نانگا پربت پر کوہ پیما کی تلاش کا آپریشن ناکام: ’کلارا کیمپ ون اور ٹو کے درمیان پاؤں پھسلنے کے باعث اونچائی سے گریں‘

بی بی سی اردو  |  Jul 05, 2025

کِلر ماؤنٹین یعنی 'خونی پہاڑ' کے نام سے مشہور پاکستان کی دوسری بلند ترین چوٹی نانگا پربت سر کرنے کی کوشش کے دوران حادثے کا شکار ہونے والی چیک ری پبلک کی 46 سالہ کوہ پیما کلارا کولوچوا کی تلاش کا آپریشن ان کے لاپتہ ہونے کے تین روز بعد ختم کر دیا گیا ہے۔

گلگت بلستان کی حکومت کے ترجمان فیض اللہ فراق کے مطابق ’انتہائی خطرناک، مشکل جغرافیہ ہونے کی بنا پر ریسیکو آپریشن کامیاب نہیں ہو سکتا ہے۔‘

ان کے مطابق ’دو ہیلی کاپٹرز نے کئی گھنٹوں تک پروازیں کی ہیں مگر انھیں کوہ پیما کا سراغ نہیں مل سکا۔‘

سیون سمٹ ٹریکس وہ کمپنی ہے جس نے پاکستان میں کلار کولوچوا کو مہم جوئی سے متعلق سروسز فراہم کی تھیں۔ اس کمپنی کے پاکستان میں نمائندے غلام احمد کے مطابق ’ریسیکو آپریشن ختم کر دیا گیا ہے۔‘

کلارا کی نانگا پربت کو سر کرنے کی یہ دوسری کوشش ہے۔ سنہ 2024 میں اُن کی جانب سے نانگا پربت کو سر کرنے کی پہلی کوشش ناکام ہوئی تھی تاہم ایک سال بعد ہی انھوں نے دوبارہ اس چوٹی کو سر کرنے کے لیے پاکستان کا رُخ کیا تھا۔

پاکستان پہنچنے اور اس مہم کا آغاز کرنے سے قبل 16 جون کو انھوں نے اپنی انسٹاگرام پوسٹ میں لکھا تھا کہ ’پچھلے سال نانگا پربت نے جیسے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا اور میری روح میں خاموشی اور سکوت اُتر آیا تھا۔۔۔ اس بار ہمارا ارادہ بلند ہے، ہم چوٹی تک پہنچیں گے۔‘

اس تحریر کے ساتھ انھوں نے 2024 میں نانگا پربت کے کیمپ ٹو کی تصویر بھی شیئر کی تھی جو انھوں نے خود گذشتہ ناکام مہم کے دوران بنائی تھی۔

کلارا نے دنیا کی بلند ترین چوٹیوں ماؤنٹ ایورسٹ اور کے ٹو کے علاوہ بہت سی دیگر چوٹیاں سر کر رکھی ہیں۔

کوہ پیما کے ساتھ کیا واقعہ پیش آیا؟

ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر چلاس نظام الدین نے بی بی سی کو بتایا کہ جمعرات کو مقامی انتظامیہ کو کلارا کی کوہ پیما ٹیم نے اطلاع پہنچائی تھی کہ کلارا نانگا پربت کے کیمپ ون اور ٹو کے درمیان پاؤں پھسلنے کی وجہ سے گر گئی تھیں۔

نظام الدین کے مطابق کلارا کے ٹیم ممبران واپس بیس کیمپ پہنچے جہاں پر انھوں نے حادثے کی تصدیق کی۔

دوسری جانب الپائن کلب کی جانب سے جاری کردہ بیان میں دعویٰ کیا کہ 'کلارا مبینہ طور پر گلگت بلتستان کے دیامر میں بونار بیس کیمپ کے قریب صبح چار بجے کیمپ ون اور کیمپ ٹو کے درمیان اونچائی سے گریں۔'

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ 'حکام اور ریسکیو ٹیموں کو فوری طور پر الرٹ کر کے روانہ کر دیا گیا تھا۔'

کلارا ناننگا پربت کی مہم جوئی کے لیے اپنے شوہر کے ہمراہ 15جون کو پاکستان پہنچی تھیں اور وہ 17جون کو بیس کیمپ پہنچی تھیں۔ الپائن کلب کے جنرل سیکریٹری کرار حیدری نے گذشتہ روز بتایا تھا کہ امدادی کارکناں اور بلندی پر مدد فراہم کرنے والے پوٹرز کو جائے وقوعہ کی طرف روانہ کر دیا گیا تھا۔

’شاندار انسان اور کھلے دل کی مالک‘

انجا کرین بلاچا جرمن کوہ پیما ہیں جنھوں نے سنہ 2019 میں کلارا کے ہمراہ کے ٹو کی مہم سر کی تھی۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ 'کے ٹو کی مہم آسان نہیں تھی۔ اُس وقت اِس مہم کو سر کرنے کے لیے مجموعی طور پرسو سے زائد کوہ پیما آئے تھے مگر ان میں سے صرف 31 ہی کامیاب ہو پائے تھے، جن میں میں اور کلارا بھی شامل تھیں۔'

انجا کرین بلاچا کا کہنا تھا کہ یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ بہت مضبوط ہیں۔ 'ایسا نہیں کہ وہ صرف مضبوط اور طاقتور ہیں بلکہ وہ بہت شاندار انسان اور کھلے دل کی مالک بھی ہیں۔ کے ٹو کی مہم کے دوران میں نے دیکھا کہ اگر اُن کی رفتار کم ہوتی اور کوئی اور راستہ مانگتا تو وہ اس کو راستہ دے دیتی تھیں، خود پہلے جانے پر اصرار نہیں کرتی تھیں۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔'

ان کا کہنا تھا کہ 'اُن کی اعلیٰ ظرفی کا یہ مظاہرہ میں نے دھولگیری کی مہم کے دوران بھی دیکھا۔ اگرچہ وہ یہ مہم سر نہیں کر سکی تھیں، مگر جب اُن تک یہ خبر پہنچی کہ میں نے چوٹی سر کر لی ہے تو وہ انسٹاگرام پر مبارک دینے والوں میں پہلے نمبر پر تھیں، اور انھوں نے میرا استقبال ایسے کیا جیسا کہ انھوں نے خود چوٹی سر کی ہو۔'

انجا کرین بلاچا نے یاد کرتے ہوئے بتایا کہ کلارا کی بیس کیمپ پر موجودگی سب کے لیے طاقت اور توانائی کا باعث ہوتی۔ وہ سب کے ساتھ بات چیت کرتیں اور سب کا ساتھ دیتیں۔ اس طرح ساتھ دیتیں کہ ہر کوئی ان کا قدر دان بن جاتا۔ مہم جوئی کے دوران اگر ان کا شرپا دستیاب نہ ہوتا تو وہ دوسرے شرپا کے ساتھ چل پڑتیں۔'

'میں آپ کو بتاؤں کہ کے ٹو کی خطرناک مہم کے دوران جب میری مہم کا انتظام کرنے والے مجھ سے رابطہ رکھ کرموسم کے حوالے سے اطلاعات دینے میں ناکام رہے تھے، تب یہ کامکلارا نے انجام دیا تھا اور یہ بہت بڑی مدد تھی۔'

انٹرنیٹ پر دستیاب معلومات کے مطابق کلارا نے چیک ری پبلک کے دارالحکومت پراگ کی اینگلو-امریکن یونیورسٹی سے بزنس مینجمنٹ کی تعلیم حاصل کر رکھی تھی۔ اپنی تعلیم کے دوران وہ مختلف غیر ملکی کمپنیوں کے لیے پی آر مینیجر کے طور پر بھی کام کرتی رہی تھیں۔

کوہ پیما اور ایتھلیٹ ہونے کے علاوہ وہ ٹینس شوق سے کھیلتیں۔ کلارا چیک ری پبلک کی پہلی کوہ پیما ہیں جنھوں نے دنیا کی پہلی تین چوٹیوں ماؤنٹ ایورسٹ، کے ٹو اور کنچنجنگا اور مجموعی طور پر آٹھ ہزار میٹر سے بلند پانچ چوٹیوں کو سر کر رکھا تھا۔

وہ ’معجزہ‘ جس نے ’قاتل پہاڑ‘ پر پاکستانی کوہ پیماؤں کی جان بچائیکے ٹو کا ’ڈیتھ زون‘ کیا ہے اور کوہ پیما وہاں کتنے گھنٹے زندہ رہ سکتے ہیں؟وہ بچہ جسے ’بہت چھوٹا‘ کہہ کر کوہ پیما ساتھ نہ لے جاتے اس نے ماؤنٹ ایورسٹ سر کر لیعلی سدپارہ کی موت کی تصدیق: ’کے ٹو نے والد کو ہمیشہ کے لیے آغوش میں لے لیا‘Getty Imagesسنہ 1953 تک یہی خیال کیا جاتا تھا کہ یہ 'کلر ماؤنٹین' ہے جو اسے سر کرنے جاتا ہے، مر جاتا ہے۔نانگا پربت کو ’کلر ماؤنٹین‘ کیوں کہتے ہیں؟

نانگا پربت یا ننگی پہاڑی کو علاقائی زبان میں 'دیامیر' بھی پکارا جاتا ہے، جس کا مطلب ہے 'پہاڑوں کا بادشاہ'۔ یہ چوٹی پاکستان میں گلگت بلتستان کےعلاقے میں سطح سمندر سے 8126 میٹر کی بلندی پر واقع ہے۔

نانگا پربت کو'کلر ماؤنٹین' یا 'قاتل پہاڑ' کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، کیونکہ اس پر شرح اموات دنیا میں موجود 8000 میٹر سے بلند چوٹیوں میں سب سے زیادہ یعنی 23 فیصد ہے۔

عمران حیدر تھہیم بتاتے ہیں کہ دنیا میں 8000 میٹر سے بلند جتنی بھی 14 چوٹیاں ہیں ان پر سب سے پہلے سمٹ کی کوششیں 1895 میں نانگا پربت سے ہی شروع ہوئی تھیں۔

سنہ 1895 سے 1953 تک، پہلی سمٹ سے پہلے جتنے بھی کوہ پیما نانگا پربت کو سر کرنے جاتے (8-10 ایکسپیڈیشن) سب کے سب مر جاتے۔

سنہ 1953 تک یہی خیال کیا جاتا تھا کہ یہ 'کلر ماؤنٹین' ہے جو اسے سر کرنے جاتا ہے، مر جاتا ہے۔

پہلے سمٹ سے قبل تک کم از کم 31 کوہ پیما اس کا سمٹ کرنے کی کوششوں میں ہلاک ہوئے، پھر 1953 میں ڈرامائی طور پر پہلا سمٹ ہوا اور وہ بھی آکسیجن کے بغیر۔

آسٹریا کے مشہور کوہ پیما ہرمن بوہل نے تن تنہا اور آکسیجن کے بغیر 1953 میں اس قاتل پہاڑ کو سر کر لیا تھا۔

عمران حیدر کے مطابق یہ کسی بھی آٹھ ہزاری پہاڑ کو اکیلے سر کرنے کی سب سے پہلی اور شاید آج تک کی واحد مثال ہے۔ گو کہ سوئس الپائنسٹ Ueli Steck نے بھی انّاپورنا ساؤتھ کو 2013 میں اکیلے سر کرنے کا دعویٰ کیا تھا لیکن یہ دعویٰ کچھ لوگوں کے نزدیک متنازعہ ہے۔

اب تک نانگا پربت پر سمٹ کرنے والے کوہ پیماؤں کی کل تعداد 376 ہے جبکہ 91 اسے سر کرنے کی کوششوں میں ہلاک ہو چکے ہیں۔ یعنی ہر چار میں سے ایک کوہ پیما اسے سر کرنے کی کوشش میں جان کی بازی ہارا ہے۔

وہ ’معجزہ‘ جس نے ’قاتل پہاڑ‘ پر پاکستانی کوہ پیماؤں کی جان بچائیکے ٹو کا ’ڈیتھ زون‘ کیا ہے اور کوہ پیما وہاں کتنے گھنٹے زندہ رہ سکتے ہیں؟وہ بچہ جسے ’بہت چھوٹا‘ کہہ کر کوہ پیما ساتھ نہ لے جاتے اس نے ماؤنٹ ایورسٹ سر کر لی’بیٹا بار بار پوچھتا تھا، بابا برفانی تودوں کا خطرہ تو نہیں ہے نا؟‘علی سدپارہ کی موت کی تصدیق: ’کے ٹو نے والد کو ہمیشہ کے لیے آغوش میں لے لیا‘نیپال کی ’مقدس کنواری‘ چوٹی جو شاید ہمیشہ ناقابل تسخیر رہے گی
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More