پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی کشیدگی کے بعد مذاکرات کا تیسرا دور آج ترکی کے شہر استنبول میں جاری ہے۔
کم از کم دو ذرائع نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ اس بار طالبان حکومت کے وفد کی سربراہی انٹیلیجنس سربراہ عبد الحق واثق کر رہے ہیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ پاکستانی وفد کی سربراہی انٹر سروسز انٹیلیجس (آئی ایس آئی) کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل عاصم ملک کر رہے ہیں، تاہم بی بی سی آزادانہ طور پر اس بات کی تصدیق نہیں کر سکا ہے۔
جنرل عاصم ملک سنہ 2024 سے پاکستان کی انٹیلیجنس ایجنسی کے سربراہ ہیں اور انھیں آرمی چیف کے بعد ملک کی دوسری سب سے با اثر شخصیت سمھجا جاتا ہے۔
گذشتہ ماہ مذاکرات کے پہلے دور میں دونوں ملکوں کے وفود قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ملے تھے جہاں جنگ بندی پر اتفاق ہوا تھا، جبکہ مذاکرات کا دوسرا دور استنبول میں ہوا تھا جس میں بات چیت جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا تھا۔
ترکی کے شہر استنبول میں ہونے والے مذاکرات کے دوسرے دور میں تین روزہ مذاکرات کو بعد میں چھ دن تک بڑھا دیا گیا اور اس کا اختتام گزشتہ ہفتے ہوا تھا۔
یاد رہے کہ یہ مذاکرات قطر اور ترکی کی ثالثی میں ہو رہے ہیں۔
ابھی تک یہ واضح نہیں کہ مذاکرات کے اس تیسرے دور میں دونوں فریق کسی فیصلہ کن نتیجے پر پہنچیں گے یا نہیں لیکن دونوں ملکوں کے انٹیلیجنس سربراہوں کی موجودگی نے ان مذاکرات کو مزید اہم بنا دیا ہے۔
اس تحریر میں ہم یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ افغان طالبان کے وفد میں موجود شخصیات کون ہیں؟
طالبان وفد کے سربراہ: عبدالحق واثق
استنبول میں مذاکرات کے تیسرے دور کے لیے طالبان کے وفد کی قیادت انٹیلیجنس چیف عبدالحق واثق کر رہے ہیں۔
عبدالحق واثق کے طالبان کے پہلے نائب وزیر اعظم ملا عبدالغنی برادر سے قریبی تعلقات ہیں، جس سے طالبان کے اندرونی حلقوں میں ان کے اثرورسوخ کی نشاندہی ہوتی ہے۔
عبدالحق واثق 2014 میں گوانتاناموبے سے رہائی کے بعد اور افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں واپسی سے قبل آٹھ سال تک دوحہ میں مقیم رہے۔انھوں نے دوحہ میں طالبان کی مذاکراتی ٹیم کے رکن کے طور پر اہم کردار ادا کیا اور وہ مذاکرات کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔
عبدالحق واثق ستمبر 2021 سے طالبان کے انٹیلیجنس چیف ہیں اور 1990 کی دہائی میں طالبان کے پہلے دور حکومت میں ڈپٹی انٹیلیجنس چیف کے طور پر بھی خدمات انجام دے چکے ہیں۔
الزامات، بداعتمادی اور آن لائن پروپیگنڈا: استنبول میں پاکستان اور افغانستان کے مذاکرات سے کیا توقعات ہیں؟پاکستان اور افغانستان کشیدگی: ’بے نتیجہ‘ مذاکرات کے بعد کیا معاملات ’کھلی جنگ‘ کی جانب بڑھ رہے ہیں؟ افغان طالبان کے پاس کون سے ہتھیار ہیں اور پاکستان کے ساتھ سرحدی جھڑپوں کے دوران انھوں نے کیسے اپنا دفاع کیا؟سکندر اعظم سے امریکی حملے تک: افغانستان ’سلطنتوں کا قبرستان‘ یا ’فتح کی شاہراہ‘؟رحمت اللہ نجیب
افغان طالبان کے وفد میں رحمت اللہ نجیب بھی شامل ہیں۔
وہ مئی 2024 سے طالبان کی وزارت داخلہ کے انتظامی امور کے نائب وزیر کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔
رحمت اللہ نجیب اس سے قبل ستمبر 2021 میں افغان طالبان کی انٹیلیجنس کے دوسرے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔
2001 میں طالبان حکومت کے خاتمے اور افغانستان میں امریکہ اور نیٹو افواج کی آمد کے بعد انھوں نے لوگر اور غزنی صوبوں میں طالبان گورنر کے طور پر خدمات انجام دیں۔
سہیل شاہین: قطر میں طالبان حکومت کے نمائندےGetty Imagesسہیل شاہین
سہیل شاہین قطر میں طالبان حکومت کے نمائندے اور اس سے قبل دوحہ میں اس گروپ کے سیاسی دفتر کے سربراہ تھے۔
سہیل شاہین کا شمار طالبان کی اہم ترین شخصیات میں ہوتا ہے۔ وہ انگریزی پر عبور رکھتے ہیں اور طالبان حکومت کی جانب سے غیر ملکی سفارت کاروں اور بین الاقوامی تنظیموں سے باقاعدگی سے ملاقاتیں کرتے ہیں۔
وہ امریکہ کے ساتھ مذاکرات کے لیے طالبان کی مذاکراتی ٹیم کے رکن تھے۔ انھوں نے طالبان کے پہلے دور حکومت کے دوران پاکستان میں افغان سفارت خانے میں نائب سفیر کے طور پر خدمات انجام دیں۔
انس حقانیGetty Imagesانس حقانی
انس حقانی طالبان حکومت کے موجودہ وزیر داخلہ سراج الدین حقانی کے سوتیلے بھائی ہیں اور دوحہ میں امریکہ سے مذاکرات کے دوران طالبان کی مذاکراتی ٹیم کے سب سے کم عمر رکن تھے۔
اگرچہ وہ طالبان حکومت میں کسی ایگزیکٹو (انتظامی) عہدے پر فائز نہیں لیکن بعض لوگوں کا خیال ہے کہ سراج الدین حقانی وفد میں اپنے بھائی کی موجودگی کے ذریعے پاکستانی کو مذاکرات کی حمایت کا پیغام بھیج رہے ہیں۔
گذشتہ چار سال کے دوران پاکستان نے زیادہ تر ان صوبوں کو نشانہ بنایا ہے جو سراج الدین حقانی کے قبیلے اور ساتھیوں کا اہم گڑھ سمجھے جاتے ہیں۔
اس لیے ان مذاکرات کی کامیابی سراج الدین حقانی کے لیے خاص معنی اور اہمیت رکھتی ہے۔
عبدالقہار بلخی
افغانستان میں طالبان کی وزارت خارجہ کے تعلقات عامہ کے افسر عبدالقہار بلخی بھی طالبان کے مذاکراتی وفد میں شامل ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ عبدالقہار بلخی انگریزی زبان سے واقفیت اور مضبوط دلائل دینے کی وجہ سے ایسی اہم ملاقاتوں میں شرکت کرتے ہیں۔
عبدالقہار بلخی طالبان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی کے حالیہ دورہ انڈیا میں بھی موجود تھے۔
طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد عبدالقہار بلخی حکومت کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ وہ وزارت خارجہ کے ترجمان اور کمیونیکیشن سربراہ کے طور پر بھی کام کرتے ہیں۔
ذاکر جلالی
ذاکر جلالی کو سنہ 2024 میں طالبان حکومت کی وزارت خارجہ کا دوسرا سیاسی سربراہ مقرر کیا گیا تھا۔
وزارت خارجہ کا پولیٹیکل ڈائریکٹوریٹ قطر اور سعودی عرب سمیت دیگر عرب ممالک سے متعلق امور کا ذمہ دار ہے۔
ذاکر جلالی نے بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد سے ’سیاست اور بین الاقوامی تعلقات‘ کے شعبے میں اعلیٰ تعلیم مکمل کی۔
وہ پشاور میں بھی کئی سال مقیم رہے اور اردو بولتے ہیں۔ اس سے قبل جلالی طالبان حکومت کی وزارت خارجہ میں سینٹر فار سٹریٹجک سٹڈیز کے سربراہ تھے۔
انھیں طالبان کی فکری اور سیاسی تحریکوں کا فعال رکن سمجھا جاتا ہے۔
الزامات، بداعتمادی اور آن لائن پروپیگنڈا: استنبول میں پاکستان اور افغانستان کے مذاکرات سے کیا توقعات ہیں؟افغان طالبان کے پاس کون سے ہتھیار ہیں اور پاکستان کے ساتھ سرحدی جھڑپوں کے دوران انھوں نے کیسے اپنا دفاع کیا؟سکندر اعظم سے امریکی حملے تک: افغانستان ’سلطنتوں کا قبرستان‘ یا ’فتح کی شاہراہ‘؟پاکستان اور افغانستان کشیدگی: ’بے نتیجہ‘ مذاکرات کے بعد کیا معاملات ’کھلی جنگ‘ کی جانب بڑھ رہے ہیں؟ استنبول مذاکرات ناکام: افغان طالبان ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی سے کیوں ہچکچاتے ہیں؟پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات میں شامل ترک انٹیلیجنس سربراہ ابراہیم قالن کون ہیں؟