کراچی میں پیٹرول پمپوں پر حملے کا دھوکہ، ’ٹارگٹ کلرز‘ اور ’ایف بی آئی سے جھوٹ‘: امریکہ میں آٹھ سال قید کی سزا پانے والی کہکشاں حیدر کون ہیں؟

بی بی سی اردو  |  Nov 18, 2025

Anadolu via Getty Images

امریکہ کی ایک عدالت نے کہکشاں حیدر نامی ایک خاتون کو دہشت گردی سے متعلق جھوٹے بیانات دینے کے الزام میں 8 سال قید کی سزا سنائی ہے جن کے بارے میں سرکاری دستاویزات میں کہا گیا ہے کہ وہ پاکستان میں دہشت گردوں کی کارروائیوں کے لیے پیسے بھجوا رہی تھیں۔

تقریبا چار سال قبل ان ہی خاتون کا نام لے کر صوبہ سندھ کے محکمہ انسدادِ دہشتگردی (سی ٹی ڈی) اور سندھ رینجرز نے دعویٰ کیا تھا کہ کراچی میں ’ٹارگٹ کلرز کی ٹیمیں فعال ہوگئی ہیں جنھیں امریکہ میں مقیم کہکشاں حیدر نامی ایک خاتون مبینہ طور پر احکامات دیتی رہی ہیں۔‘

لیکن کہکشاں حیدر کون ہیں اور انھیں امریکہ میں سزا کیوں ہوئی؟ اور ان کے خلاف پاکستان میں کیا الزامات لگے تھے؟

اس سے پہلے جانتے ہیں کہ امریکہ میں ٹیکساس کے اٹارنی نے مقدمے کے بارے میں کیا بتایا ہے۔

امریکی ریاست ٹیکساس کے مشرقی ضلعے کی عدالت میں پیش کی گئی معلومات کے مطابق، 23 فروری 2023 کو ایف بی آئی کے سپیشل ایجنٹس نے 54 سالہ کہکشاں حیدر خان سے پاکستان کے شہر کراچی میں دو پیٹرول پمپوں پر آتش گیر حملوں کے منصوبے میں ملوث ہونے کے متعلق پوچھ گچھ کی تھی۔

امریکی محکمہ انصاف کی جانب سے 14 نومبر کو جاری کیے گئے اعلامیے کے مطابق، ’کہکشاں خان امریکی شہری ہیں اور پاکستان سے آئی ہوئی تارک وطن ہیں۔‘

بیان میں کہا گیا ہے کہ وہ ’پاکستان کی ایک علیحدگی پسند تحریک مہاجر قومی موومنٹکی رکن ہیں جو پاکستان میں مہاجر برادری کے ساتھ حکومت کے سلوک پر تحفظات رکھتی ہے۔‘

محکمہ انصاف کے مطابق، ’کہکشاں پر پاکستان میں دہشت گردانہ کارروائیوں کے لیے چندہ جمع کرنے، اس رقم کو پاکستان منتقل کرنے اور پرتشدد کارروائیوں کے انتظام و اخراجات میں مدد فراہم کرنے کا کردار ادا کرنے کا الزام ہے۔‘

بیان میں کہا گیا ہے کہ جنوری 2023 میں کہکشاں حیدر نے پاکستان میں ایک شخص کو کراچی کے دو پیٹرول پمپوں پر آتش گیر مواد سے حملے کرنے کے لیے بھرتی کیا جن کے مالکان پنجابی تھی۔

بیان کے مطابق، کہکشاں حیدر نے اپنے ساتھی سے ہدف کے مقامات کا انتخاب، حملے میں استعمال ہونے والے آتش گیر مادہ، حملوں سے قبل چھپنے کی جگہیں، حملے کے بعد فرار کا طریقہ اور حملہ آوروں کے لیے دو ہتھیاروں کی خریداری کے انتظام کے متعلق بات چیت کی تاکہ کارروائی کی کامیابی کو یقینی بنایا جا سکے۔

امریکی محکمہ انصاف کا کہنا ہے کہ اس مقصد کے لیے کہکشاں حیدر نے ’امریکہ میں ایم کیو ایمکے ہمدردوں سے پیسے جمع کیے اور وہ رقم پاکستان بھجوا دی تاکہ حملوں کی ادائیگی کی جا سکے۔‘

اٹارنی کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ 20فروری 2023 کو ’پاکستان میں موجود کہکشاں حیدر کے ساتھی نے انھیں کچھ خبروں کی تصاویر بھیجیں جن میں کراچی کے ایک پیٹرول پمپ پر آتش گیر حملے کے نتیجے میں چھ افراد کے جھلس جانے کی ذکر تھا۔ کہکشاں نے اس خبر کا جشن منایا اور اپنے ساتھی سے کہا کہ انھیں اس کام کے لیے بڑا انعام ملے گا۔‘

اعلامیے میں مزید بتایا گیا ہے کہ ’باقی دن کہکشاں حیدر نے انٹرنیٹ پر اس حملے سے متعلق مزید خبریں تلاش کرتے گزارا تاہم انھیں اس متعلق کچھ نہ ملا۔‘

’تقریباً ایک دن تلاش کے بعد انھیں پتہ چلا کہ جو تصاویر انھیں بھیجی گئی تھیں وہ دراصل اکتوبر 2022 کے ایک واقعے کی تھیں۔ اس پر وہ شدید ناراض ہوئیں اور اپنے ساتھی پر دھوکہ دہی کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ وہ ایم کیو ایمکے نام پر دھبہ ہیں۔‘

یاد رہے کہ 2021 میں جب سی ٹی ڈی کے مطابق کہکشاں حیدر کے خلاف پاکستان میں ٹیرر فنانسنگ کا مقدمہ درج کیا گیا تو ایم کیو ایم لندن کا کہنا تھا کہ وہ پارٹی کا حصہ نہیں ہیں۔ تاہم حالیہ امریکی دستاویزات میں انھیں ایم کیو ایم کا حصہ بتایا گیا ہے۔

ایم کیو ایم رہنما جن کے قتل کے لیے آٹھ لاکھ کی سپاری دی گئیابراہیم بھولو: کراچی انڈر ورلڈ کا وہ ’قصاب‘ جس کا نیٹ ورک افریقہ اور مشرق وسطی تک پھیلاالطاف حسین اور ایم کیو ایم: ’فوج مجھے واپسی کی دعوت دے‘الطاف حسین کیس ہار گئے، لندن میں لاکھوں پاؤنڈ کی جائیدادیں ایم کیو ایم پاکستان کی ملکیت قرار

23فروری 2024 کو ایف بی آئی کے سپیشل ایجنٹس نے کہکشاں سے ان واقعات کے متعلق ان سے پوچھ گچھ کی لیکن اس دوران کہکشاں نے کئی جھوٹے بیانات دیے اور حملوں میں اپنی شمولیت سے انکار کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ کسی بھی ایسے عمل میں شریک نہیں جو پاکستان میں کسی بھی فرد کی ہلاکت یا نقصان کا سبب بنے۔ تاہم، فروری 2025 میں مقدمے کی سماعت دوران انھوں نے تسلیم کیا کہ یہ سب بیانات جھوٹ تھے اور انھیں معلوم تھا کہ یہ بیانات دہشت گردی کی تحقیقات میں اہمیت رکھتے ہیں۔

قائم مقام امریکی اٹارنی جے آر کامبز کا کہنا ہے کہ ’ہم امریکہ کو بیرون ملک دہشت گرد حملوں کے لیے ایک لانچنگ پیڈ کے طور پر استعمال ہونے کی اجازت نہیں دیں گے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ایسے افراد جو اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ وہ امریکہ میں پناہ لے کر کہیں اور جرائم کی منصوبہ بندی کر سکتے ہیں، ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔‘

امریکہ کے تحقیقاتی ادارے ایف بی آئی کے ڈیلاس کے سپیشل ایجنٹ انچارج آر جوزف روتھروک کا کہنا ہے کہ ان کا ادارہ دہشت گردی کی حمایت میں پرتشدد کی کارروائیوں کی منصوبہ بندی کرنے یا اس میں حصہ لینے والے افراد کی جارحانہ تفتیش جاری رکھے گا۔

امریکی عدالت کی جانب سے کہکشاں کو سزا ملنے پر ایم کیو ایم لندن کا موقف جاننے کی کوشش کی گئی تاہم ان کا کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا۔

یاد رہے کہ چند سال قبل کراچی میں کہکشاں حیدر پر دہشتگردی کی مالی معاونت کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ 2021 میں ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے اس وقت کے ڈی آئی جی سی ٹی ڈی عمر شاہد حامد نے دعویٰ کیا تھا 2017 میں تین ٹارگٹ کلرز کو گرفتار ہوئے تھے جنھوں نے اعتراف کیا تھا کہ انھیں مبینہ طور پر کہکشاں حیدر نے واٹس ایپ پر وارداتوں کا حکم دیا تھا جس کے بعد کہکشاں حیدر پر ٹیرر فنانسنگ کا مقدمہ درج کیا گیا۔

AFP via Getty Imagesامریکی عدالت کی جانب سے کہکشاں کو سزا ملنے پر ایم کیو ایم لندن کا موقف جاننے کی کوشش کی گئی تاہم ان کا کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا

اس وقت سی ٹی ڈی پولیس کی جانب سے دعوی کیا گیا تھا کہ کہکشاں حیدر ایم کیو ایم لندن کی رابطہ کمیٹی کی رکن رہی ہیں اور وہ امریکہ کی ریاست ٹیکساس میں مقیم ہیں۔ دوسری جانب ایم کیو ایم لندن کا کہنا تھا کہ وہ اب پارٹی کا حصہ نہیں ہیں۔

سی ٹی ڈی نے یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ ’کراچی میں جو ٹارگٹ کلرز کی ٹیمیں کام کر رہی تھیں، یہ خاتون ان کی سربراہی کر رہی تھیں۔‘

کہکشاں حیدر کون ہیں؟

2021 میں سی ٹی ڈی پولیس نے دعویٰ کیا کہ کہکشاں حیدر ایم کیو ایم لندن کی رابطہ کمیٹی کی رکن ہیں اور وہ امریکہ کی ریاست ٹیکساس میں رہتی ہیں۔

وہ اس سے پہلے کراچی کے فیڈرل بی ایریا کی رہائشی تھیں اور ان کے بھائی کامران حیدر ایم کیو ایم کے سیکٹر ممبر تھے۔ اس کے بعد یہ لوگ امریکہ منتقل ہوگئے جہاں ان کے بھائی ایم کیو ایم امریکہ کے جوائنٹ آرگنائزر تھے۔ ان کے بھائی کی وفات 2017 میں ورجینیا میں ہوئی۔

کہکشاں حیدر کے نام سے ٹوئٹر پر بھی اکاؤنٹ موجود ہے جس میں اُنھوں نے اپنا تعارف انسانی حقوق کی کارکن کے طور پر کروایا تھا، ان کے اکاؤنٹ سے پشتون تحفظ موومنٹ اور سندھی قوم پرستوں کے حق میں اور کراچی کے مسائل پر ٹوئیٹس کی گئی ہیں۔

یوٹیوب پر بھی ان کی ویڈیوز موجود ہیں۔ ستمبر 2019 کی ایک ویڈیو میں وہ اپنا تعلق ایم کیو ایم لندن سے بتاتی ہیں اور پاکستان کے قیام کو اپنے ’بزرگوں کی غلطی‘ قرار دیتی ہیں۔ اُنھوں نے پاکستان کی امداد بند کرنے اور انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی سے مدد کی بھی اپیل کی۔

2021 میں ایم کیو ایم لندن کے رہنما مصطفیٰ عزیز آبادی نے سی ٹی ڈی کے الزامات پر تو تبصرہ نہیں کیا تاہم انھوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ وہ اب رابطہ کمیٹی کی رکن نہیں ہیں۔

الطاف حسین کیس ہار گئے، لندن میں لاکھوں پاؤنڈ کی جائیدادیں ایم کیو ایم پاکستان کی ملکیت قراراسٹیبلیشمنٹ کی ’خواہش‘ یا متحدہ کی سیاسی ضرورت: دھڑوں میں بٹی ایم کیو ایم کو متحد کرنے کی کوشش کیوں کی جا رہی ہے؟ایم کیو ایم کے لاپتہ کارکنوں کی لاشیں: ’لاشیں پھینکنے والے چاہتے تھے کہ گھر والوں کو فوراً مل جائیں‘الطاف حسین کارکنوں کو دہشتگردی پر اکسانے کے الزام سے بریسازش، مفروضہ یا حقیقت: ’جناح پور کا نقشہ‘ جس نے آج تک پاکستان کا پیچھا نہیں چھوڑا
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More