’سیون سسٹرز‘ الگ کرنے کی دھمکی: بنگلہ دیش میں انڈین ہائی کمشنر کی ملک بدری کا مطالبہ

بی بی سی اردو  |  Dec 18, 2025

Getty Images

انڈیا اور بنگلہ دیش کے درمیان تعلقات گذشتہ برس اس وقت کشیدہ ہو گئے تھے جب شیخ حسینہ نے اقتدار سے بے دخلی کے بعد انڈیا میں پناہ لے لی تاہم رواں ہفتے کچھ ایسے واقعات ہوئے جنھیں دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ یہ تعلقات مزید تلخی کی جانب ہی بڑھ رہے ہیں۔

بنگلہ دیش کی ایک نئی جماعت نیشنل سیٹیزن پارٹی (این سی پی) کے رہنما حسنات عبداللہ نے انڈیا کی جانب سے انڈیا کے شمال مشرقی خطے ’سیون سسٹرز‘ کو الگ کرنے کی دھمکی دینے کے بعد دہلی میں بنگلہ دیش کے ہائی کمشنر کی طلبی پر ردِ عمل دیا اور انڈین ہائی کمشنر کو ملک بدر کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

حال ہی میں حسنات عبداللہ نے دھمکی دی تھی ان کا ملک ’سیون سسٹرز‘ کو الگ کر سکتا ہے، جس کے بعد انڈین وزات خارجہ نے دہلی میں بنگلہ دیش کے ہائی کمشنر کو طلب کر کے اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا تھا۔

بدھ کے روز کومیلا میں دہلی میں بنگلہ دیش کے ہائی کمشنر کی طلبی پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ حسنات عبداللہ کا کہنا تھا کہ انڈیا کے موقف کا سخت جواب دینا چاہیے تھا۔ ’انڈین ہائی کمشنر کو ملک بدر کر دیا جانا چاہیے تھا کیونکہ انھوں نے شیخ حسینہ کو پناہ دی ہوئی ہے۔‘

ماہرین کا کہنا ہے کہ ’سیون سسٹرز‘ کا معاملہ انڈیا کے لیے کافی حساس نوعیت کا ہے اور اسی لیے اس پر انڈیا کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آیا۔

واضح رہے کہ ’سیون سسٹرز‘ میں انڈین ریاست اروناچل پردیش، آسام، منی پور، میگھالیہ، میزورم، ناگالینڈ اور تریپورہ شامل ہیں۔ ان ریاستوں کی بنگلہ دیش کے ساتھ زمینی سرحد ملتی ہے اور اسی وجہ سے یہ خطہ سٹریٹجک طور پر نہایت حساس سمجھا جاتا ہے۔

لیکن یہ واحد واقعہ نہیں، جس کے بعد کشیدگی پیدا ہوئی بلکہ اس نوعیت کے کچھ اور واقعات بھی دونوں ملکوں کے درمیان حالیہ تلخی کی وجہ بنے۔

’وکٹری ڈے‘ کے فوراً بعد ہائی کمشنر کی انڈین وزارت خارجہ میں طلبی

16 دسمبر کو بنگلہ دیش کے ’وکٹری ڈے‘ کے موقع پر جہاں دہلی میں بنگلہ دیشی سفیر کی دعوت پر انڈیا کے موجودہ اور سابق سفارت کار، فوجی افسران اور تھنک ٹینک فیلوز دونوں ممالک کے درمیان ’تاریخی دوستی‘ کا جشن منانے میں مصروف تھے، وہیں اگلے روز یعنی بدھ کی صبح انڈیا نے بنگلہ دیش کے سفیر کو طلب کر کے احتجاج ریکارڈ کروایا۔

اگرچہ انڈین حکومت کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیشی سفیر کی طلبی کی بنیادی وجہ ’ڈھاکہ میں کچھ انتہا پسند گروہوں‘ کی طرف سے انڈین سفارت خانے کو لاحق سکیورٹی خطرات ہیں تاہم وزارت کے حکام نے اس بات کا اشارہ دیا ہے کہ سفیر کی طلبی کی ایک اور بڑی وجہ کچھ بنگلہ دیشی سیاست دانوں کے ’اشتعال انگیز‘ بیانات پر احتجاج ریکارڈ کروانا تھا۔

یاد رہے کہ بنگلہ دیش کے ’وکٹری ڈے‘ کے موقع پر ہونے والی اس تقریب کے فوری بعد ملک کے ہائی کمشنر ریاض حمید اللہ نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں لکھا تھا کہ ’دونوں ملکوں کے عوام کے لیے امن، استحکام اور خوشحالی کو صرف باہمی اعتماد، ترقی اور مشترکہ اقدار کی بنیاد پر یقینی بنانا ممکن ہے۔‘

انھوں نے اس پوسٹ میں انڈین وزارت خارجہ کو بھی ٹیگ کیا تاہم اس کے باوجود انڈین وزارت خارجہ نے انھیں طلب کر لیا۔

اس طلبی کے بعد بنگلہ دیشی حکومت کی طرف سے سرکاری سطح پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا تاہم بنگلہ دیش میں سفارتی ذرائع نے بی بی سی کو بتایا کہ گزشتہ ہفتے کے آخر میں دہلی اور ڈھاکہ کے درمیان ’بیانات کی جنگ‘ کے بعد یہ طلبی غیر متوقع نہیں تھی۔

بعد ازاں کومیلا ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے میں دہلی میں بنگلہ دیش کے ہائی کمشنر کی طلبی پر ردِ عمل دیتے ہوئے حسنات عبداللہ کا کہنا تھا کہ ہمیں انڈیا کے موقف کا سخت جواب دینا چاہیے تھا۔ 'انڈین ہائی کمشنر کو ملک بدر کردیا جانا چاہیے تھا کیونکہ انھوں نے شیخ حسینہ کو پناہ دی ہوئی ہے۔'

حسنات عبداللہ کا کہنا تھا کہ انڈیا کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کی بنیاد باہمی احترام پر ہونے چاہیے۔

'بنگلہ دیش انڈیا کی خودمختاری اور سرحدوں کا تبھی احترام کرے گا جب انڈیا بھی بنگلہ دیش کا بھی ویسا وہی احترام کرے گا۔ اگر آپ ’دیکھتے ہی گولی مارنے‘ کی پالیسی پر یقین رکھتے ہیں تو ہم کیوں ’دیکھتے ہی سلیوٹ‘ کی پالیسی پر کیوں عمل کریں؟'

اس سے قبل اتوار کے روز بنگلہ دیش کی وزارت خارجہ نے ڈھاکہ میں انڈین سفیر پرنائے ورما کو طلب کر کے ملک کی معزول وزیر اعظم شیخ حسینہ کے انڈیا میں قیام پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس وجہ سے ’بنگلہ دیش میں دہشتگردی کی سرگرمیاں بڑھنے اور آئندہ انتخابات کو سبوتاژ کرنے کی کوششوں کا موقع فراہم کیا جا رہا ہے۔‘

واضح رہے کہ گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران بنگلہ دیش میں محمد یونس کی قیادت میں عبوری حکومت اور انڈیا میں نریندر مودی حکومت نے مختلف مسائل پر سفیروں کو طلب کیا اور ایک دوسرے پر الزامات عائد کیے ہیں۔

جلا وطن اتحادی اور کشیدہ تعلقات: شیخ حسینہ کی سزا کے بعد انڈیا کا بنگلہ دیش کے ساتھ تعلق کیسا ہو گا؟کیا انڈیا کے ساتھ تناؤ بنگلہ دیش کی قیادت کو پاکستان اور چین کے قریب لے آیا ہے؟قونصل خانے پر حملہ، دلی کی ’سفارتی شرمندگی‘ اور ’ڈھاکہ کا غصہ‘: بنگلہ دیش اور انڈیا کا نیا تنازع کیا ہے بنگلہ دیش کا قیام: کیا جنگ شروع کرنے کے لیے انڈیا بہتر وقت کے انتظار میں تھا؟ڈھاکہ میں انڈین سفارتخانے کے باہر احتجاج

اس کے علاوہ بنگلہ دیش میں ’جولائی اوکیا‘ نامی ایک تنظیم نے بدھ کی سہ پہر ڈھاکہ میں ’مارچ ٹو انڈین ہائی کمیشن‘ کے نام سے ایک احتجاجی پروگرام کا اعلان کر رکھا تھا۔

اس کا مقصد انڈین سفارت خانے کے سامنے ’احتجاجی ریلی‘ نکالنا تھا تاہم پولیس نے رکاوٹیں کھڑی کر کے مظاہرین کو پیش قدمی سے روک دیا تھا۔

تاہم اس احتجاج کے پیش نظر انڈین سفارت خانے نے سکیورٹی خدشات کے باعث ڈھاکہ میں انڈین ویزا سینٹر کو دوپہر 2 بجے سے بند کرنے کا اعلان کیا تھا۔

انڈین وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ اس نے بنگلہ دیش کے ہائی کمشنر کو حالیہ سکیورٹی خطرات پر ’سفارتی احتجاج‘ ریکارڈ کروانے کے لیے طلب کیا تھا۔

Getty Imagesانڈیا اور بنگلہ دیش کے درمیان تعلقات گذشتہ برس اس وقت کشیدہ ہو گئے تھے جب شیخ حسینہ نے اقتدار سے بے دخلی کے بعد انڈیا میں پناہ لے لیسیون سسٹرز پر ردعمل

انڈین میڈیا کی رپورٹس کے مطابق آسام کے وزیر اعلیٰ نے حسنات عبداللہ کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ’اگر بنگلہ دیشی رہنما ملک کے شمال مشرقی علاقے کو انڈین سرزمین سے الگ کرنے کی دھمکیاں دیتے رہے تو انڈیا زیادہ دیر تک خاموش نہیں رہے گا۔‘

این سی پی کا کہنا ہے کہ ’انڈیا کی سیون سسٹرز کے حوالے سے حسنات عبداللہ کا بیان پارٹی کا مؤقف نہیں بلکہ ان کا ذاتی خیال ہے۔‘

دوسری جانب بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے مشیر توحید حسین نے کہا ہے کہ عبوری حکومت کے انڈیا کے ساتھ تعلقات ’مشکل‘ ہیں۔

انھوں نے یہ بھی کہا کہ بنگلہ دیش کے انتخابات کے بارے میں انڈیا کی جانب سے ’مشورہ‘ مکمل طور پر ناقابل قبول ہے۔

حسنات عبداللہ کے بیان کے حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ بنگلہ دیشی حکومت اپنی سرزمین پر دوسرے ممالک کے کسی بھی علیحدگی پسند گروپ کو پناہ نہیں دے گی۔

یاد رہے کہ اس سال کے آغاز میں بنگلہ دیس کی عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس نے دورہ چین کے دوران ’سیون سسٹرز‘ کے سمندر کے استعمال کے معاملے میں بنگلہ دیش اس کا واحد سرپرست ہے۔

بنگلہ دیش کے سابق سفارت کار اور تجزیہ کار ہمایوں کبیر کا کہنا ہے کہ سیون سسٹرز کا معاملہ انڈیا کے لیے حساس مسئلہ ہے۔

بی بی سی بنگلہ سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اس طرح کے تبصرے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو مزید متاثر کر سکتے ہیں۔

’ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اصولی طور پر کون سے معاملات حساس ہیں۔ سیون سسٹرز کے بارے میں بات کرنا تشویش کا باعث ہے، اس لیے ان کی طرف سے ردعمل سامنے آیا کیونکہ یہ انڈیا کے لیے حساس معاملہ ہے۔ بہت سے لوگ تقریروں میں بہت کچھ کہہ سکتے ہیں لیکن کچھ چیزیں ملکوں کے آپسی تعلقات کو بھی متاثر کرتی ہیں اور ایسا ہی بنگلہ دیش اور انڈیا کے معاملے پر ہے۔‘

جلا وطن اتحادی اور کشیدہ تعلقات: شیخ حسینہ کی سزا کے بعد انڈیا کا بنگلہ دیش کے ساتھ تعلق کیسا ہو گا؟کیا انڈیا کے ساتھ تناؤ بنگلہ دیش کی قیادت کو پاکستان اور چین کے قریب لے آیا ہے؟قونصل خانے پر حملہ، دلی کی ’سفارتی شرمندگی‘ اور ’ڈھاکہ کا غصہ‘: بنگلہ دیش اور انڈیا کا نیا تنازع کیا ہے بنگلہ دیش کا قیام: کیا جنگ شروع کرنے کے لیے انڈیا بہتر وقت کے انتظار میں تھا؟جب انڈیا کی مدد سے بندوق کے سائے تلے ’بنگلہ دیش‘ کی پہلی عبوری حکومت قائم ہوئیانڈیا کے پانچ مربع کلومیٹر سرحدی علاقے پر ’بنگلہ دیشی قبضے‘ کی حقیقت کیا ہے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More