پشاور صدر میں ملیشیا کی یونیفارم پہنے دراز قد اور لمبے بالوں والے ایف سی کے اہلکار الطاف حسین محسود چند ماہ سے انتہائی متحرک نظر آتے تھے۔ الطاف پیر کو پشاور میں فیڈرل کانسٹیبلری (ایف سی) کے ہیڈکوارٹرز کے گیٹ پر تعینات تھے جب وہاں ایک خودکش حملہ ہوا اور وہ دو دیگر اہلکاروں کے ہمراہ اس حملے میں جان کی بازی ہار گئے۔
سوشل میڈیا پر الطاف حسین محسود کی سی سی ٹی وی کیمرے سے بنی ویڈیو وائرل ہوئی ہے۔ اس ویڈیو میں انھیں دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ انتہائی خوش مزاجی سے اپنی ڈیوٹی سرانجام دے رہے ہیں۔
پشاور میں ایف سی کے ہیڈ کوارٹرز پر حملے میں ایف سی کے تین اہلکاروں کی جان چلی گئی تھی جبکہ پانچ اہلکار اور چھ شہری زخمی ہوئے ہیں۔
واضح رہے کہ جولائی 2025 سے پہلے اس فورس کو فرنٹیئر کانسٹیبلری کہا جاتا تھا لیکن جولائی 2025 میں ایک آرڈیننس کے ذریعے اسے فیڈرل کانسٹیبلری کا نام دیا گیا ہے اور اس کا دائرہ کار بھی وسیع کر دیا گیا ہے۔
اگرچہ عسکریت پسندوں کی جانب سے اس حملے کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کی گئی تھی، وقت کا انتخاب یعنی کسی وقت حملہ کرنا ہے، کہاں تک جانا ہے اور کیسے زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانا ہے لیکن ہیڈ کوارٹرز میں تعینات اہلکاروں نے انتہائیپھرتی سے اس حملے کو نہ صرف روکا ہے بلکہ ہیڈ کوارٹرز کے اندر داخل ہونے کے بعد دونوں حملہ آوروں کو چند منٹوں کے اندر ہی ہلاک کر دیا۔
یہ حملہ کیسے ہوا، حملہ آور کیسے یہاں تک پہنچے، ہیڈ کوارٹرز میں کتنے اہلکار موجود تھے اور کیا کر رہے تھے؟ فرنٹیئر کانسٹیبلری کو فیڈرل کانسٹیبلری میں کیسے تبدیل کیا گیا اور اس میں کن افراد کو کیسے اور کن بنیادوں پر بھرتی کیا جاتا ہے، یہ ساری تفصیل آگے چل کر بیان کر یں گے پہلے ذکر کرتے ہیں ایف سی ہیڈ کواٹرزپر حملے کااور جانتے ہیں کہایف سی ہیڈ کوارٹرز پر حملے کی تفتیش کہاں تک پہنچی ہے۔
BBCواضح رہے کہ جولائی 2025 سے پہلے اس فورس کو فرنٹیئر کانسٹیبلری کہا جاتا تھاحملے کے بعد تفتیش
ایف سی ہیڈ کوارٹرز پر حملے کی سی سی ٹی وی فوٹیجز سوشل میڈیا پر جاری کی گئی تھیں جس میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ کیسے حملہ آور ہیڈ کوارٹرز کے سامنے اور پھر گیٹ کے قریب پہنچے۔
پولیس حکام کے مطابق تینوں حملہ آور ایک موٹر سائیکل پر پشاورکے علاقے صدر پہنچے تھے۔ ایک حملہ آور چادر اوڑھے صدر میں بی آر ٹی سٹیشن کے پاس سے گزرتا ہوا ایف سی ہیڈ کوارٹرز کے گیٹ پر دائیں جانب پہنچا اور وہیں اپنے آپ کو دھماکے سے اڑا دیا، حالانکہ پیدل جانے والے افراد کے لیے گیٹ کے بائیں جانب چھوٹا دروازہ ہے جہاں سے لوگ داخل ہوتے ہیں۔
بائیں جانب پیدل جانے والے راستے سے باقی دونوں حملہ آور ہیڈ کواٹرز کے اندر داخل ہوئے۔ ایف سی کے حکام نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ دو اہلکار ادھر گیٹ پر تعینات تھے جو خود کش دھماکے میں جان سے چلے گئے تھے جبکہ ایک اہلکار جو اندر انٹری کے لیے موجود تھا اس پر حملہ آوروں نے فائرنگ کر دی تھی۔ حملہ آور گیٹ سے اندر داخل ہونے کے بعد دائیں جانب پارکنگ کے احاطے میں چلے گئے تھے۔
اس دوران ایف سی ہیڈ کورٹرزمیں موجود اے پی سی اور چھت پر موجود اہلکاروں نے پوزیشن سنبھال لی تھی۔ اے پی سی حرکت کرتے ہوئے پارکنگ کی جگہ تک پہنچ کر واپس آ گئی اور اس دوران حکام کے مطابق ایک حملہ آور کو اہلکاروں نے نشانہ بنایا تو اس نے اپنے آپ کو دھماکے سے اڑا دیا جبکہ دوسرا بھی وہیں ڈھیر ہو گیا۔
ٹی ٹی پی کے میڈیا چینلز پر خاموشی: تحریکِ لبیک پاکستان فورس سمیت پاکستان میں حالیہ حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے والے نئے گروہ کیا ہیں؟اسلام آباد کچہری حملہ: ’خودکش حملہ آور افغان شہری تھا اور حملے کی منصوبہ بندی بھی افغانستان میں ہوئی‘، پاکستانی وزیر اطلاعات کا دعویٰپشاور میں ایف سی ہیڈکوارٹرز پر حملہ: ہمیں اب تک کیا معلوم ہے؟مئی کی لڑائی میں ’پاکستان کی کامیابی‘ کا دعویٰ اور چین پر الزام: امریکی کمیشن کی رپورٹ جس کا چرچا انڈیا میں بھی ہو رہا ہے
ایف سی کے چھت پر تعینات اہلکاروں نے حملہ آوروں کو آگے بڑھنے نہیں دیا، حالانکہ حملے کے وقت ہیڈکوارٹرزمیں صبح کی پریڈ جاری تھی۔ دھماکے کے بعد پریڈ کرنے والے اہلکار اندر چلے گئے تھے۔
پشاور میں کیپٹل سٹی پولیس آفیسر ڈاکٹر میاں سعید نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ حملہ آوروں کی کوشش تھی کہ پریڈ میں موجود اہلکاروں کو نشانہ بنایا جائے یا بیرک میں جا کر اہلکاروں کو یرغمال بنایا جائے۔اس حملے میں چار ایف سی کے اہلکار اور سات شہری زخمی ہوئے ان میں ایک پی اے ایف کا اہلکار اور ایک سکول بھی ٹیچر شامل ہیں۔
BBCوزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کی ہلاک ہونے والے اہلکاروں کی نمازہ جنازہ میں شرکت
انسپکٹر جنرل آف پولیس خیبر پختونخوا ذوالفقار حمید نے منگل کو صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس حملے کی تفتیش میں کافی پیش رفت ہوئی ہے، حملہ آوروں کے فنگر پرنٹس نادرا کو بھیج دیے گئے ہیں جبکہ حملہ آوروں کی تصویریں اور سی سی ٹی وی فوٹیجز بھی حاصل کر لی گئی ہیں۔
انھوں نے کہا ہے کہ فارنزک شواہد حاصل کیے گئے ہیں جبکہ بم ڈسپوزل سکواڈ نے تمام بارودی مواد کے نمونےلیے ہیں اور اب ٹریک کر رہے ہیں، جس سے جلد کسی نہ کسی نتیجے تک پہنچ جائیں گے۔
انھوں نے حملہ آوروں کی شناخت کے بارے میں بتایا کہ اگر ان حملہ آوروں کے مقامی سطح پر کوئی شہری ہونے کے شواہد نہیں ہیں تو ہو سکتا ہے کہ یہ کہیں اور سے آئے ہیں لیکن اس بارے میں اب تک وہ کچھ کہہ نہیں سکتے۔
سی سی ٹی وی ویڈیو میں کیا دیکھا جا سکتا ہے؟
ایف سی کے ہیڈ کوارٹرز پر خود کش حملے کے بعد مختلف کیمروں کی فوٹیجز ملا کر ایک تفصیلی ویڈیو جاری کی گئی ہے، جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ تینوں حملہ آور ایک موٹر سائیکل پر سوار ہو کر ایف سی ہیڈ کوارٹر کی جانب آتے ہیں۔
انسپکٹر جنرل پولیس خیبر پختونخوا ذوالفقار حمید نے گذشتہ روز صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے تفتیش کا زکر کیا تھا اور بتایا تھا کہ شواہد حاصل کیے جا رہے ہیں اور اس کی تہہ تک پہنچنے کے لیے ویڈیوز اور فورنزک شواہد حاصل کیے گئے ہیں ۔
اس فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ تینوں حملہ آور موٹر سائیکل پر الٹی سمت یعنی رانگ سائڈ سے آئے۔ ان حملہ آوروں نے مختلف رنگ کی چادریں اوڑھی ہوئی تھیں۔
ایف سی ہیڈ کواٹرز کے قریب پہنچ کر حملہ آوروں نے موٹر سائیکل روکی، کچھ دیر بات چیت کرتے رہے۔ اس کے بعد ایک حملہ آور ان کے پاس سے چلا جاتا ہے سے چلا جاتا ہے جبکہ باقی دو حملہ آور بند دوکانوں کے سامنے موٹر سائیکل کھڑی کر دیتے ہیں۔
دو حملہ آور ادھر ہی رک جاتے ہیں جبکہ تیسرا حملہ آور سڑک کنارے رک جاتا ہے، بار بار چادر ٹھیک کرکے اوڑھتا ہے۔
ویڈیو میں دیکھا گیا ہے کہ تھوڑی دیر بعد وہ حملہ آور پیدل چل کر ایف سی ہیڈکوارٹرز کے گیٹ کے طرف جاتا ہے اور پھر ایک زور دار دھماکہ ہوتا ہے اور اس کے بعد ویڈیو میں اڑتا ہوا دھواں دیکھا جا سکتا ہے۔
اس کے بعد دو مزید حملہ آور گیٹ کے اندر داخل ہوتے ہیں جہاں گیٹ کے قریب ایک کمرے میں انھیں فائرنگ کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔
ہیڈ کواٹرز کے اندر دھماکے کے وقت گراؤنڈ میں اہلکار پریڈ کر رہے تھے اور وہ اس واقعے کے فوراً بعد اندر چلے گئے۔ ویڈیو میں دیکھا جا سجتا ہے کہ اسی وقت وہاں ایک بکتر بند گاڑی وہاں آئی جس کے بعد حملہ آور گیٹ کے قریب پارکنگ ایریامیں چلےگئے۔اس کے بعد جس دروازے سے حملہ آور داخل ہوئے تھے وہاں ایک دھماکہ ہوا۔
خیبر پختونخوا میں شدت پسندی پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ صوبے میں عسکریت پسندوں نے حملے کرنے کا طریقہ کار بدلا ہے۔
سینیئر صحافی اور تجزیہ کار فرزانہ علی نے بی بی سی کو بتایا کہ حالیہ دنوں میں عسکریت پسندوں نے اپنے حملوں کا طریقہ کار تبدیل کیا ہے اور اب عسکریت پسند دو، دو اور تین، تین خود کش بمبار ایک ساتھ بھیج دیتے ہیں، جن میں سے ایک پہلا حملہ کرتا ہے اور باقی دو حملہ آور اندر داخل ہو کر زیادہ نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کیڈٹ کالج وانا اور ایف سی ہیڈ کواٹرز بنوں میں بھی حملہ آوروں نے یہی طریقہ اپنایا تھا۔
تجزیہ کار کا کہنا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کے لیے یہ بھی حیران کن بات ہے کہ تین حملہ آور ایک ساتھ شہر میں کیسے داخل ہوجاتے ہیں جبکہ ہر جگہ پولیس اور دیگر فورسز کی چوکیاں قائم ہیں۔
ان کے مطابق سی سی ٹی وی فوٹیجز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ خود کش بمبار پیدل چلتا ہوا ادھر آ رہا ہے لیکن کہیں کچھ ویجیلینس نظر نہیں آئی، جس سے ان حملہ آوروں کو حملہ کرنے سے پہلے ٹارگٹ کیا جا سکتا ہو۔
BBCدھماکے کے بعد کے مناظرہلاک ہونے والے فیڈرل کانسٹیبلری کے اہلکار کون؟
اس حملے میں ایف سی کے تین اہلکاروں کی جان چلی گئی ہے، جن میں سے دو کا تعلق محسود قوم سے بتایا گیا ہے جبکہ ایک کا تعلق مانسہرہ سے تھا۔ ایف سی حکام نے بتایا کہ تین اہلکاروں کی میتیں ان کے آبائی علاقوں کو روانہ کر دی گئی تھیں جہاں انھیں سپرد خاک کر دیا گیا ہے۔
ان میں الطاف حسین محسود کا تعلق ضلع ٹانک سے بتایا گیا ہے جن کی منگل کی صبح دس بجے تدفین کی گئی ہے۔ ان کے بھائیصدام حسین نے بتایا کہ الطاف بہت ملنسار انسان تھے۔ وہ سنہ 2014 میں ایف سی میں سپاہی بھرتی ہوئے تھے اور مختلف علاقوں میں ڈیوٹیاں سر انجام دیتے رہے ہیں۔
گذشتہ تقریباً پانچ ماہ سے وہ پشاور میں ایف سی ہیڈ کوارٹرز میں تعینات تھے۔ الطاف حسین شادی شدہ تھے لیکن ان کی اولاد نہیں تھی۔ دراز قد اور لمبے بالوں کی وجہ سے ان کی شخصیت دیگر اہلکاروں سے نمایاں رہتی تھی۔
پشاور صدر کا علاقہ گنجان آباد ہے جہاں ہر وقت ٹریفک کا رش رہتا ہے۔ الطاف کو اکثر ایف سی گیٹ کے سامنے ڈیوٹی سرانجام کرتے دیکھا گیا ہے۔
محسود قبیلے کے دونوں اہلکاروں کا بنیادی تعلق جنوبی وزیرستان سے بتایا گیا ہے لیکن حالات کی وجہ سے بیشتر لوگ دیگر علاقوں کو منتقل ہو چکے ہیں۔ الطاف اور عالمزیب بھی اپنے اہل خانہ کے ہمراہ ٹانک اور کراچی میں رہائش پزیر تھے۔ دونوں ان دنوں ڈیوٹی کے لیے پشاور میں تھے۔
BBCدھماکے کے بعد کے مناظرایف سی میں کس کو تعینات کیا جاتا ہے؟
بنیادی طور پر فرنٹیئر کانسٹیبلری کی بنیاد سنہ 1913 میں انگریزوں کے دور میں رکھی گئی تھی اور اسے فرنٹیئر کانسٹیبلری ایکٹ 1915 کے تحت ان کو قائم کیا گیا تھا۔
اس فورس کے قیام کا بنیادی مقصد پاکستان کے قبائلی علاقوں اور شہری علاقوں کے درمیان سرحد پر تعیناتی تھی تاکہ ان علاقوں میں امن قائم رہے۔
ماضی میں قبائلی علاقوں سے شہری علاقوں پر اکثر حملے ہوتے رہے ہیں اور ان سے حفاظت کے لیے یہ فورس قائم کی گئی تھی اور اس میں متعلقہ قبائلی اور نیم قبائلی علاقوں کی اقوام سے سپاہیوں کی بھرتی کی جاتی ہے۔
ایف سی کے حکام کے مطابقپہلے جبفرنٹیئر کانسٹیبلری تھی اس وقت اس کے اہلکار 17 ضلعوں میں تعینات ہوتے تھے، لیکن نئے آرڈیننس کے بعد اب اس فورس کے 35 ونگ کمانڈرز ہیں اور ہر ونگ کمانڈر کے پاس ایک بٹالین موجود رہتی ہے۔
اس میں تمام قبائلی علاقوں کی اقوام اور ان کی ذیلی شاخوں سے لوگوں کو سپاہی بھرتی کیا جاتا ہے۔ اب اس کے چار گروپ کمانڈرز ہیں، جن میں جنوبی شمالی مرکزی اور کیپٹل گروپس شامل ہیں۔
ماضی میں خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی سرحد پر واقع ضلع شیرانی ایف سی دائرہ اختیار سے باہر تھا لیکن اب وہاں بھی ایف سی تعینات ہے۔
پشاور میں ایف سی ہیڈکوارٹرز پر حملہ: ہمیں اب تک کیا معلوم ہے؟خیبرپختونخوا پولیس کا احتجاج: ’پورا مہینہ خطرے میں روز 12 گھنٹے کی ڈیوٹی اور تنخواہ صرف 40 ہزار‘پشاور میں شدت پسندوں کے حملے میں مارے جانے والے ڈی ایس پی سردار حسین کون تھے؟استنبول مذاکرات ناکام: افغان طالبان ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی سے کیوں ہچکچاتے ہیں؟’گریٹر افغانستان‘ کا متنازع نقشہ: ’اس قسم کی اشتعال انگیز ویڈیوز کشیدگی مزید بڑھائیں گی‘