تاج محل ایک مقبرہ ہے یا مندر اور اس کے تہہ خانے میں موجود ’22 کمرے‘ کیا ہیں؟

بی بی سی اردو  |  Oct 22, 2025

Getty Images

آگرہ میں موجود دنیا کے ساتویں عجوبے تاج محل کا ایک گائیڈ تاج محل پر ہی کیس کر دیتا ہے۔ یہ کہانی انڈین فلم ’دی تاج سٹوری‘ کی ہے جس کا ٹریلر گذشتہ ہفتے جاری کیا گیا جبکہ اسے 31 اکتوبر سے سینیما گھروں میں دکھایا جائے گا۔

یہ فلم انڈیا کی سب سے مشہور تاریخی عمارت اور مغل دور میں فن تعمیر کے شاہکار تاج محل کے بارے میں ہے۔ اس فلم کے مرکزی کردار اداکار پریش راول ہیں جو آگرہ میں ایک گائیڈ کا کام کرتے ہوئے دکھائے گئے ہیں۔ اس کورٹ رومڈرامے میں وہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ تاج محل ایک مقبرہ نہیں بلکہ ایک ہندو مندر ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ فلم کے ٹریلر میں اس کہانی کو ’حقیقی واقعات سے متاثر‘ کہا گیا ہے۔

تاج محل کے مندر ہونے کا دعویٰ کوئی نیا نہیں مگر پہلی بار اس پر ایک فلم بنائی گئی ہے۔ فلم کے ٹریلر میں پریش راول ایک جگہ لوگوں سے بات کرتے ہوئے پوچھتے ہیں کہ ’دنیا میں ایسا کوئی مقبرہ دیکھا ہے جس کے اوپر گنبد اور گنبد کے اوپر کلش (تختی اور چاند تارے وغیرہ) ہوں؟ تاج محل کا ڈی این اے ٹیسٹ کروائیں۔‘

Getty Images

سوشل میڈیا پر جہاں فلم پر تاریخی حقائق کو مسخ کرنے کا الزام لگایا جا رہا ہے وہیں انڈیا میں ایک طبقہ اس کی حمایت بھی کر رہا ہے۔ جیسے دلیپ کمار سنگھ نامی صارف نے لکھا کہ ’سچی تاریخ بتانے کا عمل شروع ہو گیا ہے۔۔۔ ہر فریم ایک سوال کھڑا کرتا ہے۔ ہر سچ ایک گہرا زخم دیتا ہے۔ یہ فلم ایک راز سے پردہ اٹھانے والی ہے۔‘

مگر دیب نامی صارف نے اسے ’شرمناک پروپیگنڈے‘ سے تشبیہ دی۔

فلم کے ٹریلر پر پیدا ہونے والے تنازعے پر فلم ساز کمپنی نے وضاحتی بیان میں کہا کہ ’فلم دی تاج سٹوری کا تعلق کسی مذہبیمعاملے سے نہیں ہے اور نہ ہی اس میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ تاج محل کے اندر کوئی شیو مندر موجود ہے۔‘

’اس میں سارا فوکس تاریخی حقائق پر مرکوز ہے۔ ہم آپ سے درخواست کرتے ہیں کہ اس فلم کو دیکھیں اور خود اپنی رائے قائم کریں۔‘

فلم کے ٹریلر میں تاج محل کے نیچے بند پڑے ہوئے ’22 خفیہ کمروں‘ کا بھی ذکر ہے جس میں بقول اس کے تاریخ کے حقائق چھپا کر رکھے گئے ہیں۔

یوسف پٹھان کی چند تصویروں سے شروع ہونے والی بحث: ادینا مسجد یا آدیناتھ مندر؟قطب مینار سے اجمیر شریف کی درگاہ تک انڈیا میں وہ دس سے زیادہ مقامات جہاں ’مندر مسجد‘ کا تنازع چل رہا ہے28 برس قبل ’صرف بابری مسجد ہی نہیں بلکہ بہت کچھ ٹوٹا تھا‘بابری مسجد کی جگہ بننے والے رام مندر کا افتتاح: ’اس طرح کے واقعے کی تاریخ میں کوئی نظیر نہیں ملتی‘Getty Imagesہر سال لاکھوں کی تعداد میں سیاح دنیا کے ساتویں عجوبے کہلائے جانے والے تاج محل آتے ہیںتاج محل کے تہہ خانے میں ’22 کمروں‘ پر تنازع کیوں؟

تاج محل اس سے پہلے بھی ایسے تنازعات کی زد میں رہا ہے۔

سنہ 2022 میں الہ آباد ہائی کورٹ میں بی جے پی رہنما رجنیش سنگھ کی طرف سے ایک پٹیشن داخل کی گئی تھی جس میں درخواست کی گئی تھی کہ عدالت عالیہ تاج محل کی اصل تاریخ کے مطالعے اور تعین کے لیے ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی قائم کرے اور تاج محل کے نیچے موجود 22 کمروں کو کھولنے کی ہدایت جاری کرے تاکہ وہاں ممکنہ طور موجود ہندو دیوتاؤں کی مورتیوں کا پتا لگایا جا سکے۔

تاہم ہائی کورٹ نے اس پٹیشن کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’اس طرح کے معاملوں پر بحث و مباحثہ کا کام محققین، مورخین اور سکالرز پر چھوڑ دینا چاہیے۔‘

ماضی میں بی جے پی کے کئی رہنما یہ کہہ چکے ہیں کہ تاج محل دراصل ایک ہندو مندر ہے۔

آگرہ میں دریائے جمنا کے کنارے سنگ مر مر سے تعمیر کردہ تاج محل مغل فن تعمیر کا ایک عظیم شاہکار سمجھا جاتا ہے۔یونیسیف نے اسے ’انڈیا میں مسلم فن تعمیر کا نگینہ اور دنیا کا ایک عظیم شاہکار‘ قرار دیا ہے۔

مغل بادشاہ شاہجہان نے تاج محل اپنی ملکہ ممتاز محل کی یاد میں تعمیر کروایا تھا۔ ممتاز محل اور شاہجہاں یہیں دفن ہیں۔

مورخین کے مطابق تاج محل 1632 سے 1648 میں تعمیر ہوا تھا۔ سوشل میڈیا پر مورخ رانا صفوی نے ایک پوسٹ میں لکھا ہے کہ بادشاہ کے سرکاری مورخ عبدالحمید لاہوری نے اپنی کتاب 'بادشاہ نامہ' میں اس کی تعمیر کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ 'روضہ منورہ (تاج محل) کی تعمیر کا کام اس کی بنیاد رکھنے کے ساتھ شروع ہو گیا ہے۔'

رانا صفوی نے مزید لکھا ہے کہ مورخ آر ناتھ نے اپنی کتاب 'تاج محل: ہسٹری اینڈ آرکیٹکٹ' میں لکھا ہے کہ 'شہنشاہ نے ممتاز محل کی قبر کے اوپر ایک بڑے گنبد کے ساتھ ایک ایسی شاندار عمارت تعمیر کرانے کا فیصلہ کیا جو یوم حشر تک باقی رہے اور جو ان کی طاقت اور شان و شوکت کے مطابق ہو ۔ جو ممتاز محل کی یاد کو دائمی بنا سکے۔ شاہجہاں نے ایسے عظیم مقبرے کی بنیار رکھی۔'

Getty Imagesآثار قدیمہ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس طرح کی بڑی عمارت کے لیے بنیاد بن جانے کے بعد اس کے اوپر محراب کی شکل میں دیواریں اور کھمبے تعمیر کیے جاتے تھے تاکہ چبوترے کو اونچا بنایا جا سکے

تاج محل کی چوکور عمارت ایک بہت اونچے چبوترے پر بنائی گئی ہے۔ قبر ایک بڑے ہال میں آٹھ کونے والے چیمبر میں واقع ہے۔ اس کے کونے میں چار کمرے ہیں۔ تاج محل کے بالائی حصے پر بھی اسی طرح کا ہال اور کمرے بنے ہوئے ہیں۔

آنے والی فلم'تاج سٹوری' میں تاج محل کے تہہ خانے میں جن 22 'خفیہ کمروں' کا ذکر ہے وہ اصل میں کمرے نہیں بلکہ طویل محراب دار ہال کا کاریڈور ہے جہاں الک الگ خانوں میں دروازے لگا دیے گئے تھے۔

مورخ ڈاکٹر روچیکا شرما نے بی بی سی کو بتایا کہ 'تہہ خانے میں کھمبوں اور دیواروں کی تعمیر مغل دور کے دوسرے مقبروں مثلآ ہمایوں کے مقرے اور صفدر جنگ کے مقبرے میں بھی ملتی ہے۔ سیاحوں کی دلچسپی کی کوئی چیز یہاں نہیں اس لیے بند رکھا جاتا ہے۔ آثار قدیمہ کا محکمہ اس کی وقتآ فوقتآ صفائی اور مرمت وغیرہ کرواتا رہتا ہے۔'

ایک سرکردہ ماہر آثار قدیمہ کے کے محمد نے روزنامہ دی انڈین ایکسپریس کو بتایا تھا کہ تاج کے تہہ خانے کے کمروں کی دیواروں پر کوئی مذہبی نشان وغیرہ نہیں ہے۔ 'اس کی دیواریں سپاٹ ہیں۔ ان پر کوئی تصویر وغیرہ نہیں بنی ہوئی۔ یہ صرف اس چبوترے کو اونچائی دینے کے لیے تعمیر کی گئی تھیں جس پر مقبرے کی اصل عمارت اور میناریں کھڑی ہیں۔'

آثار قدیمہ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس طرح کی بڑی عمارت کے لیے بنیاد بن جانے کے بعد اس کے اوپر محراب کی شکل میں دیواریں اور کھمبے تعمیر کیے جاتے تھے تاکہ چبوترے کو اونچا بنایا جا سکے اور اصل عمارت کا بوجھ برابر دیواروں اور کھمبوں کے توسط سے بنیاد پر پڑے۔

تاج سے تیجو مہالیہ تک

پی این اوک نامی ایک وکیل اور مصنف کا خیال تھا کہ انڈیا میں جو تاریخی عمارتیں مسلم حکمرانوں سے منسوب ہیں وہ دراصل ہندو عمارتیں ہیں۔

انھوں نے انڈیا کی دوبارہ تاریح لکھنے کے لیے ایک ادارہ بھی قائم کیا تھا۔ انھوں نے کئی کتابیں لکھی ہیں جس میں انھوں نے لکھنؤ کی امام بارگاہوں کو ہندو محلات قرار دیا تھا۔

انھوں نے دلی کے لال قلع پر بھی ایک کتاب لکھی تھی اور اسے 'ہندو لال کوٹ' قرار دیا تھا۔ اوک نے 1989 میں 'تاج محل: دی ٹرو سٹوری' کے عنوان سے ایک کتاب لکھی تھی۔ اس میں انھوں نے لکھا تھا کہ تاج محل دراصل بگھوان شیو کا مندر تھا۔ ان کے مطابق تاج مغلوں کے انڈیا آنے سے صدیوں پہلے تعمیر کیا گیا تھا۔

Getty Images1818 میں بنائی گئی تاج محل کی تصویر۔ مورخین کے مطابق تاج محل 1632 سے 1648 میں تعمیر ہوا تھا

انھوں نے لکھا تھا کہ'ہماری تحقیق سے یہ واضح طور پر ثابت ہوگیا ہے کہ تاج محل قدیم ہندو نام تیجو مہالیہ کا بگڑا ہوا نام ہے۔' ان کا کہنا تھا کہ شاہجہاں نے اس مندر کو مقبرے میں تبدیل کر دیا اور اس کا نام تاج محل رکھ دیا تھا۔

تاج محل پر آنے والی فلم بظاہر اسی تصور سے متاثر نظر آتی ہے۔ مورخ ڈاکٹر روچیکا کہتی ہیں کہ پی این اوک کی ہندو مندر کی تھیوری میں کوئی سچائی نہیں ہے لیکن جس زمین پر تاج محل بنا ہے، وہ ضرور مغلیہ سلطنت میں اعلی عہدے پر فائز جے پور کے راجہ جے سنگھ کی ملکیت تھی اور ان سے حاصل کی گئی تھی۔ شاہجہاں نے انھیں اس زمین کا پورا معاوضہ ادا کیا تھا۔'

صحافی اور سیاسی امور کے تجزیہ کار ضیا الاسلام نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ'دی تاج سٹوری' کی طرز کی کئی فلمیں پہلے بھی آ چکی ہیں، مثلاً 'دی کشمیر فائلز'، '72 حوریں' اور 'دی بنگال فائلز'۔

وہ کہتے ہیں کہ 'یہ فلیمں آئیں اور چلی بھی گئیں اور کسی کو یاد بھی نہیں ہوں گی۔'

'یہ صحیح ہے کہ 2015 سے 2024 تک ہندی سینیما نے بہت حد تک مرکزی حکومت کے بیانیے کو آگے بڑھایا۔ چاہے وہ مغلیہ دور کے بادشاہوں اور سلطنت عہد کے سلطانوں کو بے رحم اور ظالم دکھانا ہو۔ یا تاریخ کے کسی اور پہلو کو اس پس منظر میں پیش کرنا ہو کہ اس کا مقصد ان بادشاہوں کو نیچا دکھانا۔'

Getty Images

ان کی رائے میں اس کا ہدف 'آج کے مسلمان ہیں۔

'لیکن اب رفتہ رفتہ لوگوں کو سمجھ میں آنے لگا ہے۔ آپ نفرت ایک حد تک بازار میں بیچ سکتے ہیں۔ اگر آپ لوگوں کے سامنے روز اسی طرح نفرتیں پھیلاتے رہیں گے تو وہ ان باتوں کے بجائے روزمرہ کے مسائل پر توجہ دینے لگيں گے۔'

دی تاج سٹوری کے ٹریلر میں ایک جگہ فلم کے اصل کردار پریش راول کہتے ہیں کہ 'آزادی کے اٹھہتر برس بعد بھی ہماری سوچ اور ہمارا نظریہ انھیں لوگوں کے تلوے چاٹ رہا ہے جنھوں نے ہماری پوری تہذیب اور ہمارے وجود کو ختم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ پھر بھی ہم چپ ہیں۔۔۔ لیکن اب سوال اٹھانا پڑے گا کیونکہ اب اگر سوال نہیں اٹھائے تو ہماری تاریخ اور وجود دونوں سوال بن کر رہ جائیں گے۔'

یہ فلم ایک ایسے وقت میں ریلیز ہو رہی ہے جب بہار میں ریاستی اسمبلی کے انتخابات ہونے والے ہیں۔ ان انتحابات میں پولرائزیشن یا مذہب کی سیاست بہت حد تک کام کرتی ہے۔

یہ فلم ریلیز ہونے کے بعد کوئی بڑا تنازعہ پیدا کر سکے گی یا حال ہی 'دی بنگال فائلز' کی طرح گمنامی میں چلی جائے گی، اس کا فیصلہ وقت ہی کرے گا۔

یوسف پٹھان کی چند تصویروں سے شروع ہونے والی بحث: ادینا مسجد یا آدیناتھ مندر؟قطب مینار سے اجمیر شریف کی درگاہ تک انڈیا میں وہ دس سے زیادہ مقامات جہاں ’مندر مسجد‘ کا تنازع چل رہا ہےانڈیا کی ’200 برس پرانی‘ مسجد جس میں ہندو اذان دیتے ہیں: ’میں نے سوچا یہ اللہ کا گھر ہے اسے آباد رہنا چاہیے‘سنبھل کی مسجد کے نیچے مندر کا دعویٰ: ’کہیں یہ ہماری 500 برس پرانی جامع مسجد پر قبضہ تو نہیں کر رہے‘بابری مسجد کی جگہ بننے والے رام مندر کا افتتاح: ’اس طرح کے واقعے کی تاریخ میں کوئی نظیر نہیں ملتی‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More