افغانستان کی کرکٹ ٹیم نو ستمبر (آج) سے 13 ستمبر تک نیوزی لینڈ کے خلاف انڈیا میں دارالحکومت دہلی کے قریب واقع گریٹر نوئیڈا کرکٹ سٹیڈیم میں ٹیسٹ میچ کھیلے گی۔
افغانستان کی کرکٹ ٹیم گذشتہ بہت عرصے سے اپنے مُلک میں سکیورٹی خدشات کے پیشِ نظر انٹرنیشنل کرکٹ نہیں کھیل رہی ہے۔ انھی سکیورٹی خدشات کے باعث سنہ 2015 میں دہلی اور افغانستان کے درمیان ایک یاد داشت پر دستخط ہوئے تھے جس کے تحت افغانستان کی کرکٹ ٹیم انڈیا میں ہی تربیت حاصل کرے گی اور دیگر مُمالک کے ساتھ میچز بھی وہیں کھیلے گی۔
انڈیا کو اپنا مستقل مسکن بنانے سے قبل افغانستان کی کرکٹ ٹیم متحدہ عرب امارات کے شہر شارجہ میں پریکٹس کر رہی تھی اور میچز کھیل رہی تھی تاہم افغانستان اور انڈیا کے درمیان اس ضمن میں ہونے والے معاہدے کے بعد گریٹر نوئیڈا کرکٹ سٹیڈیم افغانستان کرکٹ ٹیم کا ہوم گراؤنڈ بنا لیکن یہ اُن کا مستقل ہوم گراؤنڈ نہیں ہے۔
یاد رہے کہ پاکستان کا افغانستان کی کرکٹ میں ایک اہم کردار رہا ہے جس کے بارے میں بی بی سی کے لیے 10 ستمبر 2022 کو کرکٹ تجزیہ کار سمیع چوہدری نے لکھا تھا کہ ’افغانستان کے پہلے کوچ سابق پاکستانی کرکٹر کبیر خان تھے جن کے بعد انضمام الحق نے بھی افغان کرکٹ ٹیم کی کوچنگ کی اور انھوں نے زمبابوے کے خلاف پہلی ون ڈے سیریز جیتی۔‘
تاہم یہ سب کچھ ہونے کے بعد 31 مئی 2017 کو پاکستان افغانستان کرکٹ تعلقات ہمیشہ کے لیے بدل گئے۔ اُس دن افغانستان میں ایک دھماکہ ہوا جس کا الزام پاکستان پر عائد کیا گیا اور اور اس کے بعد دونوں مُمالک کے درمیان روابط ختم ہو گئے جس کا اثر کرکٹ پر بھی ہوا۔
مگر آخر اب ایسا کیا ہوا کہ افغان کرکٹ ٹیم پاکستان کے بعد شارجہ کو بھی چھوڑ کر انڈیا کے گریٹر نوئیڈا کرکٹ سٹیڈیم کو اپنا ہوم گراؤنڈ بنانا چاہتی ہے۔
تو ہوا یہ کہ افغان کرکٹ ٹیم کے کپتان حشمت اللہ شاہدی کی جانب سے حال ہی میں ایک بیان سامنے آیا ہے کہ جس میں اُن کا کہنا ہے کہ ’افغانستان کرکٹ ٹیم کو اب باقاعدہ طور پر انڈیا میں ’ایک مستقل ہوم گراؤنڈ‘ کی ضرورت ہے۔‘
شاہدی نے نیوزی لینڈ کے ساتھ ٹیسٹ میچ سے ایک روز قبل میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: ’اگر آپ دیکھیں تو انڈیا ہمارا گھر ہے اور اگر ہم ایک جگہ پر زیادہ کرکٹ کھیلیں گے تو یہ ہمارے لیے زیادہ موثر اور فائدہ مند ہو گا کہ ہم اپنی کارکردگی کو بہتر بنا سکیں گے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ہمارے کھلاڑیوں کا فرسٹ کلاس کرکٹ میں ریکارڈ اچھا ہے کیونکہ ہم افغانستان میں اپنی زمین پر کھیلتے رہے ہیں۔ ہم اپنے حالات یعنی کنڈیشنز سے بخوبی واقف ہیں۔ لہٰذا اُمید ہے کہ مستقبل میں وہ وقت آئے گا جب دوسرے مُمالک کی ٹیمیں افغانستان آئیں گی تب تک امید ہے کہ ہمارا کرکٹ بورڈ اور بی سی سی آئی انڈیا میں ہمارے لیے ایک اچھا ماحول اور ایک ایسی جگہ فراہم کریں گے کہ ہم زیادہ کرکٹ کھیلیں اور اپنی کارکردگی پہلے سے بھی بہتر بنائیں۔‘
یاد رہے کہ آج سے شروع ہونے والے ٹیسٹ میچ سے قبل افغانستان کی کرکٹ ٹیم نے نیوزی لینڈ کی ٹیم کو میچ سے قبل ایک عشائیہ دیا جس میں افغانستان کے کھلاڑیوں نے مہمان ٹیم کو تحائف بھی دیے۔
افغان کرکٹ ٹیم کی انڈیا میں ہوم گراؤنڈ حاصل کرنے کی کوشش
ہرچند کہ دارالحکومت دہلی کا مضافاتی علاقہ نوئیڈا ان دنوں افغان ٹیم کا ہوم گراؤنڈ ہے لیکن اس سے قبل انھیں پہلے دہرہ دون میں اور پھر لکھنؤ میں گراؤنڈ فراہم کیے گئے تھے جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ انڈیا اور کرزئی حکومت کے درمیان ایم او یو پر دستخط کے بعد بھی افغان ٹیم کو ایک مستقل گھر کی تلاش رہی ہے۔
انڈیا میں مستقبل گراؤنڈ کی تلاش کے اس دورانیے میں پاکستان اور افغانستان کی کرکٹ کے باہمی روابط میں بہت تبدیلیاں آئیں۔
تجزیہ کار سمیع چوہدی نے بی بی سی کے لیے 2022 کی اپنی تحریر میں لکھا تھا کہ ’سنہ 2019 کے ورلڈ کپ کے لیے جب افغانستان کو ایک انڈین برانڈ کی سپانسرشپ بھی حاصل ہو گئی تو پھر لیڈز میں پاکستان افغانستان میچ کے بعد بھی کچھ ویسی ہی صورتِ حال دیکھنے کو ملی جیسی شارجہ کرکٹ سٹیڈیم میں دیکھنے کو ملی تھی۔ کھلاڑیوں کے درمیان تلخ کلامی اور لڑائی اس سطح پر پہنچ چکی ہے کہ دنیا بھر کے مین سٹریم میڈیا میں بھی شہ سرخیوں کی زینت بنے۔‘
’اگرچہ گرباز، زازئی، راشد، مجیب اور محمد نبی ابھی بھی پاکستانی کھلاڑیوں سے نہایت دوستانہ تعلقات رکھتے ہیں اور پی ایس ایل میں بھی باقاعدگی سے شریک ہوتے ہیں مگر افغان شائقین کے دلوں میں وہ بیانیہ جڑ پکڑ چکا ہے جس کی بنیاد کابل دھماکوں کے بعد پڑی تھی۔‘
’پاکستان کے بیشتر شہروں میں بے شمار افغان بستے ہیں اور ان کا پاکستانیوں سے میل جول ویسا ہی ہے جیسا دیگر سبھی پاکستانی آپس میں رکھتے ہیں مگر افغان کرکٹ شائقین کا ایک طبقہ اس بیانیے کو پوری طرح اپنا ایمان بنا چکا ہے جس کی ترویج نریندر مودی سے اچھے تعلقات کی خواہش مند اشرف غنی حکومت نے کی تھی۔‘
انڈیا میں افغانستان کی ٹیم کو کسی بھی دوسری ٹیم سے زیادہ حمایت کیوں حاصل ہے؟انڈیا میں افغان سفارتخانے کے دو دعویدار کیوں؟دنیا کا ’تیز ترین‘ پاکستانی بولر جو صرف پانچ ٹیسٹ میچ ہی کھیل پایا’صرف ایک شخص افغانستان کو سیمی فائنل میں پہنچتے ہوئے دیکھ رہا تھا اور وہ برائن لارا تھا‘
کرکٹ تجزیہ نگار معین الدین حمید نے کینیڈا سے بی بی سی سے ٹیلیفون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اس کی تاریخی اور سیاسی وجوہات ہیں۔ انھوں نے کہا: ’اگرچہ افغانستان انڈیا کا براہ راست پڑوسی نہیں ہے لیکن پھر بھی دونوں کا تاریخی تعلق رہا ہے اور پاکستان کے مقابلے افغانستان میں انڈیا کو زیادہ پسند کیا جاتا ہے۔ اور یہی صورتحال اب انڈیا میں بھی ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اگرچہ پاکستان نے افغانستان کی ہر موقع پر مدد کی ہے اور اس کے لاکھوں پناہ گزینوں کو اپنے یہاں پناہ دی ہے یہاں تک کہ ان کی ٹیم کو تیار کرنے میں بھی کلیدی کردار ادا کیا ہے لیکن پاکستان کے عوام میں یہ احساس پایا جاتا ہے کہ اگر بات انڈیا اور پاکستان کی ہو تو افغانستان کے لوگ روایتی طور پر انڈیا کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’اگر سپورٹس کی بات کی جائے تو پاکستان کے کھلاڑیوں نے تو انھیں بیٹ پکڑنا سکھایا ہے۔ کبیر خان، راشد لطیف، انضمام الحق، عمر گل وغیرہ نے ان کی تربیت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔ وہ وہاں جا کر ان کی کوچنگ کیا کرتے تھے۔‘
اس سے قبل کرکٹ صحافی آدیش کمار نے بی بی سی سے فون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’دونوں ممالک کے پرانے رشتے بھی اس معاملے میں اہم ہیں۔ اب جبکہ پاکستان کے خلاف انڈیا کے میچز صرف آئی سی سی ٹورنامنٹ تک محدود ہو گئے ہیں تو افغانستان کی ٹیم انڈیا میں اہمیت حاصل کر گئی ہے۔‘
’سیاسی وجوہات کی بنا پر آئی پی ایل میں پاکستانی کھلاڑی نہیں ہیں جبکہ افغانستان کے کھلاڑی یہاں نظر آتے ہیں اور اسی وجہ سے نئے کرکٹ شائقین میں ان سے ایک طرح کی انسیت بھی ہے۔'
بی سی سی آئی کی حمایت کے ساتھ افغان ٹیم کو جو کمپنی سپانسر کر رہی ہے وہ معروف انڈین کمپنی ’امول’ ہے۔
آئی سی سی ٹیسٹ رینکنگ میں 12 ویں نمبر پر موجود افغانستان وائٹ بال فارمیٹ میں اپنی طاقت منوا چُکا ہے۔ افغان کرکٹ ٹیم اس وقت آئی سی سی کرکٹ رینکنگ میں ون ڈے فارمیٹ میں نویں اور ٹی ٹوئنٹی میں دسویں نمبر پر ہے۔
افغانستان کی کرکٹ ٹیم نے گذشتہ سال ون ڈے ورلڈ کپ میں انگلینڈ، پاکستان اور سری لنکا جیسی بڑی اور تجربہ کار ٹیموں کو شکست دے کر رواں سال جون میں نیوزی لینڈ، آسٹریلیا اور بنگلہ دیش کو شکست دے کر ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں جگہ بنائی تھی۔
نوئيڈا کا ’شہید وجے سنگھ پتھک‘ سٹیڈیم
گریٹر نوئیڈا کا شہید وجے سنگھ پتھک سٹیڈیم افغانستان اور نیوزی لینڈ کے مابین میچ کے لیے تیار ہے اور اس سے قبل یہاں ایک انٹرنیشنل میچ ہوا تھا جس میں افغانستان کے مدمقابل آئرلینڈ کی ٹیم تھی۔
افغان ٹیم اگرچہ یہاں اپنا دسواں ٹیسٹ میچ کھیل رہی ہے لیکن یہ اس سٹیڈیم میں کھیلا جانے والا دوسرا بین الاقوامی میچ ہے۔ بارش کی وجہ سے گراؤنڈ میں نمی ہے اور بارش کی پیش گوئی کے پیش نظر کھیل میں رکاوٹ آنے کے زیادہ امکانات بتائے گئے ہیں۔
کھیل میگزن ’سپورٹس سٹار‘ کی رپورٹ کے مطابق گریٹر نوئیڈا کے سٹیڈیم پر بورڈ آف کنٹرول فار کرکٹ ان انڈیا (بی سی سی آئی) نے ستمبر 2017 میں پابندی لگا دی تھی، اور اس کے بعد سے اس گراؤنڈ نے بی سی سی آئی سے منسلک کسی ٹورنامنٹ کی میزبانی نہیں کی۔
اگرچہ پہلے یہ افغانستان کرکٹ بورڈ کا ہوم گراؤنڈ تھا لیکن اس نے آخری بار مارچ 2020 میں ہی افغانستان اور آئرلینڈ کے درمیان ہونے والے بین الاقوامی ٹیسٹ کی میزبانی کی تھی۔
یہ سٹیڈیم گریٹر نوئیڈا انڈسٹریل ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے زیر انتظام ہے نہ کہ ریاستی کرکٹ ایسوسی ایشن کے۔ سپورٹس سٹار کے مطابق یہ سٹیڈیم اپنے پانی کی نکاسی کے نظام کو بہتر بنانے میں ناکام رہا ہے اور اس میں افرادی قوت اور بنیادی سہولیات کی کمی ہے۔
بی سی سی آئی کے نائب صدر راجیو شکلا نے اس سے قبل جون کے آخری عشرے میں کہا تھا کہ فی الحال افغانستانکے لیے اُترپردیش ہی اُن کا ہوم گراؤنڈ ہو گا۔ خیال رہے کہ اس سے قبل ریاستی دارالحکومت لکھنؤ میں افغان ٹیم نے میچز کھیلے تھے اور اب ان کے لیے نوئيڈا اور کانپور کے گراؤنڈز فراہم کیے جا رہے ہیں۔
کانپور کا گراؤنڈ انڈیا کے قدیم ترین گراؤنڈز میں سے ایک ہے جہاں ستمبر میں انڈیا اور بنگلہ دیش کے درمیان ٹیسٹ میچ ہونے والا ہے۔
انڈیا افغانستان تعلقات
انڈیا اور افغانستان کے تعلقات تاریخی رہے ہیں لیکن پہلی بار سنہ 1990 کی دہائی میں طالبان کی آمد کے بعد اس میں تعطل آ گیا تھا اور دونوں ملکوں کے درمیان سفارتکاری کا عمل رُک گیا تھا تاہم سنہ 2001 میں امریکہ کی حمایت میں آنے والی افغان حکومت کے قیام کے بعد انڈیا کے تعلقات بہتر ہوتے گئے۔
تجریہ کار پروفیسر محمد مظہرالحق کا کہنا ہے کہ آج انڈیا کی افغانستان سے تجارت پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔
انھوں نے کہا کہ طالبان حکومت کے آنے کے بعد اگرچہ سفارتی تعلقات ظاہری طور پر نظر نہیں آتے لیکن ٹیکنیکل اسسٹینس کے طور پر انڈیا کی وہاں موجودگی کافی مضبوط ہے۔
انھوں نے کہا کہ افغانستان کی موجودہ حکومت اپنے پڑوسیوں سے بہتر تعلقات بحال کرنے کی کوششوں میں مستقل لگی ہوئی ہے اور چین کی جانب سے سفارتخانے کا کھولا جانا اس کی کامیابی ہے۔
انڈیا نے افغانستان میں بہت سے پراجیکٹ شروع کر رکھے ہیں اور اس نے تقریباً تین ارب امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری بھی کر رکھی ہے۔
تھنک ٹینک آبزرور ’ریسرچ فاؤنڈیشن‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق انڈیا نے 2001 اور 2021 کے درمیان 20 برسوں میں افغانستان کے 34 صوبوں میں 500 سے زیادہ منصوبوں پر کام کیا ہے اور اس طرح وہ رفتہ رفتہ افغانستان کی ترقی کے کاموں میں سب سے بڑا شراکت دار بن گیا اور اس نے اس دوران تین ارب ڈالر سے زیادہ کا تعاون کیا ہے۔
اس نے افغانستان کے عوام کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے تعلیم و تربیت کے شعبے میں تعاون فراہم کیا اور گذشتہ 16 برسوں میں 60 ہزار سے زیادہ افغان شہریوں نے انڈیا میں تعلیم مکمل کی ہے جبکہ افغان فوجیوں کو تربیت بھی دی گئی ہے۔
انڈیا میں افغانستان کی ٹیم کو کسی بھی دوسری ٹیم سے زیادہ حمایت کیوں حاصل ہے؟ایڈیڈاس اور پوما: دو بھائیوں کی دشمنی سے پیدا ہونے والی کمپنیاں جنھوں نے کھیلوں کی دنیا کی کایا ہی پلٹ دیافغان کرکٹ کا مافوق الفطرت سفررحمان اللہ گرباز کا احمد آباد میں ’سنچری سے بھی بڑا کارنامہ‘: ’اسی لیے افغان کھلاڑیوں کو انڈیا میں اتنا پیار ملتا ہے‘مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی جو طالبان حکومت کے لیے ہزاروں ڈالر کمانے کا سبب بن رہی ہےاربوں ڈالر کے وہ امریکی طیارے جو افغان طالبان اپنے ہمسایہ ملک سے واپس لانا چاہتے ہیں