داؤد ابراہیم کا پاکستان میں ’گٹکا پروجیکٹ‘: ’نامعلوم شخص بغیر ویزا ممبئی سے پاکستان کیسے گیا؟‘

بی بی سی اردو  |  Jan 31, 2023

انڈیا کے شہر ممبئی میں منظم جرائم اور کاروبار کے درمیان قریبی تعلقات کی کہانی پرانی ہے۔ ایسے ہی ایک مشہور مقدمے میں رواں ماہ ایک اہم فیصلہ سامنے آیا ہے۔

یہ گٹکا بنانے والی کمپنیوں کے مالکان جگدیش پرساد موہن لال (جے ایم) جوشی اور رسیکلال مانک چند دھاریوال کے درمیان جھگڑے کی کہانی ہے۔

انڈیا کی تحقیقاتی ایجنسی کا کہنا ہے کہ مافیا ڈان داؤد ابراہیم نے دونوں کے درمیان جھگڑے میں اہم کردار ادا کیا تھا اور داؤد کے رشتہ داروں کی گواہی اور دیگر شواہد کی بنیاد پر جے ایم جوشی کو دس سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔

ممبئی کی ایک خصوصی عدالت نے جے ایم جوشی کو 10 سال کی سزا سنائی۔ اس کے علاوہ دو اور لوگوں کو بھی 10-10 سال کی سخت قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ سنہ 2017 میں دھاریوال وفات پا گئے تھے۔

خصوصی عدالت نے اپنے 242 صفحات پر مشتمل حکم نامے میں کہا ہے کہ شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ جوشی اور دھاریوال نے انڈر ورلڈ ڈان داؤد اور اس کے بھائی انیس ابراہیم کے ساتھ اپنے جھگڑے کے درمیان صلح کرائی تھی، اور دونوں نے تنازعہ ختم کرنے کے لیے رقم لی تھی۔

Getty Images

اس کے علاوہ جے ایم جوشی نے داؤد ابراہیم کی حیدرآباد، پاکستان میں گٹکا فیکٹری شروع کرنے میں مدد کی اور منظم جرائم کے لیے مستقل آمدنی کا ذریعہ فراہم کیا۔ 

جے ایم جوشی کے وکیل سدیپ پاسبولا نے کہا کہ وہ اس فیصلے کو قبول نہیں کرتے اور اس حکم کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی جائے گی۔

اس مقدمے کے سرکاری وکیل پردیپ گھرت کے مطابق یہ فیصلہ بہت اہم ہے، لیکن وہ نہیں سمجھتے کہ اس سے ممبئی میں انڈرورلڈ کے اثر و رسوخ میں کمی آئے گی، حالانکہ 'یہ حکم اور پولیس نے جس طرح سے اقدامات کیے ہیں اس سے پیغام ملا ہے کہ جرائم کو روکا جا سکتا ہے۔

گھرت کے مطابق یہ کیس 2001 میں درج کیا گیا تھا اور سی بی آئی نے 2004 میں تحقیقات شروع کی تھیں۔

لیکن یہ سب کیسے ہوا؟ آخر جوشی اور دھاریوال میں لڑائی کس بات پر ہوئی؟ داؤد ابراہیم اور بھائی انیس ابراہیم اس کہانی میں کیسے داخل ہوئے؟ پاکستان میں گٹکا فیکٹری کیسے شروع ہوئی اور جے ایم جوشی اور دھاریوال اس میں کہاں فٹ آتے ہیں؟

BBC1998 میں بمبئی کی ایک تصویر

استغاثہ کے مطابق جے ایم جوشی اور رسیکلال مانک چند دھاریوال 1988 سے ایک ہی کمپنی دھاریوال ٹوبیکو پراڈکٹس لمیٹڈ کا حصہ تھے۔ جے ایم جوشی کمپنی میں ڈائریکٹر تھے اور مختلف ذائقوں کو ملانے کے ماہر تھے۔

عدالتی دستاویزات کے مطابق جے ایم جوشی کو ابتدائی طور پر ان کے کام کے لیے ادائیگی کی گئی تھی، لیکن ان کا کہنا ہے کہ بعد میں انھیں رسیکلال مانک چند دھاریوال نے کمپنی کے 10 فیصد شیئرز دینے کا وعدہ کیا تھا۔ بعد میں 10 فیصد حصہ کا یہ وعدہ بڑھا کر 20 فیصد کر دیا گیا لیکن یہ وعدہ پورا نہیں ہوا۔

دستاویزات کے مطابق جے ایم جوشی نے تقریباً 259 کروڑ روپے پر اپنا حق جتایا اور کہا کہ انھیں یہ رقم کئی کوششوں کے بعد بھی نہیں ملی۔ اس کے بعد جے ایم جوشی نے 1996 میں کمپنی چھوڑ دی۔

عدالت کے مطابق شواہد واضح طور پر بتاتے ہیں کہ دھاریوال کے داؤد ابراہیم کی فرنٹ کمپنی گولڈن باکس ٹریڈنگ کمپنی سے تعلقات تھے اور اس کمپنی کا مالک داؤد ابراہیم کا رشتہ دار تھا۔

استغاثہ کے مطابق اگست 1999 میں جے ایم جوشی کو متحدہ عرب امارات (یو اے ای) میں گولڈن باکس آفس بلایا گیا جہاں جوشی سے کہا گیا کہ وہ دھاریوال ٹوبیکو لمیٹڈ میں اپنے تمام حصص واپس کر دیں اور مزید شیئرز نہ مانگیں۔

دستاویزات کے مطابق، انیس ابراہیم نے جے ایم جوشی کو دھمکی دی، انھیں تھپڑ مارا اور دھاریوال کے ساتھ تعاون کرنے کو کہا۔

یہ بھی پڑھیے

ابو سالم: چھوٹے شہر کا لڑکا ممبئی کا ڈان کیسے بن گیا

حاجی مستان سے لے کر کریم لالہ تک ممبئی میں انڈرورلڈ کا اثرو رسوخ کیسے قائم ہوا؟ داؤد ابراہیم: 40 سال پہلے بمبئی کے مِل مزدوروں کے بچے جرائم کی دنیا کے بادشاہ کیسے بنے؟

نامعلوم شخص جسے بنکاک میں کام کے بہانے پاکستان لے جایا گیا

استغاثہ کے مطابق، اس کے بعد جے ایم جوشی نے انیس کے ایک رشتہ دار کے بچپن کے دوست سے رابطہ کیا تاکہ انیس ابراہیم سے اپنا موقف بیان کیا جا سکے۔ استغاثہ کے مطابق ستمبر 1999 میں دبئی میں ایک میٹنگ میں جے ایم جوشی نے اپنی کہانی سنائی کہ کس طرح جوشی کو ان کا حصہ نہیں دیا گیا۔

آخر کار کراچی میں داؤد ابراہیم کی مداخلت کے بعد معاملہ حل ہو گیا اور جے ایم جوشی کو 259 کروڑ کی بجائے صرف 11 کروڑ روپے میں تصفیہ کرنا پڑا۔ لیکن بات یہیں نہیں ختم ہوئی۔

عدالتی دستاویزات کے مطابق جے ایم جوشی نے داؤد ابراہیم اور انیس ابراہیم کے منظم جرائم کو تکنیکی اور مالی مدد فراہم کی اور پاکستان کے شہر حیدرآباد میں گٹکا کے کارخانے قائم کرنے میں مدد کی جس سے دونوں کو آمدنی کا ایک مستحکم ذریعہ فراہم ہوا۔

دستاویزات میں ایک نامعلوم شخص (استغاثہ کے گواہ 32) کا ذکر ہے جسے جولائی 2000 میں بنکاک میں کام کرنے کے بہانے دبئی کے راستے کراچی لے جایا گیا، جہاں سے اسے حیدرآباد (پاکستان) لے جایا گیا۔ اس شخص کو گٹکا کا کارخانہ شروع کرنے کے لیے بھیجا گیا، اس شخص کو حیدرآباد میں نوکروں کے کوارٹر میں رکھا گیا تھا اور اسے اپنے گھر والوں سے بات کرنے کی اجازت نہیں تھی۔

استغاثہ کے اس گواہ کے مطابق، جو کبھی جے ایم جوشی کی کمپنی میں کام کرتا تھا، جب وہ اپنے اہل خانہ سے ملنے انڈیا آیا کرتا تھا، تو اسے دھمکی دی جاتی تھی کہ اگر وہ پاکستان واپس نہیں آیا تو انڈیا میں ہی ان کا انکاؤنٹر کر دیا جائے گا۔

انڈیا سے دبئی کے راستے پاکستان میں گٹکا پیکنگ مشینیں بھیجی گئیںGetty Images

پاکستان میں گٹکا فیکٹری شروع کرنے کے اس منصوبے کے تحت دو لاکھ 64 ہزار لاگت کی پانچ گٹکا پاؤچ پیکنگ مشینیں انڈیا سے دبئی کے راستے پاکستان بھیجی گئیں۔

عدالتی حکم نامے میں اس گواہ کے پاکستان میں گزارے گئے وقت کا ذکر ہے۔ حکم نامے کے مطابق وہ 16 مارچ 2006 کو انڈیا آیا تھا اور تب سے وہ اپنے گھر میں مقیم تھا لیکن سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر ان کا نام ظاہر نہیں کیا جا رہا ہے۔

دستاویز کے مطابق اس گواہ کے پاس پاکستان جانے، وہاں رہنے کا کوئی دستاویزی ثبوت نہیں، اس کے پاسپورٹ پر پاکستان جانے یا وہاں سے آنے کا کوئی مہر نہیں۔ اس گواہ کے مطابق جب وہ پاکستان جاتا تھا تو اس کا ٹکٹ اور پاسپورٹ لے لیا جاتا تھا اور جاتے وقت واپس کر دیا جاتا تھا۔

عدالت نے اپنے حکم میں کہا کہ عام طور پر فیکٹری شروع کرنے میں کسی کی مدد کرنا جرم نہیں ہے لیکن اس معاملے میں داؤد ابراہیم اور انیس ابراہیم یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ ’عالمی دہشت گرد‘ ہیں، دونوں افراد گٹکا فیکٹری شروع کرنے کے مجرم تھے اور گٹکا کی تیاری کا فارمولہ انھیں دستیاب کرایا گیا۔

’یہ شخص بغیر ویزا کے ممبئی ایئرپورٹ سے کراچی نہیں جا سکتا تھا‘Getty Imagesجے ایم جوشی مارچ 2005 میں عدالت میں پیش ہوئے۔

عدالتی دستاویزات کے مطابق جے ایم جوشی کے اٹارنی سدیپ پاسبولا نے کہا کہ ان کا منظم جرائم سے کوئی تعلق نہیں ہے اور درحقیقت انھیں دھمکی دی گئی تھی کہ وہ کمپنی میں اپنے حصص واپس کر دیں گے اور مزید کا مطالبہ نہیں کریں گے۔

انھوں نے کہا کہ اگر استغاثہ کی اس دلیل کو بھی مان لیا جائے کہ اس نے 259 کروڑ روپے کے بجائے صرف 11 کروڑ روپے لیے، تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس نے ایسا اپنی مرضی سے نہیں بلکہ دھمکیوں اور جبر کے نتیجے میں کیا۔

ان کے مطابق ’حیدرآباد میں گٹکا فیکٹری شروع کرنے کے لیے جے ایم جوشی کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا، انھوں نے کسی دباؤ میں ایسا کیا، مانا جائے کہ انھیں یہ کام کرنے پر مجبور کیا گیا تھا۔‘

پاسبولا کے مطابق، جے ایم جوشی حالات کا شکار تھے اور انیس ابراہیم کی دھمکیوں کی وجہ سے منظم جرائم کے ساتھ رابطے میں آئے، اور جے ایم جوشی نے اپنی جان بچانے کے لیے ایسا کیا۔

عدالتی دستاویز میں ان کا کہنا ہے کہ ’جے ایم جوشی ایک معزز تاجر ہیں، ان کی کئی صنعتیں ہیں، انھوں نے کئی سو لوگوں کو روزگار دیا ہے۔ ان کے برآمدی کاروبار سے قیمتی زرمبادلہ کمایا جاتا ہے۔‘

سدیپ پاسبولا نے استغاثہ کے گواہ 32 پر بھی سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ ’ان پر تحقیقاتی ایجنسیوں نے مبینہ طور پر زبردستی کی، ان کی نقل و حرکت پر کوئی پابندی نہیں، وہ چھ بار انڈیا سے دبئی گئے۔ ان کے رشتہ دار دبئی میں ہیں، اس لیے ان کا یہ بیان کہ انھیں ان کی مرضی کے خلاف حیدر آباد پاکستان میں قید رکھا گیا ہے، ہرگز قابل اعتبار نہیں۔‘

وکیل سدیپ پاسبولا نے کہا کہ یہ شخص بغیر ویزا کے ممبئی ایئرپورٹ سے کراچی نہیں جا سکتا تھا۔

’جے ایم جوشی اور دھاریوال دو بار پاکستان گئے، وہ فیکٹری کے افتتاح کے لیے موجود تھے‘Getty Imagesپبلک پراسیکیوٹر پردیپ گھرت

عدالت کے حکم پر پبلک پراسیکیوٹر پردیپ گھرت کہتے ہیں ’جب آپ کسی ملک میں رہتے ہیں، تو آپ کو حکومت پر اعتماد ہونا چاہیے۔ اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ کی جان کو خطرہ ہے، تو آپ پولیس میں شکایت درج کراتے ہیں۔ قانون کہتا ہے کہ اگر آپ کی جان کو خطرہ ہے تو آپ کو ہتھیار اٹھانے کی اجازت نہیں دیں گے۔‘

وہ کہتے ہیں ’جے ایم جوشی اور دھاریوال دو بار پاکستان گئے، وہ فیکٹری کے افتتاح کے لیے موجود تھے۔‘

پردیپ گھرت کے مطابق جے ایم جوشی نے فیکٹری کی مشینیں لگانے، عملے کی تربیت، خام مال دستیاب کرانے اور گٹکا کا فارمولا دینے میں اہم کردار ادا کیا۔

پبلک پراسیکیوٹر پردیپ گھرت کے مطابق انھیں ابھی تک اپیل کی کاپی نہیں ملی ہے اور اگر ہائی کورٹ ان کی اپیل کو قبول کر لیتی ہے تو جے ایم جوشی ضمانت کے لیے درخواست دے سکتے ہیں۔

اپنے حکم میں عدالت نے ایک جگہ کہا کہ اس معاملے میں یہ اہم ہے کہ آیا منظم جرائم کے غیر قانونی عمل کو فروغ دیا گیا یا نہیں۔

مزید خبریں

تازہ ترین خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More