Getty Imagesطبریہ جھیل یا بحیرالحلیل
یہ بحیرہ طبریہ کے ساحل کا منظر تھا جہاں چند تھکے ماندے ماہی گیر اپنے خالی جال دھونے میں مصروف تھے۔ انھوں نے گذشتہ پوری رات سمندر میں مچھلیاں پکڑنے کے انتظار میں گزاری تھی مگر اُن کی بدقسمتی کہ ایک بھی مچھلی اُن کے جال میں نہ پھنس سکی۔
اور اب یہ ماہی گیر ساحل پر واپس لوٹے تھے اور اپنے خالی جال دھو رہے تھے۔
اسی موقع پر حضرت عیسیٰ وہاں پہنچے اور انھوں نے ماہی گیروں کو مشورہ دیا کہ اگر وہ اپنے جال دوبارہ سمندر میں ڈالتے ہیں تو مچھلیاں ہاتھ لگ سکتی ہیں۔ ماہی گیر پہلے تو ہچکچائے، مگر پھر مان گئے۔
ماہی گیر اُس وقت بہت حیران ہوئے جب دوبارہ جال پھینکنے پر وہ مچھلیوں سے بھر گئے۔ یہ واقعہ مسیحیوں کی مقدس کتاب ’انجیل‘ میں درج ہے۔ انجیل کے مطابق یہ وہ جگہ بھی ہے جہاں طغیانی کے بیچ پانی میں حضرت عیسیٰ کے گزرنے کے لیے راستہ بنا۔
یہ تاریخی اور مذہبی حیثیت رکھنے والا بحیرہ طبریہ جسے ’طبریہ جھیل‘ بھی کہتے ہیں نہ صرف مقدس کتابوں اور روایات میں مذکور ہے بلکہ مقدس صحیفوں میں قیامت کی پیشین گوئیوں کے حوالے سے بھی اس کا تذکرہ ہے۔
آج بحیرہ طبریہ ایک بار پھر زیرِ بحث ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اِس کے پانی کی سطح میں ایک نئی کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ اور یہ خبر سامنے آنے کے بعد قیامت کی علامات یا قیامت کے قریب آنے سے متعلق پرانی لیکن مسلسل جاری رہنے والی بحث پھر سے زندہ ہو گئی ہے۔
Getty Imagesماہی گیروں اور حضرت عیسیٰ کے واقعے کا فرضی تصویری خاکہ
مگر طبریہ جھیل کے پانی کی سطح میں کمی سے متعلق بحث بھی نئی نہیں ہے کیونکہ گذشتہ کئی برسوں سے ماہرین پانی کی کمی کی وجہ سے اس جھیل کے خشک ہو جانے کے خطرے سے خبردار کرتے آ رہے ہیں۔ اس جھیل میں پانی کی سطح میں کمی کی مختلف وجوہات ہیں جن میں ماحولیاتی تبدیلی، درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ اور انسانی سرگرمیاں شامل ہیں۔
ماہرین نے خاص طور پر جھیل سے بار بار پانی نکالنے کے عمل کو اس کے خشک ہونے کی اہم وجہ بتایا ہے۔
لیکن بحیرہ طبریہ کی اہمیت صرف سائنسی یا ماحولیاتی نہیں ہے بلکہ یہ میٹھے پانی کے سب سے بڑے ذرائع میں سے ایک ہونے کے ساتھ ساتھ یہودی، عیسائی اور مسلم مذاہب میں روحانی اہمیت کا بھی حامل ہے۔
کچھ عقیدت مند مسلمان یہاں جھیل کے خشک ہونے کو قربِ قیامت کی علامت سمجھتے ہیں۔
جھیل کا محلِ وقوع اور اہمیتGetty Images19 صدی میں بنائی گئی جھیل کی ایک تصویر
یہ جھیل اسرائیل میں واقع ہے۔ یہ مقبوضہ گولان کی پہاڑیوں کے مغرب اور الجلیل کے مشرق میں موجود ہے۔ اسے ’بحر الجلیل‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔
یہ اس خطے میں میٹھے پانی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے اور اسے پینے، زراعت اور آبپاشی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس سے نکلنے والا پانی اسرائیل، اُردن اور فلسطین میں استعمال ہوتا ہے۔
یہ جھیل تقریباً 166 مربع کلومیٹر رقبے پر پھیلی ہوئی ہے، اور اس کی گہرائی تقریباً 213 میٹر تک ہے۔
رومی بادشاہ ٹیبیریئس سیزر نے سنہ 20 عیسوی میں اسی جھیل کے کنارے طبریہ شہر کی بنیاد رکھی۔
تاریخی حوالوں کے مطابق صلاح الدین ایوبی نے حطین کی جنگ کے دوران اس جھیل کا پانی صلیبیوں کے لیے بند کر دیا تھا، جس کے باعث صلیبی جنگجو پیاس سے نڈھال ہو گئے اور صلاح الدین ایوبی کو فتح حاصل ہوئی۔
اس شہر نے گذشتہ صدیوں کے دوران ’اسلامی فتوحات' کے ساتھ ساتھ 'صلیبی جنگیں' دیکھیں۔ بعدازاں یہ نپولین، مصری حکومت اور اس کے بعد عثمانی حکومت کے زیرِ تسلط رہا۔
’پسلی سے تخلیق‘: اسلام، مسیحیت اور یہودیت کی مقدس کتابوں میں حضرت حوا کے کردار کو کیسے بیان کیا گیا ہے؟مکہ اور مدینہ میں آباد طاقتور یہودی اور مسیحی قبائل کا عروج و زوال: مسلمانوں کے مقدس ترین شہر اسلام سے قبل کیسے تھے؟حضرت ابراہیم کی ’بڑی آزمائش‘: قربانی کا تصور اسلام، یہودیت اور مسیحیت میںغلامی سے قید اور پھر حکمرانی، حضرت یوسف اور زلیخا کا قصّہ قرآن، بائبل اور یہودی روایات میں
پہلی عالمی جنگ کے بعد سنہ 1920 میں فرانس اور برطانیہ نے ایک معاہدے کے تحت اس جھیل اور اس کے اردگرد کے علاقوں کو تقسیم کیا۔
حالیہ عرصے میں شام نے بحیرہ طبریہ تک رسائی کا مطالبہ کیا تھا۔ جبکہ فارن پالیسی کی ایک رپورٹ کے مطابق شام کے سابق صدر حافظ الاسد نے سنہ 2000 میں بل کلنٹن کو اس حوالے سے ایک منصوبہ پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’میں بحیرہ طبریہ میں تیرنا چاہتا ہوں‘۔ تاہم یہ مطالبہ اور منصوبہ منظور نہ ہو سکا اور کہا جاتا ہے کہ اس کی عدم منظوری ہی امن مذاکرات کی ناکامی کی ایک وجہ بنی تھی۔
جھیل کی مذہبی حیثیتGetty Imagesیہودی جھیل کے کنارے مذہبی عبادات اور رسومات کرتے ہوئے
طبریہ جھیل کو بائبل (عہدِ قدیم) میں ’کینیرت‘ اور ’بحر الجلیل‘ جیسے ناموں سے پکارا گیا ہے۔
یہودی مذہب میں اس جھیل کو ایک اہم مذہبی مقام سمجھا جاتا ہے جبکہ اس کے کنارے پر آباد شہر طبریہ کو یہودی روایات میں دنیا کے چار مقدس شہروں میں سے ایک تصور کیا جاتا ہے۔
یہودی ہر سال ’سوکوت‘ (عید العرش) مناتے ہیں اور جھیل کے گرد جمع ہو کر عبادات اور مذہبی رسومات ادا کرتے ہیں۔
محقق عماد رحما نے بی بی سی عربی کی پوڈکاسٹ ’یستحق الانتباه‘ میں بتایا کہ طبریہ شہر میں فلسطینی یا یروشلمی تلمود کی تدوین نو ہوئی، جو اس کی مذہبی اور تاریخی اہمیت کو بڑھاتی ہے۔
مسیحیوں میں اس جھیل کو عموماً ’بحر الجلیل‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، اور اس کا تعلق حضرت عیسیٰ کے کئی معجزات سے جوڑا جاتا ہے، جیسا کہ اُن کا پانی پر چلنا، مچھلی کے شکار کا معجزہ، جن کا ذکر انجیل میں بھی آیا ہے۔ مذہبی لٹریچر سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ جھیل حضرت عیسیٰ اور ان کے حواریوں کی زندگی میں ایک مرکزی مقام رکھتی ہے۔
اسلام میں اس جھیل کا تذکرہ احادیث کی کتاب ’صحیح مسلم‘ میں مذکور ہے، جہاں اسے قیامت سے پہلے ظاہر ہونے والی نشانیوں میں سے ایک کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔
روایت ہے کہ یاجوج و مجوج اس کے پانی کو پی جائیں گے، اور جب دجال آئے گا تو اس کا پانی خشک ہو چکا ہو گا۔ اسلامی عقیدے کے مطابق، یہ قیامت کے قریب ہونے کی علامت ہو گی۔
خشک سالی کا خطرہ
اس جھیل کے خشک ہونے سے متعلق خدشات نئے نہیں ہیں۔
سنہ 2001 میں اس جھیل میں پانی اپنی تاریخ کی نچلی ترین سطح پر پہنچ گیا تھا۔ بعد ازاں پانی کی سطح میں بتدریج بہتری آئی، مگر 1999 سے 2009 کے درمیانی عرصے میں مجموعی طور پر اس جھیل میں پانی کی سطح میں تقریباً 4 میٹر کی کمی واقع ہوئی۔
سنہ 2017 میں ’ٹائمز آف اسرائیل‘ نے رپورٹ کیا کہ جھیل میں پانی گذشتہ ایک صدی (100 سال) کی سب سے نچلی سطح پر پہنچ چکا ہے۔
سنہ 2018 میں بن گوریون یونیورسٹی میں ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ درجہ حرارت میں اضافہ، بارشوں کی کمی، پانی کا بخارات بن کر اڑنا، اور جھیل سے پانی نکالنے کی سرگرمیاں اس جھیل میں پانی کی سطح میں کمی کی بڑی وجوہات ہیں۔
اسرائیل نے اس جھیل کے قریب سمندری پانی کو میٹھے پانی میں تبدیل کرنے کا ایک پلانٹ بھی لگایا ہے اور اس پلانٹ سے پانی اُردن کو بھیجا جاتا ہے۔
اسرائیلی محکمۂ آب اس جھیل کی نگرانی کا ذمہ دار ادارہ ہے۔
اس وقت یہ جھیل سطح سمندر سے تقریباً 211.3 میٹر نیچے ہے، یعنی اپنی مکمل سطح سے 3.44 میٹر کم، لیکن 2001 کے مقابلے میں پانی کی یہ سطح تقریباً 3.5 میٹر بلند ہے۔
فروری 2025 میں ’یروشلم پوسٹ‘ نے رپورٹ کیا تھا کہ گذشتہ ایک صدی کے دوران پہلی بار موسمِ سرما میں پانی کی سطح میں کمی دیکھی گئی ہے۔
اگرچہ پانی کی سطح میں کمی آئی ہے، لیکن یہ ابھی بھی ’سیاہ لکیر‘ (یعنی انتہائی خطرے کا نشان) سے کافی بلند ہے، اس لیے اس جھیل کے فی الحال خشک ہونے کا فوری خطرہ نہیں ہے مگر ماہرین کے مطابق اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو خطرہ بڑھ سکتا ہے۔
حضرت موسیٰ، فرعون کی شکست اور لاش محفوظ کیے جانے کا قصہ اسلام اور دیگر مذاہب میںقدیم تہذیبوں میں ’جہنم‘ کا تصور اور دنیا کے مذاہب میں عالم برزخ کو کیسے بیان کیا گیاطوفان، کشتی اور کوہ جودی: حضرت نوح کا قصہ جو اسلام سمیت تین مذاہب میں بیان کیا گیاکوہ طور، دنیا کی سب سے قدیم خانقاہ اور پیغمبر اسلام کا خط: ایک مقدس مقام سے جڑا متنازع منصوبہ جس کے لیے قبروں سے لاشوں کو منتقل کر دیا گیاغلامی سے قید اور پھر حکمرانی، حضرت یوسف اور زلیخا کا قصّہ قرآن، بائبل اور یہودی روایات میںحضرت داؤد: چرواہے سے بادشاہ اور نبی بننے کا سفر، اسلام اور دیگر مذاہب میں