Getty Images
'وہ تو شکل سے ہی دھوکے باز لگتا ہے۔۔۔' یہ جملہ شاید آپ نے بھی کئی بار سنا یا کسی کے لیے کہا ہوگا۔ لیکن کیا آپ کسی کے چہرے سے اس کے سچے یا جھوٹے ہونے کا پتا لگا سکتے ہیں؟
ماہرین کی مانیں تو کوئی بھی جھوٹے فرد کی شناخت نہیں کر سکتا۔ کم از کم اگر آپ ایسا کرتے بھی ہیں تو شاید اس کی کسی غلطی یا کسی وجہ کے ذریعے، نہ کہ اس ’گٹ فیلنگ‘ یا محض اندازے پر جسے ہم بہت اہمیت دیتے ہیں۔
ایسا ہے کچھ کہنا ہے 170 کے آئی کیو والے سر سٹیفن فرائی کا جنھیں ’دی سلیبرٹی ٹریٹر‘ نامی شو سے بے دخل کیا گیا۔
شو کو دیکھ کر یہ نظریہ یقینی طور پر سچ ثابت ہوتا نظر آتا ہے۔گیم شو میں 16 نام نہاد 'وفادار' مقابلہ کرنے والوں کے لیے ان کے درمیان تین جھوٹ بولنے والے 'غداروں' میں سے پہلے کی شناخت کرنے کے لیے پوری سات اقساط لگیں۔
اگرچہ سر سٹیفن کا نظریہ روایتی حکمت سے متصادم ہے۔ صدیوں سے لوگوں کو واقعی یقین تھا کہ وہ چہرے پڑھ سکتے ہیں۔ یہ ایک قدیم عمل ہے جسے فزیوگنومی کہا جاتا ہے۔
یہ 19ویں صدی میں مجرموں کی شناخت کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔ وہ خصوصیات جو بظاہر ’کم مہذب‘ انسانوں سے وابستہ ہیں، جیسے بڑے جبڑے اور گال کی ہڈیاں، غیر متناسب خصوصیات، نمایاں بھنویں یا بڑی ناک۔
یہ سب یقیناً سراسر بکواس ہے۔ یہ سب کچھ معاشرتی اور نسلی تعصب کی وجہ سے تھا اور اس کا سائنس سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔
پھر بھی کچھ جدید مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ ہم سطحی ہو کر، پرکشش ہونے کی بنیاد پر لوگوں پر اعتماد کرنے، ان کے چہرے کی ہم آہنگی اور ان کے چہرے کے تاثرات کی بنیاد پر تعصب کا شکار رہتے ہیں۔
سائنسدانوں کا استدلال ہے کہ یہ سب کچھ لوگوں کے لیے ایک چہرے کو زیادہ قابل اعتماد بنا سکتا ہے، حالانکہ حقیقت میں وہ شخص اتنا ہی بے ایمان ہو سکتا ہے۔
دی ہالو ایفیکٹBBCایسا ہے کچھ کہناہے 170کے آئی کیو والے سر سٹیفن فرائی کا جنھیں 'دی سلیبرٹی ٹریٹر' سے بے دخل کیا گیا۔
ہم اکثر سطحی خصوصیات پر بہت دھیان دیتے ہیں۔ سنہ 2000 میں شائع ہونے والی ایک تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ پرکشش لوگوں کو زیادہ مثبت سمجھا جاتا ہے، یعنی زیادہ ذہین، قابل اور قابل اعتماد فرد کے طور پر۔
کوونٹری یونیورسٹی میں ماہر نفسیات اور لیکچرر راچیل مولیٹر کا کہنا ہے کہ ’جو خوبصورت ہے، وہ اچھا ہے۔ یہ مفروضہ ہے۔‘
’اگر آپ کسی کو دیکھتے ہیں اور آپ کو وہ پرکشش لگتا ہے تو ، آپ ان تمام مثبت خوبیاں اس سے وابستہ کر لیتے ہیں۔ حالانکہ یقیناً کسی کے پرکشش یا خوبصورت سمجھے جانے کا تصور پوری دنیا میں اورکئی دہائیوں میں مختلف رہا ہے۔‘
لیکن 2015 میں شائع ہونے والی ایک اور تحقیق میں پتا چلا کہ ’جیسے جیسے چہرہ زیادہ عام یا اوسط ہو جاتا ہے، یہ زیادہ پرکشش اور زیادہ قابل اعتماد ہو جاتا ہے۔‘
اس سے پتہ چلتا ہے کہ کشش کی ایک خاص ہالو سطح (جہاں خامیاں خوبی کے پیچھے چھپ جاتی ہیں ) ہو سکتی ہے جو قابل اعتماد ہونے کے تاثرات کا باعث بنتی ہے۔ اور اگر یہ ’کشش‘ ایک حد سے تجاوز کر جائے تو لوگوں کو کم قابل اعتماد سمجھا جانا شروع ہوجاتا ہے۔
دوسروں کے بارے میں ہمارے ’اعتماد کا اظہار‘ خود کار طریقے سے، لاشعوری ردعمل ہوتا ہے جو ایک ایسے چہرے سے بھی متحرک ہوسکتا ہے جو خوش اور دوستانہ نظر آتا ہے۔
اس کا مظاہرہ 2008 میں پرنسٹن یونیورسٹی کے ماہرین تعلیم کی سربراہی میں تجربات کی ایک سیریز میں کیا گیا تھا، جس میں شرکا نے خوشی یا مسکراتے ہوئے تاثرات کے ساتھ چہروں کو مستقل طور پر غصے، اداس، یا غیر جانبدار تاثرات والے چہروں کے مقابلے میں نمایاں طور پر زیادہ قابل بھروسہ قرار دیا۔
فرانسیسی رضاکاروں کے مابین 2015کے ایک مطالعے میں یہ بھی پایا گیا ہے کہ حقیقی سمجھی جانے والی مسکراہٹ بھروسہ حاصل کرنے میں زیادہ مضبوط کردار ادا کرتی ہیں اور یہاں تک کہ زیادہ اجرت والے مواقعوں کے حصول میں بھی۔
ڈاکٹر مولیٹر کا کہنا ہے کہ اس کے متضاد امر میں دھوپ کے چشمے، ماسک، یا یہاں تک کہ چہرے پر آئے سر کے بال بھی چہرے کی خصوصیات کو دھندلا کر آپ پر دوسروں کے اعتماد کو کم کرسکتا ہے۔
وہ ملازمتیں جہاں جھوٹ بولنا فائدہ مند ہو سکتا ہے!کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ سامنے والا جھوٹ بول رہا ہے؟جھوٹ پکڑنے کے وہ طریقے جو ’باڈی لینگویج کا جائزہ‘ لینے سے زیادہ کارگر ثابت ہو سکتے ہیںجھوٹ پکڑنے والی ٹیکنالوجی کس حد تک قابل اعتبار ہے؟میرا چہرہ کتنا قابلِ بھروسہ ہے؟
تو ممکنہ طور پر اپنے کیریئر کے لیے خطرہ بننے والے قدم کے طور پر میں نے محققین سے پوچھا کہ میرا چہرہ کتنا قابلِ بھروسہ ہے۔
انھوں نے سب سے پہلے میرے چہرے کی خصوصیات میں ہم آہنگی کی تحقیقات کیں۔
کنگز کالج لندن میں نفسیات اور جرائم کی لیکچرر میرسیا زلوٹینو کی وضاحت کرتی ہے کہ ہم آہنگی خوبصورتی کے برابر ہے، جو قابل اعتماد ہونے کے مترادف ہے۔ لیکن یہ پھر وہی ایک ہالو ایفیکٹ ہے۔
ڈاکٹر زلوٹینو کا کہنا ہے کہ ’تمام انسانوں میں دو طرفہ چہرے کی عدم مساوات کی ایک چھوٹی سی ڈگری کی توقع کی جاتی ہے۔ لہٰذا، چہرے کی کچھ ہم آہنگی یا توازن خوبصورتی سے متعلق ہوسکتی ہے لیکن بہت زیادہ ہم آہنگی نہیں یا یہ غیر فطری نظر آنے لگتی ہے۔‘
یہی وجہ ہے کہ بہت زیادہ متناسب چہرے، جیسے ڈیجیٹل اوتار، روبوٹک یا مصنوعی طور پر بنائے گئے چہرے، بہت عجیب لگ سکتے ہیں۔
یہ ظاہر کرنے کے لیے کس طرح میرا چہرہ زیادہ قابل اعتماد بن سکتا ہے اس میں مختلف ترامیم کی گئیں۔
یونیورسٹی آف پلائیماؤتھ میں نفسیات کی لیکچرر میلا ملیوا نے اس میں مدد کی۔ میرے چہرے کی تصویر میں رد و بدل کر کے تب تک ایڈجسٹ کیا گیا جب تک میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ نہیں آ گئی۔
کچھ مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ خواتین کی آوازیں، چہرے اور نام مردوں کے مقابلے میں زیادہ قابل اعتماد سمجھے جاتے ہیں۔ دوسرے مطالعات سے یہ بھی اشارہ ملا ہے کہ جیسے جیسے چہرے کی نسوانیت بڑھتی ہے اسی طرح قابل اعتماد ہونے کا تصور بھی بڑھتا ہے۔ لہٰذا ڈاکٹر ملیوا نے میری خصوصیات کو دوبارہ زندہ کیا تاکہ وہ زیادہ نسائی نظر آئیں۔
اس کے بعد انھوں نے ایک مختصر آن لائن سروے میں سکور کرنے کے لیے 26رضاکاروں کو میرے چہرے کے مختلف ورژن دیے۔
تصاویر کو 35 دیگر تصاویر کے ایک سیٹ کے اندر رکھا گیا تھا اور ایک (بالکل قابل اعتماد نہیں) سے نو (انتہائی قابل اعتماد) تک پیمانے پر قابل بھروسہ ہونے کی درجہ بندی کی گئی تھی۔
اگرچہ یہ کوئی سرکاری سائنسی یا علمی جائزہ نہیں تھا لیکن نتائج توقع کے مطابق تھے۔ یقینی طور پر رضاکاروں کی اکثریت کی طرف سے کم عمر ، خوش، نسائی ورژن پر زیادہ اعتمادظاہر کیا گیا۔
نتیجہ یہ نکلا کہ اگر میں چاہتا ہوں کہ لوگ مستقبل میں میری سائنس کی رپورٹوں پر اعتماد کریں تو میں تھوڑا سا مسکرا سکتا ہوں۔
BBCریوڑ کی ذہنیت اور جھوٹی گروہی سوچ
لیکن جب غداروں کی بات آتی ہے تو گروپ کی حرکیات کی وجہ سے کس پر یقین کرنا ہے اس کے بارے میں سوالات زیادہ پیچیدہ اور پرتوں پر مبنی ہوجاتے ہیں۔
ڈاکٹر مولیٹر 'دھوکہ دہی' کی ماہرہیں۔
وہ ٹریٹر کی ایک بہت بڑی پرستار بھی ہیں اور اس کے بارے میں اس کا اپنا نظریہ ہے کہ اس سال کے مقابلہ کرنے والوں کو جھوٹے کی شناخت کرنے میں اتنا وقت کیوں لگا۔
ان کا استدلال ہے کہ یہ گروپ تھنکہے جسے مطابقتتی تعصب بھی کہا جاتا ہے اس کے نتیجے میں ناقص فیصلہ سازی ہوتی ہے۔
'ریوڑ کی ذہنیت لوگوں کو اجتماعی غلطی کی طرف کھینچتی ہے، یہاں تک کہ جب دھوکہ دہی کے ثبوت باریک یا مبہم ہوں۔'
وہ یہ بھی کہتی ہیں کہ ذہن اُن شواہد کو نظرانداز کر دیتا ہے جو ابتدائی اور اکثر غلط اجتماعی سوچ کے تصور کی تائید نہیں کرتے۔
جس رفتار سے لوگ اس بات کا تاثر قائم کرتے ہیں کہ کوئی کتنا قابل اعتماد ہے وہ بھی اس مسئلے کا حصہ بن سکتا ہے اور کسی شخص کی وشوسنییتا کو غلط سمجھنے کا باعث بن سکتا ہے۔
ڈاکٹر ملیوا نے وضاحت کی ہے کہ قابلِ اعتماد ہونے کا اندازہ لگانے کی ہماری صلاحیت انسانی ارتقا کے بہت اوائل میں تیار ہوئی تھی، ہمارے آباؤ اجداد کو ایک سیکنڈ میں یہ بتانا ہوتا تھا کہ کوئی دوست ہے یا دشمن۔
'یہ ایک انتہائی تیز عمل ہے۔ قابلِ بھروسہ ہونے کا ایک بہت ہی مستحکم تاثر بنانے میں ہمیں ایک سیکنڈ کا دسواں حصہ لگتا ہے۔'
بری خبر یہ ہے کہ اس کی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ اگرچہ ہمارے اعتماد کے کا ردِ عمل تیز ہوتا ہے لیکن وہ خوفناک بھی ہیں۔
BBCپلب گھوش نے محققین سے کہا کہ وہ جاننا چاہتے ہیں کہ ان کا چہرہ کتنا قابلِ اعتبار ہے ہم جھوٹے لوگوں کو تلاش کرنے میں کیوں ناکام ہوتے ہیں؟
جھوٹ کا پتا لگانے اور دھوکہ دہی کے معاشرتی کردار کے لیے سائنسی طریقوں کی ماہر مرسیا زلوٹینو اس بات سے اتفاق کرتے ہیں۔
انھوں نے دو چیزیں دریافت کی ہیں۔ پہلی یہ کہ ہم سوچتے ہیں کہ ہم ان لوگوں کی نشاندہی کرنے میں واقعی اچھے ہیں جن پر ہم اعتماد کرسکتے ہیں اور ایسے بھی جو جھوٹ بولتے ہیں۔ اور دوسرا، ہم اس میں اچھے نہیں ہیں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’ہم سب سوچتے ہیں کہ ہم جھوٹ کو تلاش کر سکتے ہیں کیونکہ جو نشانیاں دیکھنے ہیں ان میں پسینہ آنا، دور دیکھنا، شرمندہ ہونا، چڑچڑا ہونا، یا دیگر جسمانی اشارے شامل ہیں۔ لیکن سچ یہ ہے کہ یہ اشارے ناقابل یقین حد تک سیاق و سباق پر منحصر ہیں اور دھوکہ دہی کے قابل اعتماد اشارے نہیں ہیں۔‘
وہ مزید بتاتے ہیں کہ ’کسی کو بھی پسینہ آ سکتا ہے یا وہ صرف اس لیے یہاں وہاں دیکھ رہا ہے کہ وہ گھبراہٹ کا شکار ہے، شرمیلا یا پریشان ہے،اس وجہ سے نہیں کہ وہ جھوٹ بول رہے ہیں۔ اکثر ہم ان اشاروں کی غلط تشریح کرتے ہیں کیونکہ ہم ہمارے خیال میں ان کا مطلب بددیانتی ہے، جب حقیقت میں وہ کسی خاص صورتحال میں تکلیف یا جذباتیت کی علامات ہیں۔‘
تجربات کی ایک سیریز میں رضاکاروں نے ویڈیوز دیکھیں یا شرکا کے ساتھ بات چیت سنی جو یا تو جھوٹ بول رہے تھے یا سچ بول رہے تھے۔ مبصرین نے جھوٹ کو تلاش کرنے کی کوشش کرنے کے لیے پسینہ آنا ، دور دیکھنا ، یا شرمندہ ہونے جیسے عام اشاروں کا استعمال کیا۔
ڈاکٹر زلوٹینو اور ان کی ٹیم نے پایا کہ رضاکار فرق نہیں بتا سکتے تھے اور وہ مختلف قسم کے جھوٹ کو تلاش کرنے میں بہتر نہیں تھے، جیسے جعلی جذبات یا من گھڑت کہانیاں۔
جب زیادہ لوگ شامل تھے تو درستی میں مزید کمی واقع ہوئی، گروپ تھنک کے ساتھ ایک بار پھر غلط جواب کی تصدیق کی گئی۔
اعتماد نے بھی مدد نہیں کی۔ جن لوگوں کو یقین تھا کہ وہ صحیح تھے وہ نہیں تھے۔
ڈاکٹر زلوٹینو نے مجھے بتایا کہ ’جب آپ سائنسی ادب کو دیکھتے ہیں اور جب آپ ہمارے اپنے نتائج کو دیکھتے ہیں، جو اس کے برعکس ہیں، تو آپ کو معلوم ہوتا ہے لوگ جس شرح سے جھوٹ پتہ لگاتے ہیں وہ محض اتفاق ہے۔‘
’لہذا یہ بنیادی طور پر ایک سکّہ اچھالنے جیسا ہے۔‘
BBCڈاکٹر ملیوا نے پلب گھوش کے ہیڈ شاٹ میں ہم آہنگی کی کھوج کی (یہ تصاویر وہ نہیں ہیں جو رضاکاروں کو دکھائی گئی ہیں)جھوٹ بولنے میں مہارت
شاید یہی وجہ ہے کہ ٹریٹر یا دھوکے باز اس سیریز میں اتنے عرصے تک کیوں بچے رہے۔
ماہرین کے اپنے اپنے خیالات ہیں کہ کس طرح مقابلہ کرنے والوں کی انفرادی خصوصیات نے بھی کردار ادا کیا۔
تو کیا سلیبریٹیز ٹریٹرز کا سبق صرف یہ ہے کہ ہم ان لوگوں کے ہاتھوں بیوقوف بنتے رہیں گے جن پر ہم اعتماد کرتے ہیں؟
ڈاکٹر زلوٹینو کا استدلال ہے کہ اگر ایسا ہے تو ضروری نہیں کہ یہ بُری چیز ہو۔
سائنسی طور پر بات کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ’جھوٹ بولنا طویل عرصے سے برا عمل سمجھا جاتا رہا ہے جبکہ حقیقت میں دوسروں کے ہاتھوں بیوقوف بننے اور بیوقوف بنانے کی صلاحیت نقصان سے زیادہ لوگوں کو معاشرتی طور پر زیادہ فوائد دیتی ہے۔‘
’آپ اپنے دوستوں سے دنیاوی چیزوں کے بارے میں جھوٹ بولتے ہیں، آپ انھیں بتاتے ہیں کہ وہ اچھے لگتے ہیں، یہ کہ سب کچھ ٹھیک ہونے والا ہے، یا یہ کہ انھیں کیک کا دوسرا ٹکڑا کھانے کے لیے زیادہ فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘
وہ مزید کہنتے ہیں کہ ’یہ سب چیزیں اخلاقی طور پر قابل مذمت نہیں ہیں۔ وہ تعلقات استوار کرنے، ہم آہنگی کو برقرار رکھنے اور دوسروں کو بہتر محسوس کراوانے کے لیے ہیں۔‘
یہ کم از کم اس قسم کے معاملات میں جوڑے رکھنے کے لیے ایک قسم کی ’سماجی گوند‘ ہے۔
جہاں تک کوئی سچا ہے یا نہیں، ٹریٹرز اور ہم میں سے باقی لوگوں کے لیے تنقیدی بصیرت یہ ہے کہ ان تعصبات سے آگاہ ہونا، ابتدائی تاثرات پر سوال اٹھانا، اور جہاں ممکن ہو گٹ فیلنگز یعنی اندازوں پر کم توجہ دینا۔
لہٰذا کم از کم اس معاملے میں سر سٹیفن فرائی کا کہنا درست ہے۔
وہ ملازمتیں جہاں جھوٹ بولنا فائدہ مند ہو سکتا ہے!کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ سامنے والا جھوٹ بول رہا ہے؟جھوٹ پکڑنے کے وہ طریقے جو ’باڈی لینگویج کا جائزہ‘ لینے سے زیادہ کارگر ثابت ہو سکتے ہیںجھوٹ پکڑنے والی ٹیکنالوجی کس حد تک قابل اعتبار ہے؟جھوٹ پکڑنے والے ٹیسٹ کی سچائی کیا ہے؟