’قومی سلامتی کے لیے خطرہ‘ اور ’نئی سُرخ لکیر‘: ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس فوج اور پی ٹی آئی کے لیے کیا معنی رکھتی ہے؟

بی بی سی اردو  |  Dec 06, 2025

Getty Images

’قومی سلامتی کے لیے خطرہ‘، ’ذہنی مریض‘، ’خود پسند‘ اور ’اپنی ذات کا قیدی‘۔۔۔ یہ وہ کچھ سخت الفاظ ہیں جو جمعے کو پاکستانی فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری کی پریس کانفرس میں ان کے منھ سے سنائی دیے۔

پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل نے اس شخص کا نام نہیں لیا جس کے لیے وہ یہ الفاظ استعمال کر رہے تھے لیکن پاکستانی سیاست پر نظر رکھنے والے ہر شخص کو یہ معلوم ہو گا کہ ان کی ڈیڑھ گھنٹہ طویل پریس کانفرنس کا مرکز اڈیالہ جیل میں قید سابق وزیرِ اعظم عمران خان ہی تھے۔

خود عمران خان گذشتہ کئی برسوں سے پاکستانی فوج کے سربراہ (اور اب چیف آف ڈیفینس فورسز) فیلڈ مارشل عاصم منیر پر سخت الزامات لگا رہے ہیں۔

اس کی تازہ مثال وہ بیان ہے جو رواں ہفتے سامنے آیا۔ تقریباً ایک مہینے بعد دو دسمبر کو جب عمران خان کی بہن عظمیٰ خان کو اپنے بھائی سے ملاقات کی اجازت ملی تو پی ٹی آئی کے مطابق اڈیالہ جیل سے یہ بیان باہر آیا کہ ’عاصم منیر ایک ذہنی مریض ہیں جس کی اخلاقی پستی کی وجہ سے پاکستان میں آئین اور قانون مکمل طور پر ختم ہو چکے ہیں۔‘

لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری کی پریس کانفرنس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ان کا ادارہ سابق وزیرِ اعظم اور ان کی جماعت کے بیانیے اور ’مسلح افواج اور اس کی قیادت پر حملوں‘ سے سخت ناراض ہیں۔

انھوں نے اپنی ناراضی کا اظہار کچھ ان الفاظ میں کیا کہ ’اگر کوئی اپنی ذات، ذہن کے فریب یا خود پسندی کی سوچ کے لیے مسلح افواج اور اس کی قیادت پر حملہ آور ہوتا ہے تو ہم بھی سختی سے اس کا مقابلہ کریں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے۔‘

بی بی سی نے عمران خان پر لگنے والے الزامات اور پاکستانی فوج کے ترجمان کی پریس کانفرنس پر مؤقف جاننے کے لیے پی ٹی آئی کے متعدد رہنماؤں سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تاہم اس تحریر کے چھپنے تک ان کا کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

تاہم پی ٹی آئی کے موجود چیئرمین بیریسٹر گوہر علی خان نے سوشل میڈیا پر اپنے پیغام میں ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس پر ’مایوسی‘ کا اظہار کیا۔

ان کا اپنے بیان میں کہنا تھا کہ ’پی ٹی آئی کا بیانیہ نہ ملک دشمن ہے اور نہ ہی ہو گا۔ ریاستی ادارے اور سیاسی لوگ ایک دوسرے کو ذہنی مریض کہیں یا خطرہ سمجھیں تو یہ افسوسناک ہے۔‘

پاکستانی فوج کے ترجمان کی پریس کانفرنس کے بعد پی ٹی آئی اور اس کے سربراہ کے سیاسی مستقبل کے بارے میں بہت سے سوالات اُٹھ رہے ہیں؟ یہ سوال بھی اُٹھایا جا رہا ہے کہ سول حکومت کے ہوتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر کو خود پریس کانفرنس کیوں کرنا پڑی؟ کیا اس سے عمران خان کی مقبولیت اور بڑھے گی؟اور کیا معاملات سابق وزیرِ اعظم کی جماعت پر پابندی لگانے کی طرف جا رہے ہیں؟

ڈی جی آئی ایس پی آر کی ’جارحانہ‘ پریس کانفرنس میں عمران خان کا نام لیے بغیر تنقید: ’ادارے کے لیے مناسب نہیں کہ ایسے لب و لہجے میں بات کی جائے‘27ویں آئینی ترمیم: ’طاقت کا پلڑا ایک بار پھر فوج کے حق میں‘ اور اس کے سربراہ تاحیات فیلڈ مارشلنیشنل ڈیفینس یونیورسٹی ورکشاپ میں پی ٹی آئی رہنماؤں کی شرکت، عمران خان کی ناراضگی اور وضاحتیں: ’ہمارے لوگ پہلے بھی اس کا حصہ رہے ہیں‘فیلڈ مارشل عاصم منیر کی بطور چیف آف دی ڈیفینس فورسز تعیناتی: ’سب ٹھیک ہے، پاکستان اب اونچی اڑان بھرے گا‘فوج کو پی ٹی آئی کے کس بیانیے پر اعتراض

ترجمان پاکستانی فوج نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا کہ ’اب اس کا بیانیہ پاکستان کی قومی سلامتی کے لیے خطرہ بن چکا ہے۔‘

بعض حلقے یہ سوال بھی اُٹھا رہے ہیں کہ آخر پاکستان تحریک انصاف کا بیانیہ ہے کیا؟ اور کیا اس سے اسٹیبلشمنٹ خطرہ محسوس کر رہی ہے؟

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار مجیب الرحمان شامی کہتے ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف نے حالیہ کئی روز سے فیلڈ مارشل عاصم منیر کو اپنا ہدف بنایا ہوا ہے اور ملک سے باہر بیٹھے، پی ٹی آئی کے حمایتی یوٹیوبرز بھی اس بیانیے کو آگے بڑھا رہے ہیں۔

بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ عمران خان کی بہنیں بھی مسلسل فوجی قیادت کو نشانہ بنا رہی ہیں، لہذا اس کے نتائج تو برآمد ہوں گے۔

اُن کے بقول عمران خان کے ’ایکس‘ پر بیانات نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور فوجی ترجمان کو خود اس معاملے میں تفصیلی پریس کانفرنس کرنا پڑی۔

تجزیہ کار حبیب اکرم کہتے ہیں کہ اس وقت پاکستان میں بیانیہ بنانے کی صلاحیت دو فریقوں کے پاس ہے۔ ’ایک فریق فوج ہے اور دوسرے عمران خان ہیں، جن کا بیانیہ حالیہ عرصے میں عوام میں مقبول ہوا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ عمران خان کے بیانیے میں تین نومبر 2022 کو اُنھیں گولی لگنے کے واقعے کے بعد تیزی آئی اور جب نو مئی آیا تو اس میں مزید شدت آئی۔

اُن کے بقول گذشتہ برس فروری میں ہونے والے انتخابات بھی ایک طرح سے عمران خان کی دلیری اور اُن کی مقبولیت کا امتحان تھے، جس میں وہ کامیاب رہے۔

حبیب اکرم کہتے ہیں کہ عمران خان کا بیانیہ اس لیے مقبول ہو رہا ہے کیوںکہ حکومت ملک میں قانون کی حکمرانی، عدلیہ کی آزادی اور اظہار رائے سے متعلق دعوے کر تی ہے لیکن اُن کے بقول زمینی حقائق اس سے مختلف ہیں۔

Getty Imagesفوجی ترجمان کو جیل میں بیٹھے شخص پر اتنی طویل پریس کانفرنس کیوں کرنا پڑی؟

ماہرین کہتے ہیں کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں سیاسی جماعتیں، فوج سے قریب اور دُور ہوتی رہی ہیں۔

حبیب اکرم کہتے ہیں کہ پاکستان میں ماضی میں جتنے بھی مارشل لا آئے، اس میں رائے عامہ، اکثر حکومتوں کے خلاف ہوتی تھی اور فوج کو خود اقتدار سنبھالنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی تھی۔

بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ نوے کی دہائی میں بھی جب حکومتی بدلتیں رہیں تو یہ اُسی صورت میں ہوتا تھا، جب ایک حکومت اپنی ساکھ کھو چکی ہوتی تھی اور اُس وقت رائے عامہ کو ہموار کرنا بھی آسان تھا۔

اُن کے بقول پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے جب اس معمول کو بدلا گیا اور یہ ایک ’غیر معمولی‘ صورتحال ہے۔

حبیب اکرم کے بقول عمران خان پوری قوت اور شدت سے یہ بات کر رہے ہیں کہ پاکستان میں طاقت کے توازن کو تبدیل ہونا چاہیے مگر ان کے بقول پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ ریاستی ڈھانچے کے توازن میں تبدیلی پر بات کرنے کو تیار نہیں اور یہی وجہ ہے کہ فوجی ترجمان کے لہجے میں سختی دیکھنے میں آئی۔

مجیب الرحمان شامی کہتے ہیں کہ فوجی ترجمان کی جمعے کی پریس کانفرنس پاکستان کی تاریخ کا ایک ’غیر معمولی‘ واقعہ ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ سیاسی معاملات پر فوجی ترجمان کی پریس کانفرنس بدقسمتی ہے۔ ’بہتر ہوتا کہ وزیرِ دفاعیا کوئی اور حکومتی شخصیت یہ پریس کانفرنس کرتی کیونکہ یہ سیاسی معاملات ہیں اور ان پر سیاست دانوں کو ہی گفتگو کرنا زیب دیتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ماضی میں فاطمہ جناح، ذوالفقار علی بھٹو، نواز شریف یا بے نظیر بھٹو کی جانب سے بھی اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کی جاتی رہی لیکن اس میں اتنی شدت نہیں تھی، جتنے سخت بیانات عمران خان کی جانب سے سامنے آئے ہیں۔

اُن کے بقول حالات اس نہج پر پہنچ گئے تھے کہ فوج کو ایک ادارے کے طور پر خود اس معاملے میں سامنے آنا پڑا تاہم وہ اُمید کرتے ہیں کہ اس نوعیت کی پریس کانفرنس کا سلسلہ دراز نہیں ہو گا۔

’نئی سُرخ لکیر‘

پی ٹی آئی اور فوج کے درمیان تعلقات میں تناؤ گذشتہ دو برس سے زیادہ عرصے سے جاری ہے۔ ایسے میں یہ سوال بھی جنم لیتا ہے کہ ایک سیاسی جماعت اور اس کے سربراہ کے خلاف اتنی سخت زبان استعمال کرنے کے لیے ایسے وقت کا انتخاب کیوں کیا گیا جب فیلڈ مارشل عاصم منیر کی بطور چیف آف ڈیفینس فورسز کی تقرری کو صرف دو ہی دن گزرے ہیں؟

سڈنی میں یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی سے منسلک خارجہ اور قومی سلامتی امور پر تحقیق کرنے والے محقق محمد فیصل کہتے ہیں کہ ’فوج کی طرف سے اس سخت زبان کے استعمال کی وجہ یہ پیغام بھیجنا ہے کہ عاصم منیر اگلے پانچ برس تک بھی یہی ہیں اور کسی بھی قسم کے بیانیے سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔‘

خیال رہے چیف آف ڈیفینس فورسز کے عہدے پر تقرری کے بعد فیلڈ مارشل عاصم منیر اگلے پانچ برس تک پاکستانی فوج کے سربراہ بھی رہیں گے۔

تجزیہ کار طلعت حسین کہتے ہیں کہ اعلیٰ عہدے پر فیلڈ مارشل عاصم منیر کی تقرری کے بعد ان کے ادارے کو اپنے سربراہ کی ’کردار کشی کا جواب‘ دینے کی ضرورت محسوس ہوئی۔

’وہ (فیلڈ مارشل عاصم منیر) اب صرف پاکستانی فوج کے سربراہ نہیں بلکہ چیف آف ڈیفینس فورسز ہیں۔ صرف ان کو نشانہ نہیں بنایا جا رہا بلکہ پورے نظام کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔‘

طلعت حسین سمجھتے ہیں کہ ’اب چیف آف ڈیفینس فورسز کا عہدہ ایک نئی سُرخ لکیر بن گئی ہے اور پیغام یہی دیا جا رہا ہے کہ اس عہدے کے تقدس کا خیال رکھیں۔‘

فہد حسین کا خیال بھی یہی ہے کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر عمران خان کے فوج کی قیادت کے بارے میں ’پیغامات بہت سخت ہو گئے ہیں، الفاظ اور زبان کا استعمال بدتمیزی کی حد کو چھو رہے ہیں۔‘

’اتنا ہی کافی نہیں تھا کہ اب پی ٹی آئی کے رہنما اور حامی مصنوعی ذہانت کا استعمال کر کے مسلح افواج کی قیادت کے خلاف ہتک آمیز مہم چلا رہے ہیں۔‘

کیا اب بھی واپسی کا کوئی راستہ ہے؟

حبیب اکرم کہتے ہیں کہ پاکستان کی سیاست میں کوئی بھی چیز حرف آخر نہیں ہوتی۔

اُن کے بقول زیادہ پرانی بات نہیں کہ جب نواز شریف نے لندن میں بیٹھ کر تین حاضر سروس جرنیلوں کے نام لے کر اُن پر تنقید کی تھی اور آج اُنھیں نواز شریف کی جماعت مرکز اور صوبے میں اقتدار میں ہے۔

اُن کے بقول غدار والا الزام بھی کوئی نئی بات نہیں۔ ’حسین شہید سہروری، فاطمہ جناح، ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر اور نواز شریف، ان سب پر بھی غداری کے الزامات لگے۔‘

دوری جانب تجزیہ کار طلعت حسین کہتے ہیں کہ ’سیاسی جماعتیں اکثر گرے ایریا میں کام کرتی ہیں لیکن اب (ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس کے بعد) تو سب کچھ سیاہ اور سفید ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ اب کسی سیاسی راستے کی کوئی گنجائش بچی ہے۔‘

تاہم پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان اب بھی سمجھتے ہیں کہ ’ایک دوسرے کو تسلیم کرنے‘ اور ’اعتماد کا فقدان ختم‘ کر کے اختلافات کم کیے جا سکتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’میں تمام جمہوریت پسند قوتوں سے اپیل کرتا ہوں کہ تناؤ کو کم کرنے میں کردار ادا کریں۔‘

ان تمام اپیلوں کے باوجود طلعت حسین کو آنے والے وقت میں پی ٹی آئی پر مزید سختی ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ شاید اب عمران خان کی بہنوں کو بھی ان سے ملاقات نہ کرنے دی جائے۔

’کچھ روز قبل (تین دسمبر کو) وزیرِ قانون اور وزیرِ اطلاعات نے بہت ہی واضح الفاظ میں کہا کہ جیل سے سیاسی اور سخت بیانات باہر آنے کی اجازت نہیں ہو گی۔‘

مجیب الرحمان شامی کہتے ہیں کہ عمران خان، ماضی میں اپنی پالیسی پر نظرثانی کرتے رہے ہیں اور اب اُن کی جماعت کو بھی یہ احساس ہو رہا ہے کہ یہ معاملہ مزید آگے نہیں بڑھنا چاہیے۔

کیا پی ٹی آئی پابندی کی زد میں آ سکتی ہے؟

پی ٹی آئی پر پابندی کے امکانات پر اس لیے زیادہ بات ہو رہی ہے کیونکہ اپنی پریس کانفرنس میں لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے نام لیے بغیر عمران خان کے بیانیے کو ’قومی سلامتی کے لیے خطرہ‘ قرار دیا تھا۔

ان کے الفاظ کچھ یوں تھے ’اس کی مایوسی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ میں نہیں تو کچھ نہیں۔۔۔ اب سیاست ختم ہو چکی، اب اس کا بیانیہ پاکستان کی قومی سلامتی کے لیے خطرہ بن چکا ہے۔‘

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا فوج پی ٹی آئی پر پابندی کا مطالبہ کر رہی ہے تو ان کا کہنا تھا کہ ’فوج ریاست کا ایک ادارہ ہے اور ہمارا کام اپنا نقطہ نظر دینا ہے۔ ہم اس لیے کھلے عام اس پر بات کر رہے ہیں کیونکہ فوج سے متعلق ان کی باتیں بھی کھلے عام قومی، بین الاقوامی میڈیا اور سوشل میڈیا پر کی جاتی ہیں۔‘

’ہمارا کام ہے آپ کو بتانا کہ ہم اس پر کیا محسوس کرتے ہیں۔ ریاست ہم سے بالاتر ہے۔ یہ ان کا فیصلہ ہے۔ آپ ان سے پوچھیں کہ وہ کیا کریں گے۔‘

پاکستانی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار پی ٹی آئی پر پابندی جیسے انتہائی اقدام کو خارج الامکان نہیں سمجھتے۔

سیاسی تجزیہ کار طلعت حسین نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ عمران خان کو اور ان کے بیانیے کو ’قومی سلامتی کے لیے خطرہ‘ قرار دیا گیا اور ’ان کے خلاف کیس بنا کر‘ مزید کارروائی کی ذمہ داری حکومت پر ڈال دی گئی۔

’میرے پاس کوئی معلومات نہیں لیکن امکانات بہت ہیں۔ پی ٹی آئی پر پابندی لگ سکتی ہے، عمران خان کو اڈیالہ جیل سے کسی اور مقام پر منتقل کیا جا سکتا ہے اور جو ان کے بیانیے کی ترویج کرتے ہیں ان کی گرفتاریاں بھی عمل میں آ سکتی ہیں۔‘

یہاں یہ سوال اُٹھتا ہے کہ کیا حکومت واقعی پی ٹی آئی پر پابندی لگانے جیسے آپشن پر غور کر رہی ہے؟

Getty Images

وفاقی وزیرِ مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری ایسی کسی بھی پریشانی سے بچنے کے لیے پی ٹی آئی کو ’عمران خان سے لاتعلقی‘ کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔

انھوں نے سابق وزیرِ اعظم عمران خان کا حوالہ دیتے ہوئے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ’اگر ایک سزا یافتہ شخص قومی سلامتی کے لیے بن رہا ہے تو اس سے علیحدگی اختیار کریں۔‘

’پی ٹی آئی کے اندر بہت سے سیاسی لوگ بھی یہی سمجھتے ہیں کہ عمران خان کے بیانیے سے نقصان ہو رہا ہے، انھیں سوچنا ہوگا کہ اس کے نتائج سامنے آئیں گے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو آئین و قانون کے مطابق حکومت اقدامات کرے گی۔‘

دیگر مبصرین کا بھی یہی خیال ہے کہ آنے والے دنوں میں پی ٹی آئی پر دباؤ بڑھتا ہوا نظر آئے گا۔

فہد حسین کہتے ہیں کہ ’حکومت کی طرف سے قانونی اقدامات کی شکل میں پی ٹی آئی پر مزید دباؤ بڑھے گا اور اب یہ واضح ہے کہ ریاست مزید سخت اقدامات لینے جا رہی ہے۔‘

’عمران خان لچک دکھائیں گے نہ ہی ریاست‘Getty Images

حالیہ برسوں میں پاکستان کی حکومت نے پی ٹی آئی کے ساتھ اختلافات ختم کرنے کے لیے مذاکرات کی راہ اپنانے کی کوشش کی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) اور عمران خان کی جماعت کے رہنماؤں کی اس حوالے سے ملاقاتیں بھی ہوتی رہی ہیں تاہم سیاسی مبصرین سمجھتے ہیں کہ شاید اب حکومتی جماعت یا اس کے اتحادی ایسا کوئی سیاسی راستہ نکالنے پر راضی نہ ہوں۔

حکومتی وزرا کے بیانات دیکھ کر یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ عمران خان کو اب کوئی سیاسی گنجائش دینے کو تیار نہیں اور اس کی مثال پی ٹی آئی سے خود کو عمران خان سے علیحدہ کرنے کا کیا جانے والا مطالبہ ہے۔

فہد حسین کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت کا عمران خان سے علیحدہ ہونے کا امکان بہت کم ہے۔

’ہاں لیکن اس مرکزی قیادت سے باہر ایسے لوگ ضرور ہو سکتے ہیں جو سخت قانونی اقدامات کے تناظر میں عمران خان کے لیے اپنی حمایت پر غور کریں۔‘

ان کے خیال میں اس صورتحال میں بھی ’نہ ہی عمران خان کوئی لچک دکھائی گے اور نہ ہی ریاست۔‘

’پی ٹی آئی نے پوری طرح سے خود کو اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیے سے جوڑ رکھا ہے اور اپنے لیے کوئی گنجائش ہی نہیں چھوڑی۔ ان کے لیے زیادہ آپشن نہیں، سوائے اس کے کہ وہ اپنے بیانیے کے ساتھ رہیں اور آئندہ جو ہوگا اس کو برداشت کریں۔‘

پی ٹی آئی کے لیے آنے والا وقت کیسا ہوگا یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری کی پریس کانفرنس کا حوالہ دیتے ہوئے طلعت حسین کہتے ہیں کہ ’لگتا یہی ہے کہ اب مذمتی نہیں بلکہ مرمتی کارروائی ہو گی۔‘

امریکی قانون سازوں کا فیلڈ مارشل عاصم منیر کو جوابدہ بنانے سے متعلق خط کیا امریکی انتظامیہ پر اثرانداز ہو سکتا ہے؟’طے شدہ امن منصوبے میں ترامیم‘ یا ملک کی اندرونی سیاست اور دباؤ: پاکستان نے ٹرمپ کے غزہ منصوبے سے دوری کیوں اختیار کی؟امریکہ میں عمران خان کی رہائی اور پاکستان کے آرمی چیف پر پابندی سے متعلق بل پیش: ’پاکستان ڈیموکریسی ایکٹ‘ میں کیا ہے؟’پسندیدہ‘ فیلڈ مارشل، شہباز شریف اور ٹرمپ: ’خدا آپ کو سلامت رکھے، دنیا کو آپ کی سب سے زیادہ ضرورت تھی‘پاکستان کی امریکہ سے قربت اور فیلڈ مارشل عاصم منیر ’ڈرائیونگ سیٹ‘ پر: ’ٹرمپ انھیں پسند کرتے ہیں جو وعدے پورے کریں‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More