گاندھی نے انگریزی لباس ترک کر کے ’نیم برہنہ فقیر‘ جیسا حلیہ کیوں اپنایا؟

بی بی سی اردو  |  Oct 02, 2023

Getty Images

’نیم برہنہ حالت میں وائسرائے کے محل کی سیٹرھیاں چڑھنا اور بادشاہ کے نمائندے سے برابری کی بنیاد پر بات کرنا انتہائی خطرناک، نامعقول اور باغیانہ رویہ تھا جو گاندھی جیسے وکیل کی جانب سے روا رکھا گیا۔‘

برطانیہ کے وزیراعظم ونسٹن چرچل کا یہ بیان تاریخ میں درج ہے۔

یہ بیان انھوں نے اُس وقت دیا تھا جب گاندھی سنہ 1931 میں برطانیہ کے بادشاہ جارج پنجم کی دعوت پر بکنگھم پیلس گئے تھے۔

اُس وقت گاندھی نے چھوٹی سی دھوتی پہن رکھی تھی جسے لنگوٹ یا لنگوٹی کہا جاتا ہے۔

مہاتما گاندھی کے پڑپوتے اور ان پر کئی کتابیں لکھنے والے تشار گاندھی کا ماننا ہے کہ گاندھی نے اس موقع پر اپنی چھوٹی سی دھوتی کو انگریزوں کے خلاف حکمت عملی کے طور پر استعمال کیا تھا۔

تشار گاندھی کہتے ہیں کہ ’انگریزوں کو یہ عادت ہو گئی تھی کہ جب بھی کوئی ہندوستانی لیڈر ان سے ملنے آتا تھا تو انگلش آداب اور اطوار کا خیال رکھتا تھا۔ انگریز اس بات سے خوش تھے۔ جب گاندھی نے ایسا نہیں کیا تو انگریز پریشان ہو گئے کہ یہ شخص ہماری طرح نظر آنے کی کوشش بھی نہیں کر رہا ہے۔‘

وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’انگریز گول میز کانفرنس میں چونک گئے کہ گاندھی ہمارے بادشاہ کے سامنے نیم برہنہ ہو کر جائیں گے۔ گاندھی بھی ایک نفسیاتی کھیل کھیل رہے تھے۔ جب آپ گفت و شنید کرتے ہیں تو اس میں نفسیاتی چالیں چلنی پڑتی ہیں۔‘

Getty Imagesگاندھی کا محض دھوتی پہننے کا فیصلہ

گاندھی کی ابتدائی تصاویر میں آپ انھیں سوٹ اور جوتے پہنے دیکھ سکتے ہیں اور چند تصاویر میں وہ گجرات کے کاٹھیاواڑی لباس میں بھی نظر آتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ گاندھی کی دھوتی اور چادر جو ان کی شناخت بن گئی تھی کب اور کیسے ان کا پہناوا بنی ملک اور بیرون ملک ان کی شناخت کی ایک علامت بنی۔

یہ 1921 کی بات ہے جب گاندھی مدورائی، تمل ناڈو، میں تھے۔ تب تک گاندھی نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ صرف دیسی لباس ہی پہنیں گے، غیر ملکی کپڑے جلانے کی ان کی کال ایک تحریک بن چکی تھی۔

تمل ناڈو میں ٹرین کے سفر کے دوران جب وہ عام مسافروں سے بات کر رہے تھے تو انھوں نے دیکھا کہ بہت سے غریبوں کے پاس مناسب کپڑے پہننے کے پیسے بھی نہیں تھے۔

Getty Imagesگاندھی (درمیان) سوٹ بوٹ اور ٹائی لگائے ہوئے

گاندھی اپنے ٹرین کے سفر کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’میں نے ٹرین کے ہجوم میں لوگوں کو دیکھا۔ میں اس وقت مکمل لباس میں ملبوس تھا۔ بہت سے لوگوں نے بتایا کہ ان کے لیے مکمل لباس خریدنا ناممکن ہے۔ میں نے ٹوپی، پوری دھوتی اور قمیض پہن رکھی تھی۔ پھر میں نے سوچا کہ میں لوگوں کو اس کا کیا جواب دوں، سوائے اس کے کہ میں شرافت کی حدود میں رہتے ہوئے اپنے بدن کے کپڑے چھوڑ دوں اور اپنے آپ کو ان لوگوں کے برابر لاؤں۔ مدورائی میں منعقدہ اجلاس کے اگلے ہی دن میں نے یہ ضابطہ اپنے اوپر لاگو کر دیا۔‘

Getty Imagesگاندھی کی نوجوانی کی تصویرپہلے گاندھی ’سُوٹ بُوٹ‘ کو ترجیح دیتے تھے

22 ستمبر 1921 کو گاندھی نے اپنا پرانا لباس چھوڑ دیا اور صرف ایک چھوٹی سی دھوتی اور ایک چادر اوڑھ لی۔

تشار گاندھی کہتے ہیں کہ یہ تبدیلی اچانک نہیں آئی۔

تشار گاندھی کے مطابق ’جب گاندھی جی قانون کی پریکٹس کے لیے انگلینڈ گئے تو انھوں نے اپنے لیے سُوٹ سلوایا اور جوتے تیار کروائے۔‘ وہ اپنی سوانح عمری میں لکھتے ہیں کہ ’شروع شروع میں وہ اپنے کپڑوں کے بارے میں بہت باشعور تھے۔‘

’انگلینڈ میں فیشن کے مطابق انھوں نے فینسی ٹوپی پہننا شروع کی اور خاص گھڑی خریدی۔ جب وہ جنوبی افریقہ آئے تو انھوں نے وہاں کے وکلا کی طرح لباس پہننا شروع کر دیا لیکن جنوبی افریقہ میں رہتے ہوئے جب انھوں نے مختلف مسائل پر ہڑتال کرنا شروع کی تو اس وقت سے گاندھی جی میں ایک دھیمی تبدیلی نظر آنے لگی، جہاں انھیں لگا کہ ضروریات زندگی کم اہمیت کی حامل ہیں۔‘

’گاندھی کپڑوں کے ذریعے پیغام پہنچانے کی اہمیت کا خوب ادراک رکھتے تھے۔‘

Getty Images

تشار گاندھی بتاتے ہیں کہ ’آپ جنوبی افریقہ میں ستیہ گرہ ایک قسم کا دھرنا،احتجاج یا ہڑتال کے اختتام پر گاندھی میں پہلی بڑی تبدیلی دیکھ سکتے ہیں۔ آپ دیکھیں گے کہ گاندھی نے لمبا کُرتہ اور لنگی پہن رکھی ہے۔ یہ گاندھی کا ان ہندوستانی تامل شہریوں کو، جو ہڑتال کے دوران مر گئے تھے، خراج عقیدت پیش کرنے کا طریقہ تھا۔

Getty Imagesکاٹھیاواڑی لباس سے لے کر دھوتی تک

تشار گاندھی کا کہنا ہے کہ ہندوستان واپس آنے کے بعد بھی گاندھی تبدیلی کے کئی مراحل سے گزرے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’جب گاندھی ہندوستان آئے تو انھیں خود کو ایک ہندوستانی کے طور پر ظاہر کرنا پڑا۔ چنانچہ سنہ 1915 میں انھوں نے کاٹھیاواڑی لباس، دھوتی، کرتہ، گامچھا اور ایک خاص قسم کی پگڑی پہننا شروع کی۔‘

’جب وہ گوکھلے کے کہنے پر ہندوستان کے دورے پر گئے تو انھیں ہندوستان کے حالات کا اندازہ ہوا۔ چمپارن میں انھوں نے دیکھا کہ پورے خاندان کے پاس آدھے کپڑے تھے جو وہ ایک ایک کر کے اور باری باری پہنتے تھے۔‘

Getty Images

تشار گاندھی کا کہنا ہے کہ ’جب گاندھی جی نے اپنے جسم پر مختلف قسم کے کپڑے دیکھے تو انھوں نے اپنے کپڑے بھی کم کر دیے اور وہ صرف ایک کرتہ اور دھوتی پر اُتر آئے۔‘

یہاں سے ہمیں آہستہ آہستہ ان کے کپڑوں میں فرق نظر آتا ہے۔ جو آخر کار تمل ناڈو پہنچ کر صرف آدھی دھوتی میں بدل جاتا ہے۔

گجرات کے ایک سینیئر مصنف اور گاندھی پر تحقیق کرنے والے ارویش کوٹھاری کا کہنا ہے کہ گاندھی نے اپنے کپڑے تبدیل کرنے کا فیصلہ کسی بھی ’ڈرامہ کے احساس‘ سے نہیں کیا۔

ارویش کوٹھاری کے مطابق ’گاندھی ہمیشہ ٹھنڈے دماغ سے سوچتے تھے اور پہلے عمل کرتے تھے۔ جب سودیشی تحریک چل رہی تھی تو انھوں نے 22 ستمبر 1921 کو اعلان کیا تھا کہ وہ کم از کم 31 اکتوبر تک صرف چھوٹی دھوتی پہنیں گے۔ انھوں نے ایسا کیا اور 31 اکتوبر 1921 کی ڈیڈ لائن غیر معینہ مدت تک چلی گئی۔‘

Getty Images

ارویش کوٹھاری کہتے ہیں کہ ’یہ فیصلہ عملی تھا۔ گاندھی جی نے محسوس کیا کہ سودیشی تحریک میں، وہ لوگوں کو غیر ملکی کپڑے جلانے اور کھدر کے کپڑے خریدنے کے لیے کہہ رہے تھے، لیکن انھوں نے محسوس کیا کہ بہت سے لوگوں کے پاس نئے کپڑے خریدنے کے لیے پیسے نہیں ہیں، اس لیے گاندھی جی نے کہا کہ آدھی دھوتی بھی کافی ہے۔‘

مدورائی میں وہ جگہ جہاں انھوں نے پہلی بار نئے کپڑوں میں لوگوں سے خطاب کیا اسے گاندھی پوٹل کہا جاتا ہے۔ وہاں گاندھی کا مجسمہ بھی نصب ہے۔

Getty Imagesدھوتی میں برطانوی بادشاہ سے ملاقات

جب گاندھی سنہ 1931 میں گول میز کانفرنس کے لیے آدھی دھوتی پہن کر لندن گئے تو وہاں کے کچھ اخبارات نے دھوتی میں گاندھی کی تصویر شائع کی اور ان کا مذاق اڑایا۔

Getty Images

سینیئر مصنف دیاشنکر شکلا ساگر نے بی بی سی کے لیے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ ’گاندھی نے اس تنقید کے جواب میں کہا تھا کہ لوگ میرا لباس پسند نہیں کرتے، اس پر تنقید کی جاتی ہے اور مذاق اڑایا جاتا ہے۔ مجھ سے پوچھا جاتا ہے کہ میں اسے کیوں پہنتا ہوں۔‘

انھوں نے سوال اٹھایا کہ ’برطانوی لوگ جب ہندوستان جاتے ہیں تو کیا وہ یورپی لباس ترک کر کے ہندوستانی لباس پہننا شروع کر دیتے ہیں؟ نہیں، وہ ایسا نہیں کرتے۔ وہاں کی آب و ہوا کے لیے کون سا لباس زیادہ موزوں ہے؟ میں نے دھوتی محض دکھاوے کے لیے نہیں پہنی بلکہ یہ میری زندگی میں آنے والی تبدیلیوں کے ساتھ لباس میں تبدیلی کا نتیجہ ہے۔‘

Getty Imagesکیا یہ گاندھی کا ماسٹر سٹروک تھا؟

گاندھی کے لیے اس تبدیلی کا کیا مطلب تھا؟

ارویش کوٹھاری انگریزوں کے خلاف جاری لڑائی کے درمیان گاندھی کے قدم کی اہمیت کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ ’جب گاندھی جی نے اپنا بھیس بدلا تو یہ ان کی پہچان بن گیا۔ گاندھی نے پیغام دیا کہ آپ اپنے جسم کو ڈھانپنے کے لیے کم کپڑے پہن سکتے ہیں، لیکن آپ جو بھی لباس پہنیں وہ دیسی ہونا چاہیے۔‘

’وقت کے ساتھ ساتھ لوگوں میں یہ سوچ بھی بڑھتی گئی کہ ہمارا لیڈر ہم جیسا ہے، وہی پہنتا ہے جو ہم پہنتے ہیں اور اس میں کوئی مصنوعی پن نہیں ہے۔ یہ صرف گاندھی جی کا ہنر تھا۔‘

Getty Images

تشار گاندھی اس فیصلے کو گاندھی جی کا ’ماسٹرسٹروک‘ قرار دیتے ہیں۔

تشار گاندھی کے مطابق ’اگر آپ دیکھیں تو گاندھی جی کی تقریر یا بولنے کا انداز کچھ خاص نہیں تھا۔ لیکن گاندھی جی کی کوشش یہ تھی کہ عام لوگ ان سے بصری طور پر جڑے ہوئے محسوس کریں۔ ایسا کرنے سے لیڈروں اور عوام کے درمیان وہ فاصلہ کم ہو گیا جو کوئی اور نہیں کر سکا، کیونکہ اس سے پہلے بہت سے لیڈر کانگریسی اجلاسوں میں شاندار لباس میں آتے تھے، ان کے کپڑے ان کی ذات، رنگ اور دولت کی عکاسی کرتے تھے۔ گاندھی نے ان تمام لباسوں کو چھوڑ کر ایک نیا ماحول بنایا۔‘

Getty Images

تاہم جنوبی افریقہ اور گھانا جیسے ممالک میں بہت سے لوگوں نے الزام لگایا ہے کہ جب گاندھی جنوبی افریقہ میں تھے تو وہ خود امتیازی سلوک کرتے تھے اور نسل پرست تھے۔ اشون دیسائی اور غلام واحد نے گاندھی کے بارے میں تحقیق کی تھی۔

دیسائی اور غلام اپنی کتاب ’دی ساؤتھ افریقن گاندھی: سٹریچر بیئرر آف ایمپائر‘ میں لکھتے ہیں کہ جنوبی افریقہ میں اپنے قیام کے دوران گاندھی نے ’ہندوستانیوں کی جدوجہد کو افریقیوں اور دیگر سیاہ فام لوگوں کی جدوجہد سے الگ قرار دیا تھا۔‘

گاندھی کے سوانح نگار اور ان کے پوتے راج موہن گاندھی نے بارہا کہا ہے کہ جب مہاتما گاندھی افریقہ پہنچے تو ان کی عمر 24 سال تھی اور وہ جنوبی افریقہ کے سیاہ فاموں کے تئیں ’کبھی کبھی تکبر اور تعصب سے بھرے‘ ہوئے ہوتے تھے، لیکن اس کے بعد گاندھی نے وقت کے ساتھ خود کو مسلسل بدلا۔

Getty Imagesطنزیہ شناختGetty Images

مضمون کے آغاز میں بحث کا آغاز شاہ برطانیہ کے محل سے ہوا تھا جہاں وہ آدھی دھوتی یعنی لنگوٹی پہن کر گئے تھے جبکہ شاہ جارج پنجم اپنی پوری شاہانہ شان میں وہاں موجود تھے۔

جب گاندھی بادشاہ سے ملاقات کے بعد باہر آئے تو برطانوی صحافیوں نے ان سے سوال پوچھا کہ ’مسٹر گاندھی، کیا آپ کو نہیں لگتا کہ آپ نے بادشاہ سے ملنے کے لیے مناسب کپڑے پہن رکھے تھے؟‘

گاندھی ہمیشہ اپنی حاضر دماغی کے لیے جانے جاتے ہیں۔

گاندھی نے صحافیوں کو جواب دیا کہ ’میرے کپڑوں کی فکر نہ کرو۔ تمہارے بادشاہ نے ہم دونوں کے لیے کافی کپڑے پہن رکھے تھے۔ گاندھی کا یہ جواب تاریخ میں ہمیشہ کے لیے درج ہو گیا۔‘

مشہور سوانح نگار رابرٹ پین کے الفاظ میں ’ان کی عریانیت عزت کا نشان بن گئی تھی۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More