پاکستانی اداکار فیصل قریشی کا شمار ان اداکاروں میں ہوتا ہے جو ایک طویل عرصے سے انٹرٹینمنٹ انڈسٹری میں کام کرنے کے باوجود آج بھی سکرین پر مرکزی کرداروں میں ہی نظر آتے ہیں۔
فیصل قریشی کا آنے والا ڈرامہ ’کیس نمبر 9‘ اُن کی اداکاری اور اس صنعت سے اُن کے لگاؤ یا یوں کہہ لیں کہ اداکاری سے اُن کے عشق کی داستان بیان کرتا ہے۔
فیصل کے اس آنے والے ڈرامے کی اگر جھلکیاں دیکھیں کہ جو سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہیں تو دو باتوں کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری میں اداکاری کا ہنر اب بھی زندہ ہے، تو دوسری بات یہ کہ جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے ہونے والی سنیماٹوگرافی بھی کمال کی ہے۔
یعنی سکرین پر کیمرے اور روشنیوں کا استعمال، ڈرامہ کی شوٹنگ کے لیے جگہ کا تعین اور سیٹ پر رنگوں کا حسین امتزاج سب ہی کمال کے ہوتے ہیں۔
فیصل قریشی نے اب تک جن کرداروں میں خود کو ڈھالا، ان میں ڈرامہ سیریل ’بوٹا فرام ٹوبہ ٹیک سنگھ‘ میں بے حد مشہور ہونے والا کردار ’بوٹا‘ بھی ہے۔
ہم نے فیصل کو حال ہی میں ’بہروپیا‘ اور ’راجہ رانی‘ جیسے ڈراموں میں مرکزی کردار ادا کرتے بھی دیکھا جن میں ذہنی صحت کے حوالے سے بات کی گئی۔
’بہروپیا‘ میں فیصل نے بیک وقت نو کردار نبھائے ہیں۔
’اس طرح کے مُشکل کردار ادا کرتے ہوئے دماغ ہل سا جاتا تھا‘
فیصل قریشی نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جب انھیں ’بہروپیا‘ میں یہ کردار آفر ہوا تو انھوں نے یہ کہہ کر منع کر دیا تھا کہ یہ ان کی عمر کے مطابق نہیں۔ البتہ بعد میں اس کردار کو اس طرح لکھا گیا کہ ان کی عمر سے مناسبت رکھے اور کردار کے ماضی میں جا کر اس کی کہانی بیان کی جائے۔
جب فیصل سے پوچھا گیا کہ اس نوعیت کے ڈرامے میں کام کرنا کیا ان کے لیے مُشکل تھا اور کیا آپ کی ذہنی صحت پر اس کا کوئی منفی اثر تو نہیں ہوا؟
تو اُن کا جواب تھا کہ ’جب آپ سیٹ سے باہر کراچی کی ٹریفک میں نکلتے ہیں تو حقیقی زندگی میں واپس آجاتے ہیں اور آپ اکثر یہ بات بھول جاتے ہیں کہ آپ کیا کر رہے تھے یا اکثر تو رش میں پھنس جانے کی وجہ سے یہ بھی کہ آپ کیا کرنے گھر سے نکلے تھے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’میں سیٹ پر تین چار سین کے بعد ڈائریکٹر سے آدھے گھنٹے کی چھٹی لے لیتا تھا کیونکہ اس طرح کے مُشکل کردار ادا کرتے کرتے دماغ ہل سا جاتا تھا لیکن جیسے ہی میں اداکاری کی دُنیا اور سیٹ سے ہٹ کر باہر شہر میں نکلتا تھا تو ٹریفک اور گاڑیوں کا شور وہ سب بھلا دیتا تھا اور فوراً حقیقت سے سامنا ہو جاتا تھا۔ تو بس یہی وجہ تھی کہ مُجھے کوئی خاص مُشکل نہیں ہوئی۔‘
ڈرامے کے ایک سین میں فیصل نے ایک ہی وقت میں کئی کرداروں میں سوئچ کیا۔ بقول فیصل کے وہ سین پانچ سے چھ گھنٹے میں شوٹ ہوا۔
فیصل نے کہا کہ ’یہ سب بہت مشکل تھا۔ ایک ہی سین میں ہر جانب بس میں ہی میں ہوں، سوال بھی میں ہی کرتا اور اس کا جواب بھی خود ہی دیتا اور بس یہ سلسلہ آگے سے آگے چلتا چلا جاتا۔‘
’پھر یہ بھی یاد رکھنا کہ کس کردار کی لائنز کس انداز سے ادا کرنی ہیں کیونکہ ہم کیمرے تو نہیں ہلا سکتے تھے۔ پھر میں فون پر ریکارڈ کرواتا تھا تاکہ دیکھ سکوں کہ کہاں سے شروع کرنا ہے۔ میری ٹیم نے میرا بہت ساتھ دیا اور سب سے بڑھ کر ڈائیریکٹر نے کافی سپورٹ کیا۔‘
’ہمیں فقیر بنا دیا گیا ہے‘: پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری جہاں ’چیک ملنے میں مہینوں لگ جاتے ہیں‘پاکستانی اداکاراؤں کی کئی روز پرانی تعفّن زدہ لاشیں اور شوبز میں احساس تنہائی: ساتھی فنکار کیا کر سکتے ہیں؟’کیا ڈرامہ ہے‘: وہ شو جس کے نقادوں کے تبصرےڈرامے سے زیادہ وائرل ہو جاتے ہیںمیرے پاس ’فی الحال‘ تم ہو: پاکستانی فنکار اور دوسری شادی کا خبط’ذہنی امراض کے ڈاکٹر کے پاس جانے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ پاگل ہیں‘
پاکستان میں آج بھی ذہنی صحت پر بات کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے کیونکہ اسے ترجیح اور اہمیت نہیں دی جاتی۔ اگر کوئی شخص ہمت جوڑ کر کسی سے کُچھ کہہ ہی بیٹھے تو نہ صرف اُس کا مذاق اُڑایا جاتا ہے بلکہ تضحیک آمیز رویے کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔
فیصل نے بی بی سی سے گفتگو کے دوران ذہنی صحت کا بھی ذکر کیا۔
انھوں نے کہا کہ ’میں اپنے مارننگ شو کے دور سے ہی لوگوں کو یہ سمجھانے کی کوشش میں ہوں کہ سائیکالوجسٹ، ذہنی امراض کے ڈاکٹر کے پاس جانے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ پاگل ہیں۔‘
’آپ کو اندازہ نہیں کہ ذہنی صحت کتنی اہم ہے۔ میری بیٹی جو 13 سال کی ہے مجھے بتا رہی تھی کہ کسی بچے نے رزلٹ آنے سے پہلے اس خوف سے خودکشی کر لی کہ نجانے کیا ہو گا اور یہ معاملات ہمارے ملک میں بہت زیادہ ہونے لگے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ہم بچوں پر اتنا دباؤ ڈالتے ہیں کہ وہ بے چارے کُچھ اور سوچ ہی نہیں پاتے۔ اُن کے پاس کوئی دوسرا راستہ ہی نہیں ہوتا اور جو وہ ہوتا دیکھ رہے ہیں، بس وہ اُسی جانب مائل ہو جاتے ہیں اور خودکشی جیسے انتہائی قدم اُٹھا بیٹھتے ہیں۔‘
’ہم نے شاید اپنے بچوں کو کبھی یہ سمجھایا ہی نہیں کہ اُن سے کبھی یہ بات ہی نہیں کی کہ بیٹا ہار جاؤ گے تو کُچھ نہیں ہو گا بلکہ ہار جانے کے بعد ہی تو جیتنے کا فن سمجھ آئے گا۔‘
فیصل کے اپنے گھر کی بات کریں تو ان کے مطابق انھوں نے اپنے بچوں کو یہ یقین دلایا ہے کہ ان کا اگر کوئی بھی مسئلہ ہو تو وہ اپنے ماں باپ سے کھل کر بات کر سکتے ہیں۔
فیصل نے کہا کہ ’اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم ان پر سختی نہیں کرتے۔ پڑھائی پر، آنے جانے پرسختی بھی ہوتی ہے۔‘
’اگر 40 برس کے شخص کا کردار کر لوں تو کیا مسئلہ ہے‘
فیصل کی عمر اس وقت 50 برس ہے۔ انھیں ہم نے اکثر اپنی عمر سے چھوٹے کردار نبھاتے بھی دیکھا اور ان کے ہمراہ ان سے کافی چھوٹی عمر کی اداکاراؤں نے بھی کام کیا۔
’بہروپیہ‘ میں ہم نے ان کو مدیحہ امام کے ساتھ دیکھا جبکہ ’راجہ رانی‘ میں وہ حنا آفریدی کے ساتط نظر آئے۔
فیصل نے بتایا کہ جب انھوں نے ڈرامہ سیریل ’میری ذات ذرہ بے نشاں‘ کیا تھا تو اس وقت ان کی عمر 30 سے 32 سال تھی۔
’اُس وقت میں نے 60 سال کے آدمی کا کردار کیا تھا۔ تو اب اگر میں 40 برس کے شخص کا کردار کر لوں تو کیا مسئلہ ہے؟‘
’اگر اداکار دیکھنے میں 40 سے 45 برس کا لگ رہا ہو تو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ دنیا بھر میں یہی ہوتا ہے۔‘
اس بارے میں مزید بات کرتے ہوئے فیصل نے کہا کہ ماہرہ خان کی حالیہ فلم آنے کے بعد ان کی عمر پر بھی تنقید کی گئی۔
’ابھی ماہرہ خان کی فلم آئی، کیا آپ نے لوگوں کے کامینٹس پڑھے؟ ایک مخصوص عمر کے بعد جب خواتین ہیروئن کے کردار میں نظر آتی ہیں تو ان پر تنقید کی جاتی ہے۔ صرف عوام نہیں بلکہ انڈسٹری کے لوگ بھی ایسا کرتے ہیں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’میں تو کھلے عام کہتا ہوں کہ خواتین ہم سے زیادہ کام کرتی ہیں۔ ہم تو سیٹ پر صرف کام کرتے ہیں، وہ تو اپنے گھر کو، بچوں کو، ہر چیز کو مانیٹر کر رہی ہوتی ہیں۔ اگر ہماری بیویاں گھر کو نہ دیکھ رہی ہوں تو ہم کبھی بھی اس طرح کام نہ کر پائیں۔‘
فیصل کا کہنا تھا کہ ’اکثر خواتین شادی یا بچوں کی وجہ سے کام سے وقفہ لیتی ہیں لیکن ان میں سے کئی واپس آ کر دوبارہ کام بھی کرتی ہیں۔‘
اس کی ایک مثال آمینہ شیخ ہیں جو فیصل کے ہمراہ ان کے نئے ڈرامے ’کیس نمبر 9‘ میں بطور وکیل نظر آئیں گی جبک صبا قمر ڈرامے کی ہیروئن کے طور پر دیکھی جائیں گی جو ریپ سروائیور کا کردار نبھا رہی ہیں۔
’ہمیں فقیر بنا دیا گیا ہے‘: پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری جہاں ’چیک ملنے میں مہینوں لگ جاتے ہیں‘’سوشل میڈیا پر جو دکھاتی ہوں وہ میری نیچرل لائف ہے، باقی 70 فیصد پرائیویٹ رکھتی ہوں‘: ایمن خان ’کیا ڈرامہ ہے‘: وہ شو جس کے نقادوں کے تبصرےڈرامے سے زیادہ وائرل ہو جاتے ہیںمیرے پاس ’فی الحال‘ تم ہو: پاکستانی فنکار اور دوسری شادی کا خبطعصمت چغتائی: فحاشی کے مقدمے کا سامنا کرنے والی بےباک ادیبہ جنھوں نے موت کے بعد بھی دنیا کو چونکا دیاپاکستانی اداکاراؤں کی کئی روز پرانی تعفّن زدہ لاشیں اور شوبز میں احساس تنہائی: ساتھی فنکار کیا کر سکتے ہیں؟