ایلون مسک کو ’10 کھرب ڈالر‘ تنخواہ کے لیے کون سی کڑی شرائط پوری کرنی ہوں گی؟

بی بی سی اردو  |  Nov 07, 2025

Reuters

الیکٹرک کار بنانے والی کمپنی ٹیسلا نے اپنے شیئر ہولڈرز کی منظوری کے بعد ایلون مسک کے لیے ریکارڈ 10 کھرب ڈالر پے پیکج کی منظوری دی ہے۔

ٹیسلا کے 75 فیصد شیئر ہولڈرز نے جمعرات کو کمپنی کے سالانہ جنرل اجلاس کے دوران اس ڈیل کی منظوری دی جس کے بعد ہال تالیوں سے گونج اُٹھا۔

لیکن ایلون مسک کو اس پرکشش اور ریکارڈ پیکج کو حاصل کرنے کے لیے کمپنی کو منافع بخش بنانے کے ساتھ ساتھ آئندہ 10 برس کے دوران ٹیسلا کی مارکیٹ ویلیو کو کئی گنا بڑھانا ہو گا اور اس کے علاوہ مزید کئی اہداف حاصل کرنا ہوں گے۔

اگر ایلون مسک ایسا کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو اُنھیں کمپنی کے لاکھوں نئے شیئرز بھی دیے جائیں گے۔

بعض حلقے ایلون مسک کو دیے جانے والے پیکج پر تنقید بھی کر رہے ہیں۔ لیکن ٹیسلا بورڈ کے ارکان کا موقف ہے کہ اگر ایسا نہ کیا جاتا تو مسک کمپنی چھوڑ دیتے جس کے وہ متحمل نہیں ہو سکتے۔

ریکارڈ ساز پیکج کے اعلان کے موقع پر مسک امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر آسٹن میں ہونے والی تقریب کے دوران اسٹیج پر آئے اپنے نام کے نعروں کے ساتھ رقص کرتے رہے۔

اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے مسک کا کہنا تھا کہ ہم ٹیسلا کے مستقبل کے ایک نئے سفر کی جانب گامزن ہو رہے ہیں۔

مسک کو آئندہ سال کے دوران کیا کرنا ہو گا؟

ایلون مسک کو اس بھاری بھرکم پیکج کے حصول کے لیے اگلے 10 برس کے دوران کئی اہداف حاصل کرنا ہوں گے۔

ایلون مسک کو یہ ہدف بھی دیا گیا ہے کہ وہ اگلے 10 برس کے دوران ٹیسلا کی مارکیٹ ویلیو 1.4 ٹریلین ڈالر سے بڑھا کر 8.5 ٹریلین ڈالرز تک لے جائیں گے۔

اُنھیں یہ ہدف بھی دیا گیا ہے کہ اگلے 10 برس کے دوران 10 لاکھ بغیر ڈرائیور کے روبو ٹیکسیاں فروخت ہوں۔

لیکن جمعراتکو اُن کی گفتگو کا محور آپٹیمس روبوٹ تھے جس سے کچھ تجزیہ کاروں اور ٹیسلا پر نظر رکھنے والوں کی اُمیدوں پر پانی پھر گیا جو الیکٹرک گاڑیوں کے کاروبار کو بحال کرنے پر توجہ مرکوز کرنا چاہتے ہیں۔

ڈیپ واٹر ایسٹ مینجمنٹ کے منیجنگ پارٹنر اور تجزیہ کار جین منسٹر کہتے ہیں کہ ایلون مسک کی زیادہ دلچسپی آپٹیمس روبوٹ پر ہے۔ اُنھوں نے کاروں، روبو ٹیکسی کا زیادہ تذکرہ نہیں کیا۔

اُن کا کہنا تھا کہ بعد میں مسک نے فل سیلف ڈرائیونگ (ایف ایس ڈی) کا ذکر کیا جس میں اُن کا کہنا تھا کہ اس میں ڈرائیورز کو ڈرائیو کے ساتھ ساتھ ٹیکسٹ کرنے کی بھی اجازت ہے۔

جب ایپل کے سربراہ نے ایلون مسک سے ملاقات کرنے سے انکار کر دیاٹیسلا کے سائبر ٹرک میں ’مزید بہتری کی گنجائش‘’ٹیسلا کی سستی ترین الیکڑک کار آئندہ تین سال میں تیار ہو گی‘جیک ما بمقابلہ ایلون مسک یا انسان بمقابلہ کمپیوٹر

امریکی ریگولیٹرز متعدد واقعات کے بعد ٹیسلا کے سیلف ڈرائیونگ فیچر کی چھان بین کر رہے ہیں جن میں کاریں سرخ لائٹس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے یا سڑک کی غلط سائیڈ پر چلی تھیں جس کے نتیجے میں کچھ حادثات میں کچھ لوگ زخمی بھی ہوئے تھے۔

ٹیسلا کے حصص ٹریڈنگ کے بعد کے اوقات میں قدرے زیادہ تھے لیکن پچھلے چھ مہینوں میں 62 فیصد سے زیادہ بڑھے ہیں۔

رواں برس ٹیسلا گاڑیوں کی فروخت میں کمی آئی ہے۔ یہ ایسے وقت میں ہوا تھا جب ایلون مسک نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ اپنی قربتیں بڑھا لی تھیں۔ تاہم رواں موسم بہار میں یہ تعلق ٹوٹ گیا تھا۔

ٹیسلا کے شیئر ہولڈر راس گیربر نے بی بی سی نیوز کو بتایا کہ مسک کی تنخواہ کا معاہدہ ’ان ناقابل یقین چیزوں میں ایک اور نشان ہے جو آپ کاروبار میں دیکھتے ہیں۔‘

سرمایہ کاری فرم گاربر کواسکی کے چیف ایگزیکٹو گیربر کہتے ہیں کہ مسک نے ٹیسلا کے لیے اپنے اہداف واضح کر دیے ہیں لیکن کمپنی کو بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے جس میں اس کی مالی کارکردگی بھی شامل ہے۔

Reuters

مسک کے پاس پہلے ہی ٹیسلا کے 13 فیصد شیئرز ہیں۔ ٹیسلا کے شیئر ہولڈز اس سے قبل بھی اربوں ڈالر کے پے پیکج کی مشروط منظوری دے چکے ہیں جس میں مسک کو یہ ہدف دیا گیا تھا کہ وہ کمپنی کی مارکیٹ ویلیو میں 10 گنا اضافہ کریں گے اور مسک نے ایسا ہی کیا۔

لیکن ڈیلاویئر کے جج نے اس پیکج ڈیل کو یہ کہہ کر رد کر دیا تھا کہ اس کی منظوری دینے والے بورڈ ممبرز مسک کے بہت قریب ہیں۔

عدالتی فیصلے کے بعد ٹیسلا نے اپنے دفاتر ڈیلاویئر سے ٹیکساس منتقل کر دیے تھا۔ لیکن ڈیلاویئر کی سپریم کورٹ ماتحت عدلیہ کے جج کے فیصلے پر نظرثانی اپیل کی سماعت کر رہی ہے۔

مسک کے نئے پے پیکج کو کئی سرمایہ کار کمپنیوں نے بھی مسترد کر دیا تھا جس میں ناروے کے سورین ویلتھ فنڈ اور کیلی فورنیا کے پبلک ایمپلائیز ریٹائرمنٹ سسٹم بھی شامل ہیں۔

مسک اور اُن کے بھائی کمبل کو ٹیسلا بورڈ کی جمعرات کو ہونے والی میٹنگ میں ووٹ کا حق استعمال کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔

کمپنی سربراہان کی بھاری تنخواہوں کی وجہ کیا ہے؟

کمپنی سربراہان کی بھاری تنخواہوں کے بارے میں اگر بغور دیکھا جائے تو پتا چلتا ہے کہ ان کی جڑیں ان پالیسیوں سے جا ملتی ہیں جو کہ 1980 میں امریکہ میں صدر رونلڈ ریگن اور برطانیہ میں وزیر اعظم مارگریٹ تھیچر کے دور میں نافذ کی گئی تھیں۔

ان دونوں سربراہان کا فلسفہِ حکومت تھا کہ ڈی ریگیولیشن اور نجکاری پر زور دیا جائے اور فری مارکیٹ سرمایہ دارانہ نظام کو پروان چڑھایا جائے۔ دونوں رہنما ہی مزدوں یونینز کے مخالف تھے اور اسی سوچ کی وجہ سے بڑی کمپنیوں میں ان کے ملازمین کے حقوق کے بارے میں آوازیں اٹھنا ختم، یا کم ہو گئیں۔

لندن سکول آف اکنامکس سے منسلک سینڈی پیپر کہتے ہیں کہ اگر آپ اس دور کے اوائل کا جائزہ لیں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ کمپنی کے سربراہان کی کارکردگی کو جانچنے کا معیار ان کے ملازمین کے ساتھ ہی جڑا ہوا تھا اور سب کی تنخواہ کے بارے میں جائزہ ایک طریقے سے لیا جاتا ہے۔

سینڈی پیپر، جنھوں نے حال میں ہی ایک مقالہ تحریر کیا ہے جس میں انھوں نے سربراہان اور ملازمین کی تنخواہوں میں بڑھنے والے فرق کی وجوہات پر تحقیق کی ہے، کہتے ہیں کہ پرانا نظام اس وقت بکھر گیا جب ان افسران کی تنخواہیں کمپنی کے حصص کی کارکردگی سے منسلک کر دی گئی اور انھی پالیسیوں کے تحت افسران کو تنخواہیں ملنا شروع ہو گئیں۔

سینڈی پیپر کا مقالہ یہ واضح کرتا ہے کہ سنہ 2000 کے بعد سے ملازمین کی تنخواہوں میں سالانہ تین فیصد جبکہ سی ای اوز کی تنخواہ میں سالانہ دس فیصد اضافہ ہوتا چلا آیا ہے۔

سینڈی پیپر کہتے ہیں کہ اس فیصلے کی وجہ یہ تھی کہ کیونکہ کسی بھی کمپنی کی مالی کارکردگی کی وجہ اس کے سربراہ کی کارکردگی کی عکاسی کرتی ہے اور اسی وجہ سے ان کو ملنے والی تنخواہ کے علاوہ انھیں کارکردگی سے منسلک بونسز اور حصص خریدنے کا آپشن بھی ملنا شروع ہو گیا۔

اس کی مثال کے لیے اگر اوکاڈو کے سربراہ ٹم سٹیئنر کی تنخواہ دیکھیں، تو 2019 میں انھیں ملنے والی تنخواہ میں پانچ کروڑ پاؤنڈز سے زیادہ بونس دیے گئے جس کی وجہ تھی کہ انھوں نے کمپنی کی ترقی کے منصوبے کے مطابق کارکردگی دکھائی تھی۔ ٹم سٹیئنر نے اس مضمون کے لیے تبصرہ دینے سے انکار کیا۔

لیکن حقیقت اتنی سادہ نہیں ہے۔

سی ای اوز کو دی جانے والی تنخواہ کا فیصلہ کرنے کے لیے تنخواہ دینے والی کمیٹی کرتی ہے جس میں کمپنی کے بورڈ ممبران اور کمپنی کے دیگر اعلی افسر شامل ہوتے ہیں اور وہ سال میں ایک بار ملتے ہیں۔

یہ کمیٹی ماضی کی کارکردگی اور تجربے کے علاوہ یہ فیصلہ کرتی ہے کہ دیگر کمپنیوں کے مقابلے میں کیسی تنخوہیں دینی چاہیے۔

سنہ 2010 میں جریدے جرنل آف فنانشل اکنامکس میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ تنخواہ دینے والی کمیٹی کے نظام کی وجہ سے تنخواہوں میں تیزی سے اضافہ ہوتا جا رہا ہے کیونکہ ایسی کمپنیاں اپنے ہی باسز کی تنخواہوں میں اضافے کی حامی بھر لیتی ہیں۔

ٹیسلا: وہ چار وجوہات جو الیکٹرک گاڑیاں تیار کرنے والی کمپنی کو درپیش بحران کا سبب ہیں دنیا کے امیر ترین شخص کی کامیابی کے چھ رازایلون مسک کو پیچھے چھوڑنے والے دنیا کے امیر ترین شخص برنارڈ آرنلٹ کون ہیں؟الیکٹرک گاڑیوں کی دوڑ میں ٹیسلا سمیت یورپی کمپنیوں کو پچھاڑنے والی چینی کمپنی کی کامیابی کا راز کیا ہے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More