’دیوالی کی مٹھائی‘ کے نام سے مشہور سون پاپڑی انڈیا کیسے پہنچی؟

بی بی سی اردو  |  Oct 22, 2025

Getty Imagesانڈیا کے ماہر طباق کا کہنا ہے کہ سون پاپڑی کی شروعات انڈین پنچاب سے ہوئی

دیوالی آئی اور اپنے ساتھ سون پاپڑی لے آئی۔ یہ جملہ اکثر گفتگو میں یا پھر سوشل میڈیا پر طنزیہ انداز میں استعمال ہوتا ہے۔

بعض اوقات تو لوگ طنزیہ انداز میں یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ ایک ہی ڈبہ ہے جو مختلف گھروں میں گھوم رہا ہے۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ لوگ تحفے میں ملنے والے سون پاپڑی کے ایک ہی ڈبے کو بغیر کھولے اپنے قریبی دوستوں اور رشتے داروں کو دے دیتے ہیں۔

سون پاپڑی کو دیکھ کر بعض افراد کے منہ میں پانی آ جاتا ہے جبکہ کچھ لوگ اسے زیادہ پسند نہیں کرتے ہیں۔

لیکن حقیقیت یہ ہے کہ آپ چاہے پسند کریں یا نہیں، دیوالی پر آپ اسے نظر انداز نہیں کر سکتے ہیں۔

بیسن، گھی اور چینی سے بنی سون پاپڑی کو سون پتیسہ، سون پاپڑی سمیت مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ منہ میں گھلنے والی اس مٹھائی کی شروعات کہاں سے ہوئی؟

اسی سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے بی بی سی نے ماہر طباق (کھانوں کے ماہر) پشپیش پنت اور خوراک کی تاریخ کے محقق چنمے ڈملی سے بات کی۔

https://www.youtube.com/watch?v=XIEbVa_OwKo

’یہ صرف دیوالی کی مٹھائی نہیں‘

آپ سمجھتے ہیں کہ سون پاپڑی صرف دیوالی پر کھائی جاتی ہے؟

جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے سابق پروفیسر اور ماہر طباق پشپیش پنت کا کہنا ہے کہ ’یہ غلط فہمی ہے کہ یہ صرف دیوالی کی مٹھائی ہے۔ یہ مٹھائی پورے سال ہر جگہ دستیاب ہوتی ہے۔ آپ اپنے محلے کی دکان، ایئرپورٹ یا پھر ٹرین سٹیشن سے اسے با آسانی خرید سکتے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’اس مٹھائی میں دودھ نہیں ہوتا اور یہ بیسن اور چینی سے بنتی ہے اس لیے اسے چھ ماہ تک استعمال کیا جا سکتا ہے۔ کئی بڑے برانڈ بڑی تعداد میں اسے ملک سے باہر بھی بھیجتے ہیں۔ دوسری مٹھائیوں جیسے موتی چور کے لڈو اور کاجو کی قتلیوں کی طرح یہ مٹھائی بھی ہر موقع پر دستیاب ہوتی ہے۔‘

خوراک پر تحقیق کرنے والے ماہر چنمے ڈملی کا کہنا ہے کہ سون پاپڑی سستی ہوتی ہے اور بڑے پیمانے پر اس کی پروڈکشن اسے دیوالی میں زیادہ مقبول بناتی ہے جبکہ لوگ اس کے بارے میں لطیفے بناتے ہوئے اسے ’ہر گھر کی مٹھائی‘ کہتے ہیں۔

پشپنش پنت کا کہنا ہے کہ سون پاپڑی کی شروعات پنجاب سے ہوئی اور اس کا کچھ تعلق پتیسے کی مٹھائی سے بھی ہے۔

پروفیسر پنت کا کہنا ہے کہ ’پتیسہ بنانا آسان کام نہیں۔ پنجاب کے پرانے خاندان بتاتے ہیں کہ چاشنی کو پھینٹ پھینٹ کر اور لمبا کر کر کے تار یا فائبر بنایا جاتا ہے اور یہی فائبر جیسی شکل سون پاپڑی کو اہم بناتی ہے۔‘

کیا آپ کو ’گڑیا کے بال‘ یا گچک یاد ہے جیسے ہم پچپن میں کھاتے تھے؟

’یہ بالکل وہی تکنیک ہے، پہلے اسے ہاتھ سے بنایا جاتا تھا لیکن اب مشینوں نے کام آسان بنا دیا۔‘

پشپیش پنی کا کہنا ہے کہ ’پنجاب میں پتیسے کے ساتھ بیسن کے لڈو بنتے تھے جو اب سون پاپڑی کی شکل اختیار کر گئے۔ ان سب میں ایک چیز مشترکہ ہے اور وہ اس کی فائبر نما ساخت اور چینی کی مٹھاس ہے۔‘

پروفیسر پنت کا کہنا ہے کہ انڈیا میں ہر چیز باہر سے نہیں آئی اور غیر منقسم انڈیا میں بہت سی چیزیں پہلے سے موجود تھیں۔

Getty Imagesدیوالی کے موقع پر سون پاپڑی پر مختلف لطیفے اور میمز بنتے ہیںکیا سون پاپڑی کا تعلق صرف انڈیا سے ہے؟

چنمائے داملے کا کہنا ہے کہ ’سون پاپڑی کی شروعات ایرانی مٹھائی پشمک سے ملتی جلتی ہے۔ پشمک کا مطلب ہے اُون جیسی، یعنی اس کی فائبر جیسی ساخت۔انیسویں صدر میں ایرانی تاجر ممبئی کے گلیوں میں پشمک بیچتے تھے۔‘

انھوں نے کہا کہ ایس ایم ایڈورڈ نے اپنی کتاب ’بائی دے ویز آف بمبئی‘ میں لکھا کہ پشمک کی خوشبو چینی ،خوش میوہ جات اور الائچی جیسی تھی۔

ڈملی کا کہنا ہے کہ ’سون‘ سنسکرت کے لفظ ’سبحان‘ سے نکلا اور ’سبحان لفظ کا ذکر مرزا غالب کے خطوط میں بھی ملتا ہے جن میں وہ باجرے کی کھیر کا ذکر کرتے ہیں۔‘

چنمے ڈملی کے مطابق ممکن ہے کہ سون پاپڑی کا کچھ تعلق سوہن حلوے سے بھی ہو جو اُن کے بقول ایران اور ترکمانستان سے ہوتا ہوا انڈیا پہنچا تھا۔

سوہن حلوے اور سون پاپڑی میں فرقGetty Imagesسون پاپڑی جلد خراب نہیں ہوتی

سوہن حلوہ گندم سے بنتا ہے اور یہ گاڑھا ہوتا ہے جبکہ سون پاپڑی بیسن سے بنتی ہے اور اس میں تار ہوتا ہے۔

چنمائے داملے نے بتایا کہ ’سون پاپڑی 18ویں صدی میں اودھ میں بننی شروع ہوئی اور یہ مٹھائیوں کی چار اقسام میں سے ایک تھی۔بیسویں صدی میں اس کی دکانیں بہار اور بنگال میں بھی کھلنے لگیں۔‘

ڈملی نے ایک اور مٹھائی کا ذکر کیا جیسے سوند حلوہ، جو اٹھارہویں صدی میں نائیجریا سے رام پور آیا لیکن سون پاپڑی سے مختلف تھا۔

دیوالی کے موقع پر انڈین کلچر میں سون پاپڑی پر لطیفے اور میمز بنتی ہیں۔

ڈملی کا کہنا ہے کہ یہ بڑے پیمانے پر بنتی ہیں۔ دودھ کے بغیر بنتی ہیں اس لیے یہ سستی ہوتی ہیں۔ یہ جلد خراب نہیں ہوتی اس لیے لوگ بڑے پیمانے پر اسے آپس میں تقسیم کرتے ہیں۔ دیوالی کے موقع پر سون پاپڑی کا ڈبہ ہر گھر میں آتا ہے اور لوگ اسے ’دیوالی کا مخصوص‘ تحفہ کہتے ہیں۔

سون پاپڑی کی کہانی دنیا کے مختلف حصوں کو آپس میں ملاتی ہے۔

پشپیش پنت کہتے ہیں کہ اس کی ابتدا پنچاب میں پتیسے سے ہوئی جبکہ چنمائے داملے کے مطابق اس کا آغاز پشمک ایران سے ہوا لیکن دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ باریک تار منہ میں گھلنے سے ایک منفرد ذائقہ آتا ہے۔

پٹاخے کہاں سے آئے؟ بانس کے دھماکے سے آتش بازی کا ’پرفیکٹ بلیو‘ رنگ بننے تک کا سفردہلی: دیوالی پر پٹاخے پھوڑنے والوں کو چھ مہینے کے لیے جیل جانا پڑ سکتا ہےکیا ہندوستان میں پٹاخے مغل لائے تھے؟میسور پاک: مہاراجوں کے دور کی مٹھائی جس کے نام پر انڈیا پاکستان کشیدگی کے بعد سے تنازع برقرار ہےپاکستانی مٹھائی جسے انڈین فوجی بھی کھاتے ہیںسونے کے ورق والی نو ہزار روپے کلو مٹھائی
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More