یحیٰی السنوار: ’سمجھوتہ نہ کرنے والی شخصیت‘ جنھوں نے اسرائیلی قید میں 22 سال گزارے

بی بی سی اردو  |  Oct 17, 2024

Getty Images

اسرائیل نے دعویٰ کیا ہے کہ اس کی فوج نے غزہ میں حماس کے سربراہ یحییٰ السنوار کو ایک کارروائی کے نتیجے میں ہلاک کر دیا ہے۔

اسرائیل کے وزیر خارجہ نے یحییٰ کی ہلاکت کا اعلان کیا ہے تاہم اس ضمن میں حماس کی جانب سے فی الحال کو بیان سامنے نہیں آیا ہے۔

اسرائیلی وزیر خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ اسرائیل کے لیے ایک اہم فوجی اور اخلاقی کامیابی ہے اور ایران کی قیادت میں بنیاد پرست اسلام کے شر کے خلاف پوری دنیا کی فتح ہے۔‘

یاد رہے کہ یحییٰ السنوار کو 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر ہونے والے حملے کا ماسٹر مائنڈ اور اسرائیل کو انتہائی مطلوب شخص قرار دیا جاتا تھا۔

گذشتہ سال حماس کی جانب سے کیے گئے ’طوفان الاقصیٰ‘ نامی آپریشن کے فوراً بعد یحییٰ سنوار منظر عام سے غائب ہو گئے تھے۔ غزہ میں جنگ کے آغاز کے فوراً بعد سے اسرائیل اپنے ہزاروں فوجی اہلکاروں، نگرانی کرنے والے ڈرونز، الیکٹرانک آلات اور مخبروں کے نیٹ ورک کی مدد سے اُن کا کھوج لگانے کی کوشش کر رہا تھا۔

اسرائیل پر حماس کے حملے کے فوراً بعد اسرائیلی فوج کے ترجمان ڈینیئل ہاگری نے اعلان کیا تھا کہ ’یحییٰ سنوار ہی کمانڈر ہے (یعنی حملے کے ماسٹر مائنڈ یحیی ہیں)۔۔۔ اور اب موت اُن کا مقدر بنے گی۔‘

اسی طرح اسرائیل کے آرمی چیف ہرزی حلوی نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ’(اسرائیل پر) اِس گھناؤنے حملے کا فیصلہ یحییٰ سنوار نے کیا تھا۔۔۔ لہٰذا اب موت اُن کا اور اُن کی کمانڈ کے نیچے کام کرنے والے تمام افراد کا مقدر بنے گی۔‘

یاد رہے کہ اسرائیل پہلے ہی حماس کے عسکری ونگ (عزالدین القسام بریگیڈ) کے رہنما محمد دیف کو گذشتہ سال جولائی میں غزہ میں ایک فضائی حملے میں ہلاک کر چکی ہے۔

یورپی کونسل آن فارن ریلیشنز سے منسلک سینیئر پالیسی فیلو ہیو لوواٹ کا خیال ہے کہ 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر ہونے والے حملے کے ماسٹر مائنڈ محمد دیف تھے لیکن یحییٰ سنوار ’ممکنہ طور پر اُس گروپ کا حصہ ہو سکتے ہیں جنھوں نے اس پوری کارروائی کی منصوبہ بندی کی۔‘

غزہ جنگ کے آغاز کے بعد سے اسرائیلی فوج کا خیال تھا کہ یحییٰ سنوار غزہ میں موجود زیر زمین سرنگوں میں اپنے محافظوں کے ساتھ پناہ لیے ہوئے تھے اور اس دوران وہ سگنلز ٹریک کیے جانے کے خوف سے وہ بہت ہی کم لوگوں کے ساتھ رابطے میں تھے۔

اُن کے منظر عام سے غائب ہونے کے باوجودرواں برس جولائی میں تہران میں اسماعیل ہنیہ کی ہلاکت کے بعد انھیں حماس کا رہنما نامزد کیا گیا اور مبینہ طور پر وہ رواں ماہ کے آغاز سے قطر میں مقیم حماس کے اُن عہدیداروں سے رابطے میں تھے جو جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے پر بات چیت کر رہے ہیں۔

جولائی میں بطور حماس ان کی تعیناتی کے بعد واشنگٹن انسٹیٹیوٹ آف نیئر ایسٹ پالیسی میں بطور ریسرچ فیلو کام کرنے والے احد یاری کا کہنا تھا کہ ’وہ (یحییٰ) انتہائی شاطر اور چالاک ہیں، ایک ایسا شخص جسے اپنی شخصیت کی کشش میں اضافہ کرنا اور اسے کم کرنا آتا ہے۔‘

احد یاری ماضی میں یحییٰ کا چار بار اسرائیلی جیلوں میں انٹرویو کر چکے ہیں۔

قطر کے دارالحکومت دوحہ میں دو دن کے طویل مذاکرات کے بعد حماس نے اسماعیل ہنیہ کی جگہ یحیٰی السنوار کو اپنا نیا سربراہ مقرر کرنے کا اعلان کیا تھا۔ یہ اعلان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا تھا جب مشرق وسطیٰ پر جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں اور ایران اپنے اتحادیوں سمیت اسماعیل ہنیہ کی ہلاکت کا بدلہ لینے کا دھمکی دے رہا تھا۔

ان کے بطور حماس رہنما چناؤ کے بعد حماس کے ایک عہدیدار نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ ’یہ اسرائیل کے لیے ایک پیغام ہے۔ انھوں نے اسماعیل ہنیہ کو قتل کر دیا جو معاملات حل کرنے میں دلچسپی رکھتا تھا۔ اب انھیں السنوار کا سامنا ہو گا اور عسکری قیادت کا۔‘

یاد رہے کہ یحییٰ سنوار سفارتی ذرائع سے مسئلہ فلسطین حل کرنے کے بجائے عسکری مزاحمت پر زیادہ یقین رکھتے تھے۔ سنوار کی ظاہری شخصیت کی بات کی جائے تو اُن کی داڑھی دودھیا سفید جبکہ بھنوئیں انتہائی سیاہ تھیں جو ان کی شخصیت کو منفرد بناتی تھیں۔

یحیٰی السنوار کا بچپن اور گرفتاریاں

یحییٰ السنوار 61 برس کے تھے اور انھیں عرف عام میں ’ابو ابراہیم‘ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ وہ غزہ کی پٹی کے جنوب میں خان یونس کے ایک پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہوئے تھے۔ اُن کے والدین کا تعلق عسقلان سے تھا اور انھیں النکبہ یعنی اسرائیل کے قیام کے نتیجے میں سنہ 1948 میں بڑے پیمانے پر جبراً اپنے آبائی علاقے چھوڑ کر ہجرت کرنی پڑی تھی۔

انھوں نے خان یونس کے ایک سیکنڈری سکول میں تعلیم حاصل کی تھی اور پھر غزہ کی اسلامک یونیورسٹی سے عربی زبان میں بیچلرز کی ڈگری حاصل کی تھی۔

احد یاری بتاتے ہیں کہ یحییٰ السنوار کے جوانی کے دنوں میں خان یونس ’اخوان المسلمون‘ نامی تنظیم کا گڑھ تھا۔

Getty Imagesالسنوار کو سنہ 1982 میں پہلی مرتبہ اسرائیل نے اس وقت گرفتار کیا تھا جب وہ 19 برس کے تھے

السنوار کو سنہ 1982 میں پہلی مرتبہ اسرائیل نے اُس وقت گرفتار کیا تھا جب وہ 19 برس کے تھے۔ انھیں ’انتہا پسند سرگرمیاں‘ میں ملوث ہونے کی پاداش میں سنہ 1985 میں دوبارہ گرفتار کیا گیا تھا۔

یہ وہ وقت تھا جب انھوں نے حماس کے وہیل چیئر تک محدود بانی شیخ احمد یاسین کا اعتماد حاصل کر لیا تھا۔

انسٹیٹیوٹ برائے نیشنل سکیورٹی سٹڈیز تل ابیب میں سینیئر ریسرچر کوبی مائیکل کا کہنا ہے کہ شیخ احمد یاسین اور یحییٰ کے درمیان قربت میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا تھا۔ یہ رشتہ السنوار کے تنظیم میں ان کے بارے میں تاثر کے حوالے سے گہرا اثر ڈالنے کا باعث بنا۔

دو سال بعد یعنی 1987 میں حماس کا قیام عمل میں آیا اور السنوار نے ہی گروپ کا داخلی سکیورٹی شعبہ قائم کیا جسے ’المجد‘ کا نام دیا گیا۔ وہ اس وقت صرف 25 سال کے تھے۔

المجد جلد ہی ایسے لوگوں کو سزائیں دینے کے حوالے سے بدنام ہوا جن پر اخلاقی جرائم کے الزامات ہوتے تھے۔ مائیکل کے مطابق انھوں نے اس دوران ایسی دکانوں پر چھاپے مارے جو ’سیکس ویڈیوز‘ رکھتے تھے اور ساتھ ہی ایسے افراد کو ہلاک کیا جن پر اسرائیل کے ساتھ تعاون کرنے کا الزام تھا۔

یاری کا دعویٰ ہے کہ اُن پر ایسے بہت سے افراد کو ہلاک کرنے کا الزام تھا جو اسرائیل کے ساتھ تعاون کرتے تھے۔ ’کچھ کو تو انھوں نے اپنے ہاتھوں سے قتل کیا اور وہ اس بات پر فخر کرتے تھے۔ اور یہ بات انھوں نے مجھ سے اور دیگر افراد سے بات کرتے ہوئے بھی کہی۔‘

حزب اللہ کے ’سست رفتار ڈرون‘ جو اسرائیلی دفاعی نظام کے لیے ’جان لیوا سردرد‘ بن چکے ہیں’اسرائیل کے دفاع‘ کے لیے بھیجا جانے والا امریکی تھاڈ میزائل ڈیفینس سسٹم کیا ہے اور کیسے کام کرتا ہے؟جوہری تنصیبات یا فوجی اہداف: اسرائیل کا ایران پر ممکنہ جوابی حملہ اور اس پر ایرانی ردعمل کیا ہو سکتا ہے؟جنگ کے شعلوں میں گِھرے مشرق وسطیٰ میں جاری تنازعے کا خاتمہ کیسے ممکن ہو گا؟

اسرائیلی حکام کے مطابق دورانِ اسیری یحییٰ السنواری نے بعد میں یہ بھی تسلیم کیا کہ انھوں نے ایک مشتبہ اسرائیلی مخبر کو سزا اس طرح دی تھی کہ اس کے بھائی کو اسے زندہ درگور کرنے کا کہا تھا اور مٹی پھینکنے کے لیے آخر پر ُان سے بیلچے کی جگہ چمچ کا استعمال کروایا تھا۔

یاری کا کہنا تھا کہ ’وہ ایسے آدمی ہیں جن کے اردگرد اُن کے حمایتی اور مداح اکھٹے ہو جاتے ہیں جن میں کچھ ایسے افراد بھی ہوتے ہیں جو صرف اس لیے ان کے ساتھ ہوتے ہیں کیونکہ وہ ان سے ڈرتے ہیں اور ان کے ساتھ لڑائی نہیں کرنا چاہتے۔‘

سنہ 1988 میں السنوار نے مبینہ طور پر دو اسرائیلی فوجیوں کے اغوا اور انھیں ہلاک کرنے کی منصوبہ بندی کی تھی۔ انھیں اسی سال گرفتار کیا گیا تھا اور اسرائیل میں انھیں 12 افراد کے قتل کے الزام میں چار مرتبہ عمر قید کی سزا سُنائی گئی تھی۔

Getty Images1987 میں حماس کا قیام عمل میں آیا اور السنوار نے ہی گروپ کا داخلی سکیورٹی شعبہ قائم کیا جسے المجد کا نام دیا گیاجیل میں گزرے سال

السنوار نے سنہ 1988 سے سنہ 2011 تک یعنی لگ بھگ 22 سال اسرائیلی جیلوں میں گزارے۔ وہاں اُن کا کچھ وقت قیدِ تنہائی میں بھی گزرا جس کے باعث ان میں عسکریت پسند عنصر مزید شدت پکڑ گیا۔

یاری کا کہنا ہے کہ ’وہ طاقت کے ذریعے اپنا دبدبہ قائم کرنے میں کامیاب ہوئے۔ انھوں نے خود کو قیدیوں میں بطور رہنما منوایا اور جیل انتظامیہ سے اُن کے لیے مذاکرات بھی کیے اور قیدیوں میں نظم و ضبط قائم کرنے کی کوشش بھی کی۔‘

اسرائیلی حکومت کی جانب سے السنوار کے کردار کے بارے میں کیے گئے تجزیے کے مطابق وہ ایک ’جابر، دبدبے والے اور بااثر رہنما ہیں جن میں برداشت، چالاکی اور ساز باز کرنے اور تھوڑے وسائل پر گزارا کرنے کی غیر معمولی صلاحیتیں ہیں۔۔۔ وہ جیل میں بھی قیدیوں کے درمیان راز رکھتے تھے، اور ان میں ہجوم کی سربراہی کرنے کی صلاحیت تھی۔‘

یاری کا السنوارکے بارے میں تجزیہ بھی دلچسپ ہے۔ یہ ان تمام ملاقاتوں کے بعد سامنے آیا ہے جو ان کے درمیان جیل میں ہوئی تھیں۔ یاری کا کہنا ہے کہ ’وہ ایک نفسیاتی مریض ہیں۔ لیکن صرف یہ کہنا کہ السنوار نفسیاتی مریض ہیں، ایک غلطی ہو گی کیونکہ پھر آپ ان کی اُس پراسرار اور پیچیدہ شخصیت کو نظر انداز کر جائیں گے جو اُن کا خاصہ ہے۔‘

یاری کہتے ہیں کہ وہ ’انتہائی شاطر اور چالاک ہیں، ایک ایسا شخص جسے اپنی شخصیت کی کشش میں اضافہ کرنا اور اسے کم کرنا آتا ہے۔‘

جب السنوار ان سے بات کرتے ہوئے یہ کہتے کہ اسرائیل کو تباہ کرنا ضروری ہے تو وہ اس بات پر زور دیتے کہ فلسطین میں یہودیوں کی کوئی جگہ نہیں۔ ساتھ ہی مذاق میں یہ بھی کہہ دیتے کہ ’ہو سکتا ہے کہ ہم آپ کے لیے گنجائش نکال لیں۔‘

جب السنوار جیل میں تھے تو انھوں نے عبرانی زبان پر عبور حاصل کر لیا تھا اور اسرائیلی اخبارات پڑھتے تھے۔ یاری کا کہنا ہے کہ سنوار ہمیشہ ان کے ساتھ عبرانی زبان میں بات کرنے کو ترجیح دیتے حالانکہ یاری خود عربی زبان بولنا جانتے تھے۔

یاری بتاتے ہیں کہ ’وہ اپنی عبرانی زبان کو بہتر کرنا چاہتے تھے۔ میرے خیال میں وہ کسی ایسے شخص سے بات کر کے زبان میں مہارت حاصل کرنا چاہتے تھے جو جیل وارڈن سے بہتر عبرانی زبان بول سکیں۔‘

Getty Imagesسنوار سنہ 2017 میں مصر کی سرحد پر

السنوار کو سنہ 2011 میں ایک معاہدے کے بعد رہا کر دیا گیا تھا۔ قیدیوں کے اس تبادلے میں 1028 فلسطینی اور اسرائیلی عرب قیدی رہا ہوئے تھے جس کے بدلے میں ایک اسرائیلی یرغمالی فوجی جیلاد شالیت کی رہائی ممکن ہوئی تھی۔

خیال رہے کہ جیلاد شالیت کو اغوا کے بعد پانچ سال تک یرغمال رکھا گیا تھا اور یہ کام حماس کے دیگر کارکنوں سمیت السنوار کے بھائی نے کیا تھا جو اس وقت بھی حماس کے سینیئر فوجی کمانڈر ہیں۔ السنوار نے اس کے بعد سے مزید اسرائیلی فوجیوں کے اغوا پر زور دیا ہے۔

اس وقت تک اسرائیل نے غزہ کی پٹی کا قبضہ ختم کر دیا تھا اور اس پر حماس کا کنٹرول تھا۔ یہ الیکشن جیتنے اور اپنے حریف یاسر عرفات کی جماعت الفتح پارٹی کو غزہ کی پٹی سے مکمل طور پر ختم کرنے کی وجہ سے ہوا۔ اس دوران الفتح پارٹی کے متعدد کارکنوں کو عمارتوں کے اوپر سے نیچے پھینکا گیا تھا۔

نظم و ضبط کی پابندی

مائیکل کے مطابق جب السنوار غزہ واپس گئے تو انھیں فوری طور پر بطور رہنما تسلیم کر لیا گیا۔ اس کا زیادہ تعلق اس بات سے تھا کہ انھوں نے حماس کے بانی لیڈر کے طور پر نام کمایا تھا اور انھوں نے اپنی زندگی کے 22 سال جیل میں گزارے تھے۔

اس کے علاوہ ’لوگ ان سے ڈرتے تھے، یہ وہ شخص ہے جس نے لوگوں کو اپنے ہاتھوں سے قتل کیا تھا۔ وہ ایک ہی وقت میں بہت ظالم، جارح مزاج اور پرکشش شخصیت کے مالک ہیں۔‘

یاری کا کہنا ہے کہ ’انھیں اچھی تقریر کرنی نہیں آتی لیکن جب وہ عوام سے بات کر رہے ہوتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ ہجوم میں سے ہی کوئی بول رہا ہے۔‘

یاری کا کہنا تھا کہ جیل سے رہا ہونے کے فوراً بعد السنوار نے فوری طور پر عزالدین القسام بریگیڈز اور چیف آف سٹاف مروان عیسیٰ سے اتحاد کر لیا۔

سنہ 2013 میں انھیں غزہ میں حماس کے سیاسی بیورو کارکن منتخب کیا گیا جس کے بعد سنہ 2017 میں انھیں اس کا سربراہ بنا دیا گیا۔

السنوار کے چھوٹے بھائی محمد نے بھی حماس کے لیے اہم کردار ادا کیا۔ وہ اسرائیل کی جانب سے متعدد قاتلانہ حملوں میں بچنے میں کامیاب ہوئے لیکن پھر حماس نے سنہ 2014 میں ان کی ہلاکت کی تصدیق کر دی۔ اس حوالے سے ایسی میڈیا رپورٹس بھی سامنے آئی ہیں کہ وہ اب بھی زندہ ہیں اور حماس کے عسکری شعبے میں متحرک ہیں اور غزہ میں سرنگوں میں چھپے ہوئے ہیں اور ممکنہ طور پر سات اکتوبر کے حملوں میں بھی کردار ادا کر چکے پیں تاہم اس حوالے سے تاحال کچھ بھی واٰضح نہیں۔

BBCیحییٰ سنوار کے چھوٹے بھائی محمد سنوار

سنوار کی مبینہ پرتشدد فطرت کے باعث انھیں ’خان یونس کا قصاب‘ کا نام دیا گیا۔ یاری کا کہنا ہے کہ ’وہ ایک ایسی شخصیت ہیں جو نظم و ضبط کا بھرپور خیال رکھتے ہیں۔ اگر آپ سنوار کی حکم عدولی کریں تو یہ اپنی زندگی داؤ پر لگانے کے مترادف ہو گا۔‘

ان پر یہ الزام بھی ہے کہ وہ سنہ 2015 میں حماس کمانڈر محمود اشتیوی کی قید، ان پر تشدد اور قتل کے ذمہ دار تھے۔ محمود اشتیوی پر بدعنوانی اور ہم جنس پرستی کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔

سنہ 2018 میں بین الاقوامی میڈیا کو دی گئی بریفنگ میں انھوں نے ان ہزاروں فلسطینیوں کے لیے حمایت کا اعلان کیا جو امریکی سفارت خانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے غزہ کی پٹی اور اسرائیل کے درمیان موجود سرحدی فصیل کو پار کرنا چاہتے تھے۔

گذشتہ برس کے اواخر میں انھوں نے دعویٰ کیا کہ وہ غرب اردن کی فلسطینی اتھارٹی کے حمایتیوں کے ہاتھوں ایک قاتلانہ حملے میں بچنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

تاہم وہ اس سے قبل اسرائیل سے جنگ بندی، قیدیوں کے تبادلے اور فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے بھی بات کرتے رہے ہیں۔ مائیکل کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنے مخالفین پر بہت زیادہ اعتدال پسند ہونے کے باعث بھی تنقید کی ہے۔

اسرائیل کا پچھتاوا اور ایران سے قربت

اسرائیلی ڈیفنس اور سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ میں سے اکثر کا یہ بھی ماننا ہے کہ السنوار کو یرغمالی اسرائیلی فوجی کے بدلے جیل سے چھوڑنا سنگین حماقت تھی۔

اسرائیلیوں کا ماننا ہے کہ انھیں یہ کہہ کر تحفظ کا جھوٹا احساس دلوایا گیا کہ حماس کو معاشی طور پر مضبوط کر کے اور مزید ورک پرمٹ دے کر تحریک کی جنگ کرنے کی صلاحیت ماند پڑ سکتی ہے تاہم یہ ایک بہت بڑی غلطی ثابت ہوئی۔

یاری کا کہنا ہے کہ ’وہ اپنے آپ کو ایک ایسے شخص کے طور پر دیکھتے ہیں جو فلسطین کو آزاد کروانا چاہتے ہیں، وہ غزہ میں لوگوں کی معاشی صورتحال بہتر کرنے اور انھیں سوشل سروسز دینے کے حق میں نہیں۔‘

سنہ 2015 میں امریکہ کی وزارتِ خارجہ نے باضابطہ طور سنوار کا نام ’عالمی دہشتگردوں کی فہرست‘ میں ڈال دیا تھا۔ مئی 2021 میں غزہ کی پٹی میں اسرائیلی فضائی حملے میں ان کے گھر اور دفتر کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ اپریل 2022 میں ٹیلی ویژن پر ایک خطاب میں انھوں نے لوگوں کو کسی بھی طرح سے اسرائیل پر حملہ کرنے کی ترغیب دی تھی۔

سنوار ایران سے بھی خاصے قریب ہیں۔ ایک شیعہ ملک اور ایک سنی تنظیم کے درمیان اتحاد کبھی بھی واضح نہیں ہوتا لیکن دونوں کا ایک ہی ہدف ہے اور یہ کہ اسرائیل کو ختم کرنا ہے اور یروشلم کو اسرائیلی قبضے سے ’آزاد‘ کروانا ہے۔

السنوار نے سنہ 2021 کی ایک تقریر میں ایران کا شکریہ بھی ادا کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’اگر ایران نہ ہوتا تو فلسطین میں مزاحمت موجودہ صلاحیتوں پر نہ چلائی جا سکتی۔‘

لوواٹ کا کہنا ہے کہ ’یہ واضح ہے کہ اگر وہ ہلاک ہوتے ہیں تو یہ بڑا نقصان ہو گا لیکن ان کی جگہ کوئی اور آ جائے گا اور اس کے لیے بھی انتظام موجود ہے۔ یہ ویسا نہیں، جیسے اسامہ بن لادن کو ہلاک کرنا تھا۔ حماس میں دیگر سیاسی اور عسکری رہنما موجود ہیں۔‘

اسماعیل ہنیہ سمیت حماس کے وہ سرکردہ رہنما جو مختلف حملوں میں مارے گئےعراق میں امریکی فضائی اڈے پر حملہ اور اسرائیل کے خلاف ’دو لہروں میں ایرانی کارروائی کا خدشہ‘حزب اللہ: ’اسرائیل کا سب سے مشکل حریف‘ ماضی کے مقابلے میں آج کتنا طاقتور ہے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More