’سُرنگ میں خزانہ‘، وہ انڈین جو ایلون مسک سے کہیں زیادہ امیر تھا

اردو نیوز  |  Sep 23, 2024

آج امریکی بزنس مین ایلون مسک دنیا کے امیر ترین آدمی ہیں جن کی دولت کا تخمینہ تقریباً 240 ارب امریکی ڈالر لگایا جاتا ہے لیکن آج سے کوئی سو سال قبل دنیا کے سب سے دولت مند انڈیا کے ایک شخص میر عثمان علی خان تھے۔

سنہ 1937 میں جب ٹائم میگزن نے پہلی بار ان کی دولت کا تخمینہ شائع کیا تھا تو وہ اس وقت کے مطابق تقریباً 236 ارب ڈالر تھا۔ اگر آج کے حساب سے دیکھا جائے تو وہ ایلون مسک سے کہیں زیادہ امیر تھے۔

ان کے پاس دس کروڑ پاؤنڈ مالیت کا تو سونا تھا جبکہ 40 کروڑ پاؤنڈ کے زر و جواہرات تھے۔ ان کے پاس اپنا ٹکسال تھا جہاں سکے ڈھالے جاتے اور روپے چھاپے جاتے تھے۔

اسی طرح ان سے قبل قرون وسطیٰ میں افریقہ کے بادشاہ منسا موسیٰ تھے۔ وہ اس وقت کے دنیا کے امیر ترین شخص تھے جن کی دولت کا اندازہ آج کے زمانے میں 400 ارب امریکی ڈالر لگایا جاتا ہے اور انھیں تاریخ کا امیر ترین آدمی قرار دیا جاتا ہے۔

یہاں ہمارا مقصد امیر ترین لوگوں کے بارے میں بات کرنا نہیں ہے بلکہ نظام حیدرآباد سے قبل وہاں حکومت کرنے والی قطب شاہی سلطنت کے ایک خزانے کی بات مذکور ہے جس کے بارے میں کہا جاتاہے کہ وہ ایک سرنگ میں کہیں چھپا کر رکھا گیا تھا لیکن وہ آج تک کسی کو نہ مل سکا۔

1518 میں قائم ہونے والی قطب شاہی سلطنت کے بانی قلی قطب شاہ کا دارالحکومت گولکنڈہ تھا لیکن جب ان کے پانچویں جانشین محمد قلی قطب شاہ جو اردو کے معروف شاعر بھی تھے انہوں نے اپنی محبوبہ حیدر محل کے نام پر شہر حیدرآباد بسایا تو انہوں نے وہاں ایک اور عمارت کی تعمیر کرائی جسے چار مینار کہا جاتا ہے اور آج سوا چار سو سال بعد بھی وہ جوں کا توں کھڑا ہے۔

چار میناروں والی یہ عمارت سنہ 1591 میں تعمیر کی گئی تھی۔

چار مینار کی تعمیر کی اصل وجہ واضح نہیں ہے، لیکن اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ انہوں نے اپنی بیوی بھاگمتی کے اعزاز میں تعمیر کرایا تھا۔ بعض مورخین کا کہنا ہے کہ یہی وہ خاتون تھیں جنہیں بادشاہ نے حیدرمحل کا خطاب عطا کیا تھا اور ان کے نام پر ہی نئے شہر کو حیدرآباد کا نام دیا گیا جبکہ چار مینار اس شہر کی آج تک پہچان ہے۔

ایلون مسک اس وقت دنیا کے امیر ترین شخص ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)بہر حال گولکنڈہ قلعے سے چار مینار کی دوری تقریباً دس کلومیٹر ہے۔ لیکن کہا جاتا ہے کہ قطب شاہی سلطنت کے پانچویں بادشاہ محمد قلی قطب شاہ نے اس کے درمیان ایک سرنگ تعمیر کرائی تھی۔

کہا جاتا ہے کہ یہ سرنگ بوقت ضرورت شاہی گھرانے کے فرار کے لیے بھی تھی جبکہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس میں قطب شاہی سلطنت کا خزانہ بھی کسی جگہ رکھا گیا تھا جو ابھی تک محفوظ ہوگا۔

لیکن اس کہانی کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں ہے کیونکہ ایسی کوئی سرنگ ابھی تک دریافت نہ ہو سکی ہے۔ البتہ تقریباً دس سال قبل 2015 میں جب چار مینار کے قریب کھدائی کی جا رہی تھی تو زمین کے نیچے سے انھیں دو پتھر کی سلیں ملیں جن کو بعض نے سرنگ میں جانے کا زینہ کہا تو کسی نے سرنگ میں جانے کے دروازے کے محراب سے تعبیر کیا۔

بہر حال تاریخ داں محمد سیف اللہ کہتے ہیں کہ حیدرآباد دکن کے اس پٹھاری علاقے میں اتنی لمبی سرنگ کھودنا ناممکنات میں شامل ہے۔

ہندوستان میں آثار قدیمہ کے ادارے آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا نے کنکریٹ کی سلیں ملنے کے بعد اس کی جانچ کی اور ان کے ساتھ ساتھ گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن (جی ایچ ایم سی) کے عہدیداروں نے یہ کہا کہ یہ سلیں چند سال قبل بچھائی گئی تھیں اور اس طرح خفیہ سرنگ کا نظریہ اپنے آپ میں باطل ٹھہرا۔

لیکن حیدر آباد کے علاقے میں حکومت کرنے والی سلطنتوں کے مال و دولت کا ذکر اپنے آپ میں کسی افسانوی مال و دولت کے ذکر سے مختلف نہیں۔

تاہم ابھی تک یہ بھی نہیں معلوم ہے کہ محمد قلی قطب شاہ نے چار مینار کیونکہ تعمیر کرایا تھا کیونکہ اس کا بظاہر کوئی جواز نظر نہیں آتا کہ یہ کس مقصد کے لیے تھا۔

سنہ 1937 میں میر عثمان علی خان کی دولت  تقریباً 236 ارب ڈالر تھی۔ (فوٹو: وکیپپیڈیا)لیکن بعض حکایتوں میں آتا ہے کہ یہ طاعون ختم ہونے کی یادگار کے طور پر تعمیر کیا گیا تھا جبکہ بعض کا کہنا ہے کہ بھاگمتی کے اعزاز میں تعمیر کیا گیا تھا۔

بہر حال قطب شاہی سلطنت مغل حکمراں اورنگزیب عالمگیر کے عہد میں مغل سلطنت میں ضم کر لی گئی اور پھر جب مغل سلطنت کمزور ہونے لگی تو مغلوں کے ایک طاقتور وزیر اور جاگیر دار نظام آصف جاہ کی حکمرانی شروع ہوئی اور یہ اس وقت تک جاری رہی جب تک کہ ہندوستان کی آزادی کے بعد انڈین فوج کے حملے بعد اسے انڈیا میں شامل نہیں کر لیا گیا۔

اس وقت نظام حیدرآباد کا انڈین حکومت سے معاہدہ ہوا تھا جس کے تحت انہیں مراعات ملی تھیں اور جب ہندوستان کی 1962 میں چین سے جنگ ہوئی تھی تو انڈین حکومت کو ساتویں اور آخری نظام میر عثمان علی خان نے پانچ ہزار کلو سونا عطیہ کیا تھا جو آج تک کا سب سے بڑا عطیہ مانا جاتا ہے

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More