تحریکِ انصاف کے رہنماؤں کی باتوں سے ایسا لگتا ہے جیسے آج بھی وہ حکومت کا نہیں بلکہ حزبِ اختلاف کا حصہ ہوں۔ کچھ ایسا ہی ہوا جب جمعرات کے روز شبلی فراز صحافیوں سے ڈسکہ میں الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بارے میں بات کررہے تھے۔ انھوں نے کہا کہ “پاکستان مسلم لیگ (ن) گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران انتخابی نتائج کے ساتھ "جوڑ توڑ" میں ماہر بن چکی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ مسلم لیگ ہمیشہ دھونس ، دھاندلی اور انتخابی دھاندلی کی بنیاد پر انتخابات جیتتی رہی ہے“۔
ان کا بیان مزید متنازع بن گیا جب گفتگو کے دوران مشہور صحافی مطیع اللہ جان نے ان سے سوال کیا کہ جب الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف اپیل کا آپشن موجود ہے تو اس آپشن کو استعمال کیوں نہیں کیا جارہا؟ کیا حکومت دوبارہ الیکشن سے بھاگ رہی ہے؟ جس کے جواب میں شبلی فراز نے کہا کہ یہ محض مطیع اللہ جان کی ذہنی اختراع ہے۔ اس کے بعد مطیع اللہ جان نے ایک اور سوال کیا کہ الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ تحریکِ انصاف کی حکومت صوبہ پنجاب میں بری طرح ناکام ہوچکی ہے تو کیا حکومت کو پنجاب سے استعفیٰ نہیں دے دینا چاہیے؟ جس پر شبلی فراز نے جواب دیا کہ ان کی حکومت کو نہیں بلکہ مطیع اللہ جان کو صحافت سے استعفیٰ دے دینا چاہیے۔
ان کا بیان مزید متنازع بن گیا جب گفتگو کے دوران مشہور صحافی مطیع اللہ جان نے ان سے سوال کیا کہ جب الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف اپیل کا آپشن موجود ہے تو اس آپشن کو استعمال کیوں نہیں کیا جارہا؟ کیا حکومت دوبارہ الیکشن سے بھاگ رہی ہے؟ جس کے جواب میں شبلی فراز نے کہا کہ یہ محض مطیع اللہ جان کی ذہنی اختراع ہے۔ اس کے بعد مطیع اللہ جان نے ایک اور سوال کیا کہ الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ تحریکِ انصاف کی حکومت صوبہ پنجاب میں بری طرح ناکام ہوچکی ہے تو کیا حکومت کو پنجاب سے استعفیٰ نہیں دے دینا چاہیے؟ جس پر شبلی فراز نے جواب دیا کہ ان کی حکومت کو نہیں بلکہ مطیع اللہ جان کو صحافت سے استعفیٰ دے دینا چاہیے۔