تین افراد کے ڈی این اے سے بچہ پیدا کرنے کی تکنیک جو بچے کو مہلک وراثتی بیماری سے پاک کر دیتی ہے

بی بی سی اردو  |  Jul 18, 2025

Getty Images

برطانیہ میں ڈاکٹروں نے انکشاف کیا ہے کہ تین افراد کے جینیاتی مواد کے ذریعے آٹھ بچوں کی پیدائش عمل میں آئی لائی گئی ہے اور اس کے ذریعے اِن بچوں میں جان لیوا اور مہلک عارضوں کا خطرہ کم کیا جا سکے گا۔

برطانوی سائنسدانوں کی جانب سے ایجاد کیے گئے اس طریقے کے تحت ایک عورت اور مرد کے ایگز (انڈے) اور سپرم (نطفے) کا ملاپ کیا جاتا ہے، جبکہ دوسرا انڈہ ایک اور خاتون سے لیا جاتا ہے۔

اگرچہ اس تکنیک کے تحت بچوں کی پیدائش برطانیہ میں گذشتہ ایک دہائی سے قانونی ہےتاہم اب ہمارے پاس اس بات کا پہلا ثبوت آ گیا ہے کہ اس کے باعث بچے مہلک اور لاعلاج بیماری، یعنی مائٹوکانڈریئل، سے پاک پیدا ہوتے ہیں۔

یہ عارضہ عام طور پر ماں سے بچے میں منتقل ہوتا ہے اور اس کے باعث بچوں کے جسم میں توانائی ختم ہو جاتی ہے جو شدید نوعیت کی معذوری کا سبب بن سکتی ہے اور کچھ بچے تو پیدائش کے چند روز بعد ہی وفات پا جاتے ہیں۔ جوڑوں کو عام طور پر اس بات کا علم اس لیے ہو سکتا ہے کیونکہ اس سے قبل اُن کی اولاد، خاندان کے افراد یا ماں اس بیماری سے متاثر ہوئی ہوں۔

جو بچے اس تکنیک سے پیدا ہوتے ہیں ان کے ڈی این اے کا زیادہ تر حصہ اپنے والدین کے جینیاتی بلوپرنٹ پر جاتا ہے لیکن دوسری خاتون کا بھی اس میں 0.1 فیصد حصہ ہوتا ہے۔ یہ تبدیلی کئی نسلوں تک منتقل ہوتی ہے۔

جتنے بھی خاندان اس مرحلے سے گزرے ہیں ان میں سے کوئی بھی اس بارے میں عوامی طور پر بات نہیں کر رہا ہے تاکہ اپنی شناخت مخفی رکھ سکیں لیکن انھوں نے نیوکاسل فرٹیلٹی سینٹر (جہاں یہ عمل کیا گیا) کے ذریعے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بیانات دیے ہیں۔

ایک بچی کی والدہ نے کہا کہ ’برسوں کی غیر یقینی صورتحال کے بعد اس علاج نے ہمیں امید بخشی ہے اور اسی تکنیک کے تحت ہمارا بچہ ہوا ہے۔ اب ہم اسے (بچے کو) دیکھتے ہیں تو اُن میں زندگی کی رمق نظر آتی ہے اور ہم شکر کے احساس کے باعث جذباتی ہو جاتے ہیں۔‘

ایک ماں نے اس بارے میں مزید کہا کہ ’اس بہترین جدت اور ہمیں ملنے والی حمایت کا شکریہ جس کی وجہ سے ہماری چھوٹی سی فیملی اب مکمل ہے۔ مائٹوکانڈریئل بیماری کا جذباتی بوجھ ہم سے ہٹ گیا ہے اور اس کی جگہ ہمارے پاس امید، خوشی اور گہرے تشکر کے جذبات ہیں۔‘

Getty Images

مائٹوکانڈریا دراصل ایک ننھا ڈھانچہ ہے جو ہم سب کے ہی خلیوں میں موجود ہوتا ہے۔ ان کی وجہ سے ہی ہم سانس لیتے ہیں کیونکہ یہ آکسیجن کو استعمال کر کے کھانے کو توانائی میں بدل دیتا ہے جو ہمارا جسم بطور ایندھن استعمال کرتا ہے۔

اگر مائٹوکانڈریا میں نقص ہو تو اس سے جسم میں اتنی کم توانائی بھی رہ سکتی ہے کہ آپ کا دل دھڑکنا ہی بند ہو جائے، دماغ کو نقصان پہنچے، دورے پڑیں، قوتِ بصارت سے محرومی ہو، پٹھوں کی کمزوری کا باعث بنے اور اعضا کام کرنا چھوڑ جائیں۔

ہر پانچ ہزار میں سے ایک بچہ مائٹوکانڈریا کی بیماریوں کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔ نیوکاسل میں موجود ٹیم کا اندازہ ہے کہ ہر سال اس تکنیک کے تحت 20 سے 30 بچے پیدا ہونا ضروری ہیں۔

کچھ والدین کو ان بیماریوں کے باعث اولاد کی وفات کا غم جھیلنا پڑا۔

مائٹوکانڈریا ماں سے بچے میں منتقل ہوتا ہے۔ اس لیے اس تکنیک کے تحت والدین کے علاوہ ایک دوسری خاتون صحتمند مائٹوکانڈریا عطیہ کرتی ہیں۔

یہ تکنیک ایک دہائی سے بھی زیادہ عرصہ قبل نیو کاسل یونیورسٹی، ٹائن ہسپتال کی این ایچ ایس فاؤنڈیشن اور این ایچ ایس میں ہی ایک سپیشلسٹ محکمے کے اشتراک سے بنائی گئی تھی۔

عطیہ کرنے والی خاتون اور ماں کے انڈے اور باپ کے سپرم کو لیب میں فرٹیلائز کیا جاتا ہے۔

جنین ( ایمبریو) اس وقت تک فروغ پاتے ہیں جب تک سپرم سے ڈی این اے اور انڈہ ڈھانچوں کی جوڑی نہ بنا لیں جسے پرونیوکلی آئی کہتے ہیں۔ یہ دراصل ایک انسانی جسم کی تعمیر کا بلیوپرنٹ ہوتا ہے جن میں بالوں کا رنگ اور قد شامل ہوتے ہیں۔

Getty Imagesمائٹوکانڈریا کا خاکہ

پرونیوکلی آئی کو پھر دونوں ایمبریوز سے نکالا جاتا ہے اور والدین کے ڈی این اے کو اس ایمبریو میں داخل کیا جاتا ہے جس میں صحت مند مائٹوکانڈریا ہوتا ہے۔

اس کے نتیجے میں ہونے والا بچہ جینیاتی طور پر والدین کا ہوتا ہے لیکن یہ مائٹوکانڈریئل بیماری سے پاک ہوتا ہے۔

نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن نامی جریدے میں موجود رپورٹ کے مطابق 22 خاندانوں نے نیوکاسل فرٹیلٹی سینٹر کے ذریعے یہ عمل کیا ہے۔

پروفیسر بابی مکفارلینڈ این ایچ ایس ہائلی سپیشلائزڈ سروس فار ریئر مائٹوکانڈریئل ڈس آرڈرز کے ڈائریکٹر ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ان بچوں کے والدین کے چہروں پر ایک طویل انتظار اور کسی خوف یا اندیشے کے علاوہ خوشی اور تسکین کے جذبات دیکھنا بہترین ہے۔ ان بچوں کو زندہ اور صحت مند انداز میں زندگی گزار رہے ہیں۔‘

یہ تمام بچے مائٹوکانڈریئل بیماریوں کے بغیر پیدا ہوئے اور یہ سب صحتمند ہیں۔

ان میں سے ایک بچے کو مرگی کا دورہ پڑا لیکن یہ خود ہی ٹھیک ہو گیا اور ایک بچے کی دھڑکن غیرمعمولی ہے جس کا کامیابی سے علاج کیا جا رہا ہے۔

یہ سمجھا جا رہا ہے کہ ان معمولی عارضوں کا تعلق ناقص مائٹوکانڈریا سے نہیں ہے۔

ایک اور اہم سوال جو اس تکنیک کے بارے میں موجود ہے وہ یہ ہے کہ آیا اس کے نتیجے میں ناقص مائٹوکانڈریا صحت مند ایمبریو سے تو نہیں مل جائے گا اور اگر ایسا ہوا تو اس کے کیا نتائج ہو سکتے ہیں۔

پاکستان کا پہلا ٹیسٹ ٹیوب بےبی جسے 'گناہ' اور 'حرام' قرار دیا گیابچوں میں وقفہ: ’ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں اندر سے ختم ہو گئی ہوں‘’تم تو بہت زبردست لگ رہی ہو، بالکل پہلے جیسی ہو گئی ہو‘: ماؤں پر ’پہلے جیسا‘ ہونے کا دباؤ کیوں؟

نتائج سے پتا چلتا ہے کہ پانچ کیسز میں ناقص یا بیماری زدہ مائٹوکانڈریا کی نشاندہی نہیں ہو سکی۔ دیگر تین کیسز میں پانچ فیصد اور 20 فیصد کے بیچ مائٹوکانڈریا پیشاب اور خون کے نمونوں میں ناقص تھے۔

یہ اس 80 فیصد کی سطح سے کم ہے جس کے بارے میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس سے زیادہ کے نتیجے میں بیماری ہو سکتی ہے۔ اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہو گی تاکہ یہ سمجھا جا سکے کہ ایسا کیوں ہوا اور کیا اسے روکا جا سکتا ہے یا نہیں۔

نیوکاسل یونیورسٹی اور موناش یونیورسٹی میں پروفیسر میری ہربرٹ کا کہنا ہے کہ ’ان نتائج کے باعث امید پیدا ہوئی ہے۔ تاہم مائٹوکانڈریا عطیہ کرنے کی ٹیکنالوجی کی حدود کو سمجھنے کے لیے تحقیق کی ضرورت ہو گی تاکہ اس علاج کو بہتر بنایا جا سکے۔‘

یہ پیش رفت ’کیٹ خاندان‘ کے لیے بھی امید کا باعث ہے۔

کیٹ کی سب سے چھوٹی بیٹی 14 سالہ پوپی کو یہ بیماری لاحق ہے۔ ان کی سب سے بڑی بیٹی للی، 16 برس کی ہے اور وہ یہ بیماری اپنے ہونے والے بچوں میں منتقل کر سکتی ہے۔

پوپی وہیل چیئر پر ہیں، وہ بول نہیں سکتیں، اور انھیں ٹیوب کے ذریعے کھلایا جاتا ہے۔

کیٹ کہتی ہیں کہ ’اس (بیماری) کے باعث اس کی زندگی بہت زیادہ متاثر ہوئی ہے۔ اگرچہ ہمارا بہت خوبصورت وقت گزرا ہے کیونکہ وہ ہمارے پاس ہے لیکن ایسے لمحات بھی آتے ہیں جب آپ کو احساس ہوتا ہے کہ مائٹوکانڈریئل بیماری کتنی مہلک ہے۔‘

کئی دہائیوں کی تحقیق کے باوجود ابھی تک مائٹوکانڈریئل بیماریوں کا کوئی علاج نہیں ہے لیکن اس کی روک تھام کے لیے استعمال ہونے والی یہ تکنیک للی کے لیے امید کا باعث ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’یہ میری یا میرے بچے یا میرے کزنز کی آنے والی نسلوں کے لیے ایک معمول کے مطابق زندگی گزارنے کا موقع ہے۔‘

برطانیہ نے نہ صرف یہ تکنیک دریافت کی بلکہ یہ دنیا کا وہ پہلا ملک بھی بن گیا ہے جس نے سنہ 2015 میں پارلیمنٹ میں ووٹنگ کے بعد بچوں کی اس نوعیت کی پیدائش کو قانونی حیثیت دینے کے لیے قوانین متعارف کروائے تھے۔

اس کا مطلب ہے کہ اس تکنیک کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچوں کو ڈی این اے اپنے والدین سے اور تقریباً 0.1 فیصد ڈونر عورت سے وراثت میں ملتا ہے۔

کیونکہ اس تکنیک کے ذریعے پیدا ہونے والی لڑکیاں یہ جینیاتی پیٹرن اپنے بچوں میں منتقل کریں گی، اس لیے یہ انسانی جینیاتی وراثت میں مستقل تبدیلی ہے۔

جب ٹیکنالوجی پر بحث ہوئی تو یہ کچھ لوگوں کے لیے بہت متنازع بات تھی۔ انھیں خدشہ یہ تھا کہ اس کے نتیجے میں جینیاتی طور پر تبدیل شدہ ’ڈیزائنر‘ بچے پیدا ہونے لگیں گے۔

نیو کاسل یونیورسٹی کے پروفیسر سر ڈوگ ٹرن بل نے مجھے بتایا کہ ’میرے خیال میں دنیا میں یہ واحد جگہ ہے جہاں ایسا ہو سکتا تھا، ہمیں یہاں تک پہنچنے کے لیے بہترین سائنس کی مدد لینی پڑی ہے، اسے علاج کے طور پر اپنانے کے لیے قانون سازی کرنی پڑی ہے، این ایچ ایس کی مدد موجود تھی اور اور اب ہمارے پاس آٹھ ایسے بچے ہیں جو مائٹوکانڈریئل بیماری سے پاک معلوم ہوتے ہیں، یہ ایک حیرت انگیز نتیجہ ہے۔‘

للی فاؤنڈیشن چیریٹی کے بانی لیز کرٹس نے کہا: ’برسوں کے انتظار کے بعد، اب ہم جانتے ہیں کہ اس تکنیک کا استعمال کرتے ہوئے آٹھ بچے پیدا ہوئے ہیں، جن میں سے تمام میں مائٹوکانڈریا کی بیماری کی کوئی علامات نہیں تھیں۔‘

’بہت سے متاثرہ خاندانوں کے لیے یہ وراثتی عارضہ ختم کرنے کی پہلی حقیقی امید ہے۔‘

پاکستان کا پہلا ٹیسٹ ٹیوب بےبی جسے 'گناہ' اور 'حرام' قرار دیا گیاسوا سات کلو وزنی بچے کیپیدائش، مگر اس کی وجہ کیا ہے؟پیٹرنٹی لِیو: وہ پوشیدہ وجوہات جو والد کو بچے کی پیدائش کے بعد چھٹی لینے سے روکتی ہیںبچے کی پیدائش کے بعد وزن کم کرنے کا دباؤ: ’ہر عورت کے جسم اور صحت یابی کی رفتار میں فرق ہوتا ہے‘’تم تو بہت زبردست لگ رہی ہو، بالکل پہلے جیسی ہو گئی ہو‘: ماؤں پر ’پہلے جیسا‘ ہونے کا دباؤ کیوں؟’ناقابل یقین معجزہ‘: اس خاتون کی کہانی جو اپنی بہن کی بچہ دانی کی مدد سے ماں بنیبچوں میں وقفہ: ’ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں اندر سے ختم ہو گئی ہوں‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More