بوئنگ سٹار لائنر جس کی واپسی انٹرنیشنل سپیس سٹیشن پر پھنسے خلابازوں کے بغیر ہوئی

بی بی سی اردو  |  Sep 07, 2024

NASA

بوئنگ سٹار لائنر خلائی جہاز بین الاقوامی خلائی سٹیشن (آئی ایس ایس) سے زمین پر لوٹ آیا ہے تاہم اس کے ذریعے خلا میں جانے والے ناسا کے دو خلاباز اب بھی بین الاقوامی خلائی سٹیشن پر ہی پھنسے ہوئے ہیں۔

بوئنگ کے خلائی جہاز نے بین الاقوامی خلائی سٹیشن سے علیحدہ ہونے کے بعد خود مختار موڈ میں زمین تک کا سفر طے کیا ہے۔

امریکی خلائی ایجنسی ناسا کے دو خلا باز، 61 سالہ بیری ولمور اور 58 سالہ سُنیتا ولیمز، رواں سال 5 جون کو آٹھ روزہ تجرباتی مشن پر سٹار لائنر پر بین الاقوامی خلائی سٹیشن کے سفر پر روانہ ہوئے تھے۔

تاہم لانچ کے بعد پیش آنے والے تکنیکی مسائل کے وجہ سے اس کیپسول کو خلابازوں کو واپس لانے کے لیے محفوظ تصور نہیں کیا جا رہا تھا۔

تقریباً تین ماہ سے خلا میں پھنسے ناسا کے دونوں خلابازوں کو اب فروری سنہ 2025 میں سپیس ایکس کے خلائی جہاز کریو ڈریگن کے ذریعے زمین پر واپس لایا جائے گا۔

چھ گھنٹے جاری رہنے والی واپسی کی پرواز کے بعد سٹار لائنر نے پاکستانی وقت کے مطابق سنیچر کے روز صبح 10 بج کر ایک منٹ پر نیو میکسیکو کے وائٹ سینڈز سپیس ہاربر پر لینڈ کیا۔

خلائی کیپسول کے زمین پر آنے کی رفتار کو قابو میں رکھنے کے لیے پیراشوٹس کا استعمال کیا گیا۔

ناسا کے ایک ترجمان کا کہنا تھا کہ وہ خلائی جہاز کی کامیاب لینڈنگ پر خوش تو ہیں لیکن اگر سب کچھ طے شدہ منصوبے کے مطابق ہوتا تو اچھا تھا۔

لینڈنگ کے بعد میڈیا بریفنگ کے دوران ناسا کے کمرشل کریو پروگرام کے مینیجرسٹیو سٹچ کا کہنا تھا کہ خلائی کیپسول کی کامیاب لینڈنگ پر سب خوش ہیں لیکن ہم سب کے دل میں کہیں نہ کہیں یہ بات ضرور ہے کہ کاش سب کچھ طے شدہ منصوبے کے مطابق ہوتا۔

’ہم نے مشن لینڈ کرنے کا جو منصوبہ بنایا تھا اس میں بوچ (بیری ولمور) اور سنی (سنیتا ولیمز) شامل تھے۔‘

سٹچ کا کہنا تھا کہ واضح طور پر مزید کام کرنے کی ضرورت ہے اور آئندہ کا لائحہ عمل طے کرنے میں ’تھوڑا وقت‘ لگے گا۔

لینڈنگ کے بعد ہونے والی بریفنگ میں بوئنگ کے دو نمائندوں نے بھی حصہ لینا تھا تاہم وہ وہاں موجود نہیں تھے۔

جب ان کی غیر حاضری کے متعلق پوچھا گیا تو ناسا کے اہلکار جوئل مونٹالبانو کا کہنا تھا کہ بوئنگ نے مشن کی نمائندگی کی ذمہ داری ناسا کو سونپنے کا فیصلہ کیا ہے۔

دوسری جانب، بوئنگ نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں سٹار لائنر کی ٹیم کو خلائی جہاز کی کامیاب اور محفوظ ان ڈاکنگ، زمین کے مدار میں دوبارہ داخل ہونے اور لینڈنگ کو یقینی بنانے پر سراہا گیا ہے۔

بوئنگ کا کہنا تھا کہ مشن ڈیٹا کا جائزہ لینے کے بعد آئندہ کا لائحہ عمل طے کرے گا۔

AFPسنیتا ولیمز اور بیری ولمور پانچ جون کو بین الاقوامی سپیس سٹیشن کے لیے روانہ ہوئے تھےانٹرنیشنل سپیس سٹیشن پر پھنسے خلابازوں کو سپیس ایکس واپس زمین پر لائے گی

خیال رہے کہ بین الاقوامی خلائی سٹیشن (آئی ایس ایس) پر پھنسے ناسا کے دو خلابازوں کو فروری سنہ 2025 میں سپیس ایکس کی خلائی گاڑی کے ذریعے زمین پر واپس لایا جائے گا۔

سٹار لائنر کو جاتے وقت کا سامنا کرنا پڑا تھا کیونکہ تمام چیزیں منصوبے کے مطابق نہ ہو سکیں اور دونوں امریکی خلا باز ابھی بھی خلا میں ہی موجود ہیں۔

ان کی خلائی گاڑی کو جو مشکلات پیش آئيں ان میں ہیلیئم لیک بھی شامل ہے۔ ہیلیئم کے ذریعے ایندھن کو پروپلژن سسٹم میں دھکیلا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ کئی تھرسٹرس (خلائی جہاز کے ساتھ نصب کیے گئے راکٹ) بھی ٹھیک سے کام نہیں کر رہے تھے۔

اس کے بعد یہ خدشہ ظاہر کیا جانے لگا تھا کہ بیری اور سنیتا غیر معینہ مدت کے لیے خلا میں ہی پھنسے رہ سکتے ہیں اور شاید انھیں کرسمس اور نئے سال کی شام بھی خلا میں ہی گزارنا پڑے۔

61 سالہ بیری اور 58 سالہ سُنیتا بوئنگ کے سٹار لائنر کے ذریعے بین الاقوامی سپیس سٹیشن گئے تھے۔ یہ اپنے طرز کی ایک تجرباتی فلائٹ تھی جس میں پہلی مرتبہ انسانوں کو بھیجا گیا تھا، یہ جانچنے کے لیے کہ ایک سے زائد بار استعمال کرنے پر اس راکٹ نما طیارے کی کارکردگی کیسی رہتی ہے۔

EPA’بیری اور سُنیتا کی واپسی سٹار لائنر کے ذریعے ہوگی‘

بوئنگ اور سپیس ایکس دونوں سے ناسا نے اپنے خلابازوں کے لیے تجارتی خلائی پروازیں فراہم کرنے کے لیے اربوں ڈالر کے معاہدے کیے تھے۔ بوئنگ کی مالیت 4.2 ارب امریکی ڈالر تھی جب کہ سپیس ایکس کو 2.6 ارب ڈالر ملے تھے۔ واضح رہے کہ اس کمپنی کی بنیاد ارب پتی ایلون مسک نے رکھی تھی۔

سپیس ایکس نے اب تک ناسا کے لیے عملوں والی نو پروازیں خلا میں بھیجی ہیں، ساتھ ہی ساتھ کچھ تجارتی مشن بھی بھیجے ہیں لیکن یہ بوئنگ کی عملے کے ساتھ مشن پر جانے کی پہلی کوشش تھی۔

بوئنگ اور ناسا کے انجینئروں نے سٹار لائنر کرافٹ کے ساتھ پیش آنے والے تکنیکی مسائل کو سمجھنے کی کوشش میں مہینوں گزارے۔

وہ خلا میں اور زمین پر دونوں جگہ ٹیسٹ اور ڈیٹا اکٹھا کرتے رہے ہیں۔ ان کا مقصد مسائل کو جڑ سے ختم کرنے اور سٹار لائنر پر خلابازوں کو بحفاظت گھر واپس لانے کا راستہ تلاش کرنا تھی۔

سنیچر 24 اگست کو ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ناسا کے ایڈمنسٹریٹر بل نیلسن نے کہا کہ بوئنگ ناسا کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے تاکہ یہ سمجھا جا سکے کہ خلائی جہاز میں کیا بہتری لانے کی ضرورت ہے۔

انھوں نے کہا ’خلائی پرواز ایک پر خطر مشن ہے کیونکہ اس کے سب سے محفوظ اور معمول کے مطابق سفر بھی اپنی آزمائشی پرواز میں فطرتاً نہ تو محفوظ ہوتے ہیں اور نہ ہی معمولی۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ہماری اولین ترجیح تحفظ ہے۔ ‘

انھوں نے کہا کہ آئی ایس ایس پر جانے والے دونوں خلاباز کے قیام کو فروری 2025 تک بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ وہ سپیس ایکس کریو ڈریگن خلائی جہاز پر واپس آسکیں۔

اضافی وقت میں سپیس ایکس اپنی اگلی گاڑی لانچ کرنے کے قابل ہو جائے گا جو ستمبر کے آخر تک پرواز بھرے گی۔

جون میں ایک پریس بریفنگ کے دوران امریکی خلائی ادارے ناسا کے حکام کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے آگے کا کوئی ٹھوس لائحہ عمل تاحال نہیں بنایا جا سکا ہے۔

ناسا کے کمرشل کریو پروگرام کے مینیجر سٹیو سٹچ کا کہنا ہے کہ ’ہماری پہلی ترجیح تو یہی ہے کہ بیری اور سُنیتا کی واپسی سٹار لائنر کے ذریعے ممکن ہو سکے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’تاہم ہم نے دیگر آپشنز بھی کُھلے رکھے ہیں اور ان پر منصوبہ بندی بھی جاری ہے۔‘

کیا ناسا کی دوربین خلائی مخلوق کا سراغ لگا پائے گی؟جب پانچ پاکستانی سائنسدانوں نے صرف نو ماہ میں پاکستان کو خلائی قوت بنا دیاخلائی کچرا گھر پر گرنے کے بعد امریکی خاندان کا ناسا سے ہرجانے کا مطالبہچاند کے ’اربوں کھربوں کے وسائل‘ تک پہنچنے کی کوششیں لیکن چاند کس کی ملکیت ہے؟

ان کے مطابق رواں برس ستمبر میں ایک مشن خلا کی طرف جا رہا ہے جو کہ فروری 2025 میں زمین کی طرف واپس آئے گا، یہ آپشن موجود ہے کہ دونوں خلابازوں کو اس مشن کے ذریعے واپس بُلایا جا سکے۔

ستمبر میں سپیس ایکس کا ایک ڈریگن کرافٹ خلا کی طرف جائے گا۔ منصوبہ یہی بنایا گیا تھا کہ اس خلائی گاڑی میں چار خلابازوں کو بھیجا جائے، لیکن خلا میں پھنسے ہوئے دو خلابازوں کے لیے اس گاڑی میں دو نشستیں خالی چھوڑی جا سکتی ہیں۔

اس منصوبے پر اگر عمل کیا جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ بیری اور سُنیتا کو آٹھ دنوں کے بجائے آٹھ مہینے بین الاقوامی خلا سٹیشن پر گزارنے پڑیں گے۔

اگر دونوں خلابازوں کو سپیس ایکس کے راکٹ کے ذریعے واپس لایا جاتا ہے تو پھر بوئنگ کا سٹار لائنر کمپیوٹر کی مدد سے زمین پر لایا جائے گا۔

ناسا کے حکام کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے کسی حتمی فیصلہ لینے کے لیے تقریباً ایک ہفتہ لگ سکتا ہے لیکن اس میں تقریبا دو ماہ لگ گئے۔

ناسا کے سپیش آپریشنز کے ڈائریکٹر کین بورسوکس نے صحافیوں کو بتایا کہ سٹارلائنر کی بغیر مسافروں کی ’واپسی کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔‘

’اس لیے ہم مزید ایسے آپشنز پر غور کر رہے ہیں جس کو ہم آرام سے ہینڈل کر سکیں۔‘

لیکن امریکی خلابازوں کی سپیس ایکس کی خلاگاڑی سے واپسی بوئنگ کے لیے ایک بڑا دھچکا ہوگی کیونکہ یہ کمپنی برسوں سے سپیس ایکس کا مقابلہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

اسی ہفتے ناسا نے بین الاقوامی سپیس سٹیشن پر کھانے کا سامان اور دیگر ضروری اشیا بھی خلا بازوں تک سپیس ایکس کے راکٹ کے ذریعے ہی پہنچائی تھیں۔

گذشتہ مہینے بیری اور سُنیتا نے ایک بریفنگ میں حکام کو بتایا تھا کہ وہ زمین پر واپسی کے لیے ’انتہائی پُرامید‘ ہیں اور سٹارلائنر میں سفر بھی ’حقیقتاً متاثرکُن‘ تھا۔

سُنیتا امریکی بحریہ کی سابق پائلٹ ہیں اور یہ ان کا خلا کا تیسرا چکر ہے، جبکہ بیری بھی ماضی میں لڑاکا طیارے کے پائلٹ رہ چکے ہیں اور یہ ان کا بین الاقوامی سپیس سٹیشن کی طرف تیسرا چکر ہے۔

سُنیتا نے بریفنگ کال میں کہا تھا کہ ’ہم یہاں بہت مصروف رہے ہیں اور عملے کے ساتھ گُھل مل گئے ہیں۔‘

’ایسا لگ رہا ہے جیسے میں اپنے گھر واپس آ گئی ہوں۔ خلا میں گھومنے اور بین الاقوامی سپیس سٹیشن پر موجود ٹیم کے ساتھ کام کرنے کا احساس بہت اچھا ہے۔‘

بوئنگ کو امید تھی کہ اس کے پہلے سٹارلائنر مشن سے ایسے مزید مشنز کی راہ ہموار ہوگی۔ ایسے خلائی مشنز کے لیے ناسا نے 2020 میں سپیس ایکس راکٹوں کے استعمال کی منظوری دی تھی۔

بیری اور سُنیتا کو پلان کے برعکس خلا میں زیادہ وقت گزارنا پڑے گا، لیکن ماضی میں کچھ خلا بازوں نے ان سے بھی زیادہ وقت خلا میں گزارا ہے۔ روسی خلاباز ولیری پولیاکوف نے 1990 کی دہائی میں 437 دن خلائی سٹیشن پر گزارے تھے۔

گذشتہ برس امریکی خلاز باز فرینک روبیو 371 دن بین الاقوامی سپیس سٹیشن پر گزار کر زمین پر واپس آئے تھے۔

روس کی اولیگ کونونینکو ابھی بھی بین الاقوامی خلائی سٹیشن پر ہی موجود ہیں اور وہ 1000 سے زیادہ دن خلائی سٹیشن پر گزارنے والی پہلی خلاباز بن گئی ہیں۔

بریفنگز اور انٹرویوز کے دوران امریکی خلابازوں کے حوصلے بُلند دیکھے گئے ہیں۔

سُنیتا نے گذشتہ مہینے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’میں یہ شکایت بالکل نہیں کر رہی کہ ہمیں یہاں مزید ہفتے گزارنے پڑ رہے ہیں۔‘

لیکن موجودہ صوتحال کو دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ انھیں کچھ ہفتے نہیں بلکہ بہت سے ہفتے خلا میں گزارنے پڑیں گے۔

’سٹارلائنر‘: کیا بوئنگ کمپنی کا نیا مشن خلا بازی کی امریکی صنعت کو بچا پائے گا؟چین کا خلائی مشن پہلی بار چاند کے دور دراز حصے پر اترنے میں کیسے کامیاب ہوا؟ماضی میں دیکھی گئی اڑن طشتریوں کا معمہ: خلائی مخلوق یا امریکہ کے خفیہ تجربات؟’خودکش‘ خلائی مشن پر جانے والی ’لائیکا‘ خلا میں کتنے دن زندہ رہی؟کبھی سوچا خلا باز بیت الخلا کیسے استعمال کرتے ہیں؟وہ پرانی ٹیکنالوجی جو خلائی مشنوں کو زندہ رکھے ہوئے ہے
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More