آسائی کی جنگ: جب انگریزوں نے پانچ گنا بڑی مرہٹہ فوج کو شکست دے کر ہندوستان کی تاریخ بدل دی

بی بی سی اردو  |  Sep 23, 2024

Getty Images

جس طرح پلاسی کی جنگ کے بعد بنگال ایسٹ انڈیا کمپنی کے قبضے میں چلا گیا تھا ویسے ہی آسائی کی جنگ نے بھی ہندوستان کی ایک اور عسکری طاقت کا خاتمہ کیا۔

مرہٹہ سلطنت کی تاریخ کی یہ اہم جنگ 23 ستمبر 1803 کو موجودہ انڈیا کی ریاست مہاراشٹر میں آسائی کے مقام پر لڑی گئی جہاں سے اسے اپنا نام بھی ملا۔

اس جنگ کی اہم بات یہ ہے کہ ایک جانب 50 ہزار نفوس پر مشتمل مرہٹہ فوج تھی جبکہ دوسری جانب ایسٹ انڈیا کمپنی کی 10 ہزار سپاہیوں پر مشتمل فوج لیکن مرہٹہ فوج کو شکست ہوئی اور سرزمین ہندوستان کی تقدیر بدل گئی۔

مورخ شیورام مہادیو پرانجپے نے کتاب ’ہسٹری آف مرہٹہ وار‘ میں 1802 سے 1818 کے عرصے کی تاریخ اور آسائی کی جنگ کی منظر کشی کی ہے۔

اس تاریخی جنگ میں برطانوی فوج کی قیادت بعد میں ’ڈیوک آف ویلنگٹن‘ کا خطاب پانے والے آرتھر ویلزلی نے کی جبکہ مرہٹہ فوج کی کمان دولت راؤ شندے اور راگھوجی بھوسلے کے پاس تھی۔

اس خونریز لڑائی میں دونوں فریقوں نے توپوں اور رائفلوں کا بے دریغ استعمال کیا تاہم مصنف اور مورخ شیو رام مہادیو پرانجپے کی کتاب کے مطابق آرتھر ویلزلی نے مرہٹہ فوج کو سازش اور فریب کے جال میں الجھا کر شکست دی۔

پرانجپے سمیت کئی مورخین کی رائے کے مطابق اس جنگ میں فتح نے انگریزوں کے لیے نہ صرف مرہٹہ سلطنت میں بلکہ پورے ہندوستان میں اپنے قدم جمانے کی راہ ہموار کی۔ تاریخ میں اتنی اہم لڑائی ہونے کے باوجود اس کا ذکر کم ہی ملتا ہے۔

تاہم برطانوی ادب میں ’سیکنڈ برٹش مرہٹہ وار‘ کے طور پر اس کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ اس جنگ کے وقت کا سیاسی پس منظر، انگریزوں کی سازشیں اور مرہٹہ کے درمیان جھگڑے نے اس جنگ اور اس کے نتائج کو متاثر کیا۔

جنگ کا پس منظرGetty Imagesایسٹ انڈیا کمپنی نے 1800 کی دہائی میں ہندوستان کے مختلف حصوں پر مکمل کنٹرول حاصل کرنا شروع کر دیا تھا

ایسٹ انڈیا کمپنی نے 1800 کی دہائی میں ہندوستان کے مختلف حصوں پر مکمل کنٹرول حاصل کرنا شروع کر دیا تھا۔ اس وقت تک وہ برصغیر کے تقریباً تین بڑے حصوں پر قبضہ کر چکے تھے جن میں مغربی ساحل پر بمبئی کی بندرگاہ، شمال اور جنوب میں مشرقی ساحل کے ساتھ ساتھ مدراس، موجودہ چنئی کے قریب کا علاقہ اور کولکتہ کی تجارتی بندرگاہ پر انحصار کرنے والا بنگال کا صوبہ شامل تھا۔

ہندوستان کا جنوبی حصہ یعنی دکن، حیدرآباد اور میسور کے اکثر حصے بھی انگریزوں کے زیر اثر آ چکے تھے۔ لیکن مرہٹہ سلطنت جو شمالی اور وسطی ہندوستان کے کئی حصوں تک پھیلی ہوئی تھی، ایک بڑی عسکری طاقت تھی جس نے ٹیپو سلطان کو شکست دینے میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی مدد کی تھی۔

تاہم انتظامی امور کی وجہ سے مرہٹہ سلطنت میں اختلافات پیدا ہونے لگے۔ 1802 میں ان اختلافات کی وجہ سے ایک بڑی خانہ جنگی ہوئی جس میں ایک جانب ہولکر تھے جنھوں نے دولت راؤ شندے اور مرہٹہ پیشوا باجی راؤ دوم پر حملہ کیا اور انھیں شکست دی۔

باجی راؤ دوم کو انگریزوں یعنی ایسٹ انڈیا کمپنی کے پاس پناہ لینی پڑی۔ برطانوی لارڈ مارنگٹن ایک جارح اور پرجوش گورنر جنرل تھے اور انھوں نے پیشوا کی مدد کے بہانے وسائی کا معاہدہ کیا۔

لیکن اس معاہدے کے تحت ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنے فوجیوں کی تعیناتی کے لیے جو شرائط رکھی تھیں ان سے اتفاق کرنا دولت راؤ کے لیے مشکل تھا۔

جب مرہٹہ جنگجو شیوا جی نے شیر کے پنجے جیسے ہتھیار سے بیجاپور کے جنرل افضل خان کا قتل کیامغل سلطنت کے زوال کے بیج بونے والے مراٹھا جنگجو جن کو اورنگزیب نے ’پہاڑی چوہا‘ کہا ٹیپو سلطان: جب میر صادق اور فوج کی غداری کی مدد سے انگریزوں نے سرنگاپٹنم فتح کیاایسٹ انڈیا کمپنی جس نے ایک خطے پر راج کیا’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘

دولت راؤ سے اختلافات کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی نے ان کی حمایت کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا اور پرانجپے نے اپنی کتاب ’ہسٹری آف مرہٹہ بیٹلز‘ میں لکھا ہے کہ لارڈ ویلزلی نے دولت راؤ کا ساتھ چھوڑنے والوں کے لیے انعام کا اعلان بھی کیا۔

ملک بھر میں کلکٹرز کو خطوط بھیجے گئے کہ انگریزوں کی مدد کرنے والے سرداروں اور جاگیرداروں کو ’انعام‘ کی ادائیگی کو یقینی بنایا جائے۔

یہاں تک کے دولت راؤ کا ساتھ دینے والے فرانسیسی اہلکاروں کو بھی رشوت دی گئی۔

Getty Images

دولت راؤ کی فوج میں کچھ مسلمان دستے تھے۔ ان میں کچھ حصہ بیگم سمرو کا بھی تھا۔ انگریزوں نے بیگم سمرو کو بھی اپنے جال میں پھانس لیا۔

یہ جانچنے کے لیے کہ بیگم سمرو واقعی انگریزوں کا ساتھ دینے کو تیار ہیں، ان کے سامنے یہ شرط رکھی گئی کہ دولت راؤ کی فوج میں موجود اپنے فوجیوں کو وہ واپس بلائیں۔ آسائی کی لڑائی کے دوران بیگم سمرو کی فوج کی دو پلٹنیں اچانک واپس چلی گئیں، جس سے اس جنگ میں مرہٹوں کو شدید دھچکا لگا۔

شمال میں دولت راؤ اور رنجیت سنگھ کی سلطنتوں کی سرحدیں ایک دوسرے کے قریب تھیں اور انگریزوں نے کوشش کی کہ سکھ سلطنت کو دولت راؤ کی مدد کرنے سے روکیں یا کم از کم غیر جانب داری پر آمادہ کر لیں۔

اس مکمل حکمت عملی کے بعد انگریزوں نے وہ کھیل کھیلا جسے ان کی سب سے بڑی چال کہا جاتا ہے اور یہ چال معاہدہ وسائی تھا۔

معاہدہ وسائی

مصنف شیورام پرانجپے کہتے ہیں کہ ’درحقیقت معاہدوں سے جنگیں ختم ہوتی ہیں لیکن معاہدہ وسائی میں جنگ کو ختم کرنے کے بجائے اس کے برعکس نتیجہ سامنے آیا۔‘

مرہٹہ اور ہندوستانی تاریخ میں انتہائی اہمیت کا حامل ’معاہدہ باسین‘ پیشوا باجی راؤ دوم اور انگریزوں کے درمیان طے پایا تھا۔

یہ معاہدہ 31 دسمبر 1802 کو ہوا تھا۔ اس معاہدے کے نتیجے میں ایسٹ انڈیا کمپنی کو مغربی ہندوستان میں پیشوا کے علاقوں پر کنٹرول حاصل ہو گیا۔

اپنے منصوبے کی کامیابی کے لیے انھیں صرف ایک موقعے کا انتظار تھا اور یہ موقع ایسٹ انڈیا کمپنی کو اس وقت ملا جب وتھوجی ہولکر کو پیشوا باجی راؤ دوم نے ہاتھی کے پاؤں تلے مارنے کی سزا سنائی تھی۔

یشونت ہولکر نے اپنے بھائی کی سزا کا بدلہ لینےکے لیے براہ راست پونے کی طرف مارچ کیا۔ اس خوف سے کہ یشونت راؤ ہولکر اپنے بھائی کی موت کا بدلہ لینے کے لیے جان کی بازی لگا دیں گے، پیشوا نے پونے چھوڑ دیا اور انگریزوں کے پاس پناہ لینے کے لیے چلے گئے۔

یشونت راؤ ہولکر نے رگھوبا دادا کے بیٹے امرت راؤ کو پیشوا کے تخت پر بٹھایا۔ اپنا تاج و تخت دوبارہ حاصل کرنے کے لیے پیشوا باجی راؤ دوم نے انگریزوں سے معاہدہ کیا جسے معاہدہ وسائی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

Getty Images

اس معاہدے میں بہت اہم شرائط شامل تھیں۔ اس کے مطابق، پیشوا نے چھ برطانوی بٹالینز یعنی چھ ہزار فوجیوں کو اپنے علاقے میں رکھنے پر اتفاق کیا۔ انھیں ایک مخصوص علاقہ بھی الاٹ کیا گیا تھا۔

پیشوا یا ان کے اتحادیوں کو تمام یورپیوں کو اپنی خدمات سے ہٹانے کا پابند کیا گیا اور انھیں سورت اور بڑودہ سے بھی ہاتھ دھونے پڑے۔

معاہدے کے تحت وہ دوسری ریاستوں یا قوموں کے ساتھ پالیسیاں بناتے وقت انگریزوں سے مشورہ کرنے کے پابند قرار دیے گئے۔

اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ مرہٹوں کا ہی نہیں بلکہ ہندوستانی تاریخ کا ایک سیاہ باب بن گیا۔ اس معاہدے کے نتیجے میں دوسری اینگلو- مرہٹہ جنگ، آسائی کی لڑائی ہوئی اور تین بڑی مرہٹہ سلطنتوں کا خاتمہ ہوا۔

اصل جنگ کیسے لڑی گئیGetty Images

دولت راؤ شندے اور راگھوجی بھوسلے نے معاہدہ وسائی کے حوالے سے کوئی خاص موقف اختیار نہیں کیا اور نہ ہی وہ انگریزوں کی شرائط پر راضی ہوئے جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ انگریزوں کے ساتھ جنگ کرنا چاہتے تھے۔

پیشوا کے تخت نشین ہونے کے بعد آرتھر ویلزلی نے پونے میں کچھ دن قیام کرنے کے بعد پونے کو چھوڑ دیا۔ اس کے بعد انھوں نے 11 اگست 1803 کو احمد نگر کے قلعے پر قبضہ کر لیا۔ یہ شندے کے لیے بڑا دھچکا تھا۔ انھوں نے احمد نگر کا قلعہ دو دنوں میں ہی کھو دیا۔

لیکن اس کے بعد انگریزوں نے زیادہ کچھ نہیں کیا۔ ان کی فوج حیدرآباد کی نظام حکومت کی سمت روانہ ہو چکی تھی۔ اسی طرح شندے اور بھوسلے کی فوجیں بھی نظام کی سرحد پر پہنچ چکی تھیں۔ انگریزوں کا خیال تھا کہ وہ اورنگ آباد (موجودہ چھترپتی سمبھاجی نگر)، جالنا، حیدرآباد پر حملہ کریں گے۔ اس لیے برطانوی فوج وہاں گئی ہے۔

دوسری طرف سٹیونسن کی فوج بھی ویلزلی کی مدد کے لیے شمال سے اورنگ آباد کی طرف بڑھی تھی۔ پرانجپے کی کتاب کے مطابق جنرل ویلزلی 29 اگست کو اورنگ آباد پہنچے۔ سٹیونسن کی فوج تھوڑی دیر سے پہنچی۔ اس سب کی منصوبہ بندی ویلزلی اور لارڈ مارننگٹن نے پہلے سے کی تھی۔

اس کے مطابق سٹیونسن اور ویلزلی کی فوجیں تقریبا آٹھ میل کے فاصلے پر تھیں۔ لہٰذا ویلزلی نے ان کا انتظار کیے بغیر شندے اور بھوسلے کی فوج کا سامنا کرنے کا فیصلہ کیا۔

مرہٹہ فوج انگریزوں سے تعداد میں بہت زیادہ تھی۔ ان کے پاس تقریباً 30 ہزار گھڑ سوار اور 12 ہزار پیادہ (تقریباً 50 ہزار) فوجی تھے۔ ویلزلی کے پاس چار ہزار برطانوی فوجی تھے اس کے علاوہ ہندوستانی فوجی تھے۔ ان کی فوج میں تقریباً پانچ ہزار گھڑ سوار تھے۔ اس کا تذکرہ پرانجپے اور میلسن نے اپنی کتاب میں کیا ہے۔

لیکن پرانجپے کی کتاب میں ایک بات اور بھی ہے۔ ان کے مطابق پونے کے رہنے والے ایلفنسٹن آسائی کی لڑائی کے دن سارا دن ویلزلی کے ساتھ تھے۔ فوج کا ذکر ان کی سوانح عمری میں ملتا ہے۔ اس کے مطابق 50 ہزار مرہٹوں کے لیے دونوں دریاؤں کے درمیان میدان میں رہنا ممکن نہیں تھا۔ اس لیے انھوں نے کہا ہے کہ دونوں طرف فوج کی تعداد کم و بیش برابر ہونی چاہیے۔

یہ خونریز جنگ تین گھنٹے تک جاری رہیGetty Images

آسائی کی جنگ کے لیے دستیاب نقشے کے مطابق دو دریا کیلانہ اور جوئی مشرق میں ملتے تھے۔ مرہٹہ فوج ان دو دریاؤں کے بیچ میں تھی۔ ایک طرح سے، اطراف میں پانی کے گھیرے نے قدرتی کھائی کی طرح فوج کی حفاظت کی۔ تمام فریقوں کا خیال کرتے ہوئے، جوئی ندی کے کنارے واقع آسائی گاؤں کی سمت لڑائی تیز ہو گئی۔ یہ آسائی کی جنگ بن گئی کیونکہ جنگ بنیادی طور پر اسی جگہ لڑی گئی تھی۔

چونکہ مرہٹہ فوج دو دریاؤں کے درمیان تھی اس لیے انگریز فوج کے لیے ان تک پہنچنا مشکل تھا۔ لیکن ویلزلی نے اندازہ لگایا کہ آس پاس کے گاؤں والے دریا کو عبور کرنے کے لیے جو راستہ استعمال کرتے ہیں اس کا استعمال کیا جائے اور انھوں نے راستہ پا کر فوج پر حملہ کرنا شروع کر دیا۔

اور یوں تین بجے کے قریب فوجیں آمنے سامنے کھڑی تھیں۔

دونوں فوجوں کے درمیان پہلا آمنا سامنا توپ کے گولے کی صورت میں ہوا۔ جنرل ویلزلی نے توپ کے گولوں سے شروعات کیں لیکن اس سے مرہٹوں کی بہادری پر کوئی فرق نہیں پڑا۔

اور پھر مرہٹوں نے فرانسیسیوں کی رہنمائی میں تیار کی گئی توپیں بھی استعمال کرنا شروع کر دیں۔ اس سے انگریزوں کو بھاری نقصان پہنچا اور آخرکار ویلزلی کو پیش قدمی کا فیصلہ کرنا پڑا۔

انگریزوں نے بہت جارحانہ حملہ کیا۔ مرہٹوں نے بھی اسی شدت سے حملہ کیا لیکن برطانوی فوج اس وقت بھی رکنے کو تیار نہیں تھیں جب مرہٹہ بندوقوں سے گولیاں برسا رہے تھے۔

انھوں نے مرہٹوں کی بندوقیں بھی ناکارہ کر دیں۔ برطانوی فوج نے مرہٹہ فوج کو پیچھے دھکیلتے ہوئے پیش قدمی شروع کر دی۔

مرہٹوں کی گوریلا چالاکی کی جھلک بھی یہاں دیکھنے کو ملی۔ ان کے سپاہیوں میں سے کچھ نے مرنے کا ڈرامہ کیا اور بندوقوں کے قریب لیٹ گئے۔ جیسے ہی برطانوی فوج ان کے قریب پہنچی، سپاہی اٹھے اور ان پر گولی برسانے لگے۔ پیچھے سے توپ کی گولہ باری اور آگے سے مرہٹہ فوج کے فائر نے انگریز فوج کو ایک بار پھر مغلوب کردیا۔

لیکن ویلزلی کی فوج ایسے بحرانوں کے لیے تیار تھی۔ یہ سمجھتے ہوئے کہ فوج مشکل میں ہے، ویلزلی اپنے گھڑسواروں کے ساتھ نکلے اور مرہٹوں پر دھاوا بول دیا جو انگریزوں پر پیچھے سے توپ برسا رہے تھے۔

دوسری طرف، میکسویل نے دریائے جوئی کے پار آگے بڑھنے والی مرہٹہ فوج پر حملہ کر دیا۔

صورت حال اب یوں تھی کہ جو پہلے انگریزوں کے ساتھ ہوا تھا اب مرہٹوں کے ساتھ ہونے لگا اور اب ان پر دونوں طرف سے حملے ہو رہے تھے لیکن پھر بھی مرہٹوں نے جو لڑائی لڑی وہ اتنی شدید تھی کہ اس میں میکسویل کی موت ہو گئی اور بڑی تعداد میں برطانوی فوجی بھی مارے گئے۔

اس لڑائی میں مرہٹوں سے زیادہ انگریزوں کا نقصان ہوا۔ لیکن یہیں سے برطانوی فوج کی پہلے سے کی جانے والی سازش عمل میں آئی۔ اس نے سندھ کی فوج میں فرانسیسی افسروں سے ہاتھ ملا لیا تھا۔

چنانچہ تین گھنٹے کے اندر انگریزوں نے جنگ جیت لی اور مرہٹہ فوج پیچھے ہٹ گئی۔ میلسن اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ اس جنگ میں برطانوی فوج کے تقریباً 428 اور مرہٹہ فوج کے 1200 سپاہی مارے گئے تھے۔

اس کے بعد شکست خوردہ فوج مرہٹہ سلطنت کے گاؤں انوا کی سمت روانہ ہوگئی۔

ممبئی، بنگلور کو آج بھی آسائی یاد ہےGetty Imagesجنگ کے مقام کی موجودہ حالت

ہندوستانی تاریخ کی سب سے اہم لڑائیوں میں سے ایک آسائی میں مرہٹوں نے لڑی تھی۔ لیکن اس کا ذکر بہت کم ملتا ہے۔

مقامی مورخ کیلاس انگلے اس بارے میں کہتے ہیں: ’وہاں صرف ایک یادگار ہے جیسے کوئی مقبرہ یا چبوترہ ہو۔ لیکن اس کی کوئی پرواہ نہیں کرتا۔ گاؤں والے بھی اسے سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ وہ صرف اتنا جانتے ہیں کہ یہاں لڑائی ہوئی تھی۔‘

انھوں نے کہا کہ ہم نے خود حکومتی سطح پر تعاون فراہم کیا لیکن اس سطح پر بہت زیادہ بے حسی پائی جاتی ہے۔ کبھی تاریخ کے طالب علم، کچھ انگریز سیاح یا دوسرے لوگ یہاں آتے ہیں۔ لیکن کوئی اور زیادہ نہیں جانتا۔

تاہم اب بھی کچھ چیزیں ایسی ہیں جو اس جنگ کی اہمیت کی گواہی دیتی ہیں۔ صرف آسائی گاؤں میں ہی نہیں بلکہ ممبئی اور بنگلور جیسے شہروں میں بھی اس لڑائی کی یادیں ہیں۔

ممبئی کے کولابا علاقے میں آسائی بلڈنگ نامی کچھ عمارتیں ہیں۔ مصنف نتن سالونکھے کہتے ہیں کہ یہ عمارتیں آسائی کی لڑائی کی یاد میں بنائی گئی تھیں۔

آرتھر ویلزلی خود ممبئی کے مالابار ہل علاقے میں رہتے تھے۔ انھوں نے یہ عمارتیں یادگار کے طور پر تعمیر کیں۔ انھوں نے کہا کہ انگریزوں نے ایسے بہت سے واقعات کی یاد میں عمارتیں بنائیں۔

اسی وقت، مدراس سیپرز یا مدراس انجینیئر گروپ (MEG) نے انگریزوں کے حق میں جنگ جیتنے میں اہم کردار ادا کیا۔ بنگلور چھاؤنی اس وقت مدراس سیپرز کے ماتحت تھی۔ اس لیے بنگلور میں ایم ای جی ہیڈکوارٹر کے قریب سڑک کو اس جنگ کی یاد میں آسے روڈ کا نام دیا گیا ہے۔

اس کا تذکرہ ایک ویب سائٹ کے ایک مضمون میں کیا گیا ہے ۔

اس کے علاوہ ممبئی کے کولابا علاقے میں آسائی بلڈنگ نامی کچھ عمارتیں ہیں۔ فی الحال یہ عمارتیں فوج کے کنٹرول میں ہیں۔

انگریزوں کے لیے راہ ہموار کرنے والی جنگGetty Images

مؤرخ پشکر سوہونی کے مطابق، اس جنگ کے بعد ہی انگریزوں نے مرہٹہ سلطنت میں توسیع شروع کی۔ اس جنگ میں انگریزوں کی فتح نے پیشوا یا مرہٹہ سلطنت کے تسلط کو کم کرنے کا کام کیا۔

بعض دانشوروں کے مطابق پیشوائیت کا خاتمہ 1818 کے درمیان کہیں شروع ہوا اور یہ جنگ یا معاہدہ وسائی جس کی وجہ سے ہوا۔

اس جنگ کے بہت سے دور رس نتائج ہوئے۔ سوہونی کا خیال ہے کہ معاہدہ وسائی اور آسائی کی شکست کی وجہ سے برطانوی سلطنت کی بنیاد مزید گہری ہوئی تھی۔

حضرت علی نے اسلامی دنیا کا دارالخلافہ مدینہ سے کوفہ کیوں منتقل کیا؟’ہیرا منڈی، دی ڈائمنڈ بازار‘: لاہور کے شاہی محلے کو یہ نام کیسے ملا؟انڈیا کے جنگل میں ’40 دن تک بھوکی پیاسی‘ بندھیامریکی خاتون: شوہر نے نہیں بلکہ خاتون نے اپنے آپ کو خود باندھ کر رکھا، پولیساسلام سمیت مختلف مذاہب میں دجال کا تصور کیا ہے؟عبد المجید دوم: آخری عثمانی خلیفہ جن کی تدفین مرنے کے 10 سال بعد پاکستان کے گورنر جنرل کی سفارش پر ہوئیصلح حدیبیہ اور فتح مبین کی الہامی خوشخبری: مکہ اسلام مخالف تحریک کے گڑھ سے اسلام کا مرکز کیسے بنا؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More