ایک زمانے میں امتحانات میں خوشخطی کے الگ سے نمبر دیے جاتے تھے مگر آج کل چونکہ زیادہ تر لوگ کمپیوٹر یا کِی بورڈ استعمال کرتے ہیں تو کیا اب بھی ہاتھ سے خوشخط لکھنا واقعی اہم ہے؟
انڈیا کی ایک عدالت کا کہنا ہے کہ 'ہاں، اگر لکھنے والا ڈاکٹر ہو، تو یہ ضروری ہے۔‘
ڈاکٹروں کی بدخطی (یعنی بُری یا سمجھ میں نہ آنے والی لکھائی) پر دنیا بھر کی طرح پاکستان اور انڈیا میں بھی لطیفے عام ہیں۔ پرچیوں پر لکھی اس لکھائی کو عموماً فارمیسی والے اور کیمسٹ ہی پڑھ سکتے ہیں اور بعض اوقات یہ اُن کی سمجھ میں بھی آسانی سے نہیں آ پاتی۔
حال ہی میں پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ کی طرف سے ایک حکم نامہ جاری ہوا ہے جس میں ڈاکٹروں پر واضح لکھائی کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے۔
عدالت نے کہا کہ ’پڑھنے کے قابل طبی نسخہ ایک بنیادی انسانی حق ہے‘ کیونکہ یہ زندگی اور موت کے درمیان فرق پیدا کر سکتا ہے۔
یہ عدالتی حکم ایک ایسے مقدمے کی سماعت کے دوران آیا ہے جس کا براہ راست تعلق ہاتھ کی لکھائی سے نہیں تھا۔ عدالت میں زیر سماعت اس مقدمے میں ایک خاتون کی طرف سے ایک مرد پر زیادتی، دھوکہ دہی اور جعل سازی کے الزامات لگائے گئے تھے، اور عدالت میں موجود جج اس کیس میں نامزد ملزم کی ضمانت کی درخواست سُن رہے تھے۔
خاتون نے الزام لگایا کہ ملزم نے انھیں سرکاری نوکری دلوانے کا جھانسہ دے کر اُن سے پیسے بٹورے، جعلی انٹرویو کروائے اور جنسی زیادتی کی۔
ملزم نے ان الزامات کی تردید کی اور کہا کہ اُن کے درمیان جنسی تعلق باہمی رضامندی پر مبنی تعلق تھا اور یہ کیس پیسوں پر ہونے والے جھگڑے کی بنیاد پر بنایا گیا ہے۔
سماعت کے دوران جج نے ریمارکس دیے کہ جب انھوں نے جنسی زیادتی سے متعلق سرکاری ڈاکٹر کی جانب سے بنائی گئی میڈیکو لیگل رپورٹ دیکھی تو وہ ناقابل فہم تھی کیونکہ اسے پڑھا نہیں جا سکتا تھا۔
اس کے بعد انھوں نے فیصلے میں لکھا: ’یہ عدالت کا ضمیر جھنجھوڑ دینے والی بات ہے کہ اس رپورٹ میں ایک بھی لفظ یا حرف پڑھنے کے قابل نہیں تھا۔‘
بی بی سی نے اس فیصلے کی نقل دیکھی ہے جس میں وہ رپورٹ اور دو صفحے کا نسخہ (پرچی) شامل ہے، جس پر ڈاکٹر کی ناقابل فہم لکھائی بھی نظر آتی ہے۔
Getty Imagesبعض نسخے ایسے بھی سامنے آئے جنھیں کیمسٹ بھی پڑھنے سے قاصر رہے
جج نے لکھا کہ ’جب ٹیکنالوجی اور کمپیوٹر ہر جگہ دستیاب ہیں، یہ حیران کُن ہے کہ سرکاری ڈاکٹر آج بھی ہاتھ سے ایسے نسخے لکھ رہے ہیں جو شاید صرف کچھ کیمسٹ ہی پڑھ سکتے ہیں۔‘
عدالت نے حکومت کو ہدایت دی کہ میڈیکل کالجوں کے نصاب میں خوشخطی کی تربیت شامل کی جائے اور دو سال کے اندر اندر ڈیجیٹل نسخوں کا نظام نافذ کیا جائے۔
عدالت نے حکمنامے میں لکھا کہ جب تک یہ اقدامات نہیں ہو جاتے تب تک کے دورانیے میں ملک کے تمام ڈاکٹروں کو نسخے اور پرچیاں صاف، قابل فہم اور بڑے حروف میں لکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔
انڈین میڈیکل ایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر دلیپ بھانوشالی نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ اس مسئلے کے حل کے لیے حکومت سے تعاون کو تیار ہیں۔ خیال رہے کہ اس میڈیکل تنظیم کے 3 لاکھ 30 ہزار سے زیادہ ڈاکٹرز رکن ہیں۔
انھوں نے کہا کہ بڑے شہروں میں ڈاکٹرز نے ڈیجیٹل نسخے اپنانا شروع کر دیے ہیں، لیکن دیہی علاقوں اور چھوٹے شہروں میں صاف لکھائی والا نسخہ حاصل کرنا مشکل ہے۔
ان کا کہنا تھا: 'یہ بات سب جانتے ہیں کہ بہت سے ڈاکٹروں کی لکھائی خراب ہوتی ہے، کیونکہ وہ بہت مصروف ہوتے ہیں، خاص طور پر سرکاری ہسپتالوں میں جہاں بہت بھیڑ ہوتی ہے۔'
جب ایک ڈاکٹر نے عضو تناسل کی ایستادگی میں کمی سے پریشان کسان میں بکرے کے خصیوں کی پیوندکاری کیعضو تناسل کھونے کا خوف اور ’ہوا سے موت‘: وہ پراسرار بیماریاں جن کی وضاحت سائنس بھی نہیں کر پائی’ڈرگ رزسٹینس‘ کیا ہے جو پاکستان سمیت دنیا بھر میں لاکھوں بچوں کی اموات کی وجہ ہے؟ماہر امراضِ قلب بن کر سرجریز کرنے والا ’جعلی ڈاکٹر‘ پانچ مریضوں کی مبینہ ہلاکت کے بعد کیسے پکڑا گیا؟
انھوں نے کہا: ’ہم نے اپنے اراکین کو مشورہ دیا ہے کہ وہ حکومت کی ہدایات پر عمل کریں اور نسخے واضح اور بڑے حروف میں لکھیں تاکہ مریض اور کیمسٹ دونوں پڑھ سکیں۔ ایک ڈاکٹر جو روزانہ سات مریض دیکھتا ہے، وہ ایسا کر سکتا ہے، لیکن جو 70 مریض دیکھتا ہے، اس کے لیے شاید یہ ممکن نہیں۔‘
یہ پہلا موقع نہیں کہ کسی انڈین عدالت نے ڈاکٹروں کی بدخطی پر تنقید کی ہو۔ ماضی میں اوڈیشہ (مشرقی ساحلی ریاست اڑیسہ) ہائی کورٹ نے ’ڈاکٹروں کی ٹیڑھی میڑھی لکھائی‘ پر اعتراض کیا تھا اور الہ آباد ہائی کورٹ کے ججوں نے بھی ڈاکٹروں کی ایسی رپورٹس پر افسوس کا اظہار کیا تھا جنھیں پڑھا ہی نہیں جا سکتا۔
یاد رہے کہ اس حوالے سے ہونے والی تحقیق اور مطالعات سے یہ ثابت نہیں ہو سکا ہے کہ ڈاکٹروں کی لکھائی عام لوگوں سے زیادہ خراب کیوں ہوتی ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ یہاں مسئلہ صرف خوبصورتی یا سہولت کا نہیں، بلکہ ایسے طبی نسخے جو مبہم اور ناقابل فہم ہوں وہ سنگین بلکہ جان لیوا نتائج کا باعث بن سکتے ہیں۔
سنہ 1999 میں انسٹیٹیوٹ آف میڈیسن کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ میں ہر سال اندازاً 44,000 ایسی اموات ہوتی ہیں جن سے بچا جا سکتا ہے، اور ان میں سے 7,000 اموات کی وجہ بدخطی تھی۔
حال ہی میں سکاٹ لینڈ میں ایک خاتون کو آنکھوں میں خشکی کے علاج کی دوا کی جگہ غلطی سے جنسی کمزوری کی کریم دے دی گئی، جس سے ان کی صحت کو نقصان پہنچا۔
برطانیہ میں صحت کے حکام نے تسلیم کیا کہ ’دوائیاں دیے جانے کے عمل میں ہونے والی غلطیوں سے سنگین نقصان اور اموات ہو رہی ہیں‘ اور یہ بھی کہا کہ ’مزید ہسپتالوں میں الیکٹرانک نسخے کا نظام نافذ کرنے سے غلطیوں میں 50 فیصد کمی آ سکتی ہے۔‘
انڈیا میں بدخطی سے پہنچنے والے نقصان پر کوئی جامع ڈیٹا موجود نہیں، لیکن دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک میں نسخوں کو غلط پڑھنے کے باعث طبی ایمرجنسیاں پیش آتی رہتی ہیں اور کئی اموات بھی ہو چکی ہیں۔
اس ضمن میں ایک معروف واقعہ یہ ہے کہ ایک خاتون کو اُس وقت مرگی کے دورے پڑنے لگے جب اس نے ذیابیطس کی وہ دوا لے لی جس کا نام اس درد کش دوا سے ملتا جلتا تھا جو دراصل ڈاکٹر کی طرف سے تجویز کی گئی تھی۔
انڈیا کی جنوبی ریاست تلنگانہ کے شہر نلگنڈہ میں ایک فارمیسی چلانے والے شخص چلوکوری پرماتھما نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے 2014 میں حیدرآباد ہائی کورٹ میں ایک عوامی مفاد کی درخواست دائر کی تھی۔ یہ اس وقت کی گئی جب انھوں نے یہ خبر پڑھی کہ نوئیڈا میں ایک تین سالہ بچی کو بخار کے لیے غلط انجکشن لگایا گیا جس سے اس کی موت ہو گئی۔
ان کی اس مہم کے نتیجے میں 2016 میں انڈین میڈیکل کونسل نے حکم دیا کہ ’ہر معالج کو دوا کے عمومی نام واضح اور ترجیحاً بڑے حروف میں لکھنے چاہییں۔‘
سنہ 2020 میں انڈیا کے جونیئر وزیر صحت اشونی کمار چوبے نے پارلیمنٹ کو بتایا تھا کہ ریاستی طبی حکام کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ حکم کی خلاف ورزی کرنے والے ڈاکٹروں کے خلاف تادیبی کارروائی کر سکیں۔
لیکن تقریباً ایک دہائی گزرنے کے باوجود، چلوکوری اور دیگر کیمسٹوں کا کہنا ہے کہ بدخطی سے لکھے گئے نسخے اب بھی ان کی دکانوں پر آتے ہیں۔ چلوکوری نے بی بی سی کو گذشتہ چند برسوں کے دوران دیکھے گئے ایسے کئی نسخے بھیجے جو وہ خود بھی پڑھنے سے قاصر تھے۔
کولکتہ کی ایک مشہور فارمیسی ’دھنونتری‘ کی ریاست مغربی بنگال میں 28 شاخیں مختلف شہروں، قصبوں اور دیہاتوں میں ہیں اور یہ فارمیسی روزانہ 4,000 سے زیادہ گاہکوں کو خدمات فراہم کرتی ہے۔ اس کے سی ای او رویندر کھانڈیوال کہتے ہیں کہ بعض اوقات انھیں ایسے نسخے موصول ہوتے ہیں جو تقریباً ناقابلِ فہم ہوتے ہیں۔
انھوں نے کہا: ’ادھر کچھ سالوں سے ہم دیکھ رہے ہیںکہ شہروں میں ہاتھ سے لکھے نسخوں کی جگہ پرنٹ شدہ نسخے آ رہے ہیں، لیکن چھوٹے شہروں اور دیہی علاقوں میں اب بھی زیادہ تر نسخے ہاتھ سے لکھے ہوتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ان کا عملہ بہت تجربہ کار ہے اور اکثر نسخوں کو سمجھنے میں کامیاب رہتا ہے تاکہ مریض کو درست دوا دی جا سکے۔
’پھر بھی، بعض اوقات ہمیں ڈاکٹروں کو فون کرنا پڑتا ہے، کیونکہ ہمارے لیے یہ بہت اہم ہے کہ ہم مریض کو درست دوا فراہم کریں۔‘
سوشل میڈیا پر تشویش
حیدرآباد ڈاکٹر نامی ایکس ہینڈل سے ڈاکٹر سدھیر کمار ایم ڈی، ڈی نے کسی ڈاکٹر کا ایک نسخہ شیئر کرتے ہوئے لکھا: ’اس ڈاکٹر کو سلام ہے کہ وہ ڈاکٹروں کی تحریر کو اور اعلی سطح پر لے گئے ہیں۔ یہ ہمارے ایک مریض کا نسخہ جنھوں نے آج مجھ سے رجوع کیا اور میں اس میں تحریر پر ایک بھی دوا کو نہ پڑھ سکا۔‘
ڈاکٹر دیپک کرشنامورتی نامی ایک ڈاکٹر نے دو نسخے شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ میرے ایک 89 سالہ مریض اور ان کی 85 سالہ اہلیہ میرے پاس آئے۔ ان کے شوہر نے اپنی اہلیہ کی بیماری کی علامات اور پہلے ہونے والی بیماریوں کے کوائف کے ساتھ ان کے بلڈ پریشر کو ایک صفحے پر تحریر کیا ہوا تھا۔ انھوں نے میرا نسخہ دیکھنے کے بعد کہا کہ ’ڈاکٹر آپ کی تحریر بہت اچھی ہے‘ تو میں نے کہا ’نہیں آپ کی زیادہ بہتر ہے۔‘
ڈاکٹرلوئس میچیلے نے ایک نسخہ شیئر کرتے ہوئے لکھا: ہیلو ڈاکٹرز، واضح اور مریضوں کو اپنا نسخہ پڑھنے کے لائق نسخہ لکھنے سے آپ کوئی چھوٹے ڈاکٹر نہیں ہو جاتے۔ میڈیکل سکول آپ کو ایسی لکھائی تو نہیں سکھاتے ہیں۔ قابل فہم تحریر لکھیں۔‘
ماہر امراضِ قلب بن کر سرجریز کرنے والا ’جعلی ڈاکٹر‘ پانچ مریضوں کی مبینہ ہلاکت کے بعد کیسے پکڑا گیا؟دوائیوں پر خوراک کے ممکنہ اثرات کتنے سنگین ہو سکتے ہیں اور 'ویاگرا' کس پھل کے ساتھ نہیں لینی چاہیے؟پاکستان میں ذہنی امراض کی ادویات کی بلیک مارکیٹ: ’250 روپے کی گولیوں کے لیے ساڑھے آٹھ ہزار اداکرنا پڑے‘جب ایک ڈاکٹر نے عضو تناسل کی ایستادگی میں کمی سے پریشان کسان میں بکرے کے خصیوں کی پیوندکاری کی20 ہزار لاشوں کا پوسٹ مارٹم کرنے والی ڈاکٹر کی یادیں جو کسی سنسنی خیز ناول سے کم نہیں