سکرین پر پڑھنے کے نقصانات اور مطالعے سے ہمارے ذہنوں پر مرتب ہونے والے اثرات

بی بی سی اردو  |  Dec 04, 2023

Getty Images

سابق امریکی صدر باراک اوباما کا کہنا ہے کہ پڑھنے سے انھیں یہ جاننے میں مدد ملی کہ وہ کون ہیں اور وہ کن چیزوں پریقین رکھتے ہیں۔

مطالعہ بلاشبہ ذہنی تناؤ کو کم کرتا ہے، آپ کے دماغ کو متحرک رکھتا ہے اور آپ کی ہمدردی کی سطح کو بہتر بناتا ہے۔

مزید یہ کہ آپ کو کتابوں میں تازہ ترین معلومات بھی ملتی ہیں۔

نیویارک کے ’دی نیو سکول فار سوشل ریسرچ‘ کے مطابق جو لوگ کتابیں پڑھتے ہیں وہ اپنے عقائد کو بھی بدل سکتے ہیں۔

لیکن آج کل لوگ کاغذ پر شائع ہونے والی کتابوں سے مطالعہ کرنے بجائے رفتہ رفتہ کمپیوٹر، ٹیبلیٹ، موبائل جیسے ڈیجیٹل آلات پر پڑھنے اور تعلیم حاصل کرنے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔

خاص طور پر کووڈ کی وبا کے بعد اس میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔

Getty Imagesٹیبلٹ پر مطالعہسکرین پر مطالعہ کرنے کے فوائد کم

بہر حال ڈیجیٹل میڈیا یعنی سکرین پر پڑھنے کے بھی واضح فوائد ہیں۔ جیسے، مہنگی مجلد کتابیں کم قیمت پر پڑھی جا سکتی ہیں۔

لیکن کئی تحقیقات کے مطابق اس کے نقصانات بھی ہیں۔

بی بی سی ریل کے ایک مضمون کے مطابق 30 سے زائد ممالک کے سکالرز اور سائنسدانوں کو ڈیجیٹلائزیشن کے اثرات کی تحقیقات کے لیے کمیشن بنایا گیا تھا یعنی ’جب ہم سکرین پر پڑھتے ہیں تو ہمارے دماغوں پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں‘ پر انھوں نے تحقیق کی ہے۔

تحقیق کے نتائج پر تبصرہ کرتے ہوئے اس کے مصنف اور ناروے کی سٹیوینگر یونیورسٹی کی پروفیسر این مانجین کہتی ہیں:’بہت سی چیزیں ہیں جو ہم سمارٹ فونز پر پڑھ سکتے ہیں، جیسے کہ مختصر خبروں کی اپ ڈیٹس۔ لیکن اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ ہم سکرین پر جو کچھ پڑھتے ہیں وہ کاغذ پر پڑھنے کے مقابلے میں نسبتاً کم آسانی سے سمجھا جاتا ہے۔‘

امریکی غیر سرکاری تنظیم ’سیپین لیبز‘ کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق کم عمری میں بچوں کو سمارٹ فون دینے کے منفی اثرات کم عمری میں ہی نظر آنے لگتے ہیں۔

سائنٹیفک امریکانا کے مطابق ہمارا دماغ کاغذ کے مقابلے سکرین پر پڑھتے وقت زیادہ وسائل استعمال کرتا ہے۔ اور یہ یاد رکھنا مشکل ہوتا ہے کہ ہم سکرین پر طویل عرصے تک کیا پڑھتے ہیں۔

ایسے میں ہم کیا اور کتنا پڑھتے ہیں یہ اس سے زیادہ اہم ہے کہ ہم کس ذرائع سے پڑھتے ہیں۔

کیونکہ مطالعہ انسانی ذہن پر اثر انداز ہوتا ہے۔

یہ آپ کے بصری فہم، لسانی فہم، اور سوچ اور جذباتی فہم کو ایک نئے انداز میں جوڑتا ہے۔

Getty Images’بچوں کو الیکٹرانک گیجٹ کے استعمال سے گریز کرنا چاہیے‘

طالبہ اشویکا بھٹاچاریہ نویں جماعت میں پڑھتی ہیں۔ اشویکا کلاس میں ہمیشہ اول آتی ہیں اور وہ اپنے مطالعے کے لیے زیادہ تر سکرین پر ہوتی ہیں۔

والدین نے ان کے مطالعے کے شوق کو پورا کرنے کے لیے کنڈل ٹیبلٹ لے دیا ہے۔

لیکن اب وہ اپنی بیٹی کو مکمل طور پر کتابوں پر واپس لانا چاہتے ہیں۔

اشویکا کی والدہ اسیما کہتی ہیں: ’ہم پڑھتے رہتے ہیں کہ گیجٹس کے زیادہ استعمال سے آنکھوں پر بہت زیادہ منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس لیے میں چاہتی ہوں کہ میری بیٹی کتابوں کی طرف متوجہ ہو۔‘

اشویکا کی دوست آدیا کہتی ہیں کہ ’آپ روزانہ تھوڑا تھوڑا مطالعہ کر سکتے ہیں۔‘

وہ مشورہ دیتی ہیں کہ ’اپنے دوستوں اور اساتذہ سے اچھی کتابوں کے بارے میں پوچھیں اور ایسی کتابیں پڑھیں جو آپ کی دلچسپی کے مطابق ہوں۔‘

یہ بھی پڑھیے

بچے کو سمارٹ فون کس عمر میں دینا چاہیے؟

کونمارا پبلک لائبریری، انڈیا کا قدیم کتب خانہ

AFPآپ لائبریری سے کتابیں بھی ادھار لے سکتے ہیں

برٹش کونسل لائبریری کی رکن آدیا کہتی ہیں کہ آپ کو ہر کتاب خرید کر پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔

’آپ سکول یا قریبی لائبریری کے ممبر بھی بن سکتے ہیں۔‘

انڈیا کی معروف ٹیک کمپنی انفوسس گروپ کی ڈائریکٹر اور مصنف سودھا مورتی بھی کہتی ہیں کہ بچوں کو کتابیں پڑھنے کی ترغیب دی جانی چاہیے۔

وہ کہتی ہیں: ’آج بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو بچوں کا دھیان بھٹکاتی ہیں جیسے الیکٹرانک گیجٹس۔ میں چاہتی ہوں کہ بچے اس نقصان سے بچیں جو الیکٹرانک گیجٹس ان کی آنکھوں کو پہنچاتے ہیں۔‘

پدم شری ایوارڈ یافتہ سدھا مورتی نے جے پور لٹریچر فیسٹیول میں کہا: ’بچوں کو کم از کم 14 سال کی عمر تک کتابیں پڑھنے کے لیے کہیں۔ اس عرصے کے دوران والدین کو اپنے بچوں کو الیکٹرانک گیجٹس سے مکمل طور پر دور رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔‘

’اور جب بچہ 16 سال کا ہو جائے تو پھر یہ ان پر چھوڑ دیں کہ آیا وہ کس طرح کتابیں پڑھنا جاری رکھنا چاہتے ہیں۔‘

مطالعے کے تین معجزاتی فائدے

برطانوی مصنف اور مصور کریسیڈا کوول بی بی سی کے معاون ڈینیئل نائلز رابرٹس کو بتاتی ہیں کہ ’جب ہم سکرین پر پڑھتے ہیں تو ہمارے دماغ میں پڑھنے سے تین شاندار خوبیاں آتی ہیں۔‘

ان سے ہمارے اندر تخلیقی صلاحیت پیدا ہوتی ہے معلومات میں اضافہ ہوتا ہے اور ہمدردی بڑھتی ہے۔

وہ کہتی ہیں: ’اگر کوئی بچہ پڑھنا پسند کرتا ہے تو اس کے دو فائدے ہوتے ہیں۔ ایک یہ کہ اس کے علم میں اضافہ ہوتا ہے اور دوسرا یہ کہ وہ مستقبل میں مالی طور پر کامیاب ہو سکتا ہے۔‘

مطالعے کی کرشماتی خصوصیات

تخلیقی صلاحیت، علم اور ہمدردی میں اضافہ ہوتا ہے۔دماغ میں بصری، لسانی اور جذباتی فہم کے درمیان نئے رابطے قائم ہوتے ہیں۔تعلیم سے علم اور معاشی سکوپ میں اضافہ ہوتا ہے۔کتاب پڑھنے سے دماغ پرسکون ہوتا ہے اور ذہنی تناؤ کم ہوتا ہے۔سکرین پر جو کچھ پڑھا جاتا ہے اسے دیر تک یاد رکھنا مشکل ہوتا ہے۔BBCآپ نے کب مطالعہ شروع کیا؟

بی بی سی کی ایک ریل جس کا عنوان تھا ’جب ہم سکرین پر پڑھتے ہیں تو ہمارے دماغوں کا کیا ہوتا ہے‘ میں محقق ماریانے وولف بتاتی ہیں کہ پڑھنے کا فن تقریباً 6000 سال پہلے شروع ہوا تھا۔

وہ کہتی ہیں: ’اس کی شروعات ان چیزوں سے ہوئی جیسے کہ ہمارے پاس کتنی شرابیں یا بھیڑیں ہیں۔ جب حروف تہجی بنائے گئے تو لوگوں نے کچھ پڑھ کر حفظ کرنا اور معلومات حاصل کرنا سیکھ لیا۔‘

آپ کو کتاب کیوں پڑھنی چاہیے؟

بلیک گرلز بک کلب کی بانی نٹالی کارٹر نے بی بی سی کی ریل ’جب ہم سکرین پر پڑھتے ہیں تو ہمارے دماغ میں کیا ہوتا ہے‘ میں بتایا کہ کتابیں پڑھنی چاہیں۔

اس ریل کو آرٹس اینڈ ہیومینٹیز میں اکیڈمک ایڈوائزر ڈاکٹر ایملی بولک اور کریٹو رائٹنگ کے لیکچرر ڈاکٹر جان ریئرڈن کے ساتھ مل کر تیار کیا گیا ہے۔

ایملی کہتی ہیں: ’کتابیں ہمیں زندگی کا تجربہ دیتی ہیں۔ وہ معلومات سے بھری ہوتی ہیں۔ وہ ہمیں اپنے معاشرے کے بارے میں بتاتی ہیں۔

’میرے خیال میں مستقبل میں ہم مختصر کہانیوں کے مزید مجموعے دیکھیں گے اور کتابیں سائز میں چھوٹی ہوں گی۔ اگر کتابیں نہ ہوتیں تو ہم مر چکے ہوتے، زندگی بہت بورنگ ہوتی۔‘

Getty Imagesبڑی تبدیلی

ببلیوتھراپسٹ یعنی کتابوں سے علاج کرنے والی ایلا بارتھڈ کہتی ہیں کہ ’ہم آج وہ لوگ نہ ہوتے اگر کتابیں نہ ہوتیں۔ انسانی زندگی میں سب سے بڑی تبدیلی ’آگ پیدا کرنے کی طاقت‘ اور ’پڑھنے کی مہارت‘ کی آمد تھی۔‘

کسی شخص کی دماغی حالت کا علاج ببلیو تھراپی کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ اس میں شفا یابی کے دیگر روایتی طریقوں کے ساتھ کتابیں پڑھنا بھی شامل ہے۔

ایلا برتھوڈ کہتی ہیں: ’اچھی کہانی پڑھنا کسی بھی تفریح سے بڑھ کر ہے۔ پڑھنے کا معالجانہ اثر ہوتا ہے۔‘

وہ ایک مثال دیتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’محدود جگہ میں گھٹن محسوس کرنے، تھکاوٹ اور غصے جیسی چیزوں سے نجات کے لیے ’زوربا دی گریک‘ پڑھنے کی سفارش کی جاتی ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ اس عمل کے دوران انسانی ذہن مراقبہ کی حالت میں چلا جاتا ہے۔

’یہ ایک ایسا عمل ہے جو دل کی دھڑکن کو متوازن کرتا ہے۔ یہ آپ کو پرسکون کرتا ہے اور یہ آپ کے دماغ میں چل رہی بے چینی کو کم کرتا ہے۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More