ریپ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچے کا ڈی این اے نامزد ملزم سے میچ نہ ہونے پر پولیس اصل والد تک کیسے پہنچی؟

بی بی سی اردو  |  Dec 19, 2025

Getty Images(فائل فوٹو)

پاکستان کے صوبہ پنجاب سے دسمبر کے پہلے ہفتے میں یہ خبر سامنے آئی کہ ریپ کے ایک ملزم کو عدالت سے ضمانت ملنے پر متاثرہ لڑکی نے خود سوزی کی کوشش کی۔

متاثرہ لڑکی کی طرف سے ایک ایسے شخص پر ریپ کا الزام لگایا گیا تھا، جو محکمہ پولیس میں کانسٹیبل تھا اور یہ الزام سامنے آنے کے بعد اس اہلکار کو نوکری سے برخاست بھی کر دیا گیا تھا۔

پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع قصور کے ایک گاؤں میں 17 سالہ لڑکی نے ریپ کے نتیجے میں حاملہ ہونے کے بعد ایک بچے کو جنم بھی دیا تھا، جو بعد ازاں وفات پا گیا۔

لیکن اس معاملے میں چونکا دینے والا پہلو اس وقت سامنے آیا جب پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی نے نومولود بچے کا ڈی این اے پولیس کانسٹیبل کے ساتھ میچ نہ ہونے کی رپورٹ جاری کی، جس پر عدالت نے ملزم کی ضمانت منظور کر لی۔

اس عدالتی فیصلے کے خلاف متاثرہ لڑکی نے خود سوزی کی کوشش کی اور اس وقت وہ لاہور کے جناح ہسپتال میں زیرعلاج ہیں۔

تاہم ملزم کی ضمانت کے بعد بھی پولیس کی تفتیش ختم نہیں ہوئی اور پانچ مشتبہ افراد کا ڈی این اے ٹیسٹ کروایا گیا، جس کے بعد متاثرہ لڑکی کے حقیقی چچا کا ڈی این اے بچے سے میچ کر گیا۔

پولیس نے لڑکی کے چچا کو گرفتار کر لیا ہے اور عدالت میں پیش کر کے ان کا تین روزہ جسمانی ریمانڈ بھی حاصل کر لیا گیا ہے۔

اس پیچیدہ کیس کو سمجھنے کے لیے ہمیں تین برس پیچھے جانا پڑے گا، جب متاثرہ لڑکی کے والد نے اپنی بیٹی کے ریپ کی ایف آئی آر درج کروائی اور اس کے بعد یہ معاملہ عدالت پہنچا۔

ایف آئی آر میں کیا کہا گیا؟

سات مئی 2022 کو قصور کے تھانہ گنڈا سنگھ والا میں درج کروائی جانے والی ایف آئی آر میں مدعی متاثرہ لڑکی کے والد نے مقدمے میں پولیس کانسٹیبل محمد رفیق اور اس کی رشتے دار دو خواتین کو نامزد کیا تھا۔

ایف آئی آر کے مطابق متاثرہ لڑکی ایک خاتون کے گھر کسی کام کے سلسلے میں گئیں جس نے انھیں کمرے میں بٹھایا اور جوس پلایا جسے پیتے ہی وہ بے ہوش ہو گئیں اور مبینہ طور پر ملزم رفیق نے ریپ کیا جبکہ وہ خاتون گھر کے باہر پہرہ دیتی رہیں۔

ایف آئی آر کے مطابق ’ہوش میں آنے پر متاثرہ لڑکی نے شور مچانے کی کوشش کی تو ملزم محمد رفیق نے اسلحے کے زور پر دھمکایا کہ اگر کسی کو بتایا تو تمھیں اور تمھارے والدین کو قتل کردوں گا، اس پر لڑکی ڈر گئی اور اس نے اس بارے میں کسی سے ذکر نہ کیا۔‘

ایف آئی آر میں کانسٹیبل رفیق کی بہن پر الزام لگایا گیا کہ وہ اس واقعے کے تین ماہ بعد متاثرہ لڑکی کے گھر آئیں اور اس کے والدین کو حمل ضائع کرنے والی دوائی دیتے ہوئے کہا کہ ’اپنی بیٹی کا حمل ضائع کروا دیں ورنہ پورے گاؤں میں رسوائی ہو جائے گی‘ جس پر والدین کو اس مبینہ واقعے کے بارے میں علم ہوا اور انھوں نے لیڈی ڈاکٹر سے چیک اپ کروایا تو بیٹی حاملہ پائی گئی۔

اس ایف آئی آر میں پولیس کانسٹیبل محمد رفیق کو ریپ کا ملزم قرار دیتے ہوئے تعزیرات پاکستان کی دفعہ 376 عائد کی گئی جس کی سزا (جرم ثابت ہونے کی صورت میں) کم از کم دس سال اور زیادہ سے زیادہ 25 سال قید اور جرمانہ ہو سکتی ہے جبکہ مقدمے میں نامزد دیگر دو خواتین کو ایما کا ملزم قرار دیتے ہوئے ان پر تعزیرات پاکستان کی دفعہ 109 عائد کی گئی۔

BBCملزم کی ضمانت کے بعد بھی پولیس کی تفتیش ختم نہیں ہوئی اور پانچ مشتبہ افراد کا ڈی این اے ٹیسٹ کروایا گیا، جس کے بعد متاثرہ لڑکی کے حقیقی چچا کا ڈی این اے بچے سے میچ کر گیاجب ڈی این اے ملزم سے میچ نہ ہوا

قصور پولیس نے کانسٹیبل محمد رفیق کو نہ صرف گرفتار کر لیا بلکہ اتنا سنگین الزام سامنے آنے کے بعد اسے محکمہ پولیس کی نوکری سے برخاست بھی کر دیا گیا۔

بعد ازاں کیس کی تحقیقات میں انکوائری آفیسر نے کانسٹیبل رفیق کو قصور وار قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف چالان عدالت میں پیش کر دیا۔

پولیس تفتیش اور چالان میں یہ واضح طور پر تحریر کیا گیا کہ ملزم رفیق ریپ کا مرتکب ہوا اور اسے سزا ملنی چاہیے تاہم پانچ دسمبر 2025 کو عدالت میں مقدمے کی تاریخ تھی جس میں ایڈیشنل سیشن جج نے ملزم کی ضمانت منظور کر لی اور اس کی رہائی کا حکم دیا۔

ملزم کی رہائی پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی لاہور کی بھجوائی جانے والی رپورٹ کی روشنی میں عمل میں آئی کیونکہ متاثرہ لڑکی نے ریپ کے نتیجے میں جس بچے کو جنم دیا تھا اس کا ڈی این اے پولیس کی تحقیقاتی ٹیم نے لیب کو بھجوایا تھا اور لیب نے اپنی رپورٹ میں قرار دیا کہ بچے کا ڈی این اے ملزم محمد رفیق کے ڈی این اے سے میچ نہیں ہوتا۔

پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی کی جاری کردہ اس رپورٹ کے مطابق متاثرہ لڑکی نے جس بچے کو جنم دیا تھا وہ ایف آئی آر میں نامزد ملزم محمد رفیق کا بچہ نہیں، تو ایسے میں یہ سوال پیدا ہوا کہ وہ بچہ کس کا ہے؟

پانچ دسمبر کو ہی عدالت میں پیشی کے بعد متاثرہ لڑکی اپنے والد کے ہمراہ ڈسٹرکٹ سیشن کورٹس سے واپس اپنے گاؤں جا رہی تھی کہ اس نے عدالتی فیصلے سے دلبرداشتہ ہو کر خودسوزی کی کوشش کی۔

اس واقعے کے شہ سرخیوں میں آنے کے بعد وزیر اعلی پنجاب مریم نواز نے معاملے کی اعلی سطح پر ازسرنو تحقیقات کرنے کی ہدایات جاری کیں اور ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی بھی تشکیل دی تاکہ یہ تاثر نہ رہے کہ پولیس اپنے اہلکار کو بچانے کی کوشش کر رہی ہے۔

وزیراعلی پنجاب کی ہدایت پر چیئرپرسن پنجاب وویمن پروٹیکشن اتھارٹی حنا پرویز بٹ نے قصور کا دورہ کیا اور کیس کی تفصیلات معلوم کیں۔ بعد ازاں انھوں نے جناح ہسپتال لاہور کا دورہ کر کے زیرعلاج متاثرہ لڑکی کی تیمارداری کی اور اس سے بھی کیس بارے میں تفصیلات دریافت کیں۔

’پانچ گھنٹے موبائل بند اور سرکاری گاڑی میں خون کے دھبے‘: بیوی اور بیٹی کے قتل کے ملزم ڈی ایس پی پر لاہور پولیس کو شک کیسے ہوا؟ڈاکٹر وردہ کے قتل میں ملوث مرکزی ملزم ’اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ سے‘ ہلاک، ایبٹ آباد پولیس کا دعویٰ'رانا لائٹ بند کر دے': فیصل آباد پولیس ایک جملے کی بدولت گینگ ریپ کے ملزم تک کیسے پہنچی؟بہاولپور میں تیسری جماعت کی طالبہ کا ریپ اور قتل کرنے والے ملزمان کی ہلاکت: ’قریبی رشتہ دار‘ ملزمان پر پولیس کا شک یقین میں کیسے بدلا؟پانچ مشتبہ افراد کا ڈی این اے ٹیسٹ اور چچا بے نقاب ہو گیا

پولیس کی تحقیقاتی ٹیم کے سامنے سب سے بڑا سوال یہ تھا کہ اگر پولیس کانسٹیبل ریپ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچے کا باپ نہیں تو متاثرہ لڑکی اس پر کیوں الزام لگا رہی ہے اور اس کے علاوہ اور کون ریپ کا ملزم ہو سکتا ہے۔

ڈسٹرکٹ پبلک پراسکیوٹر نے ملزم رفیق کا ڈی این اے میچ نہ ہونے پر ضلعی پولیس کو ایک خط تحریر کیا کہ تفتیش کے دائرہ کار کو وسیع کرتے ہوئے کسی سینیئر افسر کو تفتیش پر مامور کیا جائے تاکہ مرکزی ملزم کی نشاندہی کر کے اسے سزا دلوائی جا سکے۔

قصور کے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر محمد عیسیٰ خاں نے بی بی سی کو بتایا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کی ہدایات کے بعد ایک فیصلہ تو یہ کیا گیا کہ پولیس کانسٹیبل رفیق کا دوبارہ ڈی این اے کروایا جائے گا تاکہ اگرکوئی غلطی ہو تو دوبارہ ڈی این اے میں وہ کلیئر ہو سکے جبکہ دوسرا فیصلہ ان افراد کا ڈی این اے کروانے کا تھا جن کے بارے میں یہ شک ہو کہ وہ اس لڑکی کے ساتھ ریپ کرسکتے ہیں۔

محمد عیسیٰ خاں کے مطابق ایسا کام یقیناً وہی کر سکے گا جس کی رسائی لڑکی تک ہو، جس میں گھر میں رہنے والے افراد، قریبی رشتے دار اور محلہ کا کوئی شخص ہو سکتا ہے۔

’پولیس نے اپنے انٹیلیجنس نیٹ ورک کے ذریعے معاملے کا کھوج لگایا اور ان پانچ مشتبہ افراد کی فہرست تیار کی جن کے بارے میں امکان تھا کہ یہ لوگ ایسا کرسکتے ہیں۔ ان پانچ افراد میں لڑکی کا چچا بھی شامل تھا کیونکہ یہ لوگ جوائنٹ فیملی میں رہتے ہیں۔‘

جب لیب سے رپورٹ آئی تو اس میں چچا کا ڈی این اے میچ کر گیا جس پر پولیس نے فوری طور پر ملزم کو گرفتار کر لیا اور اس کو عدالت میں پیش کر کے تین روزہ جسمانی ریمانڈ بھی حاصل کر لیا۔

متاثرہ لڑکی کی طرف سے پولیس کانسٹیبل پر الزام لگائے جانے کے سوال پر ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر محمد عیسیٰ خاں نے بتایا کہ تفتیش میں اس بات کی تصدیق ہوئی کہ کانسٹیبل محمد رفیق کے متاثرہ لڑکی کے ساتھ تعلقات تھے۔

’کانسٹیبل رفیق کی ملکیت میں چار پانچ ایکڑ زرعی زمینیں بھی تھیں جو اسے وراثت میں ملی تھیں جبکہ وہ سرکاری نوکری بھی کر رہا تھا اور اس نے لڑکی کو اس بات کا جھانسہ دیا کہ وہ اس کے ساتھ شادی کر لے گا۔‘

’متاثرہ لڑکی کے چچا کو کسی طرح سے علم ہو گیا کہ اس کی نابالغ بھتیجی کے پولیس کانسٹیبل رفیق کے ساتھ مراسم ہیں، تو اس نے اپنی نابالغ بھتیجی کو بلیک میل کرنا شروع کر دیا اور اس کا ریپ کیا جس سے لڑکی حاملہ ہو گئی۔‘

متاثرہ لڑکی نے ڈی این اے رپورٹ آنے کے بعد پولیس کو یہ بیان دیا کہ وہ یہ سمجھتی رہی کہ پولیس کانسٹیبل رفیق نے اس کے ساتھ جو تعلقات استوار کر رکھے تھے اس کے نتیجے میں وہ حاملہ ہوئی اور ’اب وہ شادی سے بھاگ رہا ہے۔‘

قصور کے پبلک پراسیکیوٹر کا کہنا ہے کہ ’ڈی این اے رپورٹ میں نیگیٹو رزلٹ آ جانے سے اگرچہ ملزم رفیق کی قانونی پوزیشن کچھ بہتر ہوئی لیکن پولیس نے اپنی رپورٹس میں اسے نابالغ لڑکی کے ساتھ ناجائز تعلقات کا مرتکب قرار دیا ہوا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ملزم رفیق کے خلاف قانونی طور پر الگ سے کوئی کارروائی تو نہیں ہو گی بلکہ شہادتوں کا مرحلہ مکمل ہونے کے بعد اسی چالان میں وہ عدالت سے سزا پا سکتا ہے۔‘

Getty Imagesپولیس نے لڑکی کے چچا کو گرفتار کر لیا ہے اور عدالت میں پیش کر کے ان کا تین روزہ جسمانی ریمانڈ بھی حاصل کر لیا گیا ہے (فائل فوٹو)باپ کا پولی گراف ٹیسٹ نیگیٹو آیا

متاثرہ لڑکی کے والد کے بارے میں پولیس کو شک گزرا کہ کہیں یہ کسی معاملے میں جھوٹ سے کام تو نہیں لے رہے جس پر پولیس نے ان کا پولی گرافک ٹیسٹ بھی کروایا جو نیگٹیو آیا۔

اس کے علاوہ پولیس کو لڑکی کی طرف سے خود سوزی کی کوشش کا ویڈیو کلپ بھی مل گیا جس میں دیکھا جا سکتا کہ لڑکی نے خود ہی پٹرول چھڑک کر آگ لگانی۔

لڑکی کے والد نے پولیس کو بیان دیا ہے کہ وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ان کا بھائی ایسا کر سکتا ہے۔

’میرے بھائی کے چار بچے ہیں اور ہم دونوں بھائی ایک گھر میں رہتے ہیں، اس کے بچے مجھے بڑے ابو کہتے ہیں۔ڈی این اے میچ ہونے کے بعد اب میں اپنے بچوں سے آنکھیں ملا سکتا ہوں نہ بھائی کے بچوں سے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’بچوں کے لیے باپ کے بعد سب سے اعتماد والا رشتہ چچا کا ہوتا ہے، میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ میرا بھائی اس خونی رشتے کو داغدار کرے گا اور نہ صرف میری بیٹی کے ساتھ ریپ کا مرتکب ہو گا بلکہ وہ اسے بلیک میل بھی کرتا رہا ہو گا، میں ساری زندگی ایسے شخص کو معاف نہیں کرسکتا جس نے میری بیٹی کی زندگی تباہ کردی۔‘

وہ کہتے ہیں ’مجھے اب بھائی کی وہ ساری باتیں یاد آرہی ہیں کہ کیسے اس نے میرا ذہن پولیس کانسٹیبل محمد رفیق کے خلاف تیار کیا تھا۔ وہ ہر بار ایسی بات کرتا کہ محمد رفیق کے علاوہ کہیں اور ذہن نہ جا سکے۔‘

انھوں نے یہ بھی کہا کہ وہ پولیس کانسٹیبل محمد رفیق کو بھی کبھی معاف نہیں کر سکتے جس نے ان کی نابالغ بیٹی کو شادی کا جھانسہ دیا اور اس کی عزت سے کھیلتا رہا۔

’سارا فساد ہی ملزم رفیق سے شروع ہوا، اس کے خلاف ہر قانونی لڑائی لڑوں گا۔‘

’میری بیٹی کی دنیا تو اجڑ گئی اور وہ اس وقت زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہی ہے لیکن میں والدین سے کہنا چاہتا ہوں کہ اپنے بچوں کی خود حفاظت کریں اور موجودہ دور میں خونی رشتوں پر بھی اعتبار نہ کریں۔‘

’پانچ گھنٹے موبائل بند اور سرکاری گاڑی میں خون کے دھبے‘: بیوی اور بیٹی کے قتل کے ملزم ڈی ایس پی پر لاہور پولیس کو شک کیسے ہوا؟ڈاکٹر وردہ کے قتل میں ملوث مرکزی ملزم ’اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ سے‘ ہلاک، ایبٹ آباد پولیس کا دعویٰ'رانا لائٹ بند کر دے': فیصل آباد پولیس ایک جملے کی بدولت گینگ ریپ کے ملزم تک کیسے پہنچی؟بہاولپور میں تیسری جماعت کی طالبہ کا ریپ اور قتل کرنے والے ملزمان کی ہلاکت: ’قریبی رشتہ دار‘ ملزمان پر پولیس کا شک یقین میں کیسے بدلا؟چار سالہ زہرہ کا ریپ اور قتل: ملزم کی گرفتاری، ’ہتھکڑی سمیت فرار‘ اور پھر ’پراسرار ہلاکت‘سو سے زیادہ لاشیں، قتل کی دھمکی اور ریپ کے بعد تدفین: انڈیا میں کئی سال بعد سامنے آنے والا مقدمہ جو ایک معمہ بنتا جا رہا ہے
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More