’صفائی زور سے نہیں بلکہ تکنیک سے ہو گی‘: دودھ کے دانت صاف کرنا کیوں ضروری ہیں؟

بی بی سی اردو  |  Sep 25, 2024

Getty Images

’بچے کا پہلا دودھ کا دانت نکلتے ہی اس کی برشنگ شروع کروانا ضروری ہے، جس کا طریقہ یہ ہے کہ آپ اپنی انگلی پر زخم پر باندھنے والی صاف پٹی (گاز پیس) کو لپیٹیں اور دانت کو اوپر نیچے آہستہ آہستہ پانی کے ساتھ مساج کریں۔‘

یہ مشورہ میری طرح شاید آپ کو بھی تھوڑا چونکا دے کیونکہ بچے کے دودھ کے دانت نکلنے پر ہمارے ہاں خوشی منانے کی روایات تو موجود ہیں لیکن ان دانتوں کی صفائی پر بظاہر بیشتر گھرانوں میں بات نہیں ہوتی۔

بہت سے لوگ یقیناً یہ بات پڑھ کر حیران بھی ہوں گے کہ بھلا دودھ کے دانتوں کو بھی برش اور صاف کرنے کی ضرورت ہو سکتی ہے کیونکہ ہم میں سے اکثر لوگ دانتوں کی حفاظت تو کرنا جانتے ہیں لیکن صرف پکے دانتوں کی۔

اگر آپ چھوٹے بچوں کے والدین ہیں یا آپ کے گھر میں چھوٹے بچے ہیں تو آپ کے کانوں میں بھی ایسے جملے پڑے ہوں گے کہ ’دودھ کے دانتوں پر برش نہ کرواؤ، مسوڑھے خراب ہو جاتے ہیں‘ یا’کچے دانتوں پر کیڑا لگے تو ڈاکٹر کے پاس نہ جاؤ، پکے دانت خود ہی ٹھیک نکل آتے ہیں، کچے دانت ہیں فکر کی بات ہی نہیں‘ وغیرہ وغیرہ۔

نسل در نسل چلنے والی ان باتوں میں کوئی حقیقت بھی ہے یا یہ محض مفروصے ہیں؟ اسی گتھی کو سلجھانے کے لیے ہم پہنچے ڈاکٹر حرا نثار سے ملنے جو اسلام آباد کے شفا انٹرنیشل ہسپتال میں بطور چائلڈ ڈینٹل سرجن کام کرتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’بہت سارے ایسے والدین آتے ہیں جن سے ہم جب پوچھتے ہیں کہ کیا آپ بچوں کے منہ کی صفائی کرواتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ کیا بچوں کو بھی منہ کی صفائی کی ضرورت ہوتی ہے؟ پھر ہم بتاتے ہیں کہ کم عمری سے بچوں کو بھی منہ کی صفائی کروانا اتنا ہی ضروری ہے جتنی بڑوں کا اپنے دانتوں اور منہ کی صحت کا خیال رکھنا۔‘

BBCدودھ کا پہلا دانت نکلتے ہی گاز پیس اور پانی سے صاف کریں

دودھ کے دانتوں سے متعلق مفروضے اور ان کی حقیقتکا والدین کو اسی وقت علم ہوتا ہے جب ان کا بچہ شدید تکلیف میں آ جاتا ہے۔

والدین کے لیے یقیناً چھ، سات ماہ کی عمر کے بچے کو برش کروانا سننے میں مشکل سی بات لگ سکتی ہے لیکن ڈاکٹر حرا کا کہنا ہے کہ بچوں کو برش کروانے کا طریقۂ کار بچپن سے بڑے ہونے تک مختلف ہوتا ہے۔

’چھ ماہ کے بچے کے لیے گاز پیس یا زخم پر باندھنے والی پٹی کو اپنی صاف انگلی پر لپیٹیں اور آہستہ آہستہ بہت کم دباؤ کے ساتھ اس حصے کا مساج پانی کے ساتھ کریں اور ایسا دن میں دو بار کریں۔‘

’جب بچے کے تین سے چار دانت نکل آئیں تو بغیر ٹوٹھ پیسٹ کے ایک انتہائی نرم ٹوتھ برش سے دانتوں کو صاف کروانا شروع کریں۔ شروع میں زیادہ زور نہ لگائیں تاکہ بچے کو برش کی عادت ہو اور وہ اس سے گھبرا نہ جائے۔ زور زبردستی کرنے سے بچہ خوفزدہ ہو کر برشنگ سے کترانے لگ سکتا ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’اس کے بعد جب والدین کو محسوس ہو کہ وہ اپنے بچے کو کنٹرول کر کے برشنگ کروا سکتے ہیں تو عمر کے حساب سےبہت معمولی سی مقدار توٹھ پیسٹ کی لیں اور اس سے آہستہ آہستہ دانتوں کو صاف کریں۔‘

یاد رہے کہ بچوں کے لیے توٹھ پیسٹ علیحدہ تجویز کیا جاتا ہے جس میں فلورائیڈ کی مقدار کم ہوتی ہے۔

یہ بھی پڑھیےترکی جا کر دانتوں کا علاج کروانا نیا فیشن یا سستا مگر نقصان دہ متبادل؟امریکہ میں پکڑی جانے والی 'انسانی' دانتوں والی مچھلیآئس کریم، کولڈ ڈرنکس یا ٹھنڈا کھانے سے دانتوں میں درد کیوں ہوتا ہے؟کون سی ٹوتھ پیسٹ اور کیسا برش؟ دانتوں کی صفائی کے صحیح اور غلط طریقےGetty Imagesکمسن بچوں کو اپنی نگرانی میں برش کروائیں

بچوں کو کب تک والدین کی نگرانی میں برشنگ کی ضرورت ہوتی ہے؟ ڈاکٹر حرا نے ایک سادہ اصول بتایا کہ ’جب تک بچہ اپنے کپڑے خود پہننے کے قابل نہ ہو جائے اور جب تک وہ اپنے جوتوں کے تسمے خود نہ باندھ سکے، تب تک اس کو دانت صاف کرنے میں بھی نگرانی کرنے کی ضرورت رہتی ہی ہے۔‘

اس سوال پر کہ دانت کیسے برش کیے جائیں؟ ڈاکٹر حرا کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ تکنیک کا ہے زور کا نہیں۔

ڈاکٹرز کے مطابق نیچے والے دانتوں کو باہر سے اوپر کی طرف آہستہ آہستہ اور پھر اوپر والے دانتوں کو اوپر سے نیچے کی طرف آہستہ، آہستہ صاف کیا جائے۔ اسی طرح دانتوں کے اندر والے حصے میں بھی صفائی کی جائے۔ اس کے بعد درمیان میں دانتوں کی سطح، جس سے چبایا جاتا ہے، اس کو رگڑ کر صاف کریں۔ پھر پیسٹ کو تھوک دیں لیکن فوراً کلّی نہ کریں تاکہ فلورائیڈ تھوڑی دیر تک دانتوں پر لگا رہے۔

ڈاکٹر حرا کے مطابق ’صفائی کُشتی سے نہیں تکنیک سے ہو گی۔ تین سے پانچ منٹ تک آہستہ آہستہ دانتوں کی صفائی کریں تاکہ موثر طریقے سے صفائی ہو سکے۔‘

BBCدودھ کے دانتوں کا رنگ تبدیل ہو تو فوری چیک اپ کیوں ضروری؟

دودھ کے دانتوں کو عام زبان میں کچے دانت بھی کہا جاتا ہے اور عام تصور ہے کہ ان دانتوں کو اگر کچھ مسئلہ درپیش بھی ہو تو ان کے گرنے کے بعد پکے یا مستقل دانت ٹھیک نکل آتے ہیں۔

ڈاکٹر حرا نے اس مفروضے کی نفی کی اور بتایا کہ منہ کی صفائی نہ ہو تو بچوں کے منہ میں کیڑا لگنے کا امکان بہت بڑھ جاتا ہے اور اس وجہ سے بچوں کا کھانا پینا تک داؤ پر لگ جاتا ہے۔

ان کے مطابق اگر دانتوں کا رنگ بدلتا لگے یعنی وہ نیلا یا سیاہی مائل ہونے لگے، بچے کے مسوڑھوں پر سوجن آئے یا ان سے خون آئے یا پھر بچے کے دودھ کے دانت وقت سے پہلے گرنے لگیں تو ایسی صورت میں بچوں کو فوراً دانتوں کے ڈاکٹرکے پاس لے جائیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’والدین بچوں کو دانت کے ڈاکٹر کے پاس اس وقت لاتے ہیں جب بچہ انتہائی تکلیف میں ہوتا ہے۔‘

’اگر والدین بچوں کی برشنگ کی خود نگرانیکر رہے ہوں گے تو دانت کا مسئلہ بروقت سمجھ سکیں گے لیکن اس کے برعکس جو والدین اپنی نگرانی میں بچے کے دانت صاف نہیں کرواتے۔ انھیں اسی وقت علم ہوتا ہے جب ان کا بچہ شدید تکلیف میں ہوتا ہے۔‘

Getty Imagesپوری رات کی بوتل فیڈنگ دانتوں کی خرابی کی بڑی وجہ

بچے کے دودھ کے دانت مختلف قسم کے مسائل کا شکار ہو سکتے ہیں اور ڈاکٹر حرا کا کہنا ہے کہ ان کی ایک اہم وجہ بچوں کو منہ میں دودھ کی بوتل دے کر سلانا بھی ہے۔

ان کے مطابق ’بدقسمتی سے چھوٹے بچوں کے منہ کی صفائی کا بالکل تصور نہیں۔ دو سے تین سال تک جو بچے دودھ کی بوتل پوری رات پیتے ہیں اس کی وجہ سے ان کے دانت خراب ہوناشروع ہو جاتے ہیں۔‘

’بوتل فیڈ میں روح افزا یا چینی ڈال دی جاتی ہے اور رات میں منہ نہ صاف ہونے اور اس میٹھے دودھ کو پینے کی وجہ سے منہ کی صحت متاثر ہوتی ہے اور دانتوں میں کیڑا لگنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’بچے کو دودھ کی بوتل کے فوراً بعد تھوڑا سا پانی دیں اور پھر بعد بہت میں معمولی مقدار میں بچوں کا مخصوص ٹوتھ پیسٹ لے کر اس سے دانت آہستہ سے صاف کر دیں۔‘

چیونگ گم اور کینڈی دانتوں میں بیکٹریا کی افزائش کا ذریعہ

دودھ کے دانتوں میں کیڑے کی ایک اور بڑی وجہ بچوں کی خوراک خصوصاً میٹھی چیزیں اور کھانے پینے کی عادات ہو سکتی ہیں۔

ڈاکٹر حرا کہتی ہیں کہ ’ٹافی، چاکلیٹس، چیونگم، بسکٹ، کیک سمیت دیگر چیزیں دانتوں پر چپک جاتی ہیں اور زیادہ دیر تک دانتوں پر کوئی بھی کھانا چپکنے کی صورت میں بیکٹیریا کو افزائش کا موقع ملتا ہے اور دانتوں کو نقصان پہنچنے کا خطرہ بھی بڑھتا ہے۔‘

انھوں نے واضح کیا کہ ’عموماً منہ کا نارمل پی ایچ ( تیزابیت) نیوٹرل ہوتا ہے لیکن زیادہ مٹھاس کھانے کی صورت میں پی ایچ گرتا اور دانت خراب ہونے کا خدشہ بڑھتا ہے۔ ہم والدین کو کہتے ہیں کہ جس طرح بچے کا کھیلنے، پڑھنے کا وقت مقرر ہے اسی طرح بچے کا سنیک ٹائم مقرر کریں۔ ایسا نہیں کہ بچوں کو میٹھا نہ دیں لیکن ایک محدود مقدار میں دیں اور ہائیجین پریکٹس کو بڑھائیں۔ اگر صرف میٹھا دیں اور صفائی کا خیال نہ رکھیں تو وہ دانتوں پر برا اثر ہی ڈالے گا۔‘

Getty Imagesدودھ کے دانت کا انفیکشن اور پکے دانت کا ٹیڑھا یا آگے نکلنا

اب بات کرتے ہیں کہ کچے دانتوں کے مسائل کا آپ کے پکے دانتوں پر کیا اثر پڑ سکتا ہے؟ ماہرین کے مطابق دودھ کے دانت ڈھائی سال اور پکے دانت 14 سال کی عمرتک نکل آتے ہیں۔

ڈاکٹر حرا نے بتایا کہ ’بچے میں دودھ کے دانتتقریباً چھ ماہ کی عمر سے نکلنا شروع ہوتے ہیں لیکن اس میں دیر بھی ہو سکتی ہے۔ کچھ والدین ایسے بھی آتے ہیں کہ بچہ آٹھ ماہ کا ہو گیا اس کے دانت نہیں نکلے لیکن اس میں پریشانی کی بات نہیں۔ پکے دانت چھ سے سات سال کی عمر میں نکلنا شروع ہوتے ہیں اور 12 سے 14 سال کی عمر تک سارے پکے دانت نکل آتے ہیں۔ عقل داڑھ تھوڑی لیٹ آتی ہے لیکن عموماً باقی دانت 13 سال تک نکل آتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’جب دودھ کے دانتوں میں مسلسل انفیکشن رہے گا تو وہ پکے دانتوں پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ وہ یا تو ڈی فارم یعنی ٹیڑھا بھی ہو سکتا ہے یا اس کی بنیاد کمزور ہو سکتی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’دودھ کے دانتوں کےمسائل کا علاج کروانا ضروری ہے بصورت دیگر دانت نکالنے کی نوبت بھی آ سکتی ہے اور وقت سے پہلے اگر دودھ کے دانت کو نکالنا پڑ جائے تو سارے دانت آگے کی جانب مڑنا شروع ہو جاتے ہیں۔ پکے دانتوں کے نکلنے کی جگہ نہیں بچتی اور نتیجتاً دانت ٹیڑھے نکلتے ہیں جسے سے چبانے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے اور آخر کار انھیں بریسز یا دیگر پیچیدہ علاج کی طرف جانا پڑ سکتا ہے۔‘

انھوں نے واضح کیا کہ اگر چھوٹی عمر میں منہ یا دانتوں پر چوٹ لگ جائے یا موروثی اثرات ہوں تو بھی دانت ٹیڑھے نکل سکتے ہیں تاہم ان کی اور بھی دیگر وجوہات ہو سکتی ہیں۔

یاد رہے کہ ماہرین سال میں دو بار دانتوں کا جنرل چیک اپ کروانے کا مشورہ دیتے ہیں تاکہ بروقت کسی بھی مسئلے کو پکڑا جا سکے۔

کون سی ٹوتھ پیسٹ اور کیسا برش؟ دانتوں کی صفائی کے صحیح اور غلط طریقےامریکہ میں پکڑی جانے والی 'انسانی' دانتوں والی مچھلیترکی جا کر دانتوں کا علاج کروانا نیا فیشن یا سستا مگر نقصان دہ متبادل؟وہ ماں جو 10 برس سے صرف بستر تک محدود اپنے بیٹے کے لیے موت کا حق مانگ رہی ہیںبنگلہ دیش کی مونا جن کے دل، معدے، جگر سمیت کچھ بھی اپنی جگہ پر نہ تھابچے کا نپل منھ میں نہ لینا، چھاتی میں درد اور سوجن: دودھ پلانے والی ماؤں کو پریشان کرنے والی باتیں اور ان کے حل
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More