جعلی بھرتیوں کا نیٹ ورک، جھوٹے اشتہارات سے صوبائی اور وفاقی محکمے کیسے متاثر ہو رہے ہیں؟

اردو نیوز  |  Jul 05, 2025

پاکستان کے صوبہ پنجاب میں ان دنوں جعلی سرکاری نوکریوں کے اشتہارات کے ذریعے لوگوں سے پیسے بٹورے جا رہے ہیں۔

ویب سائٹس، اخبارات اور سوشل میڈیا پر پھیلائی جانے والی جعلی بھرتیوں نے ہزاروں شہریوں کو مالی نقصان پہنچایا ہے۔ پنجاب پبلک سروس کمیشن (پی پی ایس سی) نے حال ہی میں ایک انتباہ جاری کیا کہ سرکاری نوکریوں کے لیے صرف اس کی سرکاری ویب سائٹ پر بھروسہ کیا جائے۔

پی پی ایس سی کے ایک اعلٰی سطحی اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ ان جعلی بھرتیوں کے نیٹ ورک کو پکڑا جائے۔

اس اجلاس میں شریک ایک افسر نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’جعل ساز جعلی ویب سائٹس، سوشل میڈیا اور بڑے اخبارات میں اشتہارات کے ذریعے لوگوں کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ ان اشتہارات میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ پی پی سی یا دیگر سرکاری ادارے تھرڈ پارٹی کے ذریعے بھرتیاں کر رہے ہیں۔ شہریوں سے آن لائن فیس جمع کروائی جاتی ہے، لیکن بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب جھوٹ تھا۔ ہم نے ان سرگرمیوں کے خلاف قانونی کارروائی شروع کی ہے۔‘

جعلی بھرتیوں کے اشتہارلاہور کے رہائشی محمد نوید، جو ایک پرائیویٹ فرم میں کلرک ہیں، نے بتایا کہ انہیں انٹرنیٹ پر محکمہ بلدیات میں گریڈ 16 کی نوکری کا اشتہار نظر آیا۔ ویب سائٹ بظاہر پی پی ایس سی سے منسلک لگتی تھی اور اس میں ایک تھرڈ پارٹی ایجنسی کا ذکر تھا۔ انہوں نے آن لائن درخواست جمع کروائی اور جاز کیش سے دو ہزار روپے ادا کیے۔ انہیں ایک ای میل موصول ہوئی جس میں انٹرویو کی تاریخ دی گئی، لیکن دیے گئے پتے پر کوئی دفتر نہ تھا۔

’میں نے اپنی جمع پونجی سے پیسے ادا کیے لیکن سب جھوٹ نکلا۔ ویب سائٹ اب بند ہے۔ پی پی ایس سی سے تصدیق پر معلوم ہوا کہ اشتہار جعلی تھا۔‘

پنجاب پبلک سروس کمیشن کے ایک اعلٰی سطحی اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ ان جعلی بھرتیوں کے نیٹ ورک کو پکڑا جائے۔ (فائل فوٹو: لنکڈان)اصغر علی کی کہانی بھی کچھ ایسی ہی ہے، وہ بے روزگار ہیں اور انہیں کسی دوست نے واٹس ایپ پر ایک لنک بھیجا جس میں محکمہ بلدیات میں گریڈ 16 کی نوکریوں کا دعویٰ کیا گیا تھا۔ ویب سائٹ پر پی پی ایس سی کا لوگو اور تھرڈ پارٹی ایجنسی کا نام نمایاں تھا۔

اصغر نے درخواست جمع کروائی اور دو ہزار روپے جاز کیش سے ادا کیے۔ انہیں ایک جعلی ای میل موصول ہوئی جس میں ’امتحانی شیڈول‘ دیا گیا، لیکن پی پی ایس سی سے رابطے پر پتہ چلا کہ ایسی کوئی بھرتی نہیں۔

’میں نے اپنے بچوں کی فیس کے پیسوں سے درخواست دی تھی۔ یہ دھوکہ ہے اور سمجھ نہیں آتی کہ اس سے کیسے بچا جائے سب کچھ نارمل لگ رہا تھا۔‘

وفاقی محکمے بھی زد میںجعلی نوکریوں کا یہ سلسلہ صرف صوبائی محکموں تک محدود نہیں ہے بلکہ کئی وفاقی محکمے بھی اس کی زد میں ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ متاثر پاکستان ریلوے ہو رہا ہے۔ جہاں جعلی بھرتیوں کے اشتہارات کی بھرمار ہے، جو بڑے اخبارات اور سوشل میڈیا پر شائع ہوتے ہیں۔

اکتوبر 2024 میں لاہور کے ریلوے سٹیشن ماسٹر افتخار علی کو جعلی نوکریوں کے اشتہارات کے ذریعے دھوکہ دہی کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔

سٹیشن ماسٹر نے جعل سازوں نے ساتھ مل کر کئی بھرتیاں کیں اور نئے ملازمین سے ایک مہینہ کام بھی لیا، اور یہ سب جعلی کاغذات پر ہوا تھا۔ جبکہ سینکڑوں امیدواروں سے لاکھوں روپے لیے گئے لیکن اصل ملزمان سٹیشن ماسٹر کو بھی چکمہ دے کر فرار ہو گئے، اور انہیں گرفتار کر لیا گیا۔

اکتوبر 2024 میں لاہور کے ریلوے سٹیشن ماسٹر افتخار علی کو جعلی نوکریوں کے اشتہارات کے ذریعے دھوکہ دہی کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ (فائل فوٹو: سوشل میڈیا)ریلوے کے ترجمان نے سوشل میڈیا پر متعدد بار تردید کی کہ تمام بھرتیاں صرف سرکاری ویب سائٹ یا تصدیق شدہ اخبارات کے ذریعے ہوتی ہیں۔ ایک جعلی ویب سائٹ نے سنہ 2024 میں ریلوے کی نوکریوں کا اشتہار دیا، جو ریلوے نے مسترد کیا۔

ترجمان نے کہا کہ ’جعل ساز جعلی شناختوں اور عارضی نمبروں کا استعمال کرتے ہیں۔ شہری ہیلپ لائن 117 سے تصدیق کریں۔‘

جعل سازوں کا طریقہ کارجعل ساز منظم نیٹ ورک کے تحت کام کرتے ہیں۔ وہ جعلی ویب سائٹس بناتے ہیں جو پی پی ایس سی یا ریلوے سے ملتی جلتی ہیں، جن پر سرکاری لوگو اور جعلی نوٹیفکیشنز ہوتے ہیں۔ شہریوں سے ایک ہزار سے پانچ ہزار روپے فیس وصول کی جاتی ہے، جو جاز کیش یا ایزی پیسہ کے ذریعے ادا ہوتی ہے۔ کچھ جعل ساز اخبارات تک میں اشتہارات شائع کرتے ہیں جس پر لوگ آنکھیں بند کر کے یقین کر لیتے ہیں۔

پی پی ایس سی کا کہنا ہے کہ ’یہ گروہ بے روزگاری سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ہم نے کئی ویب سائٹس بند کروائی ہیں، لیکن جعل ساز نئی ڈومینز بنا لیتے ہیں۔‘

پنجاب پبلک سروس کمیشن نے ایف آئی اے کے ساتھ مل کر جعلی ویب سائٹس کی نشاندہی کی ہے۔ لاہور اور دیگر شہروں میں چھاپوں کے دوران چند مشتبہ افراد گرفتار ہوئے ہیں۔

ریلوے ترجمان کا بھی کہنا ہے ایف آئی اے کو واقعات رپورٹ کیے گئے ہیں۔ تاہم جعل سازوں کی جعلی شناختوں اور عارضی نمبروں کی وجہ سے گرفت بظاہر مشکل ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More