غیرملکی افراد جو سزا پوری ہونے کے باوجود پاکستان میں قید ہیں 

اردو نیوز  |  Sep 24, 2023

آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب کی جیلوں میں غیرملکی قیدیوں کی تعداد 150 کے قریب پہنچ گئی ہے۔

محکمہ جیل خانہ جات کے اعدادوشمار میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ان قیدیوں میں سے کئی ایسے ہیں جن کی سزائیں پوری ہو چکی ہیں لیکن اس کے باوجود وہ رہا نہیں ہو سکے۔ 

اعدادوشمار کے مطابق ان جیلوں میں سب سے زیادہ افغان شہری قید ہیں جن کی تعداد 92 ہے۔ ان کے علاوہ نائجیرین، انڈین، بنگلہ دیشی، برطانوی، ایرانی، ماریشس اور چینی شہری بھی قیدیوں میں شامل ہیں۔ 

حکام کے مطابق ’ان غیرملکیوں میں کم سے کم 38 قیدی ایسے ہیں جو اپنی سزائیں پوری کر چکے ہیں تاہم اس کے باوجود بھی وہ رہا نہیں ہو سکے۔‘

ایلین ایکٹ کے ثمرات سے محروم بدقسمت غیر ملکی قیدی 

 پاکستان نے 2021 میں ایلین ایکٹ کے نام سے ایک قانون پاس کیا تھا جس کے ذریعے غیرملکی قیدیوں کی جیلوں سے رہائی کے عمل میں آسانی پیدا کی گئی تھی۔  

نئے قانون سے پہلے غیرملکی قیدیوں کو سزا پوری ہونے کے بعد صرف ایف آئی اے اور وزارت خارجہ کے ذریعے رہا کیا جاتا تھا۔

 تاہم اب کوئی بھی پاکستانی شہری سزا پوری کرنے والے غیرملکی قیدی کی شخصی ضمانت دے کر اسے رہا کروا سکتا ہے، لیکن تاحال اس قانون کا فائدہ ان قیدیوں تک نہیں پہنچ سکا۔  

حکام کے مطابق ’گذشتہ ایک سال کے دوران صوبہ پنجاب کی جیلوں سے ایلین ایکٹ کے تحت صرف پانچ غیرملکی قیدی رہا ہوئے ہیں۔‘

افغان قیدیوں کی تعداد زیادہ کیوں؟ 

سابق انسپکٹر جنرل پنجاب پولیس فاروق نذیر نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’جس تناسب سے یہاں غیرملکی رہائش پذیر ہیں اسی تناسب سے ان کے جرائم میں ملوث ہونے کی تعداد زیادہ یا کم ہو گی۔

’ایک سال میں پنجاب کی جیلوں سے ایلین ایکٹ کے تحت صرف پانچ غیرملکی قیدی رہا ہوئے‘ (فائل فوٹو: وَکی پیڈیا)انہوں نے کہا کہ ‘چونکہ افغان شہریوں کی بڑی تعداد یہاں رہتی ہے اسی تناسب سے جیلوں میں ان کی تعداد بھی زیادہ ہے۔‘ 

 فاروق نذیر کے مطابق ’افغانستان میں طالبان کی حکومت آنے کے بعد قیدیوں کا تبادلہ متاثر ہوا ہے۔ اس کے علاوہ سفارت خانے سے شناخت کے مسائل بھی ہو سکتے ہیں۔‘

’اس وجہ سے پاکستان میں ایسے افغان قیدی بڑی تعداد میں موجود ہیں جو سزائیں پوری کرنے کے باوجود رہا نہیں ہوئے۔‘  

ان کا کہنا ہے کہ ‘کسی بھی غیرملکی قیدی کی سزا پوری ہونے کے بعد سب سے پہلے اس کے ملک کے سفارت خانے کو وزارت خارجہ کے ذریعے اطلاع دی جاتی ہے۔‘

فاروق نذیر نے بتایا کہ ’سفارت خانے قیدی کی شناخت کے عمل کو اپنے ملک میں پورا کرتے ہیں۔ اگر اس کی شناخت میں کوئی مسئلہ ہو تو پھر اس کی رہائی کھٹائی میں پڑ جاتی ہے۔‘ 

سابق انسپکٹر جنرل پنجاب پولیس فاروق نذیر کا مزید کہنا ہے کہ ’ایلین ایکٹ میں بھی رہائی اس قیدی کو ملتی ہے جس کی شہریت کی شناخت سفارت خانہ کرتا ہے۔‘ 

اعدادوشمار کے مطابق پاکستانی جیلوں میں سب سے زیادہ افغان شہری قید ہیں جن کی تعداد 92 ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی) پاکستان میں کئی افغان شہری دہشت گردی کے الزامات کے تحت بھی گرفتار ہیں اور انہیں جیلوں کے اندر ہائی سکیورٹی زون میں رکھا گیا ہے۔  

جن غیرملکی قیدیوں کی ان کے ملکوں سے تصدیق نہیں ہو پاتی اور وہ اپنی سزا پوری کر چکے ہوتے ہیں تو نظرثانی بورڈ کے روبرو پیش کر کے انہیں مزید قید میں رکھنے کا قانونی جواز لیا جاتا ہے۔ 

نظربندی کے احکامات کی ہائی کورٹ سے تصدیق 

 پاکستان کے قوانین کے مطابق کسی بھی فرد کی نظربندی کے لیے ضلعی حکومت کے احکامات کی ہائی کورٹ کے نظرثانی بورڈ سے توثیق کروائی جاتی ہے۔

نظرثانی بورڈ زیادہ سے زیادہ کسی شخص کی تین ماہ تک کی نظربندی کے احکامات جاری کر سکتا ہے اور اس کے بعد قیدی کو دوبارہ بورڈ کے روبرو پیش کرنا لازمی ہوتا ہے۔  

جو غیرملکی قیدی سزائیں پوری کرنے کے باوجود جیلوں میں ہیں انہیں ہر تین ماہ بعد نظرثانی بورڈ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔  

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More