ڈی آئی جی ساؤتھ اسد رضا نے معروف ماڈل و اداکارہ حمیرا اصغر کی ہولناک موت سے متعلق ایک اہم اور چونکا دینے والا بیان دیا ہے، جس میں انہوں نے فلیٹ کی کھڑکی، لاش کی بو اور طویل خاموشی کے پس منظر میں ہونے والے واقعات پر روشنی ڈالی۔ نجی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ جس کمرے میں اداکارہ کی لاش موجود تھی، اس کے ساتھ والے باتھ روم کی کھڑکی کھلی ہوئی تھی، ممکن ہے کہ یہی کھڑکی بدبو کے اخراج کا راستہ بنی ہو۔ ان کے مطابق لاش سے اٹھنے والی بدبو کا دورانیہ عام طور پر 5 سے 40 دن تک ہوتا ہے، لیکن چونکہ اس عرصے میں نہ صرف پڑوسی فلیٹ خالی تھا بلکہ اردگرد رہنے والے لوگ بھی غیر حاضر رہے، اس لیے کسی کو بروقت کچھ محسوس نہ ہوا۔
ڈی آئی جی کے مطابق واقعہ غالباً 7 اکتوبر کو پیش آیا اور اسی دن حمیرا اصغر کے چوکیدار نے انہیں فون بھی کیا، مگر کوئی جواب نہ ملا۔ بعد ازاں ان کے ایک قریبی دوست نے بھی ایک بار رابطے کی کوشش کی، مگر اس کا بھی کوئی نتیجہ نہ نکلا۔ پولیس افسر کا کہنا تھا کہ حمیرا لاہور اور کراچی کے درمیان سفر کرتی رہتی تھیں، اس لیے اکثر لوگوں نے سمجھا کہ وہ شہر سے باہر ہوں گی، اور یہی خاموشی لاش کی کئی مہینوں تک عدم دریافت کی ایک بڑی وجہ بنی۔
فلیٹ کی مینجمنٹ کمیٹی، چوکیدار اور قریبی ہمسایوں کو شاملِ تفتیش کرنے کا عندیہ دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ پڑوس میں موجود یونٹ کافی عرصے سے خالی تھا، جو اس کیس کو مزید پیچیدہ بناتا ہے۔
یاد رہے کہ اداکارہ کی لاش 8 جولائی کو اُس وقت برآمد ہوئی جب کرایہ نہ ملنے پر مالک مکان نے عدالت سے رجوع کیا اور عدالتی بیلف کی موجودگی میں دروازہ توڑا گیا۔ پوسٹ مارٹم کی ابتدائی رپورٹ نے اس بات کی تصدیق کی کہ لاش مکمل ڈی کمپوزیشن کی آخری حالت میں تھی، جس سے اندازہ لگایا گیا کہ موت کو تقریباً 8 ماہ گزر چکے تھے۔
یہ واقعہ نہ صرف قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے ایک چیلنج بن چکا ہے بلکہ یہ اس بات کا بھی کڑا سوال بن کر ابھرا ہے کہ معاشرے میں فرد کی تنہائی اور غفلت کس حد تک جان لیوا ثابت ہو سکتی ہے۔