Getty Images
ویسٹ انڈین بلے بازوں کو وہ راہ اپنانے کی ذرا ضرورت نہ تھی جو ان کے عزائم کا انہدام بن جاتی۔ اگر وہ یہاں ذرا رکنے کی سوچ لے کر آتے تو میچ پر اپنی گرفت بحال کر سکتے تھے مگر کریگ براتھویٹ کے بلے بازوں کا خیال کچھ مختلف تھا۔
جیسے سعود شکیل اور محمد رضوان نے اپنے تدبر سے لڑکھڑاتی پاکستانی بیٹنگ لائن کے آگے بند باندھا، وہ نہ صرف پاکستان کی ڈوبتی امیدوں کا آسرا بن گیا بلکہ اس نے ویسٹ انڈین کپتان کو بھی اپنی حکمتِ عملی پر الجھا چھوڑا۔
جن عجیب و غریب ’سائنسی‘ تجربات سے گزر کر ملتان کی یہ پچ ظہور پذیر ہوئی، ان کے سبب یہ تو عین متوقع تھا کہ یہاں بیٹنگ مجموعے خاصے مختصر رہیں گے جبکہ سپنرز اپنی بولنگ سے خوب لطف اندوز ہوں گے۔
مگر یہ نتیجہ تو شاید اس پچ کے اپنے ’سائنسدانوں‘ کے بھی گمان میں نہ تھا کہ پہلی ہی گیند سے یہ ایسا ’شارپ ٹرن‘ لینے لگے گی کہ صرف بلے باز ہی نہیں، بولرز اور امپائرز تک حیرت میں پڑ جائیں گے۔
ٹاس ہارنے کے باوجود براتھویٹ کے پاس موقع تھا کہ اپنی حکمتِ عملی فوری طور پر، پچ کے اس نئے رویے کے پیشِ نظر، تبدیل کرتے مگر وہ اسی ڈگر پر چلتے چلے گئے جو میدان میں اترنے سے پہلے وہ اپنے تھنک ٹینک سے طے کر کے آئے تھے۔
جن پچز میں باؤنس اس قدر کم ہو اور ٹرن ایسا غیر معمولی، وہاں یہ جنرل نالج کیونکر کسی کپتان کے ذہن سے اوجھل رہ سکتا ہے کہ سیمرز کی نسبت سپنرز کہیں زیادہ موثر ثابت ہوں گے؟
بلاشبہ جیڈن سیلز نے ابتدائی سپیل میں دھیمے باؤنس اور پچ کے کھردرے پن سے غیر معمولی سیم موومنٹ حاصل کرتے ہوئے پاکستانی ٹاپ آرڈر کے خواب تشنہ کر چھوڑے مگر دوسری جانب جو پیس ان کی بدولت پاکستانی بلے بازوں کے سٹروکس کو میسر ہوئی، وہ گیند کی نئی سیم اور چمک گھٹا گئی۔
پاکستان ویسٹ انڈیز ٹیسٹ سیریز: میلکم مارشل کی 13 گیندیں اور 35 برس کا انتظار’دو دہائیوں کا انتظار بھی کیپ ٹاؤن سے مایوس پلٹ آیا‘دنیا کا ’تیز ترین‘ پاکستانی بولر جو صرف پانچ ٹیسٹ میچ ہی کھیل پایاسعید انور: بولرز کے لیے ’ڈراؤنا خواب‘ بننے والے اوپنر جو عمران خان کی طرح کرکٹ کی دنیا چھوڑنا چاہتے تھے
جیسے پہلی اننگز کے پہلے پندرہ اوورز میں ہی ویسٹ انڈین بولنگ پاکستانی تھنک ٹینک کو اس کے اپنے بچھائے جال میں پھنسا چکی تھی، اگلے بیس اوورز میں شاید پوری اننگز کا قصہ ہی تمام کر جاتی مگر تب تک رضوان اور سعود شکیل کے ہنر کا توڑ کرنے کو سیم کی وہ کاٹ دستیاب نہ رہی تھی جو پہلے دن کی تازہ پچ پر قسمت کے فیصلے مقدم کر سکتی۔
جوں جوں رضوان اور سعود شکیل کے تجربہ کار پاؤں کریز سے نکلنے لگے، کریبئین سپنرز کے نو آموز ہاتھ پھولنے لگے۔ نہ صرف ان کی لینتھ گڑبڑا گئی بلکہ ڈسپلن بھی منتشر ہونے لگا۔
نوآموز کریبئین سپنرز یہ بھی سمجھنے سے قاصر رہے کہ اس سست پچ پر کامیابی کے لیے گیند کی رفتار میں کمی لانا ضروری تھا مگر انھوں نے سیم کی ماندگی کا ازالہ اپنی رفتار اور فلائٹ میں اضافے سے کرنے کی کوشش کی اور خود اپنی ہی حکمتِ عملی کا ہدف بن رہے۔
Getty Images
سعود شکیل اور محمد رضوان کی ساجھے داری نہ صرف پاکستان کا کھاتہ مضبوط کر گئی بلکہ کریبئین بولرز کے ساتھ ساتھ ان کے بلے بازوں پر بھی بوجھ بڑھا گئی جنھیں اپنی تمام تر ناتجربہ کاری کے باوجود اس سست پچ پر ساجد خان اور نعمان علی کی مشاق انگلیوں کا سامنا درپیش تھا۔
جہاں ویسٹ انڈین سپنرز کا انحصار فلائٹ اور آف سٹمپ کے باہر جارحانہ لائن پر رہا، وہاں ساجد خان اور نعمان علی نے سٹمپس چینل کے اندر وہ ڈسپلن اپنایا جو رفتار اور فلائٹ کی کمی کے سبب اور زیادہ مہلک ہو گیا۔
گو اس تجربے کے جواب میں براتھویٹ کے بلے باز وہ راہ بھی اپنا سکتے تھے جہاں کچھ دیر کریز پر رک کر سیم پرانی ہونے کا انتظار کیا جاتا اور ساجھے داریاں جوڑ کر دھیرے دھیرے وہ خسارہ چکایا جاتا جو رضوان اور سعود ان کے سر لاد گئے تھے۔
مگر کریبئین بلے بازوں نے جارحیت کی راہ اپنائی اور ٹرن کے الٹ کھیلنے کی وہ پالیسی اختیار کی جو بجائے خود پاکستانی سپنرز کی پہلی خواہش تھی۔
ویسٹ انڈین مشکلات اس امر سے بھی بڑھ گئیں کہ اپنے حریف کپتان کے برعکس شان مسعود نے ایک ہی اوور بعد گیند خرم شہزاد سے واپس لے کر نعمان علی کو تھما دی تاکہ یہ اپنی کاٹ کھونے کی بجائے سپنرز کے ہنر کا اوزار بن سکے۔ دونوں کناروں سے پاکستانی سپنرز قہر برسا رہے تھے مگر معاملہ فہمی سے بھی اس قہر کا مقابلہ کیا جا سکتا تھا۔
گو، حسبِ توقع پندرہ اوورز بعد وہ مرحلہ آیا جہاں گیند کی کاٹ ماند پڑی اور جومیل واریکن و گڈاکیش موتی کی شراکت نے ویسٹ انڈین امیدوں کو مکمل انہدام سے بچا لیا مگر پہلے روز کی بولنگ حکمت عملی اور دوسری سہہ پہر کی بیٹنگ سٹریٹجی انھیں وہاں لا کھڑا کیا، جہاں سے میچ میں تکریم کے سبھی راستے ان پر بند ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔
ویسٹ انڈیز کے خلاف ٹیسٹ میں پاکستان کی لڑکھڑاتی بیٹنگ کو رضوان اور سعود کا سہاراپاکستان ویسٹ انڈیز ٹیسٹ سیریز: میلکم مارشل کی 13 گیندیں اور 35 برس کا انتظارٹیسٹ کرکٹ میں ’ٹو ٹیئر‘ منصوبہ ’لالچ‘ یا کھیل کی بقا کا واحد راستہ؟بمراہ اور وقار یونس کا موازنہ: ’عجیب ایکشن والا‘ انڈین بولر جس کی قسمت ایک اتفاق نے بدل دی’سنچورین پارک میں جس معجزے کا پاکستان کو انتظار تھا۔۔۔‘206 رنز کا دفاع کرتے ہوئے پاکستانی تھنک ٹینک سے کہاں غلطی ہوئی؟