صدر ٹرمپ کا بگرام فوجی اڈے کا کنٹرول واپس لینے کا اعلان: ’تاریخ گواہ ہے اپنی سرزمین پر کبھی بیرونی افواج کو تسلیم نہیں کیا،‘ طالبان حکام کا جواب

بی بی سی اردو  |  Sep 19, 2025

Getty Images

افغانستان کی عبوری حکومت نے امریکہ کی جانب سے افغانستان کیبگرام ایئر بیس کو دوبارہ اپنے کنٹرول میں لینے کے اعلان کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ تاریخ گواہ ہے کہ افغانستان نے اپنی سرزمین پر کبھی بیرونی افواج کو تسلیم نہیں کیا ہے۔

افغانستان کی وزارتِ خارجہ کے ایک اہلکار ذاکر جلالی نے ’ایکس‘ پر پوسٹ کیے گئے اپنے بیان میں مزید کہا کہ دوحہ مذاکرات اور اس کے نتیجے میں ہونے والے معاہدے کے دوران اس نوعیت کے کسی امکان کو یکسر مسترد کر دیا گیا تھا۔

ذاکر جلالی نے مزید کہا کہ ’امریکہ کے افغانستان کے کسی بھی حصے میں فوجی موجودگی برقرار رکھے بغیر‘ افغانستان اور امریکہ باہمی احترام اور مشترکہ مفادات پر مبنی اقتصادی اور سیاسی تعلقات قائم کر سکتے ہیں۔

افغانستان کی عبوری حکومت کی جانب سے یہ بیان امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایک حالیہ بیان کے ردعمل میں آیا ہے جس میں ٹرمپ نے کہا تھا کہ امریکہ افغانستان میں موجود بگرام ایئر بیس کو دوبارہ اپنے کنٹرول میں لینا چاہتا ہے کیونکہ امریکہ کو چین کے نزدیک واقع اس فوجی اڈے کی ضرورت ہے۔

یہ بات جمعرات کو برطانیہ کے اپنے دو روزہ دورے کے اختتام پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے برطانوی وزیراعظم کے ہمرار مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران کی تھی۔

بین الاقوامی جریدے ’دی اکانومسٹ‘ سے وابستہ صحافی نے پریس کانفرنس کے دوران صدر ٹرمپ سے روس اور یوکرین کے معاملے پر ہونے والے مذاکرات کی بابت سوال پوچھا تھا۔

اس سوال کے جواب میں ڈونلڈ ٹرمپ نے بلواسطہ طور پر سابق بائیڈن انتظامیہ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’روس کی نظر میں اگر امریکی قیادت کی کوئی اہمیت ہوتی تو وہ ایسا(یوکرین پر حملہ) کبھی نہ کرتا۔‘

ٹرمپ نے سابق امریکی انتظامیہ پر تنقید کرتے ہوئے مزید کہا ’بغیر کسی وجہ کہ افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا بہت شرمناک تھااور ہم افغانستان سے طاقتور اور قابلِ عزت طریقے سے بھی نکل سکتے تھے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’ہم بگرام ایئر بیس، جو دنیا کے بڑے فوجی اڈوں میں ایک ہے، کو واپس لینے جا رہے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ہم اسے واپس لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ آپ کے لیے ایک چھوٹی سی بریکنگ نیوز ہو سکتی ہے۔ ہم اسے واپس لینے کی کوشش کر رہے ہیں، کیونکہ انھیں (افغانستان) بھی ہماری ضرورت ہے۔‘

ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ’اس فوجی اڈے کو واپس لینے کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہ (بگرام) چین کے جوہری ہتھیار بنانے کے مقام سے ایک گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے۔‘

یاد رہے کہ افغانستانمیں موجود بگرام فوجی اڈے کا شمار امریکہ کے دنیا بھر میں قائم بڑے فوجی اڈوں میں ہوتا تھا۔ سنہ 2021 میں افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے وقت امریکہ نے یہ اڈا خالی کر دیا تھا۔

یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ جب ٹرمپ نے بگرام اییر بیس کی اہمیت پر بات کرتے ہوئے اسے دوبارہ حاصل کرنا کی بات کی ہے۔ اس سے قبل صدارت سنھبالنے کے اپنی کابینہ کے ساتھ پہلی میٹنگ کے پریس کانفرنس میں صدر ٹرمپ نے بگرام کا اڈہ خالی کرنے پر افسوس کا اظہار کیا تھا۔

ٹرمپ نے کہا تھا کہ امریکہ کو افغانستان میں بگرام فوجی اڈہ نہیں چھوڑنا چاہیے تھا۔

ماضی میں تقریباً ہر بار جب انھوں نے کابل کے شمال میں واقع صوبہ پروان میں بگرام کے فوجی اڈے کا ذکر کیا تو اس کے فوراً بعد ہی چین کا ذکر بھی کیا اور دعویٰ کیا کہ ’چین نے بگرام پر قبضہ کر لیا ہے۔‘

ڈونلڈ ٹرمپ نے آخری بار رواں ماہ (سات جولائی) کابینہ کے اجلاس میں کہا تھا کہ ’اگر میں ہوتا تو بگرام کا بڑا فوجی اڈہ اپنے پاس ہی رکھتا، جو کہ اب چین کے کنٹرول میں ہے۔ (بگرام) دنیا کے سب سے طاقتور رن ویز میں سے ایک ہے، جو کہ کنکریٹ اور سٹیل سے بنا ہوا ہے۔ بگرام ایک بہت بڑا بیس تھا۔ یہ سینکڑوں کلومیٹر طویل مضبوط دیواروں سے گھرا ہوا تھا، اس کے ارد گرد کا علاقہ محفوظ تھا، اور کوئی بھی اس میں داخل نہیں ہو سکتا تھا۔'

EPAٹرمپ نے بگرام ایئربیس لینے کی بات برطانوی وزیراعظم کے ساتھ کی گئی مشترکہ پریس کانفرنس میں کی تھیبگرام اڈے کی حالیہ سیٹلائٹ تصاویر کیا ظاہر کرتی ہیں؟

بی بی سی نے جولائی 2025 میں سیٹلائٹ تصاویر کا استعمال کرتے ہوئے بگرام اڈے کا تفصیلی جائزہ لیا تھا تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ یہ اڈہ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد اب کس صورتحال میں ہے۔

امریکی انخلا سے پہلے اور طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد کی سیٹلائٹ تصاویر میں واضح فرق دکھائی دیتا ہے۔ ہم نے مختلف اوقات میں لی گئی بہت سی سٹیلائٹ تصاویر کا جائزہ لیا تھا۔

مثال کے طور پر 24 ستمبر 2020 کو پلینٹ لیبز کمپنی کی طرف سے لی گئی ایک سیٹلائٹ تصویر میں اس اڈے پر کم از کم 35 مختلف طیارے کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ تاہم طالبان کے اقتدار میں آنے کے تقریباً ایک سال بعد پورے بیس میں ایک بھی طیارہ نظر نہیں آیا۔

دیگر سیٹلائٹ تصاویر میں دو بڑی تبدیلیاں نظر آئی تھیں۔

افغانستان کے جغرافیے میں چھپا وہ راز جو اسے ’سلطنتوں کا قبرستان‘ بناتا ہے’امریکی فوجی رات کی تاریکی میں بغیر بتائے بگرام فضائی اڈہ چھوڑ گئے‘

ایک تو یہ کہ بیس کے کئی مقامات سے سینکڑوں کنٹینرز کو کہیں منتقل کر دیا گیا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ یہ کنٹینرز لاجسٹک سٹوریج کے لیے استعمال کیے گئے ہوں۔ ایسا لگتا ہے کہ کنٹینرز کو بگرام ایئر بیس سے یا بیس کے اندر دیگر علاقوں میں منتقل کیا گیا تھا۔

بیس میں کم از کم دو مقامات پر موجود تقریباً 40 کنٹینرز کو وہاں سے منتقل کیا گیا تھا۔

اڈے کے ایک اور مقام پر سو سے زیادہ مختلف گاڑیاں کھڑی دیکھی جا سکتی ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ گاڑیاں طالبان کے قبضے کے بعد اڈے کے مختلف حصوں سے اکٹھی کر کے ایک جگہ کھڑی کی گئی تھیں۔

BBCبگرام پر موجود گاڑیوں کی سیٹلائٹ تصاویر

بگرام کے فوجی اڈے کے علاقے سے پچھلے تین سالوں میں مختلف اوقات میں لی گئی سیٹیلائٹ تصاویر میں بہت ہی کم مواقع پر کوئی گاڑی بیس کی اندرونی سڑکوں پر بظاہر حرکت میں نظر آتی ہے۔

ان تصاویر کو دیکھ کر ہم کہہ سکتے ہیں کہ بگرام فوجی اڈے میں کوئی بڑی سٹرکچرل تبدیلیاں نہیں ہوئی ہیں۔

ہم نے سیٹیلائٹ سے لی گئی کچھ تصاویر سینٹر فار سٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل سٹڈیز کی جینیفر جونز کو نظرثانی کے لیے پیش کیں۔

اُن کے مطابق فروری 2025 کی ایک تصویر کے علاوہ، جس میں رن وے پر ایک ہیلی کاپٹر دکھایا گیا ہے، بقیہ تصاویر جو 2021 کے وسط سے اپریل 2025 کے درمیان لی گئی ہیں، ان سیٹلائٹ تصاویر میں واضح طور پر کوئی طیارہ نہیں دکھایا گیا ہے۔

جینیفر جون کے مطابق یہ ضروری نہیں کہ گذشتہ چار سالوں میں اس بیس پر کوئی دوسرا طیارہ نہ آیا ہو۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ ’یہ امکان بھی ہے کہ ہوائی جہاز کی نقل و حرکت اس وقت کے دوران نہ ہوئی ہو جب یہ سیٹیلائٹ کی تصاویر لی گئی تھیں (یعنی مقامی وقت کے مطابق صبح 11 بجے سے دوپہر 2 بجے کے درمیان) یا ہو سکتا ہے کہ ہوائی جہاز کو محفوظ علاقوں میں منتقل کر دیا گیا ہو۔‘

جون نے مزید کہا کہ 2025 کے اوائل میں لی گئی کچھ تصاویر میں ہوائی اڈے کے کچھ حصوں میں زمین پر کچھ سیاہ نشانات دکھائی دے رہے تھے، جو کہ تیل کے ذخائر ہو سکتے ہیں۔

جینیفر جون کے مطابق، ایئر بیس کی صورتحال کا سب سے اہم پہلو اس کے رن وے کی حالت ہے۔ حفاظتی وجوہات کی بنا پر ہر فعال رن وے کو ملبے سے پاک رکھا جاتا ہے۔

اپریل 2025 کی حالیہ تصاویر دونوں رن ویز کو اچھی حالت میں دکھاتی ہیں۔ تاہم سنہ 2025 میں سٹیلائٹ تصاویر میں کوئی طیارہ نہیں دیکھا گیا۔

ان کا کہنا ہے کہ بظاہر بگرام ایئر بیس بالکل اُسی حالت میں ہے جس طرح امریکی افواج وہاں سے نکلی تھیں۔

بگرام اڈہ اہم کیوں ہے؟Getty Imagesگذشتہ دو دہائیوں میں تین امریکی صدور بگرام اڈے کا دورہ کر چکے ہیں، جو بائیڈن نے 2011 میں اس اڈے کا دورہ کیا تھا تاہم اُس وقت وہ امریکہ کے نائب صدر تھے

افغانستان کے دارالحکومت کابل کے شمال میں واقع صوبہ پروان میں بگرام اڈے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ گذشتہ دو دہائیوں میں تین امریکی صدور اس اڈے کا دورہ کر چکے ہیں جن میں جارج ڈبلیو بش، براک اوباما اور ڈونلڈ ٹرمپ شامل ہیں۔

جو بائیڈن نے سنہ 2011 میں بگرام ایئربیس کا دورہ کیا تھا، تاہم اُس وقت وہ امریکہ کے نائب صدر تھے۔

سوویت یونین نے یہ فوجی اڈہ 1950 کی دہائی میں صوبہ پروان میں قائم کیا تھا۔ بگرام 1980 کی دہائی میں افغانستان پر قبضے کے دوران سوویت افواج کا انتہائی اہم اڈہ سمجھا جاتا تھا۔

11 ستمبر کے حملوں اور امریکہ کی طرف سے ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کا اعلان کرنے کے بعد، امریکی افواج دسمبر 2001 میں اس اڈے میں داخل ہوئیں اور یہاں قابض ہو گئیں۔

تقریباً دو دہائیوں تک یہ اڈہ القاعدہ اور طالبان کے خلاف لڑائی کا مرکز رہا۔ یہ 77 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے جبکہ اس میں موجود بیرکس اور رہائش گاہیں ایک وقت میں 10 ہزار سے زیادہ فوجیوں کو پناہ دے سکتی ہیں۔

بگرام کے دو رن ویز میں سے ایک ڈھائی کلومیٹر سے زیادہ طویل ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے مطابق ’اس اڈے میں سب سے مضبوط اور سب سے بڑا کنکریٹ رن وے ہے۔‘ ٹرمپ کے مطابق اس رن وے کی موٹائی تقریباً دو میٹر ہے۔

’امریکی فوجی رات کی تاریکی میں بغیر بتائے بگرام فضائی اڈہ چھوڑ گئے‘افغانستان کے جغرافیے میں چھپا وہ راز جو اسے ’سلطنتوں کا قبرستان‘ بناتا ہے’سٹریٹجک ریزرو‘ یا مستقبل کی منصوبہ بندی: چین معاہدے کے باوجود افغانستان سے ’50 ارب ڈالر‘ کا تانبہ کیوں نہیں نکال رہا؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More