Getty Images
سعودی عرب میں ایک فیشن شو عالمی سطح پر اس وقت متنازع ہوا جب بعض سخت گیر حلقوں نے دعویٰ کیا کہ اس میں موجود شیشے کی مکعب نما سکرینز خانہ کعبہ سے مماثلت رکھتی ہیں۔
یہ سکرین سعودی عرب میں ریاض سیزن نامی سالانہ ثقافتی تہوار کے دوران ایک فیشن شو میں نظر آئی اور اس پر عرب میڈیا سمیت پوری دنیا میں ہی سوشل میڈیا پر کافی ردعمل دیکھا گیا ہے۔
سعودی میڈیا کی سرکاری نشریات کے دوران یہ الزام عائد کیاگیا کہ ریاض سیزن پر تنقید کے پیچھے اخوان المسلمین جیسے سخت گیر گروہ ہیں جو سعودی عرب اور اس کے اصلاحات کے منصوبے کو نشانہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
سعودی عرب کے وژن 2030 نامی منصوبے کے تحت نہ صرف تیل پر معاشی انحصار سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش ہو رہی ہے بلکہ ملک میں سماجی اصلاحات، خاص کر خواتین کے حقوق، کے لیے بھی کام ہو رہا ہے۔
مگر گذشتہ کئی روز سے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) سمیت کئی سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ایسی پوسٹیں گردش کر رہی ہیں جن میں ریاض کی تفریحی سرگرمیوں کو ’توہین آمیز‘ قرار دیا گیا ہے۔
اس پر سعودی عرب میں افواہوں کو روکنے کے لیے قائم ایک تنظیم نے کہا کہ فیشن شو کے دوران نظر آنے والی چیز صرف ’شیشے کا ایک مکعب‘ تھی۔
سعودی عرب کی اینٹی ریومر اتھارٹی نے اس بات کی واضح تردید کی ہے کہ شو کے دوران خانہ کعبہ کی تصویر استعمال کی گئی۔
اتھارٹی کا کہنا تھا کہ یہ صرف شیشے کی کیوب کی شکل کا ڈھانچہ تھا، جس کا خانہ کعبہ سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ یہ اتھارٹی ایک آزاد سعودی میڈیا پلیٹ فارم ہے جو آن لائن افواہوں پر نظر رکھتا ہے اور ان کی باضابطہ تردید کرتا ہے۔
Reutersریاض میں گذشتہ دنوں معروف امریکی گلوکارہ جینیفر لوپیز نے بھی پرفارم کیا تھاریاض کے فیشن شو میں ’کعبہ جیسی‘ سکرین پر تنقید کیوں ہوئی؟
کئی بنیاد پرست اسلامی شخصیات نے اس واقعے پر تبصرہ کیا ہے اور کچھ مبصرین نے یہ بھی کہا کہ یہ نمائش ’شیطانی‘ تھی۔
اس تقریب کی تصاویر اور ویڈیوز ٹیلی گرام اور فیس بک کے ذریعے انٹرنیٹ پر شیئر کی جا رہی ہیں۔
خانہ کعبہ کا محاصرہ: 43 سال پہلے کیا ہوا تھا؟کلیدِ کعبہ کے محافظ کی وفات: وہ خاندان جو ’ہمیشہ کے لیے‘ خانہ کعبہ کی چابی کا رکھوالا ہےوہ انجینیئر جنھوں نے مسجد الحرام اور مسجد نبوی کے ڈیزائن کے عوض سعودی حکومت سے معاوضہ لینے سے انکار کیا’مرشد، امریکی سفارتخانہ جل رہا ہے۔۔۔‘ کعبہ کا محاصرہ اور جنرل ضیا کا سائیکل پر راولپنڈی کا دورہ
بعض صارفین نے اس فیشن شو اور ریاض میں ثقافتی تقاریب کو غیر اخلاقی قرار دیا جبکہ بعض نے اس واقعے کی بنیاد پر سعودی شاہی خاندان اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کو اپنی تنقید کا ہدف بنایا۔
شام میں مقیم عالم عبدالرحمان الادریسی نے دعویٰ کیا کہ محمد بن سلمان کے ایما پر فیشن شو میں خواتین اس ’کعبہ نما شکل‘ کے گرد چکر لگا رہی ہیں۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ یہ ’دجال کو بلانے کی شیطانی حرکت ہے۔‘
یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ ایسی کئی پوسٹیں دنیا بھر میں مسلح انتہا پسند گروہوں کے ساتھ ہمدردی رکھنے والے بعض اکاؤنٹ شیئر کر رہے تھے۔
پاکستان میں بھی بعض صارفین نے اس معاملے پر تبصرے لکھے۔ جیسے ملا حقانی نامی صارف کا کہنا تھا کہ ’ریاض میں فیشن ویک کی تقریب میں خانہ کعبہ کی توہین کی گئی ہے۔ انھوں نے جان بوجھ کر اس جگہ کو کعبہ جیسا ڈیزائن کیا ہے اور اس کے گرد نیم برہنہ خواتین سے چکر لگوایا گیا۔‘
مونا نامی ایک صارف کہتی ہیں کہ ان کے پاس خانہ کعبہ کا ماڈل تھا جہاں انھوں نے گلوکاروں اور رقاصوں کی تصاویر آویزاں کیں۔‘
سوشل میڈیا پر ایسی تحریف شدہ تصاویر بھی گردش کر رہی ہیں جن میں اس فیشن شو کے دوران مجسمے دیکھے جاسکتے ہیں۔
بعض صارفین نے دوسروں کو یہ سمجھانے کی بھی کوشش کی کہ ’ہر کیوب شکل کی چیز کعبہ نہیں ہوتی۔‘ شہناز سولنگی نے لکھا کہ ’کنسرٹ میں اس کیوب سکرین کو کعبہ قرار دے (کچھ) پاکستانی سعودی عرب کے خلاف مہم چلا رہے ہیں۔‘
سعودی میڈیا کا سخت ردعمل
سعودی چینل العربیہ ٹی وی نے 17 نومبر کو اپنی نشریات کے دوران کہا کہ سوشل میڈیا پر ’نامعلوم اور مشکوک اکاؤنٹس‘ نے ’سعودی منصوبوں پر حملہ آور ہونے کے لیے‘ ایک مہم شروع کی تھی۔
العربیہ کی ویب سائٹ پر ایک تحریر میں لکھا گیا ہے کہ سوشل میڈیا پر ریاض سیزن کو تنقید کرنے والی مہم کا مقصد ’سعودی سافٹ پاور اور ویژن 2030 پروگرام کو مسخ کرنے کی کوشش ہے۔‘
خیال رہے کہ اکتوبر میں شروع ہونے والے سالانہ ثقافتی پروگرام پر ابتدا سے ہی آن لائن منفی تبصرے کیے جا رہے ہیں۔ بعض حلقوں نے تنقید کرتے ہوئے اسے غزہ اور لبنان میں جاری جنگ سے جوڑا تھا کہ وہاں لوگوں کی اموات کے باوجود ریاض میں ثقافتی تقاریب جاری ہیں۔
تاہم العربیہ کی نشریات میں سعودی بادشاہت کے حامی کالم نگار عبداللہ الجدایہ کا کہنا تھا کہ اس مہم کے پیچھے سعودی عرب میں کالعدم ’اخوان المسلمین اور دنیا بھر میں اس کے رکن ہیں۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ تقاریب میں ناچ گانے پر تنقید کیوں ہو رہی ہے تو جدایہ نے کہا کہ تمام تقاریب ایک دوسرے سے جڑی ہوئی تھیں اور ان کا مقصد تفریح تھا تاکہ مسلمانوں کے چہروں پر مسکراہٹ لائی جا سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’تاریخ میں مسلمانوں نے جنگیں، امن اور ہلاکتیں دیکھی ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ زندگی پوری طرح رُک جائے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ فلسطینی علاقوں میں کارروائیاں ’گذشتہ روز شروع نہیں ہوئیں اور نہ ہی 7 اکتوبر سے شروع ہوئی ہیں۔ فلسطین قریب 80 سال سے مقبوضہ ہے۔‘
جدایہ نے کہا کہ سعودی عرب ایک ’بڑی تبدیلی‘ سے گزر رہا ہے اور ’ایسے کئی لوگوں سے نمٹا گیا ہے جنھوں نے گذشتہ ادوار میں فائدے اٹھائے اور تبدیلی کی مخالفت کی۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ فیشن شو پر شیشے کی سکرین پر کعبہ سے مماثلت کی بنیاد پر تنقید کیوں ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ ’القائدہ وہ پہلا گروہ تھا جس نے سعودی عرب کو دو (مقدس) مساجد والے ملک کے طور پر محدود کرنے کی کوشش کی تھی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’کیا دنیا میں کوئی سمجھدار شخص ہے جو یہ کہے کہ کوئی بھی کیوب یا چوکور چیز کعبہ کی توہین ہے؟‘
انھوں نے دعویٰ کیا کہ یہ لوگ ’صرف دو مقدس مساجد کا معاملہ چھیڑ کر سعودی عرب کو شرمندہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘
خانہ کعبہ کا محاصرہ: 43 سال پہلے کیا ہوا تھا؟کلیدِ کعبہ کے محافظ کی وفات: وہ خاندان جو ’ہمیشہ کے لیے‘ خانہ کعبہ کی چابی کا رکھوالا ہےوہ انجینیئر جنھوں نے مسجد الحرام اور مسجد نبوی کے ڈیزائن کے عوض سعودی حکومت سے معاوضہ لینے سے انکار کیاغلافِ کعبہ: سونے، چاندی اور ریشم کے دھاگوں سے بنے ’کسوہ‘ کی تبدیلی کی روایت جو صدیوں سے چلی آ رہی ہےدو پراسرار جزیرے، جنگ اور تباہ حال معیشت: سعودی عرب نے ماضی کی تلخیاں بھلا کر مصر میں سرمایہ کاری کیوں کی؟اسلام سمیت مختلف مذاہب میں دجال کا تصور کیا ہے؟