غزہ ’انٹرنیشنل سٹیبلائزیشن فورس‘ میں شمولیت پر پاکستانی وزیرِ خارجہ کا بیان کیا ظاہر کرتا ہے؟

بی بی سی اردو  |  Dec 29, 2025

Getty Imagesاسحاق ڈار کے بقول پاکستان کی سول اور فوجی حکومت کے مابین اس معاملے میں مکمل ہم آہنگی ہے کہ ہم غزہ میں صرف امن قائم کرنے کے لیے جائیں گے

’اگر ہمیں یہ کہا گیا کہ وہاں جا کر لڑنا شروع کر دیں۔۔حماس کو غیر مسلح کریں اور اُن کی سرنگوں کو جا کر ختم کریں تو یہ ہمارا کام نہیں ہے۔ وہ ایک مسلمان کو دوسرے سے لڑانے والی بات ہو گی۔ ہم صرف امن قائم رکھنے اور سوشل ورک کے لیے وہاں جانے کو تیار ہیں۔‘

یہ وہ وضاحت ہے جو پاکستان کے وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے جمعے کو ہونے والی نیوز بریفنگ میں غزہ میں 3500 پاکستانی فوج بھیجنے کی میڈیا رپورٹس سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں دی۔

یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ جب پاکستان کے دفتر خارجہ یا خود وزیر خارجہ کو غزہ میں ’انٹرنیشنل فورس‘ کے لیے پاکستانی فوج بھیجنے کے معاملے پر وضاحت کرنا پڑی ہو۔

برطانیہ میں مقیم پاکستانی مصنفہ عائشہ صدیقہ نے اسرائیلی اخبار ’ہارٹز‘ میں لکھے گئے اپنے مضمون میں دعویٰ کیا کہ صدر ٹرمپ، فیلڈ مارشل عاصم منیر سے غزہ میں اپنی فوج بھیجنے کا کہہ سکتے ہیں اور اس معاملے پر فیصلہ ایک بہت بڑا جوا ہو گا۔

جمعے کے روز ہونے والی نیوز بریفنگ میں اسحاق ڈار کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کی سول اور فوجی حکومت کے مابین اس معاملے میں مکمل ہم آہنگی ہے کہ ’ہم غزہ میں صرف امن قائم کرنے کے لیے جائیں گے۔‘

اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ ابتدا میں آٹھ ممالک نے آئی ایس ایف کا حصہ بننے کی پیشکش کی تھی، لیکن اب ان ممالک کی تعداد بڑھ کر 20 ہو گئی ہے۔ ’لہذا کوئی اور ملک یہ کام کرنا چاہتا ہے تو کرے، ہم اس پر بہت واضح ہیں کہ ہم ایک مسلمان ملک کی مدد اور امن قائم رکھنے کے لیے جانے کو تیار ہیں۔‘

وزیر خارجہ نے اُن میڈیا رپورٹس کی بھی تردید کی کہ پاکستان نے اپنے 3500 فوجی غزہ بھیجنے کی پیشکش کر دی ہے۔

غزہ میں پاکستانی فوج بھیجنے کا معاملہ سب سے پہلے کب سامنے آیا؟ اور بار بار پاکستان کو اس پر وضاحت کیوں دینا پڑ رہی ہے؟ وزیر خارجہ کا یہ تازہ بیان کیا ظاہر کرتا ہے؟ بی بی سی نے یہ جاننے کے لیے تجزیہ کاروں سے بات کی ہے۔

Getty Imagesاسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ ابتدا میں آٹھ ممالک نے آئی ایس ایف کا حصہ بننے کی پیشکش کی تھی، لیکن اب ان ممالک کی تعداد بڑھ کر 20 ہو گئی ہےغزہ میں پاکستانی فوج بھیجنے کی قیاس آرائیاں اور مارکو روبیو کا بیان

نومبر میں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے غزہ میں قیامِِ امن کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پیش کردہ 20 نکاتی منصوبے کے حق میں قرارداد منظور کی تھی، جس میں غزہ میں عالمی امن فورس بھیجنے کی شق بھی شامل تھی۔ پاکستان نے بھی اس قرارداد کی حمایت کی تھی۔

اس کے بعد پاکستان میں یہ قیاس آرائیاں شروع ہو گئی تھیں کہ صدر ٹرمپ کے فیلڈ مارشل عاصم منیر اور وزیر اعظم شہباز شریف کے ساتھ تعلقات میں گرمجوشی کے تناظر میں پاکستان بھی غزہ میں اپنی فوج بھیج رہا ہے۔

نومبر پہلی مرتبہ اس معاملے پر گفتگو کرتے ہوئے وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کہا تھا کہ غزہ میں قیامِ امن کے لیے مجوزہ انٹرنیشنل سٹیبلائزیشن فورس (آئی ایس ایف) میں شرکت کے لیے پاکستان اپنے فوجی بھجوانے کے لیے تیار ہے لیکن حماس کو غیر مسلح کرنے کے کام میں شامل نہیں ہو گا۔

اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ پاکستان واضح کر چکا ہے کہ غزہ میں امن فوج کی تعیناتی کے منصوبے کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی منظوری حاصل ہونی چاہیے۔

غزہ میں حماس کو غیر مسلح کرنے کے حوالے سے آئی ایس ایف کے کردار کے بارے میں انھوں نے واضح کیا کہ دیگر اہم ممالک کی طرح پاکستان بھی اس کے لیے تیار نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ فلسطینی قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کام ہے۔

آخری اسرائیلی یرغمالی اور ترکی کی ضد: غزہ میں ’انٹرنیشنل سٹیبلائزیشن فورس‘ کی تعیناتی میں کیا رکاوٹ ہے؟غزہ کے بحران کو کاروبار میں بدلنے والا نوجوان جو ’ٹیپ کے بغیر‘ نوٹ مرمت کر لیتا ہے’مکمل تباہی اور ملبے کا ڈھیر‘: جنگ کے دو سال بعد بی بی سی نے غزہ میں کیا دیکھا؟ٹرمپ کا غزہ میں جنگ بندی کا مجوزہ منصوبہ: کیا آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی صورت میں پاکستان اسرائیل کو تسلیم کر سکتا ہے؟

رواں ماہ نیوز کانفرنس کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کا کہنا تھا کہ 'اس (غزہ سٹیبلائزیشن فورس) کا حصہ بننے کی پیشکش یا کم از کم اس پر غور کے لیے پاکستان کے بہت مشکور ہیں۔'

مارکو روبیو کا کہنا تھا کہ پاکستان اس حوالے سے ایک اہم ملک ہے، ’اگر وہ اس پر متفق ہو جاتے ہیں۔‘

امریکی وزیر خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ ’فورس کے مینڈیٹ، کمانڈ اور فنڈنگ کے معاملات پر اب بھی بحث جاری ہے۔‘

اُن کا کہنا تھا کہ اگلا مرحلہ بورڈ آف پیس اور فلسطینی ٹیکنو کریٹ گروپ کا قیام ہے، جو روزمرہ کی گورننس کے معاملات دیکھے گا۔

مارکو روبیو کے بقول ’جب یہ معاملہ طے پا جائے گا تو اس کے بعد میں سمجھتا ہوں کہ اس سے ہمیں سٹیبلائزیشن فورس کو مضبوط کرنے کی اجازت ملے گی، جس میں یہ بھی شامل ہے کہ اس کی ادائیگی کیسے کی جائے گی، ان کی مصروفیت کے اصول کیا ہیں، غیر فوجی معاملات میں ان کا کردار کیا ہو گا وغیرہ۔‘

مارکو روبیو کے بیان سے ایک روز قبل پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان طاہر اندارابی نے کہا تھا کہ پاکستان نے اس فورس کے لیے اپنی فوج بھیجنے کا تاحال کوئی فیصلہ نہیں کیا۔

گذشتہ ہفتے پاکستان کی مذہبی جماعتوں نے بھی ایک اجلاس میں پاکستانی حکومت پر زور دیا تھا کہ وہ حماس کو غیر مسلح کرنے کے لیے غزہ میں فوج بھیجنے سے گریز کرے۔

اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ بہت سے مسلمان ممالک، حماس کو غیر مسلح کرنے سے انکار کر چکے ہیں اور اب پاکستان پر اس کے لیے دباؤ بڑھایا جا رہا ہے۔

’مجلس اتحاد امت پاکستان‘ کے زیرِ اہتمام کراچی میں ہونے والی اس کانفرنس میں مفتی تقی عثمانی، مولانا فضل الرحمن اور مفتی منیب الرحمان سمیت متعدد مکاتب فکر کے علما نے شرکت کی تھی۔

اس دوران خبر رساں ادارے روئٹرز کی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ پاکستان کے فیلڈ مارشل عاصم منیر آنے والے دنوں میں امریکہ کا دورہ کرنے والے ہیں، جہاں اُن کی صدر ترمپ سے ملاقات متوقع ہے۔ لیکن پاکستان کے دفتر ِخارجہ نے کہا تھا کہ فی الحال فیلڈ مارشل کو امریکہ کوئی دورہ طے نہیں ہے۔

Getty Imagesرواں ماہ نیوز کانفرنس کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کا کہنا تھا کہ ’اس (غزہ سٹیبلائزیشن فورس) کا حصہ بننے کی پیشکش یا کم از کم اس پر غور کے لیے پاکستان کے بہت مشکور ہیں‘ اسحاق ڈار کا یہ بیان کیا ظاہر کرتا ہے؟

دفاعی اُمور کے تجزیہ کار ڈاکٹر حسن عسکری رضوی کہتے ہیں کہ ’ایک بات تو طے ہے کہ پاکستان اُصولی طور پر اس فورس میں شمولیت کے لیے تیار ہے۔‘

بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ’پاکستان چاہتا ہے کہ یہ فورس اقوامِ متحدہ کے کسی فریم ورک یا اس کے پیس کیپنگ مشن کے تحت بنے، جس میں پاکستان ماضی میں مختلف ممالک میں اپنی فوجیں بھیجتا رہا ہے۔‘

اُن کے بقول ’اگر امریکہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر کوئی فوج بناتا ہے، جسے اسرائیل کی بھی توثیق حاصل ہو تو اس کے لیے رضامند ہونا پاکستان کے لیے بہت مشکل ہو گا۔‘

ڈاکٹر عسکری کہتے ہیں کہ ’اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر پاکستان کی حکومت اور فوج کا مقامی سطح پر اس معاملے پر سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کیونکہ اس سے یہ تاثر جائے گہ پاکستان، امریکہ اور اسرائیل کے ایجنڈے کو آگے بڑھا رہا ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’یہی وجہ ہے کہ اس معاملے پر اب بھی کفیوژن ہے۔ کیونکہ پاکستان، امریکہ کے ساتھ اپنے اچھے تعلقات میں بگاڑ کا بھی متحمل نہیں ہو سکتا اور دوسری طرف عوامی دباؤ ہے تو اس معاملے پر کوئی بھی فیصلہ حکومت کے لیے بڑا چیلنج ہو گا۔‘

امریکہ میں پاکستان کی سابق سفیر ملیحہ لودھی نے پیر کو ڈان اخبار میں اپنے کالم میں لکھا کہ ’کسی بھی صورت میں پاکستانی فوج کی تعیناتی میں اسے اسرائیلی فوج کے ساتھ رابطہ کرنا پڑے گا، جو مکمل طور پر ناقابلِ اعتبار ہے۔‘

ملیحہ لودھی کے مطابق لبنان میں اقوام متحدہ کے امن دستوں پر اسرائیلی فوج کی فائرنگ معمول کی بات ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ ’اگر اسرائیلی فوج نے آئی ایس ایف میں شامل پاکستانی فوج کے اہلکاروں پر فائرنگ شروع کر دی تو کیا ہو گا؟‘

ملیحہ لودھی کہتی ہیں کہ ’اسرائیل کے ساتھ رابطہ یا اس معاملے میں تعاون اسے تسلیم کرنے کے مترادف ہو گا۔ یہ پاکستان کی فلسطین تنازع سے متعلق اس کی دہائیوں سے جاری پالیسی کے بھی خلاف ہو گا۔‘

واضح رہے کہ اسرائیل کے وزیر اعظم پیر کو فلوریڈا میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے مل رہے ہیں، جس میں غزہ امن فورس بھی ایجنڈے میں شامل ہو گی۔

اسرائیلی میڈیا کے مطابق نتن یاہو، اس ملاقات میں ترکی کو امن فورس میں شامل کرنے کی مخالفت کریں گے۔ بعض میڈیا رپورٹس کے مطابق اسرائیل، پاکستان کو بھی اس فورس میں شامل کرنے کی مخالفت کر سکتا ہے۔

ٹرمپ کا 20 نکاتی غزہ منصوبہ اور غزہ امن فورس

نومبر میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے غزہ میں قیامِ امن کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پیش کردہ 20 نکاتی منصوبے کے حق میں قرارداد منظور کی تھی۔

سلامتی کونسل میں منظور کردہ قرارداد میں غزہ میں مختلف ممالک کی افواج پر مشتمل ’بین الاقوامی استحکام فورس‘ کا قیام بھی شامل ہے۔ اس فورس میں جن ممالک کی افواج شامل ہوں گی، اُن کے نام سامنے نہیں آئے تھے۔

سلامتی کونس میں پیش کردہ اس قرارداد کے حق میں برطانیہ اور فرانس سمیت 13 ممالک نے ووٹ دیا جبکہ روس اور چین نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔ پاکستان نے بھی حق میں وٹ دیا۔ پاکستان نے غزہ کے معاملے پر سلامتی کونسل کی قرارداد حق میں ووٹ دیا ہے۔

اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق بین الاقوامی استحکام فورس اسرائیل، مصر اور نئی تربیت یافتہ مگر تصدیق شدہ فسلطینی پولیس فورس سرحدی علاقوں کی سکیورٹی اور حماس سمیت ریاست مخالف گروہوں کو غیر مسلح کرنے میں مدد کرے گی۔

یاد رہے کہ اب تک غزہ میں پولیسں حماس کے زیر انتظام کام کرتی ہے۔

اقوامِ متحدہ میں امریکہ کے سفیر مائیک والٹز نے سکیورٹی کونسل کو بتایا کہ ’بین الاقوامی فورس کے اہداف یہ ہوں گے کہ وہ علاقے کو محفوظ بنائیں، غزہ میں غیر عسکری کارروائیوں کی حمایت کریں، دہشت گردوں کا نیٹ ورک ختم کریں، اسلحہ ختم کریں اور فلسطینی شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنائے گی۔‘

حماس نے اقوام متحدہ کی قرارداد کو مسترد کر دیا تھا۔ حماس نے ٹیلی گرام پر جاری پیغام میں کہا تھا کہ ’غزہ میں بین الاقوامی سرپرستی کا جو نظام مسلط کیا جا رہا ہے اسے ہمارے عوام اور مختلف گروہوں نے مسترد کیا ہے۔‘

حماس کو غیر مسلح کرنے کا ایسا طریقہ جو فریقین کے لیے قابلِ قبول ہو، ایسا نکتہ ہے جسے ماہرین جنگ بندی معاہدے کو برقرار رکھنے اور دوسرے مرحلے کے لیے پیش رفت میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیتے ہیں۔

عبرانی زبان کے اسرائیلی اخبار ’اسرائیل ہایوم‘ کے مطابق ترکی انٹرنیشنل سٹیبلائزیشن فورس (آئی ایس ایف) کا حصہ بننے کے لیے مسلسل دباؤ ڈال رہا ہے۔ اخبار کے مطابق اس فورس کے مینڈیٹ میں حماس کو غیر مسلح کرنا بھی ہو گا۔

اخبار میں گذشتہ ہفتے شائع ہونے والے مضمون میں کہا گیا ہے کہ نتن یاہو اس معاملے میں دوٹوک موقف رکھتے ہیں کہ ترکی کو اس فورس میں شامل نہیں ہونے دیا جائے گا اور امریکہ بھی اسرائیل کے اس موقف کے ساتھ ہے۔

ابھی تک کسی بھی ملک نے باضابطہ طور پر انٹرنیشنل سٹیبلائزیشن فورس میں شامل ہونے کا اعلان نہیں کیا۔

ٹرمپ کا غزہ میں جنگ بندی کا مجوزہ منصوبہ: کیا آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی صورت میں پاکستان اسرائیل کو تسلیم کر سکتا ہے؟ ’مکمل تباہی اور ملبے کا ڈھیر‘: جنگ کے دو سال بعد بی بی سی نے غزہ میں کیا دیکھا؟غزہ کی پٹی: ’دنیا کی سب سے بڑی کُھلی جیل‘ جس پر سکندر اعظم سے لے کر سلطنتِ عثمانیہ تک نے حکومت کیاسرائیل سے موصول ہونے والی فلسطینیوں کی 95 مسخ شدہ نامعلوم لاشوں کا معمہ: ’بعض کو جلایا گیا، کچھ کو ٹکڑے ٹکڑے کیا گیا‘غزہ امن معاہدے سے جڑی اُمیدیں اور خدشات: کیا نتن یاہو یرغمالیوں کی واپسی کے بعد دوبارہ جنگ شروع کر سکتے ہیں؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More