ڈونلڈ ٹرمپ کا یورپی یونین اور میکسیکو پر یکم اگست سے 30 فیصد ٹیرف عائد کرنے کا اعلان

اردو نیوز  |  Jul 13, 2025

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ امریکہ کے بڑے تجارتی شراکت دار میکسیکو اور یورپی یونین کو یکم اگست سے 30 فیصد ٹیرف کا سامنا کرنا پڑے گا۔

فرانسیسی نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق سنیچر کو ٹرمپ نے اپنے ٹروتھ سوشل پلیٹ فارم پر پوسٹ کیے گئے الگ الگ خطوط میں امریکہ میں غیرقانونی منشیات کی ترسیل میں میکسیکو کے کردار اور یورپی یونین کے ساتھ تجارتی عدم توازن کا حوالہ دیا ہے۔

جنوری میں صدارت میں واپس آنے کے بعد سے ٹرمپ نے اتحادیوں اور حریفوں پر یکساں طور پر بڑے پیمانے پر محصولات عائد کیے ہیں، مالیاتی منڈیوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور عالمی معاشی بدحالی کے خدشات کو بڑھا دیا ہے۔

ٹرمپ کی جانب سے اعلان کردہ میکسیکو کے لیے 30 فیصد ٹیرف اس سال کے شروع میں میکسیکو کے سامان پر عائد کردہ 25 فیصد لیوی سے زیادہ ہے، حالانکہ امریکہ اور میکسیکو کے درمیان پہلے سے موجود معاہدے کے تحت امریکہ میں داخل ہونے والی مصنوعات کو استثنیٰ حاصل ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے خط میں کہا کہ ’میکسیکو سرحد کو محفوظ بنانے میں میری مدد کر رہا ہے، لیکن میکسیکو نے جو کچھ کیا، وہ کافی نہیں ہے۔ یکم اگست 2025 سے ہم میکسیکو سے امریکہ بھیجی جانے والی میکسیکن مصنوعات پر 30% ٹیرف وصول کریں گے۔‘

اس سے قبل کینیڈا کو بھی ایسا ہی خط موصول ہوا تھا جس میں اس کے سامان پر 35 فیصد محصولات عائد کیے گئے تھے۔ اس سے قبل ایک امریکی اہلکار نے اے ایف پی کو بتایا تھا کہ یو ایس ایم سی اے کی استثنیٰ کینیڈا کے لیے بھی اسی طرح برقرار رہنے کی توقع تھی۔

یورپی یونین ٹیرف بھی واضح طور پر 20 فیصد لیوی سے زیادہ ہے جو ٹرمپ نے اپریل میں عائد کیا تھا۔

رواں ہفتے کے آغاز سے ٹرمپ نے 20 سے زیادہ ممالک کو خطوط بھیجے ہیں جن میں ہر ایک کے لیے نیا ٹیرف عائد کیا گیا ہے۔

برسلز نے جمعے کو کہا کہ وہ 20 فیصد لیویز کی واپسی کو روکنے کے لیے واشنگٹن کے ساتھ معاہدہ کرنے کے لیے تیار ہے اور تازہ ترین خط سے پتا چلتا ہے کہ بات چیت جاری رہے گی۔

اس سال کے آغاز میں ٹرمپ کی جانب سے سٹیل اور ایلومینیم کی درآمدات پر الگ الگ ٹیرف لگانے کے بعد یورپی یونین نے تقریباً 21 ارب یورو مالیت کے امریکی سامان پر جوابی ڈیوٹی عائد کی تھی جو 14 جولائی تک معطل ہے۔

یورپی حکام نے معطلی میں توسیع کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا ہے لیکن ضرورت پڑنے پر وہ ایسا جلد کر سکتے ہیں۔

 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More