انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے آزادی پسند رہنما یاسین ملک کی اہلیہ مشعال ملک نے انڈین اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی کو ایک خط لکھا ہے جس میں انہوں نے زور دیا ہے کہ وہ ان کے تہاڑ جیل میں قید شوہر کو صحت کی بنیادی سہولیات فراہم کرنے کے لیے پارلیمنٹ میں مباحثے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔مشعال ملک نے خط میں لکھا ہے کہ ان کے شوہر محمد یاسین ملک تین دہائیوں پرانے غداری کے ایک ایسے مقدمے کی سماعت کا انتظار کر رہے ہیں جس میں انڈین حکام کی جانب سے ان کے خلاف موت کی سزا کا مطالبہ کیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ یاسین ملک کی صحت پر پڑنے والے قید کے اثرات کا سب کو پتہ ہے اور یہ حقیقت کہ انہیں غیر انسانی حالات کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
خط کے مطابق یاسین ملک کو اپنی پسند کے ڈاکٹر کے ذریعے طبی معائنہ کرنے کے بنیادی حق سے محروم کیا جا رہا ہے اور انہیں ایسی دوائیں دی جا رہی ہیں جو ان کی صحت کے لیے مضر ہیں۔
’انڈین حکام کے غیرانسانی رویے اور سلوک کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے یاسین ملک اس ماہ کے شروع سے غیرمعینہ مدت کی بھوک ہڑتال پر چلے گئے ہیں۔‘مشعال ملک نے راہل گاندھی کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یاسین ملک 2 نومبر 2024 سے غیر انسانی سلوک کے خلاف احتجاج کے لیے غیر معینہ مدت کی بھوک ہڑتال پر ہیں اور یہ بھوک ہڑتال ان کی صحت کو مزید بری طرح متاثر کرے گی۔’یہ اس شخص کی زندگی کو خطرے میں ڈالے گی جس نے مسلح جدوجہد کو ترک کرنے کے بعد عدم تشدد کے تصور پر یقین کرنے کا انتخاب کیا۔‘خط کے مطابق یاسین ملک کو اپنی پسند کے ڈاکٹر کے ذریعے طبی معائنہ کرنے کے بنیادی حق سے محروم کیا جا رہا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)انہوں نے لکھا کہ ’راہل جی، آپ انڈین نیشنل کانگریس کے رہنما ہونے کے ناطے اس حقیقت کو جانتے ہوں گے کہ نئی دہلی میں تعینات امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین کے اہم سفارتی مشنوں کے تعاون سے انڈین سول سوسائٹی کے ارکان کے مسلسل قائل کرنے پر یاسین ملک نے امن کے حصول کے لیے سیاسی قیمت اور اس سے وابستہ واضح خطرات کو نظر انداز کرتے ہوئے، مسلح جدوجہد ترک کر دی تھی اور 1994 میں انڈیا کے ساتھ یکطرفہ طور پر جنگ بندی کا اعلان کیا تھا۔‘’خصوصی سفیروں نے حکومت کی طرف سے یہ یقین دہانی حاصل کرنے میں اہم کردار ادا کیا کہ انڈین ریاست نہ صرف ان کے اور ان کے خلاف ماضی کے تمام الزامات کو ختم کرے گی۔‘مشعال ملک نے لکھا کہ یاسین ملک کے بے داغ عدم تشدد کے نظر یے نے انڈیا کے سابق وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کو مجبور کیا کہ وہ انہیں 17 فروری 2006 کو انڈین حکومت اور جموں و کشمیر کے لوگوں کے درمیان بات چیت شروع کرنے کے لیے مدعو کریں۔ اس ملاقات میں یاسین ملک نے امن کے عمل میں اپنی بھرپور حمایت کی پیشکش کی۔’ 2019 سے یعنی آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد یاسین ملک کو بی جے پی حکومت تمام ناقابل تصور طریقوں سے نشانہ بنا رہی ہے۔ ان پر 35 سال پرانے مقدمے میں ہندوستان کے خلاف جنگ چھیڑنے کا مقدمہ چلایا جا رہا ہے اور اب این آئی اے کے ذریعہ ان کے خلاف دائر من گھڑت مقدمات میں ان کے لیے سزائے موت کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔‘مشعال ملک نے راہل گاندھی کو خط میں لکھا کہ ’آپ پر لوک سبھا میں قائد حزب اختلاف ہونے کے ناطے سچ بولنے کی بہت بڑی ذمہ داری ہے، چاہے یہ کتنا ہی تلخ یا سیاسی طور پر نقصان دہ کیوں نہ ہو۔ مجھے پورا بھروسہ ہے کہ آپ اس ذمہ داری کو نبھانے کے اہل بھی ہیں جو انڈین عوام نے آپ کے کندھوں پر ڈالی ہے۔‘ ’اس لیے میں آپ سے درخواست کرتی ہوں کہ پارلیمنٹ میں اپنا اعلیٰ اخلاقی اور سیاسی اثر و رسوخ استعمال کریں اور یاسین ملک کے معاملے میں بحث شروع کریں۔‘’میں اپنی 12 سالہ بیٹی رضیہ سلطانہ کے کانوں کے لیے آپ کے متوقع قائدانہ کردار کی خبر کا بے تابی سے انتظار کر رہی ہوں جس نے ایک دہائی سے زیادہ عرصے میں اپنے والد کو نہیں دیکھا۔‘