"میں پہلاج کا فون چیک نہیں کرتی، لیکن اس کی سرگرمیوں پر نظر رکھتی ہوں۔ مجھے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کہاں جا رہا ہے کیونکہ وہ رابطے میں رہتا ہے۔ اس کے دوستوں اور ان کی ماؤں کے نمبر بھی میرے پاس ہوتے ہیں۔ وہ جہاں بھی جاتا ہے مجھے اطلاع دیتا ہے۔ میں نے کچھ لوگوں کو بھی کہا ہوا ہے کہ وہ اس پر نظر رکھیں، لیکن میں فون یا لیپ ٹاپ چیک کرنے کی عادت میں نہیں ہوں۔ آپ اپنے بچے پر نظر رکھ سکتے ہیں بغیر اسے تنگ کیے، ورنہ وہ بیزار یا باغی بن سکتا ہے۔ بچوں کو اسپیس دینی چاہیے۔ میں اس کے پیچھے نہیں بھاگتی کیونکہ اب وہ بڑا ہو چکا ہے اور اس کے دوست بھی خاصے سمجھدار ہیں۔ اس کے لیے دعائیں کرتی ہوں۔ میں سخت ماں نہیں ہوں، ایک بار مارنے کی کوشش کی تھی، لیکن کر نہیں پائی۔"
پاکستان کی معروف سابق نیوز اینکر قرۃ العین اقرار نے حال ہی میں عروسہ خان کے پوڈکاسٹ میں شرکت کی جہاں انہوں نے اپنے بیٹے پہلاج کی تربیت اور والدین کی ذمہ داریوں کے حوالے سے کھل کر بات کی۔
پوڈکاسٹ میں قرۃ العین نے بتایا کہ وہ بیٹے کے ساتھ دوستی کا سا رویہ رکھتی ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ بچوں کو مکمل کنٹرول کرنا اور ہر وقت ان پر نظر رکھنا ان کے اعتماد اور شخصیت کو متاثر کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پہلاج کی ہر سرگرمی کی خبر تو رکھتی ہیں لیکن اس پر سختی یا زبردستی نہیں کرتیں، بلکہ اعتماد کا رشتہ قائم رکھا ہے۔
قرۃ العین نے یہ بھی بتایا: "میں اب پہلاج کی شاپنگ نہیں کرتی، وہ خود اپنی مرضی سے چیزیں خریدتا ہے۔" انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ بچوں کو خودمختاری دینا چاہیے تاکہ وہ اپنی زندگی کے فیصلے خود کرنا سیکھیں۔
انہوں نے کہا کہ پہلاج اب تنہا سفر کر سکتا ہے، حالانکہ اس کا پہلا سولو ٹرپ اس کی نانی اور ماموں کے ساتھ تھا۔ "ہمیں بچوں کو زندگی کے لیے تیار کرنا ہے۔ انہیں اڑنے کے لیے پر دینا ہوں گے۔"
قرۃ العین اقرار کا یہ انٹرویو اس بات کی ایک عمدہ مثال ہے کہ جدید دور میں والدین کیسے اپنے بچوں کے ساتھ توازن برقرار رکھ سکتے ہیں — نہ حد سے زیادہ سختی، نہ مکمل چھوٹ بلکہ ایک ایسا تعلق جہاں اعتبار، اسپیس اور تربیت ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔