پی ٹی آئی مینڈیٹ واپسی کے بجائے نئے انتخابات کا مطالبہ کیوں کرنے لگی؟

اردو نیوز  |  Jul 26, 2024

پاکستان کے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ملک میں نئے انتخابات کے امکان کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ تحریک انصاف کی خواہش ہو سکتی ہے لیکن ملک میں نئے انتخابات کی ضرورت ہے اور نہ ہی اس کا ماحول ہے۔

اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کے دوران پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی قیادت بالخصوص عمران خان اور عمر ایوب کی جانب سے قوم کو نئے انتخابات کی تیاریوں کے حوالے سے دیے گئے بیانات پر تبصرہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ جو ان کی وش لسٹ ہے اس پر تبصرہ نہیں کیا جا سکتا۔

’آئین میں انتخابات کا وقت پانچ سال بعد دیا گیا ہے۔ ایسے کوئی حالات نہیں سب ٹھیک چل رہا ہے۔ حکومت اپنے پانچ سال پورے کرے گی۔‘​

پاکستان میں آٹھ فروری کے انتخابات کے بعد قومی اسمبلی کے پہلے اجلاس میں سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کا انتخاب ہوا تو ایاز صادق اور سید غلام مصطفٰی شاہ کے مقابلے میں عامر ڈوگر اور جنید اکبر کو میدان میں اتارا گیا۔ نتائج سامنے آنے کے بعد پی ٹی آئی کے امیدواروں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

اپنی تقاریر میں دونوں نے اپنے مدمقابل امیدواروں کو جیتنے کی مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ اگر فارم 45 کے تحت ہمارے لوگوں کو ایوان میں آنے دیا جاتا تو ہمیں 180 سے زائد ووٹ ملتے۔

اس سے قبل انتخابات کے چند ہی دن بعد تحریک انصاف نے اسلام آباد میں سو کے قریب امیدواروں اور ان کے فارم 45 کے ہمراہ ایک بڑا پروگرام کیا جس میں ایک ایک حلقے کے فارم 45 کی بنیاد پر ان ارکان کی جیت کا دعویٰ کیا گیا۔ اس کے علاوہ پی ٹی آئی کے درجنوں امیدواروں نے اس معاملے پر الیکشن ٹریبونل سے بھی رجوع کر رکھا ہے۔

مینڈیٹ کی واپسی کے بجائے نئے انتخابات کا مطالبہ

آٹھ فروری کے بعد سے اب تک جیل میں کسی بھی مقدمے کی سماعت کے دوران عمران خان کی صحافیوں سے گفتگو ہو یا تحریک انصاف کی دستیاب قیادت کے بیانات یا تقریریں وہ تسلسل کے ساتھ فارم 45 کے تحت مینڈیٹ واپسی کا مطالبہ کرتے نظر آتے ہیں۔

عمران خان نے کارکنوں کو نئے انتخابات کی تیاری کا کہا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

اس دوران جب کبھی بھی سیاسی جماعتوں کے درمیان مذاکرات کی بات آتی ہے یا مقتدر حلقوں کے ساتھ تحریک انصاف کے رابطوں کا تذکرہ چھڑتا ہے تو عمران خان سمیت پی ٹی آئی کی تمام قیادت ان مذاکرات کے لیے جو شرطیں رکھتی ہے ان میں سب سے پہلی شرط مینڈیٹ کی واپسی ہے۔

لیکن گزشتہ کچھ روز سے پاکستان تحریک انصاف اور عمران خان کا رویہ بدلا ہوا نظر آ رہا ہے۔ وہ مینڈیٹ کی واپسی کے بجائے نئے انتخابات کا مطالبہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

جیل میں صحافیوں سے گفتگو میں عمران خان نے قوم کو دسمبر تک نئے انتخابات کی نوید سناتے ہوئے تیاری کرنے کا کہا تو عمر ایوب نے بھی اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو میں اس بات کو دہراتے ہوئے کہا کہ قوم نئے انتخابات کی تیار کرے۔

تحریک انصاف کے مؤقف میں تبدیلی کیوں؟

 کیا تحریک انصاف اسٹیبلشمنٹ کو نئے انتخابات کرانے کا آپشن دے رہی ہے یا معاملہ کچھ اور ہے؟ اب تو عمران خان نے آرمی چیف کو تنقید کا نشانہ بنانے کے بجائے انھیں پیغام بھجوایا ہے کہ فوج نیوٹرل ہو جائے؟ اس کے پیچھے کیا وجواہات ہو سکتی ہیں؟

تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ فارم 45 کے حوالے سے تحریک انصاف کا دعویٰ سو فیصد درست نہیں تھا بلکہ اس کو بھی تحریک انصاف نے اس کو سیاسی نعرے کے طور پر زیادہ استعمال کیا۔

پاکستان میں حلقوں کی سیاست کے حوالے سے وسیع تجربہ رکھنے والے تجزیہ کار ماجد نظامی کا کہنا ہے کہ ’پی ٹی کا فارم 45 کے حوالے سے دعویٰ قابل بحث ہے۔ کیونکہ تحریک انصاف کے اپنے جاری کردہ وائٹ پیپر کے مطابق تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ 30 ایسے حلقے ہیں جن کے پی ٹی آئی کے پاس 90 فیصد سے زائد فارم 45 موجود ہیں۔ ان 30 نشستوں کے دعوے کو درست مانا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے کیٹگریز بنا کر کہا ہے کہ کسی کے 70 فیصد اور کسی کے 60 فیصد فارم 45 موجود ہیں۔‘

’اس کے علاوہ تحریک انصاف اپنی مجموعی نشستوں کے حوالے سے ہی متفق نہیں ہے بلکہ کسی کی جانب سے 170، کسی کی جانب سے 180 اور کسی کی جانب سے کوئی اور دعویٰ کیا جاتا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ الیکشن ٹریبونل سے پی ٹی آئی کو چار سے پانچ نشستیں مل جائیں لیکن یہ بھی بعید از قیاس ہی ہے۔‘

وزیر قانون کے مطابق ملک میں نئے انتخابات کا ماحول نہیں ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

ماجد نظامی کے مطابق ’حکومت کی جانب سے پی ٹی آئی کے فارم 45 کے حوالے سے مطالبے کو ماننے کا مطلب ہے کہ حکومت کی قانونی اور اخلاقی بنیادیں متاثر ہوتی ہیں۔ اس لیے یہ سمجھنا بھی خام خیالی ہوگی کہ تحریک انصاف کے اس مطالبے کو مانا جائے گا کیونکہ اگر ایسا ہو جائے تو پھر تو مسئلہ ہی ختم ہو جائے گا۔ اس لیے مجھے نہیں لگتا کہ اس حوالے سے کوئی پیشن رفت ہوگی اس لیے میں اسے ایک سیاسی نعرے کے طور پر ہی دیکھتا ہوں۔‘

نئے انتخابات کے حوالے سے ماجد نظامی نے کہا کہ ’2018 کے انتخابات کے بعد مسلم لیگ ن نے بھی یہی بیانیہ دیا تھا کہ ان کا مینڈیٹ چوری ہوا ہے اس لیے نئے انتخابات کروائے جائیں لیکن ان کا مطالبہ نہیں مانا گیا۔ اب تحریک انصاف بھی وہی موقف اپنا رہی ہے جس کا واحد مقصد اپنے کارکنان کو مصروف رکھنا اور انھیں مایوسی سے بچانا ہے۔ آپ الیکشن کی تیاری کریں ایک پرکشش سیاسی نعرہ ہے تاکہ کارکنان کی امید نہ ٹوٹے اور اور وہ مایوس نہ ہوں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’مقتدر حلقے تو ابھی آٹھ فروری کے انتخابات کے نتائج کو ہضم نہیں کر پائے جن کے نتیجے میں پی ٹی آئی سب سے بڑی جماعت کے طور پر سامنے آئی۔ یہ نتائج ان کے لیے غیر متوقع تھے۔ اس صورت حال میں اسٹیبلشمنٹ یا حکومت نئے انتخابات کا رسک کیسے لے سکتے ہیں؟ اس لیے یہ بات بالکل واضح ہے کہ پی ٹی آئی ایک نعرے سے دوسرے نعرے پر جا رہی ہے اور یہ مطالبہ بھی محض سیاسی نعرہ ہی ہے۔‘

سینیئر تجزیہ کار اور سابق نگراں وزیراعلیٰ پنجاب ڈاکٹر حسن عسکری بھی ماجد نظامی کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’نئے انتخابات کا مطالبہ دراصل حکومت اور اسٹبلشمنٹ پر دباو بڑھانے کا ایک طریقہ ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ مطالبہ اس دباو کا بھی نتیجہ ہے جو اس وقت پی ٹی آئی برداشت کر رہی ہے کہ انھیں حکومت کی جانب سے پابندی کا خطرہ درپیش ہے۔ اس لیے وہ نئے انتخابات کا مطالبہ کرکے نہ صرف حکومت پر دباو بڑھا رہے ہیں بلکہ اپنی سیاسیجدوجہد کو بھی آگے بڑھا رہے ہیں۔‘

حکومت کا کہنا ہے کہ اپنے پانچ سال پورے کریں گے۔ فوٹو: اے ایف پی

ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ’فارم 45 کے بیشتر معاملات اس وقت ٹریبونلز میں ہیں اور اس میں سے کچھ میں ہو سکتا ہے کہ پی ٹی آئی کو ریلیف مل جائے لیکن اس میں بھی دوسرے امیدوار کے پاس اپیل کا حق ہوگا اس لیے سب کو پتہ ہے کہ یہ معاملہ لمبا چلے گا۔ اس لیے نئی حکمت عملی کے طور پر دباو بڑھانے کے لیے نئے انتخابات کا مطالبہ کیا جانے لگا ہے۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More