ہراسانی کے واقعات: کیا پاکستان کے عوامی مقامات خواتین کے لیے غیر محفوظ ہیں؟

بی بی سی اردو  |  Oct 01, 2022

Getty Images

’وہ شخص بے شرموں کی طرح مجھے دیکھ کر ہنس رہا تھا اور مشت زنی کر رہا تھا۔ اس بات کو تقریباً چھ سال گزر گئے ہیں مگر آج بھی پارک جانے کا سوچ کر خوفزدہ ہو جاتی ہوں۔ کیونکہ شاید اب بھی یہی لگتا ہے کہ لوگ دیکھ کر بھی ایسے لوگوں کو نظر انداز کر دیں گے اور یقیناً اس جیسا بے شرم مرد ہر پارک میں پایا جاتا ہو گا۔‘

’ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں اس میں رہنے والی کوئی خاتون یہ نہیں کہہ سکتی کہ اس کو کبھی عوامی مقامات پر ہراسانی یا خوف کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔۔۔ یہ خوف ہر قدم پر ہمارے سر پر منڈلاتا ہے، وہ بازار ہو، دوکان ہو، راستہ ہو، دفتر ہو یا پھر کوئی پارک۔‘

’ہمارے معاشرے میں خواتین کو روزانہ کی بنیاد پر ہراساں کیا جانا ایک معمول ہے۔ کبھی کوئی لفظ، کبھی صرف نظر اور کبھی کسی دوسرے کی کوئی بیہودہ حرکت ہمارے معاشرے کی عورت کا مقدر ہے۔‘

یہ وہ چند تبصرے اور خیالات ہیں جن کا اظہار سوشل میڈیا پر خواتین نے اس وقت کیا جب سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹؤٹر پر ایک خاتون صارف نے سوال پوچھا کہ ’پاکستان کی کتنی خواتین کو کسی عوامی پارک میں ہراسانی یا ایسی غیر معمولی حرکت کا سامنا کرنا پڑا ہو کہ انھوں نے پارک جانا چھوڑ دیا ہو۔‘

پاکستان کی بیشتر خواتین ایسی ہیں جو عوامی مقامات پر اس قسم کی ہراسانی کا سامنا کر چکی ہیں۔ پاکستان میں رہنے والی تقریباً ہر دوسری خاتون آپ کو ایسے کئی واقعات گنوا سکتی ہے جب اسے کسی نہ کسی نوعیت کی ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا۔

مگر کیا ملک کے عوامی مقامات خواتین کے لیے غیر محفوظ ہیں؟ بی بی سی نے اس حوالے سے زندگی کے مختلف شعبوں اور طبقوں سے تعلق رکھنے والی پاکستانی خواتین سے بات کی ہے جنھوں نے اپنے تجربات ہم سے شیئر کیے۔

iStock'دماغ سن ہو گیا تھا سمجھ ہی نہیں آیا کہ کیا ردعمل دوں'

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی ایم ایس اکنامکس کی طالب علم شنایا نے چھ سال قبل اپنی دو بہنوں اور ایک کزن کے ساتھ اسلام آباد کے سیکٹر ایف سیون کی گول مارکیٹ کے پارک میں پیش آئے ایک برے تجربے کے بارے بتایا کہ ’جب ہم پارک میں داخل ہوئے تو ایک 40-45 برس کی عمر کا شخص بیٹھا تھا، پہلے تو ہمنے اس کی طرف توجہ نہیں دی کیونکہ عموماً وہاں کوئی نہ کوئی بیٹھا ہوتا ہے۔ پارک میں داخل ہوتے وقت میں اپنی بہن اور کزن سے تھوڑا پیچھے تھی مگر جب میں ان کے پاس پہنچی تو وہ کافی گھبرائی ہوئی تھیں۔ میں نے ان سے گھبراہٹ کی وجہ پوچھی تو انھوں نے بتایا کہ وہ شخص کافی دیر سے انھیں گھور رہا ہے، کبھی آنکھ مارتا، تو کبھی عجیب تاثرات دیتا ہے۔‘

شنایا بتاتی ہیں کہ ’جب میں نے اس شخص کی طرف توجہ کی تو وہ اس وقت بھی بے شرموں کی طرح مسکرا رہا تھا اور کچھ ہی لمحوں بعد اس نے ہمارے سامنے پتلون اتار کر مشت زنی کرنا شروع کر دی۔‘

شنایا کا کہنا تھا کہ ’یہ ہمارے لیے اتنا حیران کن تھا کہ دماغ بالکل سن ہو گیا اور اس وقت کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ مجھے کس طرح کا ردعمل دینا چاہیے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’میری بہن اور کزن صرف 15-16 سال کی تھیں جبکہ میرے لیے بھی پہلا ایسا تجربہ تھا اور ہماری سمجھ سے باہر تھا کہ ایک مرد کیسے عوامی مقام پر ایسی گھٹیا حرکت کر سکتا ہے اور اس سے بھی زیادہ دماغ کو مفلوج کر دینے والی بات یہ تھی کہ اس پارک میں لوگ گزر رہے تھے اور بہت سے لوگوں نے اسے دیکھا بھی مگر سب اس کو نظر انداز کر کے گزر گئے۔‘

شنایا کہتی ہیں کہ اس شخص کی اس حرکت پر جب کسی نے کوئی اقدام نہیں اٹھایا تو ’میرے دماغ میں یہی آیا کہ ردعمل دینے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا اور ہم بھی وہاں سے چپ کر کے واپس آ گئے۔‘

انھوں نے مزید بتایا کہ ’ہم نے واپس آ کر یہی فیصلہ کیا کہ ہمیں گھر میں اس واقعے کے متعلق کسی کو نہیں بتانا چاہیے کیونکہ اس وقت ہماری عمریں بھی کم تھی اور ہمیں یہ بھی سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا اور کیسے بتائیں۔ اور دوسرا یہ کہ ہمارے اکیلے باہر آنے جانے پر پابندی عائد ہو سکتی تھی۔‘

وہ اپنے اس برے تجربے کے متعلق بات کرتےہوئے کہتی ہیں کہ ’مگر آج سوچتی ہوں کہ ہمیں شور مچانا چاہیے تھا کیا پتہ لوگ مدد کے لیے آتے۔‘

’پہلے خود لڑکوں کو پیچھے لگاتی ہیں اور پھر تماشا لگا لیتی ہیں‘Getty Images

پنجاب سے تعلق رکھنے والی اقرا ملک، جو سافٹ ویئر انجینئر ہیں،نے اپنا تجربہ شیئر کرتے ہوئے بتایا کہ وہ ایک خود مختار لڑکی ہیں جو اپنی حفاظت کرنا جانتی ہے۔ مگر کچھ ماہ پہلے ہی ان کے ساتھ پیش آنے والے واقعے نے ان کی خود اعتمادی کو کافی ٹھیس پہنچائی ہے۔

اقرا نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ تقریباً چار ماہ قبل وہ اور ان کی دفتر کی دو ساتھی قریبی پارک میں گئے جہاں مختلف جھولے تھے۔

'ہم تینوں نے ڈریگن جھولے کا ٹکٹ لیا اور ہم جھولے کی طرف آ گئے، وہاں پہلے سے ہی کافی رش تھا۔ ہم اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے اور ہمارے ساتھ ہی مردوں کی ایک قطار تھی جس میں ایک لڑکا مسلسل ہمیں دیکھ کر فقرے کس رہا تھا لیکن ہم مسلسل اسے نظر انداز کر رہے تھے۔ جس وقت جھولے پر بیٹھنے کی ہماری باری آئی، وہ لڑکا بھی اسی وقت جھولے پر بیٹھ گیا۔ جبکہ اس سے قبل وہ کافی دیر سے قطار میں کھڑا تھا مگر جونہی اسنے ہمیں جھولے پر بیٹھتے دیکھا وہ ہمارے پیچھے آ گیا۔‘

اقرا نے بات جاری رکھتے ہوئے مزید بتایا کہ ’وہ جھولے کے دوران پورا وقت مجھے گھورتا رہا. ہم جھولے سے نیچے اترے تو وہ بھی ہمارے ساتھ اترا اور ہمارا پیچھا کرنے لگا۔ ہم اس کے رویے سے پریشان ہو کر اس پارک سے باہر کی طرف آ رہے تھے کہ اچانک اس نے چلتے چلتے میری چھاتی پر اپنا ہاتھ لگایا اور تیزی سے بھاگنے لگا۔ میرے اندر اس وقت غصے کی ایک ایسی لہر دوڑی کہ میں نے اسے گالیاں دینا شروع کر دیں۔ مگر وہ کافی تیزی سے وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا۔‘

اقرا کہتی ہیں کہ ’اتنے میں وہاں کھڑی ایک درمیانی عمر کی خاتون نے اپنی ساتھی خاتون سے کہا کہ ایسی ہی لڑکیاں لڑکوں کو خراب کرتی ہیں، بھلا یہ کوئی لباس ہے، اتنا ہی عزت کا خیال ہوتا ہے تو اپنے آپ کو تو پہلے ڈھانپ لیں، پھر لڑکوں کو گالیاں دیں۔ مردوں کا تو کام ہی یہ ہے اور ان کو جہاں ننگی عورت نظر آئی گی وہ تو ایسی ہی حرکتیں کریں گے۔'

اقرا بتاتی ہیں کہ انھوں نے اس وقت جینز اور شارٹ کُرتا پہن رکھا تھا۔

’اس خاتون کی یہ بات سن پرمیرا خون کھول اٹھا۔ وہ تکلیف اور ذلت مجھے آج تک محسوس ہوتی ہے۔‘

اقرا کا کہنا ہے کہ اس رات خاتون کے کہے لفظ ’ننگے‘ پر بہت دیر تک سوچتی رہی کہ 'میں کہاں سے ننگی تھی میں نے تو پورے کپڑے پہنے تھے۔ ننگی میں نہیں بلکہ ان کی سوچ تھی۔ جب تک اس معاشرے میں ایک عورت دوسری عورت کے لیے آواز نہیں اٹھائی گی تب تک یہ معاشرہ نہیں بدل سکتا۔‘

’وہ مجھے اور میری چھ سال کی بھتیجی کو بری نیت سے گھور رہا تھا‘

شم ایک پروفیشنل ہیں جو کہ اس وقت امریکہ میں ماسٹر کی تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔

شم نے عوامی پارک میں اپنے برے تجربے کے متعلق بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’گذشتہ برس ستمبر میں، مجھے اور میری چھ برس کی بھتیجی کو بھائی پارک چھوڑ کر چلے گئے۔ میں جیسے ہی پارک میں داخل ہوئی تو مجھے وہاں ایک شخص بیٹھا دکھائی دیا۔ وہ ہمیں بہت بری طرح گھور رہا تھا۔ اس کی نظروں نے سر سے پاؤں تک میرا جائزہ لیا اور میری بھتیجی کو بھی عجیب سے نظروں سے دیکھا۔‘

شم کہتی ہیں کہ ’پہلے تو میں نے نظر انداز کیا لیکن کچھ دیر بعد مجھے احساس ہوا کہ وہ پارک میں مسلسل ہمارا پیچھا کر رہا ہے اور میں جہاں جاتی وہ وہیں آ جاتا۔‘

شم کہتی ہیں کہ ’پیشہ وارانہ زندگی میں کئی مرتبہ ایسا افراد سے آپ کا سامنا ہوتا ہے لیکن جس بری نیت سے وہ مجھے اور میری بھتیجی کو دیکھ رہا تھا اس نے مجھے بہت پریشان کیا اور میں نے فوراً ہی قریب میں نوکری کرنے والے اپنے کزن کو فون کر کے بلا لیا اور اس کےپہنچنے پر ہم فوراً گھر واپس آ گئے۔‘

شم کہتی ہیں کہ انھوں نے گھر میں اس واقعے کے متعلق کوئی بات نہیں کی کیونکہ انھیں ڈر تھا کہ کہیں ان کا باہر جانا مشکل نہ ہو جائے۔

وہ کہتی ہیں کہ اس تجربے کے بعد مجھے محسوس ہوا کہ خواتین کے لیے سیلف ڈیفنس کی تربیت کتنی ضروری ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’گھر سے باہر جاتے وقت ہر خاتون کے پاس اپنے دفاع کے لیے پیپر سپرے جیسی کوئی چیز موجود ہونی چاہیے تاکہ وہ باہر جاتے وقت خود کو محفوظ اور پر اعتماد سمجھے۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More