پراسرار پستول، شاطر سرغنہ اور دس کروڑ انعام: راولاکوٹ جیل سے فرار ہونے والے قیدی کون ہیں؟

بی بی سی اردو  |  Jul 02, 2024

Getty Images

دن کے دو سے ڈھائی بجے کے درمیان کا وقت تھا جب معمول کے مطابق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں ضلع پونچھ کی راولا کوٹ جیل میں قیدیوں اور حوالاتیوں کو گنتی کے لیے بیرک میں بند کیا گیا۔

لیکن جیل کے حکام اس بات سے بے خبر تھے کہ یہ دن غیر معمولی ثابت ہونے والا تھا۔

جیل کی کارروائی کے تحت جب قیدیوں کو گنتی کے لیے بیرک میں بند کیا جاتا ہے تو اس دوران کسی کو بھی جیل میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہوتی۔

اس دن بھی ایسا ہی ہوا۔ جیل مینوئل کے مطابق اس دوران کھانا بھی تقسیم کیا جاتا ہے۔

تاہم جیل کے حکام بے خبر تھے کہ چند قیدی ایک خطرناک منصوبہ بنا کر فرار ہونے کی تیاری کر رہے ہیں اور اسی موقع کے انتظار میں تھے۔

’ایک قیدی نے جیل کے ایک گارڈ سے کہا کہ اس کی لسی باہر لے جائے۔ جیسے ہی وہ گارڈ قریب پہنچا تو اسے قابو میں لاتے ہوئے بیرک کی چابیاں ہتھیا لی گئیں۔‘

’چند قیدیوں نے نہ صرف اپنی باقی بیرکوں کے تالے بھی کھول دیے۔‘

کمشنر پونچھ ڈویژن سردار وحید خان بی بی سی کو راولاکوٹ کی جیل سے قیدیوں کے فرار کی تفصیلات فراہم کر رہے تھے جس کے دوران راولاکوٹ کی پولیس کے مطابق ڈسڑکٹ جیل سے کم از کم 19 قیدی اور حوالاتی فرار ہونے میں کامیاب ہوئے۔

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی پولیس نے ایک اعلامیے میں 18 مفرور قیدیوں کی تلاش میں عوام سے مدد کی اپیل بھی کی ہے اور درست اطلاع دینے پر مجموعی طور پر 10 کروڑ روپے سے زیادہ کی انعامی رقم کا اعلان بھی کیا ہے۔ ان میں سے چھ مفرور قیدی ایسے ہیں جن کو سزائے موت ہو چکی تھی اور ان کے بارے میں اطلاع دینے پر انفرادی طور پر ایک ایک کروڑ روپے کی انعامی رقم رکھی گئی ہے۔

فرار ہونے والے یہ قیدی کون تھے؟ اس سوال کا جواب جاننے سے پہلے اس منصوبے کی چند مذید تفصیلات جانتے ہیں۔

جیل سے فرار کا منصوبہ اور ’پراسرار پستول‘Getty Images

اس واقعہ کے متعلق کمشنر پونچھ ڈویژن سردار وحید خان نے بی بی سی کو چند ابتدائی معلومات فراہم کرتے ہوئے بتایا کہ یہ واقعہ اتوار کے دن کے دو سے ڈھائی بجے کے درمیان پیش آیا تھا۔

سردار وحید خان کے مطابق ’جب قیدیوں کو بیرک میں بند کیا گیا تو اسی دوران ایک حوالاتی اور سارے واقعہ کے منصوبہ ساز سمجھے جانے والے غازی شہزاد نے ایک گارڈ کو بہانے سے قریب بلایا اور اسے قابو میں کر کے بیرک کی چابیاں حاصل کر لیں۔‘

لیکن کیا اس منصوبے میں قیدیوں کو باہر سے بھی کسی قسم کی مدد ملی؟

وحید خان کا کہنا تھا کہ ’ابتدائی اطلاعات کے مطابق اس موقع پر چھت سے ایک پستول بھی پھینکا گیا تھا اور اسی پستول کی مدد سے جیل کا باہر سے تالہ توڑا گیا تھا۔‘

بیرک کا دروازہ کھلنے کے بعد سردار وحید خان کے مطابق ’جیل انتظامیہ اور فرار ہونے والے قیدیوں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔‘

’فائرنگ کے نتیجے میں ایک سزا یافتہ قیدی پہلے زخمی اور بعد میں ہلاک ہو گیا۔‘ پولیس کے مطابق اس قیدی سے ایک پستول بھی برآمد ہوا۔

واضح رہے کہ جیل سے فرار کے اس واقعے سے متعلق تھانہ راولاکوٹ میں دو مختلف مقدمات درج کیے گئے ہیں جن میں سے ایک مقدمہ پولیس کی مدعیت میں درج کیا گیا ہے جبکہ دوسرا مقدمہ ہلاک ہونے والے قیدی کے بھائی کی درخواست پر درج کیا گیا ہے۔

تاہم راولاکوٹ پولیس تھانہ نے اپنی مدعیت میں درج مقدمے کی تفصیلات ظاہر نہیں کی ہیں۔

تھانہ ایس ایچ او کا کہنا تھا کہ اس مقدمے کی تفصیلات کو ظاہر کرنے کی اجازت نہیں ہے تاہم دوسرا مقدمہ میں ہلاک ہونے والے ایک قیدی خیام کے بھائی عبدالشکور کی درخواست پر درج کیا گیا ہے اور اس مقدمے میں ڈسڑکٹ جیل کی انتطامیہ کو ہی ملزم ٹھہرایا گیا ہے۔ اس مقدمے میں کہا گیا ہے کہ ’قیدی بھاگ رہا تھا یا اس کو بھگایا گیا تھا کہ جیل کے گارڈ نے اسے گولی مار کر قتل کر دیا۔‘

پولیس تھانہ راولاکوٹ کے مطابق ایف آئی آر کا اندراج لواحقین کا حق ہے اور کارروائی کا فیصلہ پولیس کی تفتیش کے نتیجے میں کیا جائے گا۔

’ایک شخص نے ہیلمٹ پہن کر گولی چلائی‘: راولا کوٹ کی مسجد میں قتل ہونے والے ابو قاسم کشمیری کون تھے؟’کیکڑے کی چال‘: ’انتہائی خطرناک‘ قاتل امریکی جیل سے حیران کن انداز میں فرارراولا کوٹ جیل سے فرار کے منصوبے کا مبینہ ماسٹر مائنڈ

راولاکوٹ پولیس کے ڈی ایس پی سردار طارق محمود کے مطابق اب تک کی تفتیش کے مطابق اس منصوبے کا سرغنہ غازی شہزاد نامی ملزم تھا۔

پولیس کے مطابق غاذی شہزاد جیل میں دہشت گردی اور قتل کے مختلف مقدمات کا سامنا کر رہا تھااور وہ خود بھی فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔

تاہم پولیس کا دعوی ہے کہ غازی شہزاد کے تین ساتھیوں کے علاوہ راولاکوٹ کی ایک مسجد میں ریاض عرف ابو قاسم کشمیری کے قتل کے مقدمے میں گرفتار ملزم جیل انتظامیہ اور پولیس کی بروقت کارروائی کی وجہ سے فرار ہونے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔

واضح رہے کہ راولاکوٹ کی مسجد میں قتل کے واقعہ کے بارے میں قیاس کیا جاتا ہے کہمقتول ابو قاسم کشمیری کا تعلق مبینہ طور پر ایک جہادی تنظیم سے تھا۔ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع پونچھ سے تعلق رکھنے والے محمد ریاض، جن کو ابو قاسم کشمیری کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، کو گزشتہ سال ستمبر میں جمعہ کے روز نماز فجر کے دوران پولیس کے مطابق ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا تھا جس کے بعد عسکریت پسند گروپ حزب المجاہدین کے سربراہ سید صلاح الدین نے ایک بیان میں محمد ریاض کے قتل کی مذمت کی تھی۔

سردار طارق محمود کے مطابق غازی شہزاد کے تین ساتھیوں اور راولاکوٹ کی مسجد میں قتل کے ملزمان کو پولیس نے فرار ہوتے ہوئے گرفتار کر لیا اور اس وقت ان سے تفتیش ہو رہی ہے۔

’خطرناک ملزمان کے فرار کی کوشش ناکام بنائی‘

ایک سوال یہ بھی اٹھ رہا ہے کہ جیل سے اتنی بڑی تعداد میں قیدی فرار ہونے میں کیسے کامیاب ہوئے اور ایسے میں پولیس کہاں تھی؟

سردار طارق محمود کے مطابق ’واقعے کی اطلاع ملتے ہی دس منٹ کے اندر اندر پولیس موقع پر پہنچ گئی تھی۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’جس وقت تک پولیس کی نفری جیل پہنچی، اس وقت فرار ہونے والے قیدیوں اور جیل انتظامیہ کے درمیان فائرنگ کی آوازیں آ رہی تھیں تاہم کچھ قیدی فرار ہو چکے تھے۔‘

سردار طارق محمود کا دعوی ہے کہ ’پولیس نے فی الفور کنٹرول سنبھالا اور مزید قیدیوں کے فرار کی کوشش کو ناکام بنا دیا۔‘

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’واقعہ کے وقت جیل میں مجموعی طور پر 79 قیدی اور حوالاتی تھے جن میں سے 19 فرار ہوئے ہیں جبکہ باقیوں کے فرار کی کوشش کو ناکام بنا دیا گیا تھا۔‘

ایک اور سوال کے جواب میں سردار طارق نے بتایا کہ پولیس کی ابھی تک کی تفتیش اور اطلاعات کے مطابق فرار ہونے والے ملزمان کو اسلحہ جیل کے اندر ہی سے مہیا کیا گیا تھا۔

’اسلحہ اندر کیسے پہنچا اور اس سارے واقعہ کے تانے بانے کس طرح جڑتے ہیں، اس پر تفتیش جاری ہے۔‘

فرار ہونے والے قیدی کون ہیں؟

سردار وحید خان کے مطابق فرار ہونے والے چھ قیدی ایسے ہیں جن کو قتل کے مقدمات میں موت کی سزا سنائی گئی تھی جب کہ دہشت گردی مقدمات میں تین 25 سال قید کی سزا کاٹ رہے تھے۔

ڈکیتی اور اغوا جیسے جرائم میں تین قیدی 10 سال قید کی سزا کاٹ رہے تھے جبکہ غازی شہزاد سمیت باقی سب کے مقدمات عدالتوں میں ز یر سماعت تھے۔

غازی شہزاد کو گذشتہ سال سی ٹی ڈی نے تین ساتھیوں سمیت گرفتار کیا تھا۔

واضح رہے کہ راولا کوٹ کے اس واقعے کے فوری بعد آزاد کشمیر حکومت نے راولاکوٹ ڈسڑکٹ جیل کے سپرنٹنڈنٹ سمیت عملے کے سات اہلکاروں کو معطل کر دیا۔

یہ اہلکار اس وقت تفتیش کے لیے پولیس کی تحویل میں ہیں جبکہ حکومت نے آئی جی جیل خانہ جات کو بھی معطل کر کے ان کی جگہ ایک بیوروکریٹ طاہر ممتاز کو چارج دیا ہے۔

’ایک شخص نے ہیلمٹ پہن کر گولی چلائی‘: راولا کوٹ کی مسجد میں قتل ہونے والے ابو قاسم کشمیری کون تھے؟پاکستان میں سابق ’جہادی کمانڈروں‘ کی پراسرار ہلاکتوں کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے؟ کیا انڈیا کا زیر انتظام کشمیر پھر سے شدت پسندی کا فلیش پوائنٹ بن رہا ہے؟بہاولنگر کا ’ابو جندل‘: کشمیر ’جہاد‘ سے کرائے کا قاتل بننے کا سفر
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More