بلوچستان کے سرحدی ضلع چمن سے ملحقہ پاک افغان سرحد پر پاکستانی فورسز اور افغان طالبان کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئی ہیں، جن میں دونوں جانب سے بھاری اسلحہ استعمال کیا گیا۔
یہ جھڑپیں ایک ایسے وقت ہوئی ہیں جب منگل کی رات کو پاکستان کے سرکاری میڈیا کے مطابق خیبر پختونخوا میں افغانستان سے متصل ضلع کُرم میں پاکستانی فورسز اور افغان طالبان کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا ہے۔
چمن کے سرکاری حکام نے کم از کم پانچ پاکستانی شہریوں کے زخمی ہونے کی تصدیق کی ہے جنہیں سول ہسپتال چمن منتقل کیا گیا جبکہ دو شدید زخمیوں کو مزید علاج کے لیے کوئٹہ بھیج دیا گیا ہے۔
پاکستانی حکومت اور فوج کی جانب سے اب تک تک ان جھڑپوں سے متعلق کوئی بیان جاری نہیں ہوا ہے۔
تاہم دوسری جانب طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اس صورتحال پر بیان جاری کیا یا ہے جس میں دعویٰ کیا گیا کہ پاکستانی گولہ باری سے افغانستان کی حدود میں شہری ہلاک ہوئے ہیں۔
کوئٹہ سے تقریباً ایک سو بیس کلومیٹر دور چمن میں پاک افغان سرحد پر جھڑپوں کا یہ سلسلہ منگل اور بدھ کی درمیانی شب تقریباً دو بجے شروع ہوا۔
مقامی لوگوں کے مطابق سب سے پہلے نواحی علاقے سوئی کاریز کے قریب شدید دھماکوں اور فائرنگ کی آوازیں سنی گئیں۔
اس کے بعد فائرنگ اور گولہ باری کا یہ سلسلہ کلی لقمان، مازل گلی اور باب دوستی کے اطراف میں بھی پھیل گیا جو کئی گھنٹے جاری رہا۔
سکیورٹی ذرائع کے مطابق جھڑپوں کے دوران چھوٹے ہتھیاروں کے ساتھ توپ خانے کا استعمال بھی کیا گیا۔
چمن کے رہائشی عبدالرحیم کے مطابق رات چار بجے گولہ باری میں شدت آ گئی اور صبح نو بجے تک وقفے وقفے سے یہ سلسلہ جاری رہی جس کے باعث شہریوں میں خوف و ہراس پھیل گیا ۔
کلی لقمان اور کلی جہانگیر سمیت سرحد کے قریبی آبادیوں کے لوگ اپنے اہل خانہ کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے پر مجبور ہوگئے۔
اطلاعات کے مطابق جھڑپوں کے دوران باب دوستی کو بھی نقصان پہنچا ہے (فائل فوٹو: روئٹرز)
چمن پولیس کنٹرول کے مطابق چمن کے مختلف علاقوں سے پانچ زخمیوں کو سول ہسپتال لایا گیا جن میں بچے بھی شامل ہیں۔ زیادہ تر افراد مارٹر گولے لگنے سے زخمی ہوئے جو افغانستان کی سمت سے داغے گئے اور پاکستانی حدود میں آبادیوں پر گرے۔
چمن میں انتظامیہ نے صورتحال کے پیش نظر پولیو مہم ملتوی اور ضلع بھر میں تمام سرکاری و نجی تعلیمی ادارے بند رکھنے کا اعلان کیا ہے۔
افغان میڈیا کے مطابق تازہ جھڑپوں کے دوران افغانستان کی جانب بھی جانی نقصان ہوا ہے۔
سوشل میڈیا پر سامنے آنے والی ویڈیوز میں سرحد پر شدید فائرنگ اور دھماکوں کی آوازیں سنائی دیتی ہیں جبکہ باب دوستی کے اطراف دھوئیں کے بادل اٹھتے دکھائی دیتے ہیں۔
بعض ویڈیوز میں سرحد کے قریب افغانستان کی حدود میں ویش کی مشہور اور تجارتی منڈی سے لوگ شورومز سے گاڑیاں اور گوداموں سے تجارتی سامان نکال کر محفوظ مقامات کی طرف منتقل کرتے نظر آرہے ہیں۔
اس سے قبل سنیچر اور اتوار کی درمیانی شب بھی سرحد پر جھڑپیں ہوئی تھیں جس کے بعد سے چمن سرحد مکمل طور پر بند ہے۔
پیر اور منگل کو صرف پاکستان کی حدود میں پھنسے ہوئے افغان مہاجرین کو واپسی کی اجازت دی گئی۔ تاہم دونوں ممالک کے درمیان تجارتی سرگرمیاں اور پیدل آمدروفت گذشتہ تین دنوں سے بند ہے۔
منگل کو بھی افغانستان بارڈ سے متصل ضلع کرم میں بھی جھڑپیں ہوئی تھیں (فوٹو: اے ایف پی)
اس صورتحال میں دونوں جانب ہزاروں افراد اور سامان سے لدی سینکڑوں گاڑیاں پھنس گئی ہیں۔
دوستی کی علامت بھی نشانہ
سرحد پر جھڑپوں کے دوران پاک افغان چمن سرحد کی مرکزی گزرگاہ باب دوستی کو نشانہ بن گیا۔
چمن پولیس کے ایک اہلکار نے تصدیق کی کہ افغان طالبان کی گولہ باری سے باب دوستی کے ایک حصے کو شدید نقصان پہنچا ہے۔
چمن کراسنگ پوائنٹ پاکستان اور افغانستان کے درمیان 2600 کلومیٹر طویل سرحد پر واقع دو بڑی گزرگاہوں میں سے ایک ہے جو بلوچستان کے شہر چمن کو قندھار کے اسپین بولدک سے جوڑتی ہے۔
باب دوستی کو افغانستان پر امریکی قبضے کے بعد 2003 میں دو محرابی طرز پر تعمیر کیا گیا تھا۔ تاہم دوستی کی علامت قرار دیا جانے والا یہ دروازہ بھی نشانہ بن گیا۔
دو سال قبل تک اس سرحد سے روزانہ 20 سے 25 ہزار افراد گزر کر تجارت، ملازمت ، رشتہ داروں سے ملنے یا علاج کے لیے آتے جاتے تھے۔ تاہم اکتوبر 2023 میں پاکستان کی جانب سے سات دہائیوں میں پہلی بار پاسپورٹ اور ویزہ لازمی قرار دیے جانے کے بعد یہ تعداد گھٹ کر صرف چار سے پانچ ہزار تک رہ گئی۔
یہ گزرگاہ نہ صرف دونوں ممالک کے درمیان تجارت بلکہ افغانستان کی بین الاقوامی ٹرانزٹ ٹریڈ اور وسطی ایشیا کے تجارتی رابطوں کے لیے بھی کلیدی اہمیت رکھتی ہے۔