’چندریان 4‘: 2104 کروڑ روپے میں انڈیا کا چاند کی سطح پر جانے کا نیا منصوبہ کیا ہے؟

بی بی سی اردو  |  Sep 25, 2024

خلائی تحقیقکے معاملے میں انڈیا اب ایک اور اہم مرحلے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اگست 2023 میں چاند کے قطب جنوبی پر ’چندریان 3‘ نامی خلائی جہاز کی کامیاب لینڈنگ کے بعد انڈیا کی خلائی ایجنسی اسرو (یعنی انڈین سپیس ریسرچ آرگنائزیشن) کی ساری توجہ اب ’چندریان 4‘ منصوبہ پر مبذول ہے۔

ابتدائی تفصیلات کے مطابق ’چندریان 4‘ منصوبہ چاند پر جانے اور اُس کی سطح پر موجود مٹی اور چٹانوں کے نمونے اکھٹے کرنے اور چاند کی سطح کے مزید رازوں سے پردہ اٹھانے سے متعلق ہے۔ حال ہی میں وزیراعظم نریندر مودی کی زیر صدارت وفاقی کابینہ نے چندریان 4 نامی اس منصوبے کی منظوری دیتے ہوئے اس کے لیے 2,104 کروڑ انڈین روپے (لگ بھگ 7 ارب پاکستانی روپے) کا فنڈ مختص کیا ہے۔

حال ہی میں منظور ہونے والے اس منصوبے کو انڈیا کے سنہ 2040 تک چاند پر انسانوں کو بھیجنے کے ہدف کے تکمیل کی جانب اہم قدم قرار دیا جا رہا ہے۔

انڈین خلائی ایجنسی ’اسرو‘ کے سربراہ ایس سومناتھ کا کہنا ہے کہ انڈیا کا ’اگلا مرحلہ چاند پر بحفاظت پہنچنا اور بحفاظت زمین پر واپس آنا ہو گا۔ چندریان 4 پروگرام میں چندریان 3 سے زیادہ پیچیدہ اور جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا ہے۔‘

انھوں نے یہ بھی کہا کہ چندریان 4 کی کامیابی میں چیلنجز زیادہ ہوں گے، کیونکہ چاند کی مٹی کے نمونے انسانوں کے بجائے روبوٹک ٹیکنالوجی کی مدد سے حاصل کرنے ہوں گے۔

چندریان 4 منصوبہ کیا ہے؟BBCڈاکٹر وگیان: ’چاند سے نمونے جمع کرنا انڈیا کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے‘

چندریان 4 کے تحت چاند پر ہونے والی تحقیق کے مشن کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے اور انھیں دو الگ الگ راکٹوں (ایل ایم وی 3 اور پی ایس ایل وی) کے ذریعے لانچ کیا جائے گا۔ اس منصوبے کے تحت خلائی جہاز چاند پر اُترے گا، مٹی اور چٹانوں کے نمونے اکٹھے کر کے ایک جگہ جمع کرے گا اور پھر چاند سے اُتر کر زمین پر واپس آئے گا۔ ان تمام تر سرگرمیوں کو سرانجام دینے کے لیے انڈین خلائی ایجنسی نے خصوصی آوزار یعنی ’ٹولز‘ بنائے ہیں۔

اگر یہ منصوبہ کامیاب ہو جاتا ہے تو یہ منصوبہ انڈیا کو بین الاقوامی سطح پر خلائی تحقیق کے میدان میں اگلی سطح پر لے جائے گا۔ توقع ہے کہ یہ مشن منظوری کے 36 ماہ کے اندر مقامی شراکت داروں کے تعاون سے مکمل ہو جائے گااورحکام کے مطابق یہ انڈیا کو چاند پر انسانی مشن بھیجنے، قمری نمونوں کو اکھٹا کرنے، ان کی زمین پر واپسی اور سائنسی تجزیہ کے لیے اہم بنیادی ٹیکنالوجیز میں خود کفیل ہونے کے قابل بنائے گا۔

سائنٹیفک پریس آرگنائزیشن سے منسلک سینیئر سائنسدان ڈاکٹر وگیان پرسار وینکٹیسورن نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ہمیں اس ضمن میں ابتدائی معلومات چاند کے گرد چکر لگانے والے خلائی جہاز سے ملی ہیں۔ اس کے بعد جب ہم چاند پر اُترے (چندریان 3) تو ہم نے اس کا موازنہ ہمارے پاس پہلے سے دستیاب معلومات سے کیا اور اپنی معلومات کو بہتر کیا۔ اب ہم تفصیلی مطالعے کے اگلے مرحلے کے لیے چاند کی مٹی اور چٹانوں کے نمونے جمع کریں گے۔‘

انڈیا کا چاند پر جانے کا نیا مشن ’چندریان تھری‘ کیا ہے اور اس کے ذریعے کیا مقاصد حاصل ہو سکتے ہیں؟چندریان 3 کی چاند کے جنوبی قطب پر کامیاب لینڈنگ انڈیا کے لیے کیا معنی رکھتی ہے؟چندریان 3 کی چاند کے جنوبی قطب پر کامیاب لینڈنگ انڈیا کے لیے کیا معنی رکھتی ہے؟بلیو سپر مون: پاکستان سمیت دنیا کے کئی ملکوں میں چاند سُرخ کیوں ہوا؟

ڈاکٹر وینکٹیسورن کا کہنا ہے کہ چاند پر سے نمونے جمع کرنا انڈیا کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے۔

یاد رہے کہ سنہ 1967 میں ہونے والی ’مون ٹریٹی‘ کے مطابق کوئی ایک ملک چاند کی ملکیت کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ اسی لیے کسی بھی ملک کی جانب سے چاند سے واپس لائے گئے نمونے اُن ممالک کے ساتھ بھی شیئر کیے جاتے ہیں جو اِن نمونوں کا تجزیہ کرنے کے اہل ہوتے ہیں۔

کن ممالک نے اب تک چاند کی سطح سے نمونے جمع کیے ہیں؟Getty Imagesامریکہ نے سنہ 1969 سے سنہ 1972 کے درمیان انسانوں کو چاند پر بھیجا اور وہاں کی سطح پر موجود مٹی کے بہت سے نمونے اکھٹے کیے

کئی ممالک چاند سے متعلق تحقیق میں مگن ہیں۔ یہ سائنسی تجسس، نئی دریافتوں اور اس خیال سے کیا گیا ہے کہ کیا انسان مستقبل میں چاند پر آباد ہو سکتا ہے؟

کچھ ممالک نے چاند کی سطح سے مٹی کے نمونے جمع کیے ہیں جن پر تجزیے سے معلوم ہوا کہ چاند کیسے بنا، اس کی ساخت کیا ہے، اس کے اندر کیا ہے اور اس کی تاریخ کیا ہے؟

ابتدا میں امریکہ اور سوویت یونین اس تحقیق میں آگے آگے تھے۔ امریکہ نے سنہ 1969 سے سنہ 1972 کے درمیان انسانوں کو چاند پر بھیجا اور وہاں کی سطح پر موجود مٹی کے بہت سے نمونے اکھٹے کیے اور انھیں واپس زمین پر لایا گیا۔ سنہ 1970 کی دہائی میں سوویت یونین نے اپنے ’لونا‘ پروگرام کے ذریعے چاند کی مٹی کے نمونے جمع کرنے اور انھیں زمین پر واپس لانے کے لیے روبوٹس کا استعمال کیا۔ حال ہی میں سنہ 2020 میں چین نے ’چنگ ای 5‘ خلائی جہاز کی مدد سے چاند سے مٹی کے نمونے اکھٹے کیے گئے۔

انڈیا ہی نہیں روس اور جاپان جیسے ممالک بھی جلد ہی چاند سے مٹی کے نمونے لانے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔

چاند کی مٹی کے نمونوں سے چاند کے بارے میں کیا معلومات حاصل ہوتی ہیں؟

سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ چاند کا جنوبی قطب کسی زمانے میں پتھر کے پگھلے ہوئے مائع کا سمندر ہوا کرتا تھا۔ اس کی بنیاد وہ سائنسی نظریہ ہے جس کے تحت یہ خیال کیا جاتا ہے کہ تقریباً ساڑھے چار ارب سال قبل چاند کی سطح لاوے کی وجہ سے وجود میں آئی تھی۔

گذشتہ سال اگست میں انڈیا کے تاریخی خلائی مشن چندریان تھری نے چاند کے قطب جنوبی پر اُترنے کے بعد اس لاوے کے سمندر کی باقیات دریافت کی تھیں۔

یاد رہے کہ چندریان 3 کا خلائی مشن 14 جولائی 2023 کو انڈیا کی جنوبی ریاست آندھرا پردیش سے شروع ہوا تھا اور 40 دن کے طویل سفر کے بعد یہ 23 اگست 2023 کو چاند کے قطب جنوبی پر کامیابی سے اُترا تھا۔

انڈیا کے خلائی مشن کا مقصد چاند کے اس پراسرار حصے کا جائزہ لینا تھا جہاں اس سے پہلے کوئی بھی خلائی مشن نہیں پہنچا تھا۔ انڈین سائنسدانوں نے اپنی خلائی گاڑی اتارنے کے لیے چاند کے جس حصے کا انتخاب کیا وہ اس سیارے کے قطب جنوبی کا دور دراز خطہ ہے اور مستقل طور پر سائے میں رہنے کی وجہ سے اسے ’چاند کا تاریک ترین حصہ‘ بھی کہا جاتا ہے۔

سائنسدانوں کا خیال ہے کہ جب ساڑھے چار ارب سال قبل چاند بنا تھا تو اس کے بعد یہ ٹھنڈا ہونا شروع ہو گیا اور ’فیروان انورتھوسائیٹ‘ نامی ہلکی وزن کی معدنیات اس کی اوپری سطح تک پہنچ گئی۔ اسی معدن کے پگھلے ہوئے لاوے نے چاند کی موجودہ سطح کو تشکیل دیا۔

نئی دریافت میں شامل ٹیم کو اسی معدن کے شواہد چاند کے قطب جنوبی سے ملے ہیں۔

تاہم یہ دریافت سائنسی اعتبار سے نہایت اہم ثابت ہوئی کیوں کہ اس کی مدد سے ’لونر میگما اوشین‘ نامی نظریے کی تصدیق ممکن ہوئی کہ چاند کیسے بنا تھا۔

یہ معلومات مستقبل کی خلائی تحقیق کے لیے بہت اہم ہیں۔ یہ ہمیں چاند پر انسانی رہائش کے چیلنجوں اور مواقع کے بارے میں بتاتا ہے۔ اس سے آپ کو یہ معلوم کرنے میں بھی مدد مل سکتی ہے کہ آیا وہاں مفید مادے یا معدنیات موجود ہیں۔

تاہم حالیہ دریافت چندریان تھری کی جانب سے حاصل کردہ ڈیٹا کے ایک حصے پر مشتمل ہے جس کا بنیادی مقصد قطب جنوبی پر’پانی سے بننے والی برف‘ کی تلاش ہے۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ چندریان اس برف کی تلاش میں کامیاب رہتا ہے تو مستقبل میں چاند پر انسانوں کی رہائش میں مدد مل سکتی ہے۔

امریکہ کے ناسا کے ذریعہ زمین پر واپس لائے گئے مٹی اور چٹانوں کے نمونوں نے چاند کی سطح کی عمر کا اندازہ لگانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ امریکی اپولو پروگراموں کے نمونوں کے تجزیے سے معلوم ہوا کہ چاند پر بیسالٹ (سیاہ آتش فشاں چٹان) 3.6 ارب سال پرانا ہے۔

چندریان تھری: انڈین خلائی مشن کی چاند کے قطب جنوبی پر ’لاوا کے قدیم سمندر‘ کی اہم دریافتچندریان 3 کی چاند کے جنوبی قطب پر کامیاب لینڈنگ انڈیا کے لیے کیا معنی رکھتی ہے؟چندریان 3 کی چاند کے جنوبی قطب پر کامیاب لینڈنگ انڈیا کے لیے کیا معنی رکھتی ہے؟’شیو شکتی یا ہندو راشٹر‘ انڈیا میں چندریان تھری کے لینڈنگ مقام کے نام پر تنازع کیوں؟مریخ پر مائع پانی دریافت لیکن یہ وہاں انسانوں کی بستی بنانے والوں کے لیے ’اچھی خبر نہیں‘انڈیا کا چاند پر جانے کا نیا مشن ’چندریان تھری‘ کیا ہے اور اس کے ذریعے کیا مقاصد حاصل ہو سکتے ہیں؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More