BBC2016 میں ایسٹر نے جب لاگوس چھوڑ کر یورپ کا رُخ کیا
نائجیریا میں ایسٹر لاگوس کی گلیوں میں سو رہی تھیں جب ایک خاتون ان کے پاس آئی اور انھیں یورپ میں نوکری اور گھر کی پیشکش کی۔
انھوں نے ایک نئی زندگی کا خواب دیکھا، خاص کر برطانیہ میں۔ انھیں یتیم بچوں کے ایک پُرتشدد گھر سے نکال دیا گیا تھا اور ان کے پاس نائجیریا میں مزید زندگی گزارنے کے لیے کچھ نہیں رہا تھا۔
مگر جب انھوں نے 2016 میں لاگوس چھوڑا اور لیبیا کے صحرا کو عبور کیا تو انھیں اس بارے میں ذرا بھی معلوم نہیں تھا کہ یہ سفر کتنا دردناک ہوگا۔ ان سے جبری طور پر سیکس ورک کرایا گیا۔ کئی برسوں تک انھوں نے ایک کے بعد ایک ملک میں پناہ کی درخواست بھی کی۔
غیر قانونی پناہ گزینوں کے درخواست گزاروں کی اکثریت مردوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ جیسے یورپی ایجنسی فار اسائلم کے مطابق 70 فیصد مرد اسائلم اور پناہ کی درخواست کرتے ہیں مگر یورپ آنے والی ایسٹر جیسی خواتین کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔
اٹلی میں انٹرنیشنل ریسکیو کمیٹی (آئی آر سی) کی ارینی کونٹوگیانس کہتی ہیں کہ ’ہم دیکھ رہے ہیں کہ بحیرہ روم اور بلقان کے راستوں پر تنہا سفر کرنے والی خواتین کی تعداد بڑھ رہی ہے۔‘
’گرین ہیل‘: وہ خطرناک راستہ جو ڈنکی لگا کر امریکہ پہنچنے والوں کے لیے موت کا گھاٹ ثابت ہوا’اگر میں مر بھی گیا تو یہ خدا کی مرضی ہو گی‘: ڈنکی لگا کر یورپ کے کنیری جزائر پہنچنے کا پُرخطر سفرپاکستان سے جانے والے 22 ’فٹبالر‘ جاپان کے ایئرپورٹ پر کیسے پکڑے گئے؟یونان کشتی حادثے کے عینی شاہد: ’پاکستانیوں کو تہہ خانے میں رکھا، وہ ہمیں اٹھنے، بولنے نہیں دیتے تھے‘
اس کی 2024 کی رپورٹ کے مطابق اٹلی میں بلقان راستے سے پہنچنے والی تنہا بالغ خواتین کی تعداد میں 250 فیصد اضافہ ہوا جبکہ خاندانوں کی تعداد میں 52 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
یورپ پہنچنے کے راستے اکثر پناہ گزینوں کے لیے جان لیوا ثابت ہوتے ہیں۔ انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن (آئی او ایم) کے مطابق صرف گذشتہ سال یورپ میں 3,419 پناہ گزین ہلاک یا لاپتہ ہوئے اور یہ اب تک کا سب سے خطرناک سال تھا۔
لیکن خواتین کے لیے خطرہ صرف موت نہیں بلکہ جنسی تشدد اور استحصال بھی ہے۔ نائجیریا سے تعلق رکھنے والی ایسٹر اس اذیت سے گزریں جب ایک عورت نے بہتر زندگی کا وعدہ کر کے انھیں دھوکہ دیا۔
ایسٹر بتاتی ہیں کہ ’اس نے مجھے ایک کمرے میں بند کر دیا اور ایک مرد کو لے آئی۔ اس نے زبردستی میرے ساتھ جنسی تعلق قائم کیا۔ میں اس وقت ورجن (کنواری) تھی۔‘
’وہ یہی کرتے ہیں۔۔۔ نائجیریا کے مختلف دیہات سے نوجوان لڑکیوں کو اٹھا کر لیبیا لے جاتے ہیں جہاں انھیں جنسی غلام بنا دیا جاتا ہے۔‘
آئی او ایم کی یوگوچی ڈینیئلز کہتی ہیں کہ ’خواتین کے لیے یہ سفر مختلف اور زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ گروپ میں سفر کرنے والی خواتین بھی مستقل تحفظ سے محروم رہتی ہیں۔ وہ سمگلروں، انسانی سمگلنگ میں ملوث افراد یا دیگر پناہ گزینوں کے ہاتھوں استحصال کا شکار ہو سکتی ہیں۔‘
بہت سی خواتین خطرات جانتے ہوئے بھی یہ سفر کرتی ہیں۔ وہ راستے میں ریپ کے خدشے کے پیش نظر کنڈوم یا مانع حمل ادویات اپنے ساتھ رکھتی ہیں۔
’سٹیلا پولار‘ نامی اینٹی ٹریفکنگ نیٹ ورک کی ہرمن گبیڈو کہتی ہیں کہ ’ہر پناہ گزین کو سمگلر کو پیسے دینے پڑتے ہیں لیکن خواتین سے اکثر جنسی تعلق بطور ادائیگی مانگا جاتا ہے۔‘
گبیڈو اٹلی کے شمال مشرقی شہر ٹریسٹ میں خواتین مہاجرین کی مدد کرتی ہیں۔ یہ یورپی یونین میں داخلے کا اہم مقام ہے۔ یہاں سے پناہ گزین جرمنی، فرانس اور برطانیہ کا رُخ کرتے ہیں۔
Barbara Zanon/Getty Imageغیر قانونی پناہ گزیوں میں اکثریت مردوں پر مشتمل ہوتی ہے
لیبیا میں چار ماہ تک استحصال کا شکار رہنے کے بعد ایسٹر نے فرار حاصل کیا اور ڈنکی کے ذریعے بحیرہ روم عبور کیا۔ وہاں اطالوی کوسٹ گارڈ نے انھیں بچا کر لامپیڈوسا جزیرے پر پہنچایا۔
انھوں نے تین بار پناہ کی درخواست دی اور تب جا کر انھیں پناہ گزین کا درجہ ملا۔
یورپ میں پناہ کے قوانین سخت ہوتے جا رہے ہیں۔ محفوظ سمجھے جانے والے ممالک سے آنے والوں کی درخواستیں اکثر مسترد کر دی جاتی ہیں۔
اس وقت اٹلی نائجیریا کو غیر محفوظ سمجھتا تھا لیکن دو سال قبل اس نے یہ درجہ بدل دیا کیونکہ یورپی حکومتیں 2015-16 کے بڑے پناہ گزینوں کے بحران کے بعد قوانین مزید سخت کر رہی ہیں۔
وقت کے ساتھ پناہ کے دعوؤں پر مزید سختیوں کے مطالبات کیے جا رہے ہیں۔
BBC
اٹلی میں میلونی کی دائیں بازو کی حکومت کے رکن نکولا پروکاسینی کہتے ہیں کہ ’بڑے پیمانے پر پناہ گزینوں کو برقرار رکھنا ناممکن ہے۔ ہم صرف ان خواتین کو محفوظ زندگی دے سکتے ہیں جو واقعی خطرے میں ہیں، سب کو نہیں۔‘
پالیسی ایکسچینج کے سینیئر فیلو راکب احسان کا کہنا ہے کہ ’ہمیں سخت رویہ اپنانا ہوگا۔ ترجیح ان خواتین اور لڑکیوں کو دینی چاہیے جو جنگ زدہ علاقوں میں فوری خطرے میں ہیں جہاں ریپ کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔‘
ان کے مطابق یہ ترجیح مستقل بنیادوں پر نہیں دی جا رہی۔ وہ خطرناک راستوں پر سفر کرنے والی خواتین کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیں۔
بہت سی خواتین جو محفوظ سمجھے جانے والے ممالک سے آتی ہیں وہ دعویٰ کرتی ہیں کہ صنفی بنیاد پر تشدد نے ان کی زندگی کو ناقابلِ برداشت بنا دیا۔
جیسا کہ کوسووو سے تعلق رکھنے والی 28 سالہ خاتون نینا کہتی ہیں کہ ’لوگ سمجھتے ہیں کوسووو میں سب ٹھیک ہے لیکن حقیقت یہ نہیں۔ خواتین کے لیے حالات خوفناک ہیں۔‘
نینا اور ان کی بہن کو ان کے بوائے فرینڈز نے جنسی تشدد کا نشانہ بنایا اور انھیں سیکس ورک پر مجبور کیا۔
یورپ کی او ایس سی ای نامی تنظیم کی 2019 کی رپورٹ کے مطابق کوسووو میں 54 فیصد خواتین نے 15 سال کی عمر کے بعد کسی قریبی ساتھی سے نفسیاتی، جسمانی یا جنسی تشدد کا سامنا کیا۔
صنفی بنیاد پر تشدد کا شکار خواتین کو یورپ کی استنبول کنونشن کے تحت پناہ کا حق حاصل ہے جس کی توثیق یورپی عدالت نے گذشتہ سال ایک تاریخی فیصلے میں کی۔
کنونشن میں لڑکیوں کے ’ختنے‘ یعنی فیمیل جینیٹل میوٹیلیشن (ایف جی ایم) کا ذکر بھی کیا گیا اور اس میں ہر طرح کے صنفی تشدد کو نفسیاتی، جسمانی اور جنسی تشدد قرار دیا گیا۔
لیکن این جی اوز کے مطابق اس پر عملدرآمد یکساں نہیں۔
ایف جی ایم کے معاملے میں بھی اکثر پناہ کی درخواستیں اس غلط تصور پر مسترد کر دی جاتی ہیں کہ چونکہ یہ عمل پہلے ہو چکا تو اب مزید خطرہ نہیں۔
اینڈ ایف جی ایم یورپ نیٹ ورک کی ڈائریکٹر ماریان نگوینا بتاتی ہیں کہ ’اسائلم کے شعبے میں کئی مرد ہیں جو طبی اور نفسیاتی طور پر ایسے حساس مسئلے کو سمجھنے کے لیے تربیت یافتہ نہیں۔‘
’ہم نے ججوں کو یہ کہتے سنا کہ آپ پہلے ہی اس عمل سے گزر چکی ہیں اب دوبارہ نہیں ہو گا، اس لیے واپسی خطرناک نہیں۔‘
برطانیہ کی تنظیم ویمن فار ریفیوجی ویمن سے تعلق رکھنے والی کارینزا آرنلڈ کہتی ہیں کہ جنسی تشدد کو ثابت کرنا اکثر مشکل ہوتا ہے کیونکہ یہ جسمانی اذیت کی طرح واضح نشانات نہیں چھوڑتا اور خواتین کے لیے سماجی و ثقافتی پابندیاں اس عمل کو مزید پیچیدہ بنا دیتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’خواتین کو اکثر جلدی میں پراسیس سے گزارا جاتا ہے۔ وہ ایسے امیگریشن افسر جسے وہ پہلی بار ملی ہیں، کے سامنے جنسی تشدد کا ذکر نہیں کرتیں۔‘
انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن نے بی بی سی کو بتایا کہ خواتین کو اکثر اپنے سفر کے دوران تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
یوگوچی ڈینیئلز کہتی ہیں کہ ’خواتین عام طور پر اپنے ملک میں پارٹنر یا شریکِ حیات کے جنسی تشدد سے بچنے کے لیے نکلتی ہیں لیکن سفر کے دوران انھیں دوبارہ اسی اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘
یہی حال نینا اور ان کی بہن کا ہوا جو کوسووو میں اپنے پرتشدد پارٹنرز سے بچ کر اٹلی میں نئی زندگی کی تلاش میں نکلیں۔ دیگر خواتین کے ساتھ وہ مشرقی یورپ کے جنگلات سے گزرتی رہیں تاکہ حکام سے بچ سکیں لیکن وہاں مرد پناہ گزینوں اور سمگلروں نے ان پر حملہ کیا۔
نینا یاد کرتی ہیں کہ ’ہم پہاڑوں میں تھے، اندھیرا تھا لیکن چیخیں سنائی دیتی تھیں۔ مرد ٹارچ لے کر آتے تھے، چہرے پر روشنی ڈالتے تھے۔ وہ جسے چاہتے اٹھا کر لے جاتے تھے۔ میں رات کو اپنی بہن کی سسکیاں سنتی تھی جو مدد کی فریاد کرتی تھی۔‘
نینا اور ان کی بہن نے اطالوی حکام کو بتایا کہ اگر وہ واپس گئیں تو ان کے سابق بوائے فرینڈز انھیں قتل کر دیں گے۔ آخرکار انھیں پناہ مل گئی۔
ایسٹر کی جدوجہد کہیں زیادہ طویل رہی۔ انھوں نے 2016 میں اٹلی میں پناہ کی درخواست دی لیکن طویل انتظار کے بعد وہ فرانس اور پھر جرمنی گئیں جہاں درخواستیں مسترد ہوئیں کیونکہ یورپی یونین کے ڈبلن ریگولیشن کے تحت اس پہلے یورپی ملک میں درخواست دینی ہوتی ہے جہاں آپ داخل ہوئے ہوں۔
انھیں بالآخر 2019 میں اٹلی نے پناہ دی۔
نائجیریا سے نکلنے کے تقریباً ایک دہائی بعد ایسٹر سوچتی ہیں کہ کیا اٹلی آنے کے لیے اتنا درد سہنا صحیح فیصلہ تھا۔ ’مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ میں یہاں کیوں آئی۔‘
یونان کشتی حادثے کے عینی شاہد: ’پاکستانیوں کو تہہ خانے میں رکھا، وہ ہمیں اٹھنے، بولنے نہیں دیتے تھے‘پاکستان سے جانے والے 22 ’فٹبالر‘ جاپان کے ایئرپورٹ پر کیسے پکڑے گئے؟جرمنی میں ’موت کا جال‘ کہا جانے والا انسانی سمگلنگ کا وسیع کاروبار’گرین ہیل‘: وہ خطرناک راستہ جو ڈنکی لگا کر امریکہ پہنچنے والوں کے لیے موت کا گھاٹ ثابت ہوا’اگر میں مر بھی گیا تو یہ خدا کی مرضی ہو گی‘: ڈنکی لگا کر یورپ کے کنیری جزائر پہنچنے کا پُرخطر سفر