’الفاشر کا قصائی‘ جس نے سوڈان میں دو ہزار سے زیادہ لوگوں کو بے دردی سے قتل کرنے کا اعتراف کیا

بی بی سی اردو  |  Nov 01, 2025

AFP

سوڈان میں نیم فوجی گروپ ریپڈ سپورٹ فورسز (آر ایس ایف) نے ایک ویڈیو جاری کی ہے جس میں الفاتح عبداللہ ادریس کی گرفتاری کو دکھایا گیا ہے جنھیں ’الفاشر کا قصائی‘ اور ’ابو لولو‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔

یہ اقدام آر ایس ایف کے کمانڈر محمد حمدان دگالو کے اُس اعتراف کے بعد سامنے آیا ہے جس میں اُنھوں نے الفاشر میں تشدد کا اعتراف کرتے ہوئے تحقیقات کا وعدہ کیا تھا۔

اقوامِ متحدہ کے ایک سینئر اہلکار کے مطابق آر ایس ایف نے مطلع کیا ہے کہ اس نے الفاشر میں پرتشدد کارروائیوں میں ملوث مشتبہ افراد کو گرفتار کیا ہے۔

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے پیر کو جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا تھا کہ الفاشر میں آر ایس ایف فورسز کی جانب سے متعدد افراد کو ہلاک کیے جانے کی تصدیق ہوئی ہے۔

واضح رہے کہ سوڈانی فورسز اور آر ایس ایف کے درمیان دو برسوں سے جھڑپیں جاری ہیں اور اس دوران سینکڑوں افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ اتوار کو آر ایس ایف نے کئی ماہ کے محاصرے کے بعد الفاشر کا کنٹرول سنبھال لیا تھا۔

آر ایس ایف کے کمانڈر کے مشیر عمران عبداللہ نے بی بی سی کو دیے گئے انٹرویو میں شہریوں کے قتل عام کی تردید کی ہے۔ تاہم بی بی سی نے آزاد ذرائع سے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ابو لولو نے الفاشر میں کئی شہریوں کو قتل کیا۔

آر ایس ایف کی طرف سے جاری کی گئی ویڈیو میں، ابو لولو کو سخت پہرے میں شالہ جیل کی طرف لے جایا جا رہا ہے، جو الفاشر کے مغرب میں واقع ہے، یہ جیل اپنےسخت حالات کے لیے مشہور ہے۔

آر ایس ایف کے ایک رُکن نے ویڈیو میں کہا کہ ’ابو لولو کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور قانون کے مطابق ان کا منصفانہ ٹرائل کیا جائے گا۔‘

مصنوعی ذہانت کی تصاویر کا استعمال کرتے ہوئے، بی بی سی نے اس بات کی تصدیق کی کہ ابو لولو کو شالہ جیل کے اندر قید تنہائی میں رکھا گیا ہے۔

ابو لولو کون ہیں؟

ابو لولو ٹک ٹاک سمیت سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی اُن خوفناک ویڈیوز کی وجہ سے مشہور ہوئے جن میں اُنھیں جان بخشی کی فریاد کرتے ہوئے لوگوں کو قتل کرتے ہوئے دکھایا گیا۔

یہ لوگ روتے ہوئے اُنھیں نہ مارنے کی درخواست کر رہے تھے، لیکن ابو لولو اُن کا مذاق اُڑاتے ہوئے مسکراتے رہے اور اُنھیں قتل کرتے رہے۔

پیر کو پوسٹ کی گئی ایک ویڈیو میں ابو لولو نے دو ہزار سے سے زیادہ لوگوں کو قتل کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ ایک اور ویڈیو میں، ابو لولو نے کہا: ’ہمارا کام صرف مارنا ہے۔‘

ابو لولو کی گرفتاری کی خبر نے سوڈانی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بڑے پیمانےپر ردعمل کو جنم دیا ہے۔

بعض صارفین کا کہنا ہے کہ آر ایس ایف ابو لولو کو قربانی کا بکرا بنا رہی ہے اور اس کے ذریعے مغربی ممالک کو یہ باور کرایا جائے گا کہ انفرادی سطح پر تشدد کرنے والوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے۔

’لوگوں پر پہلے تشدد کیا گیا اور پھر گولیوں سے بھون دیا‘: سوڈان میں خانہ جنگی سے بچ نکلنے والوں کی دل دہلا دینے والی کہانیاںدو جرنیلوں کی اقتدار پر قبضے کی جنگ جس نے سوڈان کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیاکیا جرنیلوں کے کارروباری مفادات سوڈان میں فوجی بغاوت کا باعث بنے؟’برقع پوش خاتون نے گلا کاٹنے کا اشارہ کیا‘: شام میں دولت اسلامیہ کے مبینہ جنگجوؤں کی سب سے بڑی جیل میں بی بی سی نے کیا دیکھا

بعض سوشل میڈیا صارفین کا یہ بھی کہنا تھا کہ الفاشر میں ہزاروں افراد کو قتل کیا گیا جن کے اعداد و شمار بھی مرتب نہیں ہو سکے۔ لیکن ایک قاتل کو گرفتار کر کے ’بڑے قتل عام‘ پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

ابو لولو 18 ماہ تک الفاشر کے محاصرے کے دوران منظر عام پر نہیں آئے تھے۔ لیکن حالیہ دنوں میں وہ اچانک اُبھر کر سامنے آئے۔

بی بی سی کو اس بات کی تصدیق ہوئی ہے کہ ابو لولو آر ایس ایف کے ساتھ اپنی سرگرمیوں کی ویڈیوز بناتے تھے۔ ایک ویڈیو میں تو اُنھوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ اُن کا آر ایس ایف کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔

گذشتہ اگست میں، ریپڈ سپورٹ فورسز نے ایک بیان میں کہا ’اگر یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ مجرم کا تعلق آر ایس ایف سے ہے تو اسے بغیر کسی تاخیر کے انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔‘

سوڈانی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق نام نہاد ابو لولو کا نام الفتح عبداللہ ادریس ہے اور آر ایس ایف میں بریگیڈیئر کے رینک پر فائز ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق اس سے پہلے وہسوڈان کے دارالحکومت خرطوم سے 70 کلو میٹر دُور لجیلی ریفائنری میں بھی تعینات رہے۔ اس کے بعد وہ کوردوفان اور پھر وہاں سے الفاشر منتقل ہوئے۔

ابو لولو کو وہ ویڈیوز وائرل ہونے سے پہلے کوئی نہیں جانتا تھا جس میں لوگوں کو بیدردی سے قتل کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ ان ویڈیوز کے بعد ابو لولو کو ’الفاشر کا قصاب‘ بھی کہا جانے لگا۔

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ریپڈ سپورٹ فورسز کے فیلڈ کمانڈروں کے ساتھ ملٹری یونیفارم میں ابو لولو کی ظاہری شکل اس کی مرکزی قیادت سے اس کے تعلق کی نشاندہی کرتی ہے، جب کہ ریپڈ سپورٹ فورسز اس سے کسی بھی تعلق کی تردید کرتی ہیں۔

60 ہزار افراد الفاشر سے نقل مکانی کر چکے ہیں: اقوامِ متحدہ

اقوامِ متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے (یو این ایچ سی آر) کے مطابق، سوڈانی شہر الفاشر سے 60 ہزار سے زائد افراد نقل مکانی کر چکے ہیں۔

الفاشر میں بڑے پیمانے پر سزائے موت دینے اور انسانیت کے خلاف جرائم کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ آر ایس ایف کے جنگجوؤں نے 18 ماہ کے محاصرے کے بعد شہر پر دھاوا بول دیا تھا۔

یو این ایچ سی آر کے یوجن بیون نے بی بی سی کو بتایا کہ تشدد سے فرار ہونے والوں کی بڑی تعداد الفاشر سے 80 کلو میٹر دُور تاویلہ میں پناہ لیے ہوئے ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ الفاشر میں خواتین کے ساتھ بدسلوکی کی بھی اطلاعات ہیں جبکہ ایجنسی کو متاثرہ افراد کے لیے پناہ گاہیں اور خوراک کا بندوبست کرنے میں بھی مشکلات کا سامنا ہے۔

اُنھوں نے مزید کہا کہ ہر بچہ غذائی قلت کا شکار تھا۔

ایک اندازے کے مطابق 150,000 سے زیادہ لوگ اب بھی الفاشر میں پھنسے ہوئے ہیں جو مغربی علاقے دارفور میں فوج کا آخری گڑھ تھا۔

سوڈانی فوج اور آر ایس ایف کے درمیان سنہ 2023 سے جاری اقتدار کی رسہ کشی کے باعث پورا ملک خانہ جنگی کی لپیٹ میں آ گیا ہے۔

خانہ جنگی کی وجہ سے ملک میں قحط جیسی صورتحال بھی پیدا ہوئی جبکہ دارفور میں نشل کشی کے دعوے بھی سامنے آئے۔

اقوام متحدہ نے اسے دُنیا کا سب سے بڑا انسانی بحران قرار دیا ہے جس میں اب تک ڈیڑھ لاکھ سے زائد افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ جبکہ ایک کروڑ 20 لاکھ افراد اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔

آر ایس ایف اب مغربی سوڈان اور جنوب میں کوردوفان کے زیادہ تر حصے پر قابض ہو گئی ہے۔ جبکہ سوڈانی فوج کے پاس دارالحکومت خرطوم، وسطی اور مشرقی علاقوں کا کنٹرول ہے۔

’یہ کیلے لے لو، مجھے مت مارو‘: ایمیزون جنگل میں تنہائی میں رہنے والا قبیلہ جسے بچانے کی کوشش کی جا رہی ہےتاریخ کی ’سب سے بڑی پولیس کارروائی‘ میں 121 افراد کی ہلاکت: آپریشن کے وہ مناظر جو ایک فوٹوگرافر نے کیمرے میں قید کر لیےاسرائیل سے موصول ہونے والی فلسطینیوں کی 95 مسخ شدہ نامعلوم لاشوں کا معمہ: ’بعض کو جلایا گیا، کچھ کو ٹکڑے ٹکڑے کیا گیا‘’ڈیوڈ کوریڈور‘: کیا اسرائیل دروز اور کُرد آبادیوں کو متحد کرنے اور شام کو چار حصوں میں تقسیم کرنے کے مبینہ منصوبے پر عمل پیرا ہے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More