سیاسی مخالفت یا مقامی آبادی کا بے گھر ہونے کا خوف: پاکستانی فوج کو شدت پسندوں کے خلاف لڑائی میں کِن چیلنجز کا سامنا ہے؟

بی بی سی اردو  |  Oct 17, 2025

Getty Images

جہاں گذشتہ ایک ہفتے سے خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے سرحدی علاقوں میں پاکستان اور افغانستان کی جھڑپیں جاری ہیں، وہیں ملک کی سکیورٹی فورسز کو کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی جانب سے بڑھتے حملوں کا بھی سامنا ہے۔

اِن حملوں کی شدت کا اندازہ پاکستانی فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری کے حالیہ بیان سے لگایا جا سکتا ہے جس میں انھوں نے گذشتہ تین مہینوں میں شدت پسندی زیادہ واقعات خیبر پختونخوا میں ہونے کی تصدیق کی تھی۔

بی بی سی نے یکم ستمبر سے 15 اکتوبر تک پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ یعنی آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری ہونے والے بیانات میں دیے گئے اعداد و شمار کا جائزہ لیا ہے جس سے پتہ چلا کہ اس دورانیے میں پاکستانی فوج کے 37 افسران و اہلکار انٹیلیجنس بیسڈ آپریشنز کو سرانجام دینے کے دوران یا ٹی ٹی پی کے حملوں میں ہلاک ہوئے ہیں۔

اسی دورانیے میں پاکستانی فوج نے درجنوں شدت پسندوں کو بھی ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا۔

بی بی سی نے شدت پسندی کا شکار صوبے خیبر پختونخوا میں قبائلی عمائدین، سرکاری اہلکاروں، علاقہ مکینوں اور تجزیہ کاروں سے بات کر کے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ سکیورٹی اداروں کو خیبرپختونخوا میں شدت پسندی روکنے میں کن چیلنجز کا سامنا ہے۔

عسکریت پسندی کے معاملے پر صوبائی حکومت کا فوج و وفاقی حکومت کے ساتھ ایک صفحے پر نہ ہونا، مقامی آبادی کا بے گھر ہونے کا خوف، ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کی عام شہریوں کے درمیان موجودگی اور طالبان سے متعلق پالیسی وغیرہ کچھ ایسے معاملات ہیں جو شدت پسندی کے خلاف جنگ پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔

شدت پسندوں کے خلاف آپریشن یا مذاکرات؟Getty Images

پاکستانی حکومت یا فوج کی جانب سے خیبر پختونخوا میں تاحال کسی بڑے فوجی آپریشن کا اعلان تو نہیں کیا گیا ہے مگر اس کے باوجود خیبر پختونخوا کے نومنتخب وزیرِ اعلیٰ سہیل آفریدی سمیت کچھ افراد بظاہر اس تاثر کے حامل ہیں شاید صوبے میں کسی بڑے فوجی آپریشن کی تیاری کی جا رہی ہے۔

اس تاثر کا اظہار سہیل آفریدی نے وزیرِ اعلیٰ منتخب ہونے کے بعد اپنی پہلی تقریر میں بھی کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ فوجی آپریشن کسی مسئلے کا حل نہیں ہوتے۔ ’دنیا مذاکرات کی طرف جا رہی ہے، اُدھر ہمارے لوگ پریس کانفرنس کر کے کہتے ہیں ہم نے 14 ہزار انٹیلیجنس آپریشن کیے ہیں، مگر دوسری جانب دہشت گردی ویسی کی ویسی ہے۔ آج بھی میرے لوگ شہید ہو رہے ہیں تو ایسے آپریشن کا کیا فائدہ؟‘

ان کا اشارہ پاکستانی فوج کے سربراہ کی گذشتہ ہفتے کی گئی اُس پریس کانفرنس کی طرف تھا جس میں انھوں نے کسی کا نام لیے بغیر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’افواج پاکستان یہ امید کرتی ہیں کہ خیبر پختونخوا کے سیاستدان منفی سیاست، الزام تراشی اور خوارجی جرائم پیشہ مافیا کی سہولت کاری کے بجائے اپنی بنیادی ذمہ داری پر توجہ دیں گے۔‘

شدت پسندی کے خلاف کسی بڑی کارروائی پر خیبر پختونخوا میں آرا تقسیم ہوتی نظر آتی ہیں۔

صوبے کے جنوبی اضلاع عسکریت پسندوں کی حالیہ کارروائیوں میں سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں اور ان ہی علاقوں میں تحصیل دومیل بھی شامل ہے۔

دومیل سے تعلق رکھنے والے مقامی سیاستدان اور پی ٹی آئی کے سابق ناظم فدا محمد نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ’میرے خیال میں آپریشن کے بغیر معاملات ٹھیک نہیں ہو سکتے۔‘

BBC

تاہم وہ اس بات کا بھی اعتراف کرتے ہیں کہ عسکریت پسندوں کے خلاف کسی بڑی کارروائی کے لیے مقامی سطح پر مخالفت موجود ہے۔

’میں نے ایک بڑے جرگے میں بھی کہا کہ یہ کیا منطق ہے کہ ہم خود بھی ان مسلح افراد کا مقابلہ نہیں کر سکتے اور آپریشن کی بھی اجازت نہیں دے رہے۔‘

جب اُن سے پوچھا گیا کہ مقامی آبادی کو شدت پسندوں کے خلاف بڑی کارروائی پر کیا اعتراض ہے تو اُن کا کہنا تھا: ’عام لوگوں کا تو معلوم نہیں لیکن اس معاملے پر سب سیاسی جماعتیں (پوائنٹ) سکورنگ کر رہی ہیں۔‘

کالعدم ٹی ٹی پی سے مذاکرات کرنے کے معاملے پر پاکستانی فوج کے ترجمان نے گذشتہ ہفتے انتہائی سخت جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’امید کرتے ہیں کہ صوبہ خیبر پختونخوا کے عوام کی سلامتی کے لیے افغانستان سے سکیورٹی کی بھیک مانگنے کی بجائے، اس صوبے کے ذمہ داران ہوتے ہوئے آپ خود اس کی حفاظت کریں گے۔‘

لیکن چند قبائلی عمائدین اور جرگوں کے اراکین اب بھی کالعدم ٹی ٹی پی اور افغانستان میں طالبان کی حکومت سے مذاکرات کرنے پر بضد ہیں۔

ہارون الرشید کا تعلق ضلع باجوڑ سے ہے اور وہ مقامی جرگے کی بااثر شخصیات میں شامل ہیں۔ ان کے جرگے نے رواں برس ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں سے مذاکرات کی کوشش بھی کی تھی۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’باقاعدہ آپریشن کا سلسلہ سنہ 2008 میں شروع ہوا تھا اور تاحال جاری ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں ٹارگیٹڈ آپریشن ہو چکے ہیں اور اس کے نتیجے میں نقصان ہی ہوا ہے۔‘

’ہزاروں افراد قتل ہو چکے ہیں۔ عام لوگوں کا یہی مطالبہ ہے کہ پاکستان، افغانستان اور جتنے بھی فریق ہیں وہ مذاکرات، جرگوں یا سفارتکاری کے ذریعے اس مسئلے کا حل تلاش کریں۔‘

تاہم وہ اس بات کا اعتراف بھی کرتے ہیں کہ رواں برس جولائی میں باجوڑ امن جرگے نے دس روز تک کالعدم ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں سے مذاکرات کیے لیکن اس سے مسئلہ حل نہیں ہوا۔

’ہمیں مثبت پیش رفت دیکھنے میں آئی تھی، لیکن ہمارا گِلہ ہے کہ اس کے بعد فریقین نے تعاون نہیں کیا۔‘

شدت پسندی اور اس خطے پر گہری نظر رکھنے والے مبصرین اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائیوں کی ’سیاسی طور پر ذمہ داری‘ لیے بغیر خیبر پختونخوا میں امن و امان ممکن نہیں ہے۔

وزیر دفاع خواجہ آصف کا بیان اور نئے سوال: کیا پاکستان اور افغانستان کے درمیان جنگ بندی دیرپا ثابت ہو گی؟پاکستان کے امریکہ کے ساتھ معدنیات کے شعبے میں تعاون اور افغان سرحد پر جھڑپوں کے بارے میں چین نے کیا کہا؟’ڈکٹیٹ‘ کرنے کا تاثر، ماضی سے سبق سیکھنے کی دھمکی یا غیر حقیقی امیدیں: پاکستان اور افغان طالبان کے مابین تناؤ کی وجہ کیا ہے؟افغانستان کا پاکستان پر فضائی حملوں کا الزام، پاکستانی فوج کے ترجمان کی تردید نہ تصدیق: ’نتائج کی ذمہ داری پاکستانی فوج پر ہو گی‘

تاہم ان معاملات پر جہاں مقامی افراد منقسم نظر آتے ہیں وہاں صوبے میں حکمران جماعت پی ٹی آئی اور وفاقی حکومت بھی ایک صفحے پر نہیں ہیں۔

وزیرِ مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ’جو شہید ہونے والا ہے یا ملک کے لیے لڑنے والا ہے اس کی بنیادی ضرورت یہ ہوتی ہے کہ پوری قوم اور سیاسی قیادت اس کے پیچھے کھڑی ہو۔‘

’اگر ایسا نہ ہو تو چاہے بارڈر پر ہونے والی لڑائیاں ہو یا دہشتگردی کے خلاف جنگ ہو وہ متاثر ہوتی ہے۔‘

دوسری جانب تحریک انصاف کے رہنما زُلفی بخاری کہتے ہیں کہ ’ہم دہشتگردی سے نمٹنے اور اس کے خاتمے کے لیے مسلح افواج کے ساتھ کھڑے ہیں، لیکن ہمیں اس معاملے میں سٹریجک سوچ اختیار کرنی ہو گی تاکہ کولیٹرل ڈیمج کو کم سے کم کیا جا سکے۔‘

’ماضی میں بڑے آپریشنز میں بہت سارے معصوموں کی اموات ہوئی ہیں۔‘

بے گھر ہونے کا ڈر اور طالبان پالیسیGetty Images

ماضی میں صوبے میں کیے گئے آپریشنز کے دوران بڑے پیمانے پر نقل مکانی دیکھنے میں آئی تھی۔ مقامی افراد اور قبائلی رہنماؤں سے گفتگو کے بعد یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ شدت پسندی سے متاثرہ علاقوں میں لوگوں کو ایک بار پھر بے گھر ہونے کا ڈر ہے۔

تحصیل دومیل میں پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے فدا محمد کا کہنا ہے کہنہ صرف اس معاملے پر (سیاسی پوائنٹ) سکورنگ ہو رہی ہے بلکہ ’لوگوں کو بتایا جاتا ہے کہ گھر مسمار ہوں گے۔‘

باجوڑ امن جرگے سے تعلق رکھنے والے ہارون الرشید اور ضلع بنوں سے تعلق رکھنے والے جماعت اسلامی کے رہنما پروفیسر ابراہیم بھی ایسے ہی خدشات کا اظہار کرتے ہیں۔

ہارون الرشید کے مطابق ماضی میں کیے گئے آپریشنز کے سبب ’لاکھوں افراد بے گھر ہو چکے ہیں‘ اور ’ماضی ہو یا حال ہو تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ آخر میں مسائل مذاکرات سے ہی حل ہوتے ہیں۔‘

باجوڑ امن جرگے سے تعلق رکھنے والے ہارون الرشید کہتے ہیں کہ ’سرحد کے اس پار اور دوسری طرف ایک ہی لوگ ہیں، برادریاں ہیں اور رشتہ داریاں ہیں۔‘

پاکستان کا یہ موقف رہا ہے کہ ملک میں ہونے والی شدت پسندی میں افغانستان میں موجود ٹی ٹی پی کے جنگجو ملوث ہیں اور انھیں افغانستان میں طالبان کی حکومت کی سرپرستی حاصل ہے۔ تاہم افغان طالبان ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔

بنوں میں مقیم پروفیسر ابراہیم ان افراد میں شامل ہیں جو شدت پسندی کے شکار ضلع میں امن و امان کی صوتحال پر سِول اور عسکری حکام سے بات چیت کرتے رہے ہیں۔

انھوں نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ’سنہ 2008 میں شمالی وزیرستان میں ایک آپریشن ہوا تو بڑی تعداد میں لوگ بنوں چلے آئے۔ پھر سنہ 2014 میں دوسرا آپریشن ہوا اور پہلے سے بھی بڑی تعداد میں لوگ بنوں چلے آئے۔‘

’جب پہلے لوگوں کے بےگھر ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑا تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ اس بار لوگوں کے بےگھر ہونے سے فرق پڑ جائے گا۔‘

پاکستانی فوج اور وفاقی حکومت کا دعویٰ ہے کہ افغانستان سے پاکستان میں داخل ہونے والے شدت پسند خیبر پختونخوا میں عسکری کارروائیوں میں ملوث ہیں۔ تاہم وہ اس بات سے بھی انکار نہیں کرتے کہ صوبے کے اندر بھی کالعدم ٹی ٹی پی کے جنگجو موجود ہیں۔

حالیہ برسوں میں دعویٰ کیا جاتا رہا ہے کہ سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے دورِ حکومت میں سینکڑوں جنگجوؤں کو (ہتھیار پھینکنے کی یقین دہانی) پر واپس خیبر پختونخوا میں دوبارہ بسایا گیا تھا۔

گذشتہ ہفتے وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے دعویٰ کیا تھا کہ ’یہاں چار ہزار بندہ لا کر بٹھایا گیا تھا‘ اور ’انھوں نے نئے سرے سے بھرتیاں کیں، اُن کی سہولت کاری کی گئی۔‘

مقامی افراد اور پولیس افسران بھی خیبر پختونخوا میں ٹی ٹی پی کے اراکین کی موجودگی کی تصدیق کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

Getty Images

تحصیل دومیل سے تعلق رکھنے والے فدا محمد سے جب عسکریت پسندوں کی آبادی میں موجودگی کے حوالے سے پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’وہ علاقوں میں ہی موجود ہیں۔ ہر بار افغانستان سے تو نہیں آ سکتے ناں۔‘

حال ہی میں ضلع بنوں میں تعینات رہنے والے ایک سینیئر پولیس افسر نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ اس ضلع سے متصل علاقوں جانی خیل اور بکّا خیل میں برسوں سے عسکریت پسندوں کی آماجگاہیں رہیں ہیں اور وہاں کالعدم ٹی ٹی پی سے منسلک متعدد جتھے متحرک ہیں۔

سینیئر افسر نے بی بی سی سے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بات کی ہے کیونکہ انھیں میڈیا سے بات کرنے کی اجازت نہیں ہے۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’عسکریت پسندوں کو مقامی آبادیوں میں نہ صرف پناہ گاہیں ملتی ہے بالکہ انھیں کھانے پینے کی اشیا بھی باآسانی دستیاب ہوتی ہیں۔‘

ماضی میں متعدد مرتبہ یہ بات کئی شخصیات کی جانب سے کہی جاتی رہی ہے کہ پاکستان کے سکیورٹی ادارے ’گڈ اور بیڈ طالبان‘ میں تفریق کرتے ہیں۔

’گُڈ طالبان‘ یعنی طالبان کے وہ جتھے جو کبھی نہ کبھی پاکستان اور اس کے ریاستی اداروں کی حمایت کرتے رہے ہیں۔ ’بیڈ طالبان‘ سے مراد وہ طالبان جتھے جو ریاست کے خلاف لڑ رہے ہیں۔

خیبر پختونخوا کے علاقوں میں شدت پسندوں کی موجودگی پر پروفیسر ابراہیم کہتے ہیں کہ: ’گُڈ طالبان بھی وہی کام کرتے ہیں جو بیڈ طالبان کرتے ہیں اور اس کے نتیجے میں لوگ پریشان ہو جاتے ہیں۔‘

’جب تک حکومت اور فوج اپنی پالیسی تبدیل نہیں کرتی تب تک امن ممکن نہیں کیونکہ گُڈ اور بیڈ طالبان ایک ہی چیز ہیں۔‘

ماضی میں ضلع جنوبی وزیرستان تعینات اور اب ضلع ٹانک میں ذمہ داریاں نبھانے والے ایک اور پولیس افسر نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر عسکریت پسندوں کی مقامی آبادی والے علاقوں میں رہنے کی تصدیق کرتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ اگر کسی کارروائی میں کسی ’عام شہری کو نقصان ہو جائے تو اسی وقت احتجاج شروع ہو جاتا ہے۔‘

’اگر کوئی کارروائی کی جاتی ہے تو سیاسی لوگ جمع ہو جاتے ہیں، احتجاج کیا جاتا ہے اور اس کی آڑ میں دہشتگرد وہاں سے نکل جاتے ہیں۔‘

عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائیاں کیسے مؤثر بنائی جا سکتی ہیں؟Getty Images

عسکریت پسند پر گہری نظر رکھنے والے مبصرین، مقامی شخصیات، سکیورٹی فورسز کے ساتھ مل کر عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائیاں کرنے والے پولیس افسران اور سیاستدان اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ شدت پسندی سے نمٹنے کے کسی بھی طریقہ کار پر اتفاقِ رائے پیدا کرنا ضروری ہے۔

سکیورٹی امور کے ماہر لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) خالد نعیم لودھی کہتے ہیں کہ مقامی افراد اور سیاستدانوں کی حمایت کسی بھی قسم کی کارروائی کے لیے ضروری ہوتی ہے۔

گذشتہ دنوں انٹیلیجنس آپریشنز کے دوران بھی پاکستانی فوج کو شدید نقصان اٹھانا پڑا تھا اور ضلع اورکزئی میں ایسی ہی ایک کارروائی کے دوران ایک لیفٹینٹ کرنل اور میجر سمیت 10 سے زیادہ اہلکار ہلاک ہوئے تھے۔

اس سے متعلق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے خالد نعیم لودھی کہتے ہیں کہ 'انٹیلیجینس (شدت پسندوں کی موجودگی کی معلومات) آتی کہاں سے ہیں؟ وہ اطلاعات یا خبریں دیتا کون ہے؟ اگر لوگ غلط خبریں دینا شروع کر دیں تو اُلٹا آپ کے لوگ (سکیورٹی اہلکار) وہاں جا کر پھنس جاتے ہیں۔‘

’ان کارروائیوں کے لیے سیاسی حمایت اور سیاسی ذمہ داری ہونا بنیادی ضرورت ہے۔ دہشتگردی کے خلاف جو جنگ ہے اس میں سیاسی معاملات زیادہ ہوتے ہیں اور فوجی معاملات کم ہوتے ہیں۔‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ ’ان علاقوں کی معاشرت، سیاست اور معیشت۔۔۔ جب تک ان تینوں پر کام نہیں ہو گا تب کچھ نہیں ہو سکتا اور یہ کام فوج نہیں کر سکتی۔‘

دیگر تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکام کے درمیان اختلافات کا صوبے کی سکیورٹی صورتحال پر گہرا اثر پڑ رہا ہے۔

قائدِ اعظم یونیورسٹی میں نیشنل انسٹیٹیوٹ آف انٹیلیجنس اور سکیورٹی سٹڈیز سے منسلک ایسوسی ایٹ پروفیسر اور ’دا میکنگ آف پاکستانی ہیومن بومبز‘ کے مصنف ڈاکٹر خرم اقبال کہتے ہیں کہ: ’وفاقی اور صوبائی حکام کے درمیان رسہ کشی نے خیبر پختونخوا میں امن و امان کی صورتحال کو عدم استحکام کا شکار بنا دیا ہے۔‘

’خیبر پختونخوا میں حکمران جماعت نے دہشتگردی کو سیاسی رنگ دے دیا ہے جس سے قانون نافذ کرنے والے اداروںمیں کنفیوژن پھیل گئی ہے اور ان کی آپریشنل صلاحیتوں کو نقصان پہنچا ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’دہشتگردی کے انسداد کے لیے حمایت بہت ضروری ہے۔ سنہ 2008 میں فوج ٹی ٹی پی کا علاقوں سے تسلط ختم کرنے میں اسی لیے کامیاب ہوئی تھی کہ اس وقت ایک سیاسی اتفاق رائے تھا۔‘

’دہشتگردی کے خدشات کا سدِباب کرنے کے لیے صوبے اور وفاق کے درمیان استحکام پر مبنی تعلقات کی ضرورت ہو گی۔‘

دوسری جانب پی ٹی آئی کے رہنما زلفی بخاری کہتے ہیں کہ کسی بھی قسم کی بڑی کارروائی سے قبل اتفاق رائے ہونا ضروری ہے۔

’کوئی آپریشن اس وقت ہی کامیاب ہو سکتا ہے جب مقامی آبادی میں اتفاقِ رائے ہو۔ ہمیں ان سے ضرور بات کرنی چاہیے۔‘

انھوں نے ماضی میں اپنی حکومت کی مثال دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ’سنہ 2019 اور 2020 پاکستان میں پچھلے دو دہائیوں میں سب سے محفوظ ترین سال تھے کیونکہ ہم نے تمام سٹیک ہولڈرز کو ایک میز پر جمع کیا تھا اور دہشتگردی کی ہر قسم سے نمٹنے کے لیے اعتماد پر مبنی طریقہ کار وضع کیا تھا۔‘

پاکستان میں وفاقی حکومت یہ سمجھتی ہے کہ وہ پہلے سے ہی تمام قیادت کو ساتھ لے کر چلرہی ہے۔ وزیرِ مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری کہتے ہیں کہ ’جب بھی وزیرِ اعظم کی سربراہی میں سکیورٹی پر کوئی اجلاس ہوتا ہے تو ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے وزیرِ اعظم تمام صوبوں کے وزرا اعلیٰ کو مدعو کرتے ہیں اور وہاں دیگر اداروں کے سربراہان کے علاوہ آرمی چیف بھی موجود ہوتے ہیں۔‘

بنوں سے تعلق رکھنے والے پروفیسر ابراہیم بھی یہی سمجھتے ہیں کہ علاقائی آبادی کو اعتماد میں لیے بغیر شدت پسندی کا مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔

’جو ٹارگیٹڈ آپریشن ہو رہے ہیں اس میں عام عوام کو نقصان نہیں ہوگا اس بات کی یقین دہانی ضروری ہے۔ جب تک ان امور پر ہم آہنگی نہیں ہوگی کسی آپریشن کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔‘

ماضی میں جنوبی وزیرستان اور اب ضلع ٹانک میں تعینات سینیئر پولیس افسر بھی ایسی ہی بات کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

’اگر عوام، پولیس، فوج اور سیاسی لوگ ایک ہوجائیں یہ دہشتگردی کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More