بیرون ملک مقیم پاکستانی سالانہ 36 ارب ڈالر پاکستان بھیجتے ہیں یہ رقم ملکی معیشت کو سہارا دینے میں انتہائی اہم کردار کرتی ہے جس کے بدلے ہونا یہ چاہیے تھا کہ بیرون ممالک بیٹھے پاکستانیوں کو اس کا انعام دیا جاتا لیکن پاکستان میں جس طرح بہت سارے معاملات میں الٹی گنگا بہتی ہے اس معاملے میں بھی رقوم بھیجنے والوں کے بجائے بینکوں کو سرکاری طور پر نوازا جارہا ہے اور بینک سرکاری انعام کے علاوہ بھی غیر قانونی طور پر اربوں کمارہے ہیں۔
حالیہ وفاقی بجٹ میں بیرون ملک سے بھیجی جانے والی ترسیلات پر انعام کے طور پر دینے کے لیے 87 ارب روپے بینکوں کے لیے مختص کیے گئے ہیں تاہم بینکنگ ذرائع کا کہنا ہے کہ صرف یہ رقم نہیں بلکہ مقامی اور منی ٹرانسفر بینکوں کو مارکیٹنگ، پروموشن کے نام پر الگ سے بھی پیسے دیے جاتے ہیں جبکہ بینک غیر ملکی کرنسی کی قدر میں فرق اور کئی دن اپنے پاس رکھ کر الگ سے بھی اضافی کمائی کرتے ہیں اس طرح کل ملا کر بینک ترسیلات زر میں سالانہ تقریباً 200 ارب روپے سے کما لیتے ہیں۔
اسٹیٹ بینک نے پیر کو سرکلر جاری کرکے کچھ تبدیلیاں کی ہیں تفصیل میں جانے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ اب تک ہو کیا رہا تھا؟ بینکنگ ذرائع سے حاصل معلومات کے مطابق بیرون ملک مقیم پاکستانی جب اپنے وطن رقوم بھیجتے ہیں تو بینکوں کو کم از کم 100 ڈالر پر 37 سعودی ریال انعام میں ملتے تھے، منی ٹرانسفر بینک والے صرف اسی پر اکتفا نہیں کرتے تھے بلکہ وہ اگر ہزار ڈالر آتے تھے تو اسے 10 ٹرانزیکشنز میں تقسیم کرکے 370 ریال بٹور رہے تھے۔
اسٹیٹ بینک کی جانب سے پیر کو ایک سرکلر میں اس دھندے کو روکنے کے لیے کم از کم 100 ڈالر کی ٹرانزیکشن کو بڑھا کر 200 ڈالر کردی ہے اور اس پر انعام کی شرح بھی 20 ریال کردی ہے اس کے علاوہ ایک پابندی یہ لگا دی ہے کہ کوئی بھی شخص ایک دن میں پانچ سے زائد مفت باہر سے ٹرانزیکشن نہیں کرسکتا اس پابندی کا مقصد بینکوں کو ایک ٹرانزیکشن کئی ٹرانزیکشنز میں تبدیل کرنے کے عمل کو روکنا ہے۔
بینکنگ ذرائع کے مطابق مرکزی بینک کی جانب سےمنی ٹرانسفر بینکوں کو مارکیٹنگ اور پروموشن کے نام پر الگ سے بھی فنڈز ملتے رہے ہیں جس کا طریقہ یہ تھا کہ اگر مقررہ ہدف سے زیادہ ترسیلات زر پاکستان منتقل کرتا ہے تو اسے 100 ڈالر پر اضافی 17 ریال مارکیٹنگ فیس کی مد میں ملتے تھے اس مد میں بینکوں کو سالانہ کتنے ملتے رہے ہیں اس کی تفصیل خفیہ رکھی جاتی رہی ہے، اسٹیٹ بینک نے پیر کو ایک اور سرکلر کے زریعے یہ فنڈز بھی روک دیے ہیں۔
ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ بینکوں کو نہ صرف بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی جانے والی رقوم پر بیٹھے بٹھائے اربوں روپے انعام میں ملتے ہیں بلکہ وہ ٹرانزیکشنز میں ہیر پھیر کرکے بھی کما رہے ہیں اور جو بیرونی کرنسی آتی ہے اس کو پاکستانی روپے میں تبدیل کرنے میں انٹر بینک اور اوپن مارکیٹ کے نرخوں میں ہیر پھیر کرکے اور ایک ایک ہفتے تک رقم اپنے پاس رکھ کر بھی اضافی کمائی کرتے رہے ہیں۔
ذرائع کے مطابق بینکوں کو ملنے والی یہ مراعات اور ان کا ترسیلات زر میں غیر قانونی دھندا گزشتہ 20 سال سے جاری ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اسٹیٹ بینک کے سرکلر ز اس دھندے کو کتنا روکنے میں کامیاب ہوتے ہیں؟ بینکوں کے برعکس کرنسی ڈیلرز کو ایک ڈالر کے بدلے دو سے تین روپے کا انعام دیا جاتا تھا۔ کرنسی ڈیلرز کا ایک دیرینہ مطالبہ رہا ہے کہ انہیں بھی بینکوں کے مساوی انعام ملنا چاہیے۔ اسٹیٹ بینک کے ایک اور سرکلر میں کرنسی ڈیلرز کو بھی بینکوں کےمساوی انعام دیے جانے کی منظوری دی گئی ہے۔

چیئرمین ایکسچینج کمپنیز ایسو سی ایشن آف پاکستان ملک بوستان نے کرنسی ڈیلرز کو بینکوں کے مساوی انعام دیے جانے کے فیصلے کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ بینکوں کا ریبیٹ تقریباً 22 روپے فی ڈالر بنتے ہیں ہمارا 2 روپےفی ڈالر تھا۔ ہمیں لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں مل رہی تھی، ہمارا پچھلے 11 سال سے یہ ہمارا دیرینہ مطالبہ تھا۔ ملک بوستان کے مطابق اسٹیٹ بینک نے اپنے اس سرکلر میں یہ لکھا ہے کہ اب 100 ڈالر کی بجائے 200 ڈالر بھیجنے والے سے سینڈنگ فیس چارج نہیں کی جائیگی۔ یہ بہت اچھا فیصلہ ہوا ہے۔ اس سے حکومت پاکستان کا پاکستان ریمی ٹینس اینشیٹیو کا بجٹ50 فیصد کم ہو جائے گا اور اس کے ساتھ ہی جو 15 ریال مارکیٹنگ فیس تھی وہ بھی کم ہو جائے گی۔ ہماری ویب سے گفتگو کرتے ہوئے ملک بوستان نے بتایا کہ کرنسی ڈیلرز 4 ارب ڈالر ملک لارہے ہیں بینکوں کے مساوی انعام ملنے کے بعد اگلے ایک سال میں اس کو دگنا کرکے دکھائیں گے۔

ایکس چینج کمپنیز ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری ظفر پراچہ نے ہماری ویب سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اسٹیٹ بینک کا کرنسی ڈیلرز کو بینکوں کے مساوی مواقع ملنا انتہائی اچھا فیصلہ ہے جس کے نتیجے میں کرنسی ڈیلرز ترسیلات زر بڑھانے میں پہلے سے بڑھ کر اہم کردار ادا کریں گے تاہم ان کا کہنا تھا کہ اصل انعام کے لائق بیرون ملک مقیم پاکستانی ہیں انہیں اگر براہ راست ترسیلات زر بھیجنے پر مراعات دی جائیں تو اس کے نتیجے میں ہمارے ترسیلات زر میں کئی گنا اضافہ ہوسکتا ہے، انہوں نے کہا کہ پاکستان واحد ملک ہے جس میں جو لوگ ترسیلات زر بھیج رہے ہیں ان کے بجائے بینکوں کو انعام دیا جارہا ہے، بنگلہ دیش، بھارت سمیت کسی ملک میں ایسا کوئی طریقہ کار نہیں ہے۔