جب شاہ ایران نے 1971 میں ’کراچی کے دفاع‘ کا وعدہ پورا نہ کیا

بی بی سی اردو  |  Sep 25, 2024

Getty Images

حال ہی میں ایران کے رہبر اعلیٰ سید علی خامنہ ای نے انڈیا میں مسلمانوں کی حالت زار پر اپنی رائے کا اظہار کیا۔ انھوں نے اپنے بیان میں ان ممالک کا ذکر کیا تھا جہاں مسلمانوں پر ظلم ہو رہا ہے اور اسی سلسلے میں انھوں نے فلسطین اور میانمار کے ساتھ انڈیا کا نام بھی لیا تھا۔

انڈیا نے ان کے بیان پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایرانی رہنما کا اس بارے میں تبصرہ ’نہ صرف ناقابل قبول بلکہ قابل مذمت‘ بھی ہیں۔

انڈیا اور ایران کے درمیان تعلقات بہت پرانے اور دلچسپ رہے ہیں، ان تعلقات کو اکثر ’دو تہذیبوں کا رشتہ‘ بھی کہا جاتا ہے۔

اس تحریر میں ہم یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ تاریخ میں دونوں ممالک کے تعلقات کس طرح کے نشیب و فراز سے گزرے ہیں۔

سنہ 1971 کی پاکستان انڈیا جنگGetty Imagesایران کے رہبر اعلی سید علی خامنہ ای

سنہ 1971 کی پاکستان انڈیا جنگ کے دوران ایران کے شاہ مشرقی پاکستان کے علیحدہ ہونے سے پریشان تھے۔ اس کی دو وجوہات تھیں۔

ایک تو یہ کہ پاکستان کے صوبہ بلوچستان کی سرحد ایران سے متصل ہے اور دوسری وجہ تھی کہ کہیں اس پیش رفت کے پیش نظر سوویت یونین کو اس علاقے میں مداخلت کا موقع نہ مل جائے۔

سری ناتھ راگھون اپنی کتاب ’1971: اے گلوبل ہسٹری آف کریشن آف بنگلہ دیش‘ میں لکھتے ہیں کہ ’مئی 1971 میں انڈیا کے خارجہ سکریٹری ٹی این کول، شاہِ ایران سے ملنے تہران گئے تھے۔ انڈیا کو خفیہ اطلاع ملی تھی کہ ایران نے پاکستان کو ہتھیار فراہم کیے ہیں۔

’اس وقت کے انڈین وزیر خارجہ ٹی این کول نے شاہِ ایران سے درخواست کی کہ وہ پاکستان کو ہتھیار نہ دیں اور یحییٰ خان کو سمجھائیں کہ وہ اس معاملے کو اتنا نہ بڑھائیں کہ یہ ایک بڑا بحران پیدا ہو جائے لیکن اس سے قبل ہی ایران نے یحییٰ خان پر تبدیلی کے لیے دباؤ ڈالنا شروع کر دیا تھا۔‘

محمد یونس اپنی کتاب ’بھٹو اینڈ دی بریک اپ آف پاکستان‘ میں لکھتے ہیں کہ ’شاہِ ایران نے بعد میں ذالفقار بھٹو سے کہا تھا کہ میں نے یحییٰ سے سیاسی کارروائی کرنے کی درخواست کی تھی۔ میرا مشورہ یہ تھا کہ شیخ مجیب کی عوامی لیگ پارٹی کے لیے حکومت بنانے کا راستہ ہموار ہونا چاہیے۔‘

Getty Imagesسنہ 1973 میں اس وقت کی انڈین وزیر اعظم اندرا گاندھی نے ایران کا دورہ کیا تھاشاہِ ایران کا اندرا گاندھی کو پیغام

23 جون سنہ 1971 کو انڈیا میں ایران کے سفیر نے وزیر اعظم اندرا گاندھی سے ملاقات کی اور شاہِ ایران کا زبانی پیغام دیا کہ وہ اور یحییٰ خان آپس میں بات کریں۔

پی ایم میوزیم اور لائبریری (پہلے اس کا نام نہرو میموریل تھا) میں رکھے گئے ہکسر پیپرز سے پتہ چلتا ہے کہ اندرا گاندھی کا خیال تھا کہ یہ ایک ’عجیب و غریب تجویز‘ ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔‘

انھوں نے فوراً اپنے وزرا میں سے ایک وزیر کو شاہِ ایران کی طرف بھیجا اور رضا شاہ پہلوی کو یہ کہلوایا کہ یہ مسئلہ مغربی اور مشرقی پاکستان کے رہنماؤں کے درمیان بات چیت سے ہی حل ہو سکتا ہے۔

اندرا گاندھی نے لکھا تھا کہ ’آپ کے اس پیغام پر میں صرف اتنا کہہ سکتی ہوں کہ شاید ہم آپ کو پاکستان کے پیدا کردہ مسئلے کی سنگینی کو سمجھانے میں زیادہ کامیاب نہیں ہو سکے۔‘ (ہکسار پیپرز، فائل 168)

’اگر ہم میانمار، غزہ، انڈیا کے مسلمانوں کے مصائب سے غافل ہیں تو ہم مسلمان نہیں‘: ایرانی رہبر اعلیٰ کا بیان جس پر انڈیا کو تشویش ہےکیا انڈیا یوکرین کو اسلحہ فراہم کر رہا ہے؟مشرق وسطیٰ میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے دوران انڈین وزیر خارجہ ایران کیوں جا رہے ہیں؟پاک ایران تعلقات میں اُتار چڑھاؤ: سب سے پہلے پاکستان کو تسلیم کرنے والا ملک اب اس پر حملہ آور کیوں ہوا؟پاکستان کو اسلحہ فراہم کرنے کا سوال

سنہ 1971 کی جنگ سے پہلے امریکہ نے پاکستان کو اسلحہ بھیجنے کے لیے بہت سے آپشنز پر غور کیا تھا جن میں بذریہ ایران بھی اسلحہ بھیجنا شامل تھا۔

سری ناتھ راگھون لکھتے ہیں کہ ’شاہِ ایران نے امریکی سفیر کو بتایا کہ وہ پاکستان کو لڑاکا طیارے اور پائلٹ نہیں بھیج رہے کیونکہ وہ سوویت یونین کے ساتھ تصادم نہیں چاہتے۔ انھوں نے مشورہ دیا کہ وہ طیارے اردن بھیجنے کے لیے تیار ہیں اور اردن وہ طیارے پاکستان کو بھیج سکتا ہے۔‘

محمد یونس لکھتے ہیں کہ ’دراصل ایران کا پاکستان کے ساتھ ایک خفیہ معاہدہ تھا کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان جنگ کی صورت میں کراچی کی فضائی حفاظت کا ذمہ دار ایران ہو گا۔

’یحییٰ خان نے ایران کو بھی اس معاہدے کی یاد دلائی لیکن شاہِ ایران نے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ انڈیا اور پاکستان کی لڑائی اب صرف دو ممالک کی لڑائی نہیں رہی۔‘

Getty Imagesانڈیا کے ساتھ مضبوط تعلقات استوار کرنے میں ایران کی دلچسپی

انڈیا کے معروف شاعر اور نوبل انعام یافتہ دانشور رابندر ناتھ ٹیگور نے سنہ 1932 میں ایران کا دورہ کیا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب دونوں ملکوں کے درمیان سیاسی تعلقات نہیں تھے۔ ہندوستان ایک برطانوی کالونی تھا جبکہ ایران آزاد ملک تھا لیکن برطانوی زیر اثر تھا۔

ٹیگور کو 14ویں صدی کے فارسی شاعر حافظ شیرازی کی غزلیں بہت پسند تھیں۔ انھوں نے شیراز میں ان کے مقبرے پر بھی حاضری دی۔ آزادی سے پہلے ہندوستان کی سرحدیں ایران کے ساتھ ملتی تھیں لیکن تقسیم کے بعد سب کچھ بدل گیا۔

سنہ 1953 میں جب ایران کے شاہ اقتدار میں واپس آئے تو ایران نے مغرب کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا جبکہ انڈیا نے کسی بھی ملک کے ساتھ نہ جانے کی پالیسی کا انتخاب کیا۔

ہندوستان کی تقسیم کے بعد پاکستان کو بطور آزاد ملک تسلیم کرنے والا پہلا ملک ایران تھا۔ اس نے 1965 اور 1971 کی دونوں جنگوں میں پاکستان کا ساتھ دیا تھا۔ سنہ 1969 میں ایران کے رضا شاہ پہلوی نے پہلی بار انڈیا کا دورہ کیا تھا جبکہ انڈین وزیر اعظم اندرا گاندھی نے سنہ 1973 میں ایران کا دورہ کیا۔

شاہِ ایران ایک بار پھر اکتوبر سنہ 1974 میں انڈیا کے دورے پر آئے۔ یہ دورہ اس لیے بھی اہم تھا کہ یہ انڈیا کے پہلے جوہری تجربے کے چند ماہ بعد ہوا تھا۔ اس دورے کے بعد انڈیا نے ایران سے بڑی مقدار میں خام تیل کی درآمد شروع کر دی اور دونوں ممالک کے درمیان کدرےمکھ آئرن منصوبے کو تیار کرنے کا معاہدہ بھی طے پایا۔

یاد رہے کہ کدرے مکھ آئرن منصوبہ ایران اور انڈیا کے درمیان نومبر 1975 میں طے پایا تھا جس کے تحت انڈیا نے کدرے مکھ سے ایران کو 20 سالہ مدت کے لیے 150 ملین ٹن لوہے کی ترسیل کرنا شامل تھا۔ اس معاہدے میں انڈیا کے علاقے کدرے مکھ میں لوہے کی کانوں کی ترقی بھی شامل تھی۔

Getty Imagesآیت اللہ خمینی کی عوامی حمایتاسلامی انقلاب کے بعد صورتحال

سنہ 1979 کے اسلامی انقلاب نے ایران کے داخلی و خارجی حالات کو تبدیل کر دیا لیکن کشمیر پر ایران کے موقف اور امریکہ اور اسرائیل سے انڈیا کی بڑھتی ہوئی قربت کے باوجود ایران کی نئی قیادت نے انڈیا کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے میں دلچسپی دکھائی۔

ایران سنہ 1980 اور 1990 کی دہائیوں میں انڈیا کی خام تیل کی ضروریات کو پورا کرنے والا اہم ملک بن گیا۔ دونوں ممالک نے چابہار بندرگاہ کے منصوبے اور وسطی ایشیا کو افغانستان سے ملانے کے لیے مل کر کام کرنا شروع کیا۔

طالبان کے عروج کے بعد برہان الدین ربانی کی قیادت میں اس کے خلاف لڑنے والے شمالی اتحاد کو انڈیا اور ایران دونوں کی حمایت حاصل تھی جبکہ پاکستان اور طالبان کے تعلقات مشہور تھے۔

Getty Imagesانڈیا، ایران اور افغانستان کا معاہدہچابہار بندرگاہ کی ترقی

سنہ 2003 میں ایرانی صدر محمد خاتمی کے دورہِ انڈیا کے دوران انڈیا اور ایران کے درمیان ’دہلی اعلامیہ‘ پر دستخط کیے گئے جس کے تحت علاقائی سلامتی، انسداد دہشت گردی اور باہمی تجارت کو بڑھانے پر خصوصی زور دیا گیا۔

پاکستان کو نظر انداز کر کے افغانستان تک پہنچنے کے لیے چابہار بندرگاہ کی ترقی انڈیا اور ایران تعلقات کا بنیادی نکتہ بن گئی۔ ان تعلقات کو اس وقت چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا جب امریکہ نے ایران پر پابندیاں عائد کیں اور ان پابندیوں کو نافذ کرنے کے لیے اس نے انڈیا سمیت کئی ممالک پر دباؤ ڈالا کہ وہ ایران سے تیل نہ خریدیں۔

اس سب کے باوجود چابہار منصوبے میں انڈیا کی دلچسپی برقرار رہی۔

انڈیا، ایران اور پاکستان نے تینوں ممالک کو ملانے والی تیل کی پائپ لائن کی تعمیر کے امکان پر سنجیدگی سے غور کیا لیکن بعد میں انڈیا سکیورٹی وجوہات کی بنا پر اس منصوبے سے دستبردار ہو گیا۔

ایران کے خلاف انڈیا کا ووٹ

اویناش پالیوال اپنی کتاب ’مائی اینیمیز اینمی‘ یعنی ’میرے دشمن کے دشمن‘ میں لکھتے ہیں کہ ’انڈیا نے 2009 میں انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے فورم میں ایران کے جوہری پروگرام کے خلاف ووٹ دیا تھا، جس کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں کافی تناؤ آ گیا تھا۔‘

لیکن اس کے بعد انڈیا کے سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ نے 2013 میں ایران کا دورہ کیا اور نریندر مودی نے سنہ 2016 میں ایران کا دورہ کیا۔ اس کے علاوہ اسرائیل اور سعودی عرب کے ساتھ انڈیا کے گہرے تعلقات کا ایران کے ساتھ تعلقات پر اثر پڑنا فطری تھا۔

اگرچہ ایران کے ساتھ تجارتی اور توانائی کے تعلقات کے ذریعے ان اختلافات کو ختم کرنے کی کوششیں کی گئیں لیکن دونوں ممالک کے درمیان سیاسی اختلافات برقرار ہے۔

ایما گراہم ہیریسن نے گارڈین اخبار میں ’افغان طالبان سینڈ ڈلیگیشن ٹو ایران‘ کے عنوان سے اپنے مضمون میں لکھا کہ ’افغانستان کے اندر، ایرانی خفیہ ایجنسیوں نے افغان طالبان کے ایک دھڑے اور دیگر امریکہ مخالف دھڑوں کے ساتھ ان کے سنی ہونے کے باوجود روابط استوار کیے ہیں اور انھیں مالی امداد دینا شروع کر دی ہے۔

یہ انڈین پالیسی سازوں کے لیے ایک بڑا چیلنج تھا جو طالبان اور پاکستان مخالف مہم میں ایران کے فعال تعاون کی توقع کر رہے تھے۔‘

چابہار بندرگاہ اور زرنج دلارام ہائی وے میں انڈیا کی سرمایہ کاری نے انڈیا، ایران، افغانستان سہ فریقی تعلقات کو سٹریٹجک وسعت دی۔ یہ شاہراہ ایران کو افغانستان سے ملاتی ہے اور انڈیا اس راستے افغانستان میں سامان بھیجنے کے لیے ایرانی سرزمین استعمال کر سکتا ہے۔

Getty Imagesتین سال قبل 2021 میں طالبان کی افغانستان میں واپسیافغانستان کے سلمیٰ ڈیم پر ایران کا غصہ

انڈیا نے افغانستان میں سلمیٰ ڈیم بنایا ہے جس سے نہ صرف کابل اور تہران کے درمیان کشیدگی پیدا ہوئی بلکہ ایران میں انڈیا کے خلاف ناراضگی بھی پیدا ہوئی۔

اویناش پالیوال لکھتے ہیں کہ ’ایران کو دریائے ہری رود پر بنایا گیا یہ ڈیم پسند نہیں آیا۔ سلمیٰ ڈیم کی وجہ سے افغانستان نے ایران جانے والے پانی پر کنٹرول حاصل کر لیا۔ پانی کی تقسیم کے معاملے پر دونوں ممالک کے درمیان عدم اعتماد کی اپنی ایک تاریخ ہے۔‘

اس سے قبل سنہ 1971 میں دریائے ہلمند کے پانی کی تقسیم کے معاملے پر دونوں ممالک کے سفارت کاروں کے درمیان سخت الفاظ کا تبادلہ بھی ہوا تھا۔

سنہ 1998 میں ایران نے مزار شریف میں ایرانی سفارت کاروں کے اغوا کے بعد افغانستان پر حملے کی دھمکی بھی دی تھی۔

اویناش پالیوال لکھتے ہیں کہ ’طالبان حکومت نے دریائے ہلمند کا رخ جنوب کی طرف موڑ کر ہمون ہلمند جھیل کو خشک کر دیا تھا، جس کی وجہ سے اس علاقے کی فصلیں اور جنگلی حیات تباہ ہو گئے تھے۔‘

28 فروری 2005 کو اس وقت کے ایرانی وزیر خارجہ کمال خرازی نے وزیر اعظم منموہن سنگھ سے ملاقات کی اور سلمیٰ ڈیم کی تعمیر کے بارے میں سرکاری طور پر شکایت کی۔

اس معاملے میں انڈیا نے کہا کہ ایران اور افغانستان کو ایک دوسرے سے بات کرنی چاہیے۔

انڈیا کے لیے ایران کی اہمیت

ایران اور طالبان کے سٹریٹجک اتحاد نے سوال اٹھایا کہ جب شیعہ ایران اور سنی طالبان کے درمیان معاہدہ ہوسکتا ہے تو انڈیا بھی ایسا کیوں نہیں کرسکتا؟

بہت سے معاملات پر ایران کے ساتھ کشیدہ تعلقات اور امریکی مخالفت کے باوجود دونوں ممالک نے چابہار جیسے منصوبوں پر مل کر کام جاری رکھا ہوا ہے۔

امریکہ کے ساتھ انڈیا کے بڑھتے ہوئے تعلقات اور ایران کی چین کے ساتھ بڑھتی ہوئی قربت، خلیج اور افغانستان کی علاقائی سیاست اور طالبان کی اقتدار میں واپسی کے باوجود انڈیا نے ایران سے اپنی دوری میں اضافہ نہیں کیا۔

ایران پر امریکی پابندیوں کے باوجود انڈیا اب بھی ایران سے تیل خریدنے میں پوری دلچسپی رکھتا ہے۔ مغرب کے بڑھتے ہوئے دباؤ کے پیش نظر ایران بھی انڈیا کو اپنی تیل کی برآمدات کے لیے ایک اہم خریدار سمجھتا ہے۔

سیاسی کشیدگی کے باوجود انڈیا کے لیے ایران کی سٹریٹجک اہمیت کم نہیں ہوئی ہے۔

اسرائیلی وفد کا دوحہ میں رات ’طیارے میں گزارنے کا خیال‘ اور وہ فون کال جس نے ایران کا ’متوقع حملہ‘ رکوا دیا’اگر ہم میانمار، غزہ، انڈیا کے مسلمانوں کے مصائب سے غافل ہیں تو ہم مسلمان نہیں‘: ایرانی رہبر اعلیٰ کا بیان جس پر انڈیا کو تشویش ہےپاک ایران تعلقات میں اُتار چڑھاؤ: سب سے پہلے پاکستان کو تسلیم کرنے والا ملک اب اس پر حملہ آور کیوں ہوا؟’پہلی بار ہے کہ ایران اس کارروائی کا ڈھنڈورا پیٹ رہا ہے، جیسے اسے اس پر فخر ہو‘عرب ملک اُردن نے اسرائیل پر داغے گئے ڈرون کیوں مار گرائے اور یہ ملک تاریخی اعتبار سے کہاں کھڑا ہے؟بیراکتر آقنجی: ترکی کے ڈرون نے ’ہیٹ سگنل‘ کی مدد سے ابراہیم رئیسی کے ہیلی کاپٹر کا ملبہ کیسے تلاش کیا؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More