصول کا نشانہ بنے

نریندر دامودر داس مودی 2014 میں وزیر اعظم بننے کے بعد پچھلے 11 برس سے حکمراں جماعت بی جے پی کے سب سے طاقتور رہنما ہیں۔ وہ بی جے پی اور آر ایس ایس کی سیاست کا محور ہیں۔

انڈین سیاست پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اگر بی جے پی چاہے بھی تو مودی کو نہیں ہٹا سکتی کیونکہ پارٹی میں ان کے درجے کا کوئی دوسرا رہنما نہیں۔

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ وہ ایک مقبول لیڈر ہیں اور انفرادی طور پر اتنے طاقتور ہو چکے ہیں کہ سیاست اور ان کی پارٹی ان کے ہی گرد گھومتی ہے۔

کیا انڈیا میں مودی کا کوئی متبادل نہیں؟

وزارت عظمی تک مودی کا سیاسی سفر ان کی محنت، لگن، تحمل اور سیاسی فہم کا عکاس ہے۔

انھوں نے گجرات میں قدرے غربت میں بچپن گزارا اور کم عمری میں ہی آر ایس ایس میں شامل ہوئے جہاں ان کی نظریاتی اور سیاسی پرورش ہوئی۔ وہ 13 برس تک گجرات کے وزیر اعلی رہے۔

2002 کے گجرات کے ہندو مسلم فسادات ان کی سیاسی زندگی کا سب سے بڑا چیلنج بنے لیکن وہ سبھی دشواریوں کو پیچھے چھوڑتے ہوئے آگے بڑھتے رہے۔

مودی کی سیاسی سوانح حیات ’نمو‘ کے مصنف کنگشوک ناگ نے لکھا ہے کہ ’مودی کی کہاںی معیشت، مذہب، نظریے اور ابھرتی تمناؤں کے امتزاج کی کہانی ہے جس نے گذشتہ عشروں میں انڈیا کی سیاست اور معاشی نظام کو تبدیل کر دیا۔ یہ کہانی لوگوں میں تبدیلی کی خواہشوں کی بھی عکاس ہے۔‘

بی جے پی میں اس وقت مودی کے علاوہ اس حیثیت کا کوئی دوسرا رہنما نہیں۔ بی جے پی پر گہری نظر رکھنے والی سیاسی تجزیہ کار آرتی جے رتھ کہتی ہیں کہ مودی کی قیادت میں بی جے پی میں پچھلے 11 برس میں کوئی لیڈر نہیں ابھر پایا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’اگر مودی ہٹ جائیں تو اہم سوال یہ پیدا ہوتا کہ ان کی جگہ پر کون آئے گا۔ ان کا کوئی متبادل رہنما نہیں جن کا نام لیا جا سکے۔‘

وہ بتاتی ہیں کہ بعض اوقات وزیر داخلہ امت شاہ کا نام لیا جاتا ہے اور کچھ لوگ یو پی کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کا نام بھی لیتے ہیں ’(تاہم) جس طرح پورے ملک پر مودی کی گرفت ہے، اس طرح کی پکڑ ان رہنماؤں کی نہیں۔‘

مودی نہیں تو کون؟ انڈیا کے طاقتور حکمران کی جانشینی کا سوال جو اب ان کے حامی بھی پوچھ رہے ہیںانڈیا کے یومِ آزادی پر مودی کی ’سب سے طویل‘ تقریر اور سندھ طاس معاہدے کا ذکرنریندر مودی: ریلوے سٹیشن پر چائے کی دکان پر کام کرنے سے لے کر تیسری بار وزیرِ اعظم بننے تک کا سفرمودی نے ’برہمنوں اور بنیوں کی پارٹی‘ کو کیسے انڈیا کی مقبول ترین جماعت بنایا؟

ان کا کہنا ہے کہ ’امت شاہ کبھی بھی عوامی رہنما نہیں رہے ہیں۔ یوگی آدتیہ ناتھ کی مقبولیت کم و بیش یو پی تک محدود ہے۔ مودی نے عوام میں اپنے لیے جو جگہ بنائی، اس طرح کی مقبولیت کسی کو نہیں حاصل ہوئی۔ اس لیے بے جے پی کے پاس کوئی متبادل نہیں۔ آر ایس ایس کے پاس بھی کوئی راستہ نہیں۔ ان کو بھی مودی کے ساتھ چلنا پڑے گا۔‘

تاہم آرتی کا کہنا ہے کہ مودی کی قیادت نے بی جے پی کی مستقبل کی قیادت کے لیے مشکلیں بھی پیدا کی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’جو بی جے پی واجپئی اور اڈوانی کی تھی، اس میں بہت سارے ثانوی اور علاقائی رہنماؤں کو آگے بڑھایا جاتا تھا۔ ان کی پذیرائی کی جاتی تھی اور انھیں اعلی درجے کا رہنما بنایا جاتا تھا۔ مودی بھی اسی دور کی پیداوار ہیں۔‘

’لیکن جب سے مودی آئے ہیں وہ سیاست میں واجپئی اور اڈوانی کی اس ڈگر سے ہٹ گئے۔ انھوں نے سیکنڈ جنریشن کی لیڈر شپ کو فروغ نہیں دیا۔ ان کا طرز بہت حد تک اندرا گاندھی کے پرسنالٹی کلٹ (شخصی قیادت) جیسا ہو گیا۔ مودی ایک ایسا بڑا درخت بن چکے ہیں جس کے نیچے کوئی دوسرا پیڑ نہیں اُگ سکتا۔‘

Getty Imagesامت شاہ کا شمار نریندر مودی کے قریبی ساتھیوں میں ہوتا ہے’پورے سیاسی نظام میں آر ایس ایس کی جڑیں پھیل گئی ہیں‘

ان کی 11 سالہ قیادت کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ انھوں نے بی جے پی اور آر ایس ایس کے ہندو توا کے نظریے کو انڈیا کے معاشرے میں گھول دیا۔

ماہرین کا خیال ہے کہ ملک کے آئینی اور جمہوری ادارے رفتہ رفتہ آر ایس ایس کی نظریاتی گرفت میں آ رہے ہیں اور ہندوتوا کی سیاست انڈیا کے معاشرے میں اتنی سرایت کر چکی ہے کہ اسے اب ہٹانا بہت مشکل ہو گا۔

سیاسی تجزیہ کار ہرتوش سنگھ بل کہتے ہیں کہ ’بی جے پی پہلے بھی اقتدار میں آئی لیکن یہ پہلی بار ہوا کہ مودی کی قیادت میں آر ایس ایس نے پورے سیاسی نظام میں اپنی جڑیں پھیلا دی ہیں۔‘

’یہ مودی کے بغیر نہیں ہو سکتا تھا۔ اس لیے یہ نظریاتی اور سیاسی طور پر ان کی سب سے بڑی کامیابی شمار کی جائے گی۔ ملک اب ایک سماجی تغیر سے گزر رہا ہے۔‘

گذشتہ پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی کو مکمل اکثریت نہیں مل سکی تھی لیکن اس کے بعد ہونے والے چار اہم ریاستی انتخابات میں بی جے پی کامیاب ہوئی تھی۔

ہرتوش سنگھ بل کہتے ہیں کہ ’اس سے یہ تبدیلی ضرور آئی کہ مودی کی انفرادی رہنما کے طور پر جو طاقت تھی وہ کمزور ہوئی۔ سیاسی نظام پر ان کی جو مکمل گرفت تھی وہ ضرور متاثر ہوئی لیکن ملک کی ریاستوں میں آر ایس ایس اور بی جے پی کمزور نہیں ہوئی۔ اب ہم مودی کے دور سے نکل کر آر ایس ایس کے دور میں داخل ہو گئے ہیں۔‘

بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مودی اپنا سیاسی عروج دیکھ چکے ہیں اور اب سیاسی طور پر پہلے کے مقابلے کمزور ہیں۔

آنے والے مہینوں میں بہار اور بنگال اسمبلی کے انتخابات کے نتائج کا مودی کے سیاسی مستقبل پر براہ راست اثر پڑے گا۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مودی نے گذشتہ 11 برس کے اپنے اقتدار میں بی جے پی اور آر ایس ایس کے لیے جو نظریاتی اور سیاسی مقاصد حاصل کر لیے ہیں، وہ بی جے پی کا کوئی دوسرا رہنما نہیں کر سکتا تھا۔

مودی کی والدہ جنھیں معلوم تھا کہ ایک دن ان کا بیٹا انڈیا کا وزیر اعظم بنے گا20 کروڑ مسلمانوں کی آبادی لیکن مودی کی ’سب سے بڑی کابینہ‘ میں کسی ایک کو بھی جگہ کیوں نہ مل سکی؟مودی کی تصویر والے دو اشتہاروں پر آٹھ کروڑ روپے سے زیادہ کی لاگت کیسے آئی؟نریندر مودی کی 100 منٹ کی تقریر مگر نہ طیاروں پر بات اور نہ ٹرمپ کی ثالثی کی تردید: ’14 بار نہرو کا نام لیا مگر چین کا نام ایک بار بھی نہ لے سکے‘نریندر مودی کے تین کروڑ کے اثاثے اور اُن کی ہوبہو نقل اُتارنے والے مخالف امیدوار شیام رنگیلا کی ’مشکلات‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More