صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں میں ایک مشترکہ چیک پوسٹ پر شدت پسندں کے خودکش حملے میں 12 سکیورٹی اہلکار جان سے گئے۔بدھ کو فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’خودکش حملے میں 12 اہکار شہید ہوئے جن میں سکیورٹی فورسز کے 10 سپاہی اور فرنٹیئر کانسٹیبلری کے دو سپاہی جان سے گئے۔‘
بیان کے مطابق کہ فائرنگ کے تبادلے میں چھ شدت پسند ہلاک ہو گئے ہیں۔
’بنوں کے علاقے مالی خیل میں سکیورٹی اہلکاروں نے خوارج کی چیک پوسٹ میں داخلے کی کوشش ناکام بنا دی۔ جس کی وجہ سے خوارج نے ناکامی پر بارود سے بھری گاڑی چیک پوسٹ کی دیوار سے ٹکرا دی۔‘بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ خودکش دھماکے کے نتیجے میں دیوار کا ایک حصہ گر گیا اور عمارت کو نقصان پہنچا۔سکیورٹی اہلکاروں کی جانب سے علاقے میں کلیئرنس آپریشن جاری ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف اور صدر آصف علی زرداری نے سکیورٹی فورسز اور فرنٹیئر کانسٹیبلری کے جوانوں کی ہلاکت پر دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔
وزیراعظم ہاؤس کے پریس ونگ سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’قوم کے بیٹوں کی قربانیاں ہرگز رائیگاں نہیں جانے دیں گے۔ عوام کی جان و مال کو خطرے میں ڈالنے والے فتنہ الخوارج کو بہت سخت قیمت ادا کرنی پڑے گی۔‘
وزیراعظم نے کہا کہ ’ملک سے دہشت گردی کے مکمل خاتمے تک ہماری دہشت گردوں کے خلاف جنگ جاری رہے گی۔‘
خیبر پختونخوا کے وزیراعلٰی علی امین گنڈاپور نے کہا کہ ’سکیورٹی فورسز کی یہ قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پوری قوم سکیورٹی فورسز کے ساتھ ہے۔‘
وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے سکیورٹی فورسز کی چیک پوسٹ پر شدت پسندوں کے حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’شہدا کے خاندانوں کے ساتھ کھڑے ہیں اور ہمیشہ ساتھ نبھائیں گے۔‘
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ ’ملک سے دہشت گردی کے مکمل خاتمے تک ہماری دہشت گردوں کے خلاف جنگ جاری رہے گی۔‘ (فائل فوٹو: روئٹرز)
18 نومبر کو بنوں میں مسلح افراد نے سب ڈویژن وزیر تھانہ اتمانزئی کی حدود روچہ چیک پوسٹ سے سات پولیس اہلکاروں کو اغوا کر لیا تھا تاہم بعد میں عمائدین کے جرگے کی کوششوں سے بحفاظت واپس پہنچ گئے تھے۔
اس خودکش دھماکے سے ایک دن قبل اسلام آباد میں وزیراعظم شہباز شریف کی زیرقیادت ایپیکس کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں سیاسی و عسکری قیادت نے شرکت کی۔ کمیٹی سے خطاب میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا کہ جو پاکستان کی سکیورٹی میں رکاوٹ بنے گا اسے نتائج بھگتنا ہوں گے۔ایپکس کمیٹی کے اجلاس سے ہی خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ’پاکستان اس وقت سنگین چیلنجز سے گزر رہا ہے، جہاں دہشت گردی کا خاتمہ، قومی یکجہتی، اور معیشت کی بحالی سب سے اہم مسائل ہیں۔‘2022 میں کالعدم تنظیم تحریک طالبان کی جانب سے جنگ بندی کا معاہدہ ختم کرنے کے بعد پاکستان میں پُرتشدد کارروائیوں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اسلام آباد نے بارہا افغانستان میں برسراقتدار طالبان سے پاکستانی طالبان کے خلاف کارروائی کرنے مطالبہ کیا ہے۔دسمبر 2023 میں ڈیرہ اسماعیل خان کے ایک پولیس سٹیشن پر خودکش دھماکہ ہوا تھا جس میں کم سے کم 23 اہلکار ہو گئے تھے۔