وہ فلموں میں مواقع نہ ملنے پر اپنی والدہ اور سوتیلے والد کے ساتھ رہنے کے لیے مالٹا جانے کی تیاری کر رہی تھی۔ اُن کا ملکوتی حسن بھی اُن کے کام نہیں آ سکا تھا اور وہ ایک سٹار نہیں بن سکی تھیں۔یہ وہ وقت تھا جب عظیم دیو آنند اپنی فلم ’ہرے راما ہرے کرشنا‘ کے لیے اداکاروں کی تلاش میں تھے۔ انہوں نے اس فلم کے لیے اُن سے رابطہ کیا، وہ سکرین ٹیسٹ میں کامیاب رہیں اور یوں اُنہیں اس فلم کے لیے منتخب کر لیا گیا مگر فلم کی ریلیز میں تاخیر نے اُن کے خواب ایک بار پھر چکناچور کر دیے اور وہ دوبارہ اپنا سامان پیک کرنے لگیں۔اُس وقت دیو جی نے اُن کی ڈھارس بندھائی اور وہ کچھ عرصہ مزید انڈیا میں ٹھہرنے پر تیار ہو گئی۔ فلم ریلیز ہوئی تو یہ بلاک بسٹر رہی اور یوں اُن کا ایک ’سٹار‘ کے طور پر جنم ہوا۔یہ بالی وڈ کی اُس اداکارہ کی کہانی ہے جس نے روایات سے بغاوت کرتے ہوئے اپنی بولڈ اداکاری سے فلم بینوں کو چونکا دیا۔یہ زینت امان کے اُس طلسماتی سفر کا بیاں ہے جس کا آغاز تو اُن کے مس انڈیا کے مقابلے میں رنر اَپ رہنے اور ازاَں بعد مس ایشیا پیسیفک انٹرنیشنل بننے سے ہوا تھا مگر انہیں ’ہرے راما ہرے کرشنا‘ نے لاکھوں دلوں کی دھڑکن بنا دیا۔ اِس فلم کا گیت ’دم مارو دم‘ ہی اُن کے تعارف کے لیے بہت ہے۔ اس فلم میں اداکارہ نے ایک ہپی کا کردار ادا کیا تھا۔زینت امان نے انسٹاگرام پر اپنی ایک پوسٹ شیئر کرتے ہوئے اس فلم کی یادیں تازہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ’آپ جب بالی وڈ کی طرح کی کسی انڈسٹری میں داخل ہو رہے ہوں تو ہر اداکار کی طرح ایک سٹار میکر کی امید کرتے ہیں۔ کوئی ایسا شخص جو آپ میں موجود صلاحیت اور جذبے کو دیکھ سکے جس کے بارے میں اُس وقت تک غالباً آپ ہی آگاہ ہوتے ہیں۔ شاذ ہی اداکار اس قدر خوش قسمت ہوتے ہیں جو ایسا شخص تلاش کرنے میں کامیاب رہتے ہیں لیکن میں تھی۔ میرے سٹار میکر دیوآنند تھے۔‘خیال رہے کہ اداکارہ ’ہرے راما ہرے کرشنا‘ سے قبل ’دی ایول وِد اِن‘ میں دیو آنند کے ساتھ کام کر چکی تھیں جب کہ انہوں نے فلم ’ہلچل‘ میں بھی کام کیا تھا۔ اس فلم کے ہدایت کار او پی رلہن تھے جو غیرمنقسم ہندوستان کے شہر سیالکوٹ میں پیدا ہوئے تھے جب کہ اداکار کبیر بیدی نے بھی اپنا ڈبییو اسی فلم سے کیا تھا جن کی جنم بھومی لاہور ہے۔بات او پی رلہن کی ہو رہی تھی تو انہوں نے دیوآنند سے ’ہرے راما ہرے کرشنا‘ کے لیے زینت امان کی سفارش کی تھی۔اس بارے میں اداکارہ نے لکھا تھا کہ ’یہ سال 1970 تھا اور میرا خیال ہے کہ او پی رلہن میرے لیے بہت زیادہ دُکھی تھے۔ انہوں نے مجھے ’ہلچل‘ میں کردار دیا تھا جس کا بہت زیادہ فائدہ نہیں ہوا اور میں پہلے ہی اپنی والدہ اور سوتیلے والد کے ساتھ مالٹا منتقل ہونے کے لیے سامان پیک کر رہی تھی۔ اُس وقت دیو صاحب اور اُن کی نیوکیتن کی ٹیم ’ہرے راما ہرے کرشنا‘ کے لیے کاسٹنگ کر رہی تھی۔ یہ اُن (او پی رلہن) کی فیاضی تھی کہ انہوں نے اُن (دیوآنند) سے مجھ سے ملاقات کرنے کے لیے کہا۔‘بالی ووڈ کی یہ باغی اداکارہ آج ہی کے روز 19 نومبر 1951 کو بمبئے (موجودہ ممبئی) میں پیدا ہوئیں (فوٹو: اے ایف پی)یوں زینت امان کو بالی وڈ میں وہ بریک مل گئی جس کی وہ منتظر تھیں۔ اس فلم نے انہیں بہترین معاون اداکارہ کا فلم فیئر ایوارڈ دلایا جس کے بعد پروڈیوسرز اُن سے اپنی فلموں کے لیے وقت لینے کے لیے قطار میں کھڑے نظر آتے۔بالی ووڈ کی یہ باغی اداکارہ آج ہی کے روز 19 نومبر 1951 کو بمبئے (موجودہ ممبئی) میں پیدا ہوئیں۔ والد امان اللہ خان بھوپال کے شاہی خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور بھوپال کے آخری نواب حمیداللہ خان اُن کے رشتے میں ماموں لگتے تھے۔اداکارہ نے گذشتہ برس فادرز ڈے کے موقع پر اپنے والد سے متعلق یادوں کو تازہ کرتے ہوئے انسٹاگرام پر لکھا تھا کہ ’میرے والد امان اللہ خان شاہی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ اُن کی والدہ اختر جہاں بیگم ریاستِ بھوپال کے آخری نواب حمیداللہ خان کی فرسٹ کزن تھیں۔ ‘اس حوالے سے زینت امان نے سوشل میڈیا پر لکھا تھا کہ ’امان صاحب، جس نام سے وہ جانے جاتے تھے، کے آٹھ بہن بھائی تھے اور وہ بھوپال میں ایک آسودہ زندگی گزار رہے تھے۔ وہ اپنی جوانی میں بہت زیادہ وجیہہ تھے تو وہ اور اُن کے ایک کزن الناصر نے سنیما میں قسمت آزمانے اور شہرت حاصل کرنے کے لیے ممبئی کا رُخ کیا۔ اُن کی شہر میں ہونے والی ایک پارٹی میں میری والدہ سے ملاقات ہوئی تھی۔ اُن میں محبت پروان چڑھی اور وہ جلد ہی شادی کے بندھن میں بندھ گئے۔ ‘انہوں نے اس پوسٹ میں مزید لکھا تھا کہ ’اس میں حیرانی کی بات نہیں ہے کہ ان دونوں کے ہی خاندانوں نے اس رشتے کو قبول نہیں کیا۔ والدہ ہندو تھیں اور والد مسلمان۔ امان صاحب نے مختصر فلمی کیریئر کے بعد بطور مصنف اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔ انہوں نے دیگر فلموں کے علاوہ ’مغلِ اعظم‘ اور ’پاکیزہ‘ کے سکرین پلے اور مکالمے لکھے۔ میں محسوس کرتی ہوں کہ اُن کو وہ پذیرائی نہیں ملی جس کے وہ مستحق تھے۔‘زینت امان کے والدین کی اُن کے بچپن میں ہی طلاق ہو گئی تھی اور وہ ابھی تیرہ برس کی ہی تھیں جب اُن کے والد چل بسے تھے۔ وہ اداکاری کرنے سے قبل امریکا کی یونیورسٹی آف سدرن کیلیفورفنیا میں زیرِتعلیم تھیں مگر گریجویشن مکمل نہ کر سکیں۔’ہرے راما ہرے کرشنا‘ کی ریلیز کے بعد اداکارہ نے 70 کی دہائی میں فلموں ’یادوں کی بارات‘، ’روٹی کپڑا اور مکان‘، ’اجنبی’، ’وارنٹ‘، ’چوری میرا کام‘، ’دھرم ویر‘، ’چھیلا بابو‘، ’ہم کسی سے کم نہیں‘، ‘ڈان‘ اور ’دی گریٹ گیمبلر‘ میں اہم کردار ادا کیے۔ 1978 میں فلم ’ستیم شیوم سندرم‘ زینت امان کے کیریئر میں ایک اہم سنگِ میل ثابت ہوئی (فوٹو: آئی ایم بی ڈی)سال 1978 میں فلم ’ستیم شیوم سندرم‘ زینت امان کے کیریئر میں ایک اہم سنگِ میل ثابت ہوئی جس کے لیے انہیں بہترین اداکارہ کے فلم فیئر ایوارڈ کے لیے بھی نامزد کیا گیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ اس فلم کے لیے راج کپور کا پہلا انتخاب نہیں تھیں۔زینت امان سوشل میڈیا پر اپنی زندگی کے یادگار لمحات اور یادیں اپنے چاہنے والوں کے ساتھ گاہے بگاہے شیئر کرتی رہتی ہیں۔ ایک پوسٹ میں انہوں نے لکھا تھا کہ ’راجی جی (راج کپور) کی اپنے فن کے بارے میں سوچ عام ڈگر سے ہٹ کر تھی۔ اور وہ فلم بنانے کے لیے پرجوش تھے۔ وہ کئی دنوں تک ہمیں اس فلم کی کہانی سے محظوظ کرتے رہے جس میں ایک آدمی ایک عورت کی آواز سے محبت کرنے لگتا ہے لیکن اس کی ظاہری شکل و صورت قبول کرنے میں ناکام رہتا ہے۔ وہ بے حد ولولہ انگیز جذبے کے ساتھ بولتے رہے لیکن کبھی یہ اشارہ بھی نہیں دیا کہ میں اس فلم کا حصہ بن سکتی ہوں۔’میں پہلے ہی سٹار بن چکی تھی اور ان کی جانب سے مجھے کاسٹ کرنے میں دلچسپی نہ لیے جانے نے مجھے بے چین کرنا شروع کر دیا۔ میں جانتی تھی کہ میرا جدید تاثر، جیسا کہ منی اسکرٹس اور بوٹس، اس کے ذمہ دار تھے۔ چناں چہ میں نے معاملات کو اپنے ہاتھ میں لینے کا فیصلہ کیا۔‘وہ آگے جا کر لکھتی ہیں کہ ’میں نے اپنی ترکیب لڑائی۔ ایک شام شوٹنگ سے جلد فارغ ہونے کے بعد، میں نے اپنے ڈریسنگ روم میں تیس منٹ اضافی گزارے تاکہ میں اپنے خیال کے مطابق روپا کا روپ اختیار کر سکوں۔’میں نے گھاگھرا چولی پہنے، بالوں میں پراندا لگایا اور اپنے چہرے پر گوند کے ساتھ ٹشو لگا کر اسے خراب کیا۔ مجھے کاٹیج کے دروازے پر جان نے خوش آمدید کہا جو راجی کا خاص تھا۔ اس نے مجھے حیرت سے دیکھا لیکن میری درخواست پر عمل کیا، ’صاحب جی کو کہو کہ روپا آئی ہے۔‘فلم میں زینت امان نے روپا کا مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ یہ فلم اداکارہ کے بولڈ کاسٹیومز اور ’فحاشی‘ کے الزامات کے باعث تنازعات کا شکار رہی۔ اور تو اور دیو آنند نے بھی فلم پر کڑی تنقید کی تھی۔ایک موقع پر انہوں نے بتایا کہ ’بالی وڈ کی تاریخ سے واقفیت رکھنے والا ہر شخص یہ جانتا ہوگا کہ ‘ستیم شیوم سندرم‘ میں میرے کردار کو لے کر کافی تنازع اور ہنگامہ ہوا تھا۔ میں ہمیشہ فحاشی کے ان الزامات پر مسکرا دیتی رہی ہوں کیوں کہ میں نے کبھی انسانی جسم میں کچھ فحش نہیں پایا، نہ ماضی میں اور نہ اب۔‘فلم ’عبداللہ‘ تو فلاپ ہوئی مگر زینت امان اور سنجے خان کی محبت کے چرچے زبان زد عام ہو گئے (فوٹو: انڈین ایکسپریس)زینت امان ایک جانب اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں کامیاب ہو رہی تھیں تو اُن کی ذاتی زندگی اُس قدر ہی تلاطم خیز رہی۔ اُن کی اداکار اور ہدایت کار سنجے خان سے ملاقات فلم ’عبداللہ‘ کے سیٹ پر ہوئی اور دونوں میں قربتیں بڑھنے لگیں۔ یہ فلم تو فلاپ ہوئی مگر زینت امان اور سنجے خان کی محبت کے چرچے زبان زد عام ہو گئے۔یہ افواہیں بھی اُڑیں کہ دونوں نے سال 1978 میں جیسلمیر میں خفیہ طور پر شادی کر لی تھی۔ سنجے خان پہلے سے ہی شادی شدہ تھے، جو اس خبر کی تردید کرتے رہے مگر برسوں بعد ایک انٹرویو میں اداکارہ نے اس شادی کی تصدیق کی تھی۔انڈین ویب پورٹل ’پیپنگ مون‘ کے مطابق، ’سنجے خان ایک بار ہوٹل میں ایک پارٹی میں شریک تھے جب زینت امان کو اس بارے میں معلوم ہوا تو وہ اُن سے ملاقات کرنے کے لیے چلی آئیں۔ سنجے خان انہیں گھسیٹتے ہوئے کمرے میں لے گئے اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا۔‘کہا جاتا ہے کہ زینت امان کی دائیں آنکھ کی بینائی متاثر ہونے کی وجہ بھی یہ تشدد ہی بنا۔ اداکارہ نے تو یہ کہتے ہوئے اس معاملے سے جان چھڑا لی کہ انہوں نے زندگی میں آگے بڑھ جانے کے لیے اس دور کی یادوں کو بھول جانے کا انتخاب کیا ہے۔تاہم، سنجے خان نے پوڈکاسٹ پریزنٹر ہرشکیش کنن کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے زینت امان کو ’طمانچہ رسید نہیں‘ کیا تھا اور یہ کہا تھا کہ ’یہ میرے خلاف ‘ایک پی آر حملہ تھا جو کسی طوفان کی طرح میری اور آیا۔‘انہوں نے اداکارہ کی آنکھ زخمی کرنے کے الزامات پر بھی بات کی تھی اور کہا تھا کہ یہ ’توہین آمیز‘ ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ سنجے خان نے اپنی سوانح عمری ’میری زندگی کی بہترین غلطیاں‘ میں بھی اس واقعہ کا ذکر نہیں کیا بلکہ انہوں نے کتاب میں خود کو اور زینت امان کو اپنی فلم ’عبداللہ‘ کے کرداروں کی نسبت سے ’شہزادہ‘ اور ’شہزادی‘ کہہ کر مخاطب کیا ہے۔زینت امان نے اداکار مظہر خان سے شادی کر لی اور فلموں سے ایک طرح سے بریک لے لی (فوٹو: ہندوستان ٹائمز)زینت امان اس ناکام محبت کے بعد آگے برھ گئیں۔ انہوں نے آنے والے برسوں کے دوران کئی کامیاب فلمیں دیں جن میں ’علی بابا اور 40 چور‘، ’قربانی‘، ’دوستانہ‘، ’لاوارث‘، ’تیسری آنکھ‘، ’مہان‘، ’پکار‘ اور ’جاگیر‘ نمایاں ہیں جس کے بعد انہوں نے اداکار مظہر خان سے شادی کر لی اور فلموں سے ایک طرح سے بریک لے لی۔ اس شادی کا تجربہ بھی زینت امان کے لیے تلخ رہا۔اداکارہ نے سیمی گریوال کو دیے گئے اپنے ایک پرانے انٹرویو میں بتایا تھا کہ ’شادی کے بعد پہلے سال ہی مجھے یہ ادراک ہو گیا کہ مجھ سے غلطی ہوگئی ہے لیکن یہ فیصلہ چوں کہ میرا تھا اور میں نے یہ (شادی) سب کی مرضی کے خلاف کی تھی تو میں نے اس رشتے کو قائم رکھنے کا فیصلہ کیا۔‘’میں یہ نہیں کہہ رہی کہ یہ اُن (مظہر خان)کے لیے بھی بہترین فیصلہ تھا۔ یہ پہلے سال سے ہی مشکل تھا کیوں کہ میں امید سے تھی اور مظہر یہاں نہیں تھے۔ اس وقت سٹارڈسٹ میگزین میں اس عورت کے بارے میں طویل مضمون چھپا تھا جس سے مظہر کا افیئر تھا۔ یہ ایک حقیقت ہے۔‘انہوں نے مزید کہا تھا کہ ‘میرا پہلا بیٹا پیدا ہوا تو میں اس رشتے سے الگ ہونا چاہتی تھی اور ہم نے اس بارے میں بات بھی کی لیکن میں نے سوچا میرے بچے کو ایک موقع ملنا چاہیے اور میں نے رشتہ قائم رکھا۔‘دونوں کا رشتہ اُس وقت ختم ہوا جب مظہر خان سال 1998 میں چل بسے مگر زینت امان نے اپنے شوہر کی طویل علالت کے دوران ایک مشرقی پتی ورتا بیوی کا کردار بخوبی ادا کیا۔انہوں نے اس بارے میں اپنے اسی انٹرویو میں کہا تھا کہ ‘میں نے اپنی پوری کوشش کی۔ ہم ممبئی کے ہر ہسپتال گئے۔ میں نے انجیکشن لگانا اور ڈریسنگ کرنا سیکھا۔‘انہوں نے مزید کہا تھا کہ ‘میں بیرون ملک گئی اور بہترین ڈاکٹر کو تلاش کیا۔ یہ معاملہ جب ختم ہوا اور حالات بہتر ہوئے تو ان سب نے مجھ پر گہرا اثر چھوڑا تھا۔ میں نروس بریک ڈائون کے قریب تھی۔‘زینت امان نے کہا کہ ’حقیقت یہ ہے کہ میں اپنے کیریئر کو فخر اور خوشی سے یاد کر سکتی ہوں۔‘ (فوٹو: انڈیا ٹی وی)اداکارہ نے اپنے شوہر کی وفات کے بعد دوبارہ اداکاری کا رُخ کیا۔ وہ سال 1999 میں ریلیز ہونے والی فلم ’بھوپال ایکسپریس‘ میں مختصر کردار میں نظر آئیں جس کے بعد انہوں نے متعدد فلموں میں کام کیا جن میں ’بوم‘، ’اگلی اور پگلی‘، ’دل تو دیوانہ ہے‘ اور ’پانی پت‘ نمایاں ہیں۔زینت امان پر ایک تنقید تو یہ کی جاتی ہے کہ بہت سی فلموں میں اُن کی پرفارمنس اس وجہ سے نظرانداز ہو گئی کیوں کہ اُن کو ایسے رنگ میں پیش کیا گیا جو اس وقت تک بالی ووڈ میں نیا تھا۔اداکارہ نے اس بارے میں اخبار ’ٹائمز آف انڈیا‘ سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’حقیقت یہ ہے کہ میں اپنے کیریئر کو فخر اور خوشی سے یاد کر سکتی ہوں جس کا مطلب یہ ہے کہ میرا سفر اچھا رہا اور مجھے کوئی شکایت نہیں ہے۔‘اداکارہ کا فنی سفر بجا طور پر کامیاب رہا۔ اُن کا شمار اپنے زمانے کی اُن اداکارائوں میں کیا جاتا تھا جنہیں دیکھنے کے لیے لوگ سنیما گھروں کا رُخ کیا کرتے تھے۔ وہ کئی ساتھی اداکاروں کا ’کرش‘ رہیں جن میں دیو آنند بھی شامل ہیں جس کا ذکر انہوں نے اپنی آپ بیتی میں بھی کیا ہے۔ اُن کے عمران خان کے ساتھ افیئر کی خبریں بھی شہ سرخیوں میں رہیں مگر ان دونوں نے ہی کبھی اس کی تصدیق نہیں کی۔اداکارہ کے دو صاحب زادے اذان خان اور ذاہان خان ہیں۔ اذان فلم ڈائریکٹر ہیں تو ذاہان میوزک کمپوزر۔ وہ ممبئی میں رہتی ہیں اور اور وقتاً فوقتاً انسٹاگرام پر اپنی زندگی کے اہم واقعات کا تذکرہ کرتی رہتی ہیں۔یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ زینت امان نے ہیروئن کے روایتی تصور کو تبدیل کر کے رکھ دیا۔ یہ اُن کی فلم ’ہرے راما ہرے کرشنا‘ ہو یا ’قربانی‘، انہوں نے فلم بینوں کی ایک پوری نسل کو متاثر کیا جو اُن کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔