کوئٹہ: 12 سالہ مصور کاکڑ کے اغوا اور قتل میں ملوث ملزم گرفتار، اعترافی بیان سامنے آگیا

اردو نیوز  |  Jul 16, 2025

کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) بلوچستان کے ڈی آئی جی اعتزاز احمد گورایہ نے کہا ہے کہ 12 سالہ مصور کاکڑ کے اغوا اور قتل میں ملوث کالعدم دہشت گرد تنظیم سے وابستہ افغان باشندے کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

یہ بات انہوں نے منگل کو آئی جی آفس کوئٹہ میں حکومت بلوچستان کے ترجمان شاہد رند اور مقتول بچے کے والد راز محمد کاکڑ کے ہمراہ پریس کانفرنس میں بتائی۔

پریس کانفرنس میں گرفتار ملزم کا ویڈیو بیان دکھایا گیا جس میں اس نے اپنا نام بشام عرف عمر عرف عمران اور افغانستان کے صوبہ کنڑ سے بتایا اور کہا کہ اس نے چھ سال قبل کالعدم تنظیم میں شمولیت اختیار کی۔

اس کے مطابق تنظیم کی ہدایت پر وہ افغانستان سے پاکستان منتقل ہوا اور پھر پاکستان سے ملحقہ افغانستان کے شہر سپین بولدک سے گاڑی لے کر بلوچستان آیا اور قلعہ عبداللہ کے علاقے گلستان میں تین کلاشنکوف خریدیں۔ بعد ازاں اسے کوئٹہ کے ایک بڑے جیولر کے گھر، دکان اور بچوں کی ریکی کا ٹاسک دیا گیا۔

ملزم نے مزید انکشاف کیا کہ کارروائی میں شیر، ناصر، عبداللہ، شجاع اور یوسف نامی افراد بھی شامل تھے۔ شجاع نے واردات کے دوران موٹر سائیکل پر ریکی کی جبکہ ناصر جیولر کے گھر کی نگرانی کر رہا تھا۔ بچے کو اغوا کے بعد پشتون آباد کے راستے کوئٹہ کے علاقے بھوسہ منڈی منتقل کیا گیا، لیکن کچھ عرصے بعد تنظیم کی ہدایت پر پولیس کی موجودگی کے باعث انہیں تیراہ مل (دشت) لے جایا گیا جہاں اسے بخاری نامی شخص کے حوالے کیا گیا۔

ڈی آئی جی اعتزاز گورایہ کے مطابق بخاری دراصل عمران رند تھاجس کے موبائل سے مصور کی لاش کی تصویر ملی۔ وہ اپریل میں مستونگ کے علاقے دشت میں ایک آپریشن میں مارا گیا۔ اس کارروائی میں یوسف نامی شخص بھی ہلاک ہوا جو کوئٹہ کے علاقے سریاب رہائشی تھاجس کا نام گرفتار ملزم نے اپنی تفتیش میں بتایا۔

یاد رہے کہ 12 سالہ مصور کاکڑ کو 15 نومبر 2024 کو کوئٹہ کے ملتانی محلہ سے اغوا کیا گیا تھا۔ ان کی لاش تقریباً ساڑھے سات ماہ بعد جون میں مستونگ کے علاقے اسپلنجی سے ملی۔ اس واقعے کے خلاف کوئٹہ سمیت بلوچستان بھر میں احتجاج اور ہڑتالیں کی گئیں۔ کوئٹہ میں دو ہفتوں تک دھرنا دیاگیا۔

پریس کانفرنس میں اعتزاز گورایہ نے مزید بتایا کہ گرفتار ملزم نے اس واردات میں ملوث جن دیگر ملزمان کا نام لیا ہے وہ بھی افغان باشندے ہیں اور ان سب کا تعلق فتنہ الخوارج (داعش) سے ہے۔ بچے کو اغوا اس لیے کیا گیا کہ وہ شہر کے ایک معروف جیولر کا بیٹا تھا اور اس سے تاوان کی غرض سے اغوا کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اغوا کے لیے استعمال ہونے والی گاڑی افغانستان سے لائی گئی تھی۔ سی ٹی ڈی نے اس کیس میں اسلحہ فراہم کرنے والے، دہشت گردوں کو رہائش دینے والے اور دیگر سہولت کاروں کو بھی گرفتار کر لیا ہے۔

ڈی آئی جی نے کہا کہ ’ہم پہلے بھی اس گروہ کو بے نقاب کر چکے تھے اور اب واضح شواہد کے ساتھ سامنے لائے ہیں (فوٹو: بلوچستان پولیس)ڈی آئی جی سی ٹی ڈی کے مطابق ملزم نے دوران تفتیش بتایا کہ اس نے مستونگ کے علاقے اسپلنجی میں دہشت گرد تنظیم کے کیمپ سے تربیت حاصل کی جہاں دیگر افغان، پاکستانی اور غیر ملکی افراد بھی موجود تھے۔

ڈی آئی جی نے کہا کہ ’ہم پہلے بھی اس گروہ کو بے نقاب کر چکے تھے اور اب واضح شواہد کے ساتھ سامنے لائے ہیں۔ مصور کاکڑ کو بچایا نہیں جا سکاجو افسوسناک ہے، لیکن ہم یقین دلاتے ہیں کہ اس کیس میں ملوث تمام عناصر کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔ خاندان کو ہر پیشرفت سے آگاہ رکھا گیا انہوں نے پولیس کا بھرپور ساتھ دیا۔‘

ترجمان حکومت بلوچستان شاہد رند نے ژوب میں گذشتہ ہفتے پنجاب سے تعلق رکھنے والے 9مسافروں کے قتل سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ کمیونیکیشن میں تاخیر کے باعث سکیورٹی ادارے بروقت کارروائی نہیں کرسکے جبکہ مستونگ اور قلات میں بروقت کارروائی کے باعث زیادہ نقصان نہیں ہو ا۔ 

انہوں نے کہا کہ اس سے پہلے اس شاہراہ پر دو واقعات جن علاقوں میں ہوئے تھے وہاں کی نگرانی بڑھائی گئی تھی۔ دہشت گردوں نے نئے مقام کا انتخاب کیا جہاں اتنی سرویلینس نہیں تھی جتنی ہونی چاہیے تھی۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نے واضح ہدایات جاری کی ہیں کہ شاہراہوں پر سفر کو محفوظ بنایا جائے اور کوئی خلا نہ چھوڑا جائے۔ان کا کہنا تھا کہ ژوب کا واقعہ شام 6 بجے پیش آیا، پبلک ٹرانسپورٹ کو چھ بجے بند کیا جاتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ شعبان سے اغوا کیے گئے چھ نوجوانوں کے اغوا کی ذمہ داری ایک کالعدم تنظیم نے قبول کی تھی۔ اس بابت اب تک کوئی پیشرفت نہیں ہوسکی ہے۔ اسسٹنٹ کمشنر تربت کے اغوا سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ مغوی کی بازیابی کے لیے کوششیں جاری ہیں۔

 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More