’انڈیا تنہا نہیں اور اس کے پاس متبادل موجود ہیں‘: پوتن کے دورے سے ماسکو اور دہلی نے عالمی برادری کو کیا پیغام دیا؟

بی بی سی اردو  |  Dec 06, 2025

روس کے صدر ولادیمیر پوتن کے دورۂ انڈیا کو انتہائی اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ اس موقع پر دونوں ممالک نے صحت، میری ٹائم تعاون، فرٹیلائزر، کسٹمز، سائنس اور میڈیا سمیت کئی شعبوں میں شراکت داری کے 16 معاہدوں پر دستخط کیے۔

صدر پوتن اور وزیرِ اعظم نریندر مودی کی ملاقات میں دفاع اور جوہری توانائی کے شعبوں میں تعاون کے نئے امکانات پر بھی تفصیلی تبادلۂ خیال ہوا۔

صدر پوتن کے اس دورے میں دونوں ملکوں نے اقتصادی تعلقات کو مزید وسعت دینے کا منصوبہ تیار کیا ہے۔

دونوں ملکوں کے درمیان اس وقت مجموعی تجارت کی مالیت تقریباً 70 ارب ڈالر ہے جسے اگلے پانچ برس میں سو ارب ڈالر تک پہنچانے کا ہدف رکھا گیا ہے۔

انڈیا روس میں، کپڑے، دواؤں، سمارٹ فون، گوشت، جھینگے، آلو اور آئی ٹی کے شعبوں میں مارکیٹ تلاش کر رہا ہے اور وہ اپنی توجہ اب تیل اور دفاع سے الگ دیگر شعبوں پر مرکوز کر رہا ہے۔

صدر پوتن کے اس دورے میں روس کے وزیر دفاع آندرے بلوسوف بھی شامل تھے۔ انھوں نے اپنے انڈین ہم منصب راج ناتھ سنگھ سے لمبی بات چیت کی ہے۔

اس میں ایس - 400 ساخت کے مزید دفاعی نظام اور اس کے لیے میزائلوں کی خریداری پر بات کی گئی ہے۔

روس نے انڈیا کو ففتھ جنریشن کے ایس یو -57 جنگی جہاز فروخت کرنے کی پیشکش بھی کی ہے۔

چھوٹے ماڈیولر نیوکلئیر ری ایکٹر کی خریداری کے بارے میں بھی بات چیت ہوئی ہے۔ لیکن اس طرح کے سربراہی اجلاسوں میں دفاعی سودوں یا بات چیت کی تفصیلات عموماً نہیں دی جاتیں۔

بین الاقوامی امور کی ماہر نینیما باسو کہتی ہیں کہ ’ایس-400 پر پیش رفت ہوئی ہے۔ روس نے تین سسٹم اںڈیا کو دیے تھے۔ ابھی دو ڈیفنس سسٹماور آنے ہیں جو آئندہ برس تک آ جائیں گے۔ اس کے علاوہ انڈیا مز ید پانچ ایس-400 خریدنے کی بات چیت کر رہا ہے لیکن ایس یو 56 فائٹر جیٹ کے بارے میں انڈیا نے پہلے بتا دیا تھا کہ کئی وجوہات کی بنا پر وہ یہ جہاز نہیں لے سکے گا۔ تاہم انڈیا اپنا ہر سیکٹر روس کے لیے کھولنے جا رہا ہے۔‘

Getty Images

یوکرین جنگ شروع ہونے کے بعد صدر پوتن کا چار سال میں انڈیا کا یہ پہلا دورہ ہے۔

یہ دورہ ایک ایسے وقت میں ہورہا ہے جب یوکرین جںگ کے سبب امریکہ اور یورپ نے روس کے خلاف بڑے پیمانے پر تجارتی اور دفاعی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ امریکہ اور یورپ نے روس کو الگ تھلک کرنے کی کوشش جاری رکھی ہے۔

امریکہ نے روس سے بڑی مقدار میں تیل خریدنے کی پاداش میں اںڈیا کے خلاف بھی پچاس فی صد کی محصولات لگا رکھی ہے۔

انڈیا نے اگرچہ گذشتہ مہینوں میں روس سے تیل لینا بتدریج کم کر دیا ہے اور اب وہ امریکہ سے بھی تیل خرید رہا ہے لیکن امریکہ نے ابھی تک انڈین مصنوعات سے تعزیری محصولات ہٹائی نہیں ہیں جس کے سبب دونوں ملکوں میں سیاسی اور سفارتی تعطل برقرار ہے۔

گیتا کا تحفہ، راہل گاندھی کا اعتراض: صدر پوتن کا دورہ انڈیا اور روس کے لیے اہم کیوں ہے؟ایس-400 اور سخوئی 57 طیاروں کے معاہدے: چار برس بعد پوتن کا دورۂ انڈیا جس پر امریکہ کی بھی نظریں ہوں گی’پیس میکر ان چیف‘ اور نوبل انعام: ٹرمپ کا پاکستان اور انڈیا سمیت سات ’جنگیں‘ ختم کروانے کا دعویٰ لیکن حقیقت کیا ہے؟امریکہ کی انڈین کمپنیوں پر ’روس کی معاونت‘ کے الزام میں پابندی انڈیا کے ساتھ تعلقات کو کیسے متاثر کرے گی

سابق سفارتکار شیام سرن نے ایک مضون میں لکھا ہے کہ پوتن کے لیے یہ دورہ ’ایک سیاسی جیت ہے اور پوتن انڈیا کے ایک مستحکم پارٹنر ہیں۔‘

وہ لکھتے ہیں کہ ’امریکہ کے صدر ٹرمپ نے اپنے دوسری صدارت میں انڈو پیسیفک اور چین کے دائرہ اثر کو روکنے سے اپنی سٹریٹیجک توجہ اب ہٹا لی ہے۔ اس لیے انڈو پیسیفک سٹریٹجبی میں انڈیا کی اہمیت ایک اہم ملک کے طور پر ختم ہو گئی ہے۔‘

’اسی لیے امریکی انتظامیہ نے انڈیا کو اقتصادی نقصان پہنچانے کے لیے اونچی شرح کا ٹیرف نافذ کیا اور اس کے اوپر روس سے تیل خریدنے کے لیے مزید 25 فی صد کی محصولات لگا دیں۔‘

انھوں نے لکھا کہ ’انڈيا اس کا جواب دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ اس لیے اس پس منظر میں صدر پوتن کا یہ دورہ سیاسی اعتبار سے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ انڈیا جو مصنوعات امریکہ کو بھیج رہا تھا اس کے لیے روس کوئی متبادل مارکیٹ تو نہیں بن سکتا لیکن انڈیا اور روس کے افتصادی تعاون کے معاہدے کے تحت اب انڈیا روس میں اپنی مصنوعات کے لیے بہت سے شعبوں میں مارکیٹ تلاش کر رہا ہے۔‘

عالمی امور کی تجزیہ کار نروپما سبرامنین کہتی ہیں کہ ’انڈیا نے بیس برس میں امریکہ سے بہت گہرے اور متنوع تعلقات قائم کیے ہیں اور انڈیا نے ان رشتوں میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کی ہے۔‘

’اںڈیا کا امریکہ میں بہت گہرا مفاد ہے اس لیے وہ امریکہ کو نظرانداز نہیں کر سکتا۔ لہذا انڈیا روس سے تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کے عمل میں امریکہ سے اپنے تعلقات کو خراب نہیں کرنا چاہے گا۔‘

تجزیہ کار نروپما کہتی ہیں کہ انڈیا روس سے اپنے تعلقات کے سلسلے میں بہت محتاط ہو کر چل رہا ہے۔

’وہ سب کو ناراض کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ امریکہ یورپ اور روس کے درمیان جو کشیدگی اور ٹکراؤ ہے اس میں انڈیا کسی ایک جانب نہیں جا سکتا۔‘

وہ کہتی ہیں کہ یہ دورہ انڈیا چین تعلقات کے لیے بھی کافی اہم ہے۔

’جب سے چین سے ٹکراؤ ہوا ہے تب سے اںڈیا میں ایک ڈر رہا ہے کہ روس اور چین بہت قریب آ گئے ہیں اور یہ قربت انڈیا کے لیے پیچیدگی پیدا کر سکتی ہے۔ انڈیا کی کوشش ہے کہ وہ بھی کسی طرح اس کا حصہ بن سکے تاکہ وہ روس کو اپنی طرف کر سکے۔‘

نروپما کہتی ہیں کہ صدر پوتن کے دورے سے انڈیا نے پوری دنیا میں یہ سگنل اور پیغام دیا ہے کہ اس کے پاس بھی آپشنز اور متبادل ہیں اور وہ کسی ایک ملک پر منحصر نہیں ہے اور نہ وہ تنہا ہے۔

ادھر روس کی طرف سے بھی امریکہ اور یورپ کو پیغام گیا ہے کہ اسے الگ تھلگ کرنے کی ان کی تمام کوششوں کے باوجود انڈیا جیسے ابھرتے ملک اس کے ساتھ کھڑے ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ اس دورے سے دونوں ملکوں نے ’صرف آپٹکس پیش کیے ہیں، دنیا کو سگنل اور پیغامات دیے ہیں لیکن گراؤنڈ پر کوئی گہری بات نہیں ہوئی ہے۔‘

ایس-400 اور سخوئی 57 طیاروں کے معاہدے: چار برس بعد پوتن کا دورۂ انڈیا جس پر امریکہ کی بھی نظریں ہوں گیسستے تیل کے بدلے بڑا امتحان: روسی تیل انڈیا کے لیے کتنا اہم ہے؟روس نے پاکستان کے ساتھ تنازع میں انڈیا کی کھل کر حمایت کیوں نہیں کی؟’ٹیرف کنگ‘ پر 25 فیصد محصول اور اضافی جرمانے: کیا امریکی صدر کا دباؤ انڈیا کو روس سے دور کر پائے گا؟ٹرمپ کی سرزنش، شی سے مصافحہ اور روسی تیل: انڈیا کی خارجہ پالیسی کا امتحان’ٹیرف کنگ‘ پر 25 فیصد محصول اور اضافی جرمانے: کیا امریکی صدر کا دباؤ انڈیا کو روس سے دور کر پائے گا؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More